• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لڑکی کی پسند۔۔۔۔۔۔۔

شمولیت
مئی 13، 2016
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
13
السلام علیکم
اگر ایک لڑکی کسی کو پسند کڑتی هےاور جس سے وه شادی کرنا چاهتی کرنا چاهتی هے مان باپ وها راضی نهیں هورهے حالانکه وه لڑکا شریعت پر پورا اترتا هے نه هی کوئی شرعی برائی هے اور نه هی کوئی اخلاقی برائی
ایسے میں ایک لڑکی کیا کرے اگر اس کے مان باپ اور بھائی راضی نهیں هورھے
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم
اگر ایک لڑکی کسی کو پسند کڑتی هےاور جس سے وه شادی کرنا چاهتی کرنا چاهتی هے مان باپ وها راضی نهیں هورهے حالانکه وه لڑکا شریعت پر پورا اترتا هے نه هی کوئی شرعی برائی هے اور نه هی کوئی اخلاقی برائی
ایسے میں ایک لڑکی کیا کرے اگر اس کے مان باپ اور بھائی راضی نهیں هورھے
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے ایک لطیفہ سنئے:
کسی جاہل دیہاتی نے ایک مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب کیا وضو کے بغیر نماز ہوسکتی ہے؟ مولوی صاحب نے کہا نہیں۔ دیہاتی نے کہا: مولوی صاحب کیوں مخول کرتے ہو۔ کئی بار میں نے خود پڑھی تھی اور ”ہوگئی“ تھی۔

حدیث میں صاف صاف ذکر ہے کہ ولی کی رضامندی کے بغیر کنواری لڑکی کا نکاح جائز نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی کوئی لڑکی یہ کہے کہ مجھے فلاں لڑکا پسند ہے۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ مگر والدین اور بھائی راضی نہیں ہیں حالانکہ وہ لڑکا شریعت پر پورا اترتا ہے۔ اس میں کوئی شرعی برائی تو درکنار، کوئی اخلاقی برائی بھی نہیں ہے۔ ایسے میں اب کیا کروں؟ کرنا کیا ہے۔ جب ایک مسلمان لڑکی ولی کی مرضی کے بغیر شادی کرنے پر مصر ہی ہے تو جس طرح چاہے، شادی کر لے ۔ شادی تو ”ہو“ ہی جائے گی۔ آخر کو اُس دیہاتی کی نماز بھی تو بغیر ”وضو“ کے ہوگئی تھی۔

اب ہم لڑکی کے ”بیان“ کا تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ وہ لڑکی خود کتنی ”سچی اور اچھی“ ہے۔

(×) ایک لڑکی کسی کو پسند کڑتی هےاور جس سے وه شادی کرنا چاهتی هے۔
تجزیہ: اس بیان میں لڑکی کا ”اعتراف گناہ“ شامل ہے۔ اگر کوئی لڑکی کسی نامحرم لڑکے کو پسند کرنے کا اعلان کرے، اس حد تک پسند کے وہ والدین کی مرضی کے خلاف بھی اسی سے شادی کرنا چاہے۔ تو اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک عرصہ سے ایک نامحرم لڑکے سے میل جول رکھے ہوئے ہے۔ اُس سے لازماً رومانٹک بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے کیونکہ لڑکا آنکھوں سے لڑکی کا ”حسن“ دیکھ کر اس کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو لڑکی اپنے کانوں سے نامحرم کی رومانوی باتون کو سن کر ہی اس کے عشق میں مبتلا ہوتی ہے۔ یہ بات چیت موبائل اور نیٹ سے چیٹنگ کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے۔ فون پر گفتگو کے ذریعہ بھی اور چھپ کر میل ملاقات کے ذریعہ بھی۔ وہ لڑکی اپنا تجزیہ خود کرلے کہ وہ اب تک اس قسم کی سرگرمیوں کے ذریعہ کتنے گناہ کرچکی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر لڑکی خوشبو لگا کر مردوں کے درمیان سے گزرے تو وہ زانیہ ہے۔ احادیث میں زبان کا زنا، کانوں کا زنا، آنکھوں کا زنا، ہاتھوں کا زنا کا بھی ذکر ہے جو زنا کی ”آخری حد“ سے پہلے کی زنا کی سیڑھی کے قدمچے ہیں، جن پر چلے بغیر کسی کو کسی سے عشق نہیں ہوتا۔ یہ سب زنا کرنے کے بعد بھی لڑکی خود کو معصوم، اپنے ”شریکِ زنا“ نامحرم لڑکے کو ”شریعت پر پورا اترنے والا“ اور والدین کی عدم رضامندی کو والدین کا ”قصور“ سمجھتے ہوئے ”دین اسلام“ سے اپنے حق میں کوئی ”فتویٰ“ چاہتی ہے۔ بھئی آپ کو کسی فتویٰ کی کیا ضرورت ہے۔ جب اتنے سارے گناہ کرلئے ہیں تو ایک گناہ اور سہی۔ آپ کو اگر دینی اقدار کی فکر ہوتی تو پہلے ہی اتنی ساری شرعی حدود نہ پھلانگتی۔ اور اگر غلطی ہو ہی گئی تھی تو والدین کے عدم رضامندی پر ہی سنبھل جائیں اور اللہ سے اب تک کے گناہوں پر توبہ کر لیں۔

(×) مان باپ وها راضی نهیں هورهے حالانکه وه لڑکا شریعت پر پورا اترتا هے نه هی کوئی شرعی برائی هے۔
تجزیہ: (1) لڑکی اپنے آپ کو ماں باپ سے زیادہ عقلمند سمجھ رہی ہے۔ (2) جنہوں نے نے اسے پال پوس کر جوان کیا، اب اسے اپنا خیر خواہ نہیں مان رہی (3) باپ اور بھائی مرد ہونے کے ناطے دیگر لڑکوں کو زیادہ آسانی سے ”چیک“ کرسکتے ہیں کہ وہ اخلاق اور کردار کے کس معیار پر ہے۔ وہ واقعی اچھا ہے یا اچھا بننے کی ایکٹنگ کررہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک لڑکی کبھی بھی خود سے چیک نہیں کرسکتی، بالخصوص جب وہ اس کے عشق میں ڈوبی ہوئی ہو۔ لیکن لڑکی یہ سمجھ رہی ہے کہ میرے باپ بھائی میرے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں، لڑکے کو ”ناپسند“ کرکے غلطی کر رہے ہیں۔ میں اکیلی جوان لڑکی تو اس معاملہ میں ”درست“ ہوں لیکن میرے تجربہ کار ماں باپ اور بھائی ”غلطی“ پر ہیں۔ یہ تکبر اور غرور کی انتہا ہے، جس میں وہ لڑکی مبتلاہے۔ اسے ان سب گناہوں اور غلطیون کا خمیازہ اس دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا، اگر اس لڑکے سے شادی کرلی تو اور آخرت کی سزا تو مقدر ہے ہی، جو شرعی حدود کی پامالی پر ملے گی (اگر اس پر سچے دل سے توبہ کی مہلت نہ ملی تو)

میری دعا ہے کہ اللہ اُس لڑکی کو عقل عطا کرے۔ دین کی صحیح سمجھ عطا کرے۔ اب تک کئے جانے والے گناہوں پر شرمندگی اور توبہ نصیب ہو۔ اللہ کے بعد والدین اور بھائی سے معافی مانگے اور اُس نامحرم لڑکے سے ہر قسم کا تعلق ختم کرے۔ پھر والدین جہاں کہیں، وہاں شادی کرلے۔
نوٹ: اگر ممکن ہو تو اُس لڑکی کو یہ جواب پڑھوا دیجئے۔ شکریہ
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
السلام علیکم
اگر ایک لڑکی کسی کو پسند کڑتی هےاور جس سے وه شادی کرنا چاهتی کرنا چاهتی هے مان باپ وها راضی نهیں هورهے حالانکه وه لڑکا شریعت پر پورا اترتا هے نه هی کوئی شرعی برائی هے اور نه هی کوئی اخلاقی برائی
ایسے میں ایک لڑکی کیا کرے اگر اس کے مان باپ اور بھائی راضی نهیں هورھے
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
1۔ لڑکا شریعت پر پورا اترتا ہے ۔
2۔ نہ اس میں اخلاقی برائی ہے نہ شرعی ۔
3۔ لڑکی بھی اس کے ساتھ شادی کے لیے راضی ہے ۔
ایسی صورت حال میں ماں باپ کو سمجھانا چاہیے ، لیکن جیسا کہ یوسف ثانی صاحب نے کہا ، پہلی دو شرطیں لڑکے میں پائی جاتی ہیں یا نہیں ، یہ لڑکی سے بہتر اس کے والدین ، اور بہن بھائی سمجھتے ہیں ۔
بہر صورت سوال کا دو لفظی جواب یہی ہے کہ :
اگر والدین راضی نہیں ہوتے تو لڑکی شادی نہیں کرسکتی ، کیونکہ ان کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے :
’’ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ‘‘ (سنن ابی داود کتاب النکاح باب فی الولی ح ۲۰۸۳)
جو عورت بھی اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر نکاح کرواتی ہے تو اسکا نکاح باطل ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی ۔
مزید تفصیلات یہاں دیکھ لی جائیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ایک بات اور
جواب اور مشورہ ہمیشہ ”سائل“ کو دیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے سوال کنندہ لڑکی (یا اپس کی نمائندہ) ہے۔ اگر یہی سوال والدین کی طرف سے آتا تو انہیں بھی سمجھایا جاسکتا تھا کہ: شادی کے لئے جہاں لڑکی کے ولی کی اجازت ضروری ہے، وہیں خود لڑکی کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ یہ والدین ہی کی غفلت کانتیجہ ہے کہ اس کی لڑکی اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ اب اسے والدین کی عدم رضامندی بُری لگ رہی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کریں۔ محض اپنی انا کی وجہ بات کو نہ بگاڑیں۔ لیکن چونکہ ہمارے سامنے والدین نہیں ہیں، لہٰذا اُن کو ”غائبانہ سمجھانے“ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
واضح
یہ دین اللہ کا دین ہے اور یہ شریعت اللہ کی شریعت ہے ۔
جزاکم اللہ خیرا
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بات کچھ سمجھ میں نہیں آئ. حدیث کی رو سے ہے کہ لا نكاح الا بولي اسمیں کوئ شک نہیں کوئ شبہ نہیں.

لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اس لڑکی کی لڑکے سے بات ھوتی ھو؟؟؟
ہو سکتا ہے کہ ماں باپ غلطی پر ھوں. ھو سکتا ہے کہ ماں باپ اس لڑکے کے خاندان سے دشمنی وغیرہ رکھتے ھوں. اس لۓ میں آپ سے گزارش کروں گا کہ تجزیہ دونوں پہلو کو رکھ کر کریں تو زیادہ بہتر ھوگا.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
تجزئہ تو کردیا محترم یوسف صاحب نے ۔ سائل والدین نہیں ہیں ۔
انکی دونوں پوسٹ باہم مربوط ہیں ۔ ایک پوسٹ سمجہی جائے ۔
پہر بهی
@خضر حیات بهائی
 
شمولیت
مئی 13، 2016
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
13
@یوسف ثانی بھائی جزاک الله
لیکن اگر وه لڑکی ایسا کوئی گناه نه کرتی هو جیسا آپ نے اوپر کها۔۔۔ وه صرف اس انسان کو اس کے دین اور اخلاق کی وجه سے پسند اور شادی کرنا چاهتی هے ۔۔۔ تو کیا پهر بھی وه گناهگار هوئی۔۔۔؟؟؟ اور ایسا بھی نهیں کے وه ما باپ کی مرضی کے بغیر شادی کرے لیکن ماں باپ اس شخص کو پرکھے بغیر هی منع کر رهے وجه یه کے لڑکی نے اپنی پسند بتائی۔۔۔ اب بتائیں پهر کیا کرنا چاهیے۔۔۔؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلے تو میں دو شعر پیش کرتا ہوں:
تیری مو جودگی میں میری دنیا کون دیکھے گا
تجھے میلے میں سب دیکھیں گے میلہ کون دیکھے گا
بہر صورت تمہارے حق میں دنیا فیصلہ دے گی
تمہارے سامنے جا اور بیجا کون دیکھے گا

معاملہ کچھ ہوں واقع ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں حقوق نسواں کا نعرہ لگانے لوگ ہمیشہ والد کو کوسنے دینے شروع کردیتے ہیں اور لڑکی کو معصوم و مظلوم ٹھہرانے لگتے ہیں، جبکہ ایک طبقہ اسی طرح کے معاملات میں تمام تر الزام لڑکی کے سر ڈال دیتا ہے اور والدین کے حقوق کا دم بھرتا ہے۔
جہاں تک شرعی حکم کی بات ہے تو اس بات میں میرا قطعی ایمان ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح باطل ہے۔ کیونکہ میں اس حدیث سے واقف ہوں اور اس پر کسی تاویل کو برحق نہیں سمجھتا۔ لیکن جو اس حکم شرعی سے بوجہ لا علمی یا بوجہ تقلید کسی تاویل کا قائل ہے تو ایسی صورت میں کسی معین فرد کے نکاح پر کم از کم حکم صادر نہیں کر سکتا! مزید تفصیل بیان کرنے میں تمہید کچھ زیادہ ہو جائے گی!

والد یقیناً اپنی بیٹی کا ولی ہوتا ہے، لیکن ولی اگر کسی غیر شرعی وجہ کی بنا پر اپنی بیٹی کے کسی شخص سے نکاح پر راضی نہیں ہوتا، مثلاً کسی نسلی،علاقائی یا لسانی تعصب کی بناء پر، یعنی کہ وہ اپنے ولی ہونے کے اختیار کو غلط استعمال کر رہا ہوں تو کیا ایسی صورت ميں وہ ولی ہونے میں بدستور حق بجانب ہے، یا اسے اس حق سے دستبردار کیا جا سکتا ہے؟
ایسی صورتیں ہمارے معاشرے میں پیدا ہوتی رہتی ہیں، اس میں ہمارے کلچر ومعاشرے کے بہت سے محرکات ہیں۔
میں اس مؤقف کا قائل ہوں کہ اگر لڑکی یہ سمجھے کہ اس کا ولی اپنے حق کو ناجائز استعمال کر رہا ہے ، اور اس حد تک ہو کہ لڑکی اسے قبول کرنے سے قاصر ہو، تو ایسی صورت میں قاضی سے رجوع کرسکتی ہے کہ کسی اقور محرم کو اس کا ولی قرار دیا جائے، یا قاضی خود اس کا ولی بن سکتا ہے۔
اب چونکہ ہمارے ہوں قاضی کا یہ نظام موجود نہیں، لہٰذا اپنے رشتہ داروں کے ذریعہ کوئی تصفیہ کی راہ نکالی جا سکتا ہے کہ اس کا چاچا یا تا یا ولی قرار دیا جائے!
لیکن یہ سب اس صورت میں کہ لڑکی کا ولی واقعی اپنے ولی ہونے کے حق کو ناجائز استعمال کر رہا ہو، اور اس قدر کہ لڑکی کے لئے یہ ناقابل قبول صورت ہو!
 
Last edited:
Top