السلام علیکم
اگر ایک لڑکی کسی کو پسند کڑتی هےاور جس سے وه شادی کرنا چاهتی کرنا چاهتی هے مان باپ وها راضی نهیں هورهے حالانکه وه لڑکا شریعت پر پورا اترتا هے نه هی کوئی شرعی برائی هے اور نه هی کوئی اخلاقی برائی
ایسے میں ایک لڑکی کیا کرے اگر اس کے مان باپ اور بھائی راضی نهیں هورھے
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے ایک لطیفہ سنئے:
کسی جاہل دیہاتی نے ایک مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب کیا وضو کے بغیر نماز ہوسکتی ہے؟ مولوی صاحب نے کہا نہیں۔ دیہاتی نے کہا: مولوی صاحب کیوں مخول کرتے ہو۔ کئی بار میں نے خود پڑھی تھی اور ”ہوگئی“ تھی۔
حدیث میں صاف صاف ذکر ہے کہ ولی کی رضامندی کے بغیر کنواری لڑکی کا نکاح جائز نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی کوئی لڑکی یہ کہے کہ مجھے فلاں لڑکا پسند ہے۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ مگر والدین اور بھائی راضی نہیں ہیں حالانکہ وہ لڑکا شریعت پر پورا اترتا ہے۔ اس میں کوئی شرعی برائی تو درکنار، کوئی اخلاقی برائی بھی نہیں ہے۔ ایسے میں اب کیا کروں؟ کرنا کیا ہے۔ جب ایک مسلمان لڑکی ولی کی مرضی کے بغیر شادی کرنے پر مصر ہی ہے تو جس طرح چاہے، شادی کر لے ۔ شادی تو ”ہو“ ہی جائے گی۔ آخر کو اُس دیہاتی کی نماز بھی تو بغیر ”وضو“ کے ہوگئی تھی۔
اب ہم لڑکی کے ”بیان“ کا تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ وہ لڑکی خود کتنی ”سچی اور اچھی“ ہے۔
(×) ایک لڑکی کسی کو پسند کڑتی هےاور جس سے وه شادی کرنا چاهتی هے۔
تجزیہ: اس بیان میں لڑکی کا ”اعتراف گناہ“ شامل ہے۔ اگر کوئی لڑکی کسی نامحرم لڑکے کو پسند کرنے کا اعلان کرے، اس حد تک پسند کے وہ والدین کی مرضی کے خلاف بھی اسی سے شادی کرنا چاہے۔ تو اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک عرصہ سے ایک نامحرم لڑکے سے میل جول رکھے ہوئے ہے۔ اُس سے لازماً رومانٹک بات چیت بھی ہوتی رہتی ہے کیونکہ لڑکا آنکھوں سے لڑکی کا ”حسن“ دیکھ کر اس کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے تو لڑکی اپنے کانوں سے نامحرم کی رومانوی باتون کو سن کر ہی اس کے عشق میں مبتلا ہوتی ہے۔ یہ بات چیت موبائل اور نیٹ سے چیٹنگ کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے۔ فون پر گفتگو کے ذریعہ بھی اور چھپ کر میل ملاقات کے ذریعہ بھی۔ وہ لڑکی اپنا تجزیہ خود کرلے کہ وہ اب تک اس قسم کی سرگرمیوں کے ذریعہ کتنے گناہ کرچکی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر لڑکی خوشبو لگا کر مردوں کے درمیان سے گزرے تو وہ زانیہ ہے۔ احادیث میں زبان کا زنا، کانوں کا زنا، آنکھوں کا زنا، ہاتھوں کا زنا کا بھی ذکر ہے جو زنا کی ”آخری حد“ سے پہلے کی زنا کی سیڑھی کے قدمچے ہیں، جن پر چلے بغیر کسی کو کسی سے عشق نہیں ہوتا۔ یہ سب زنا کرنے کے بعد بھی لڑکی خود کو معصوم، اپنے ”شریکِ زنا“ نامحرم لڑکے کو ”شریعت پر پورا اترنے والا“ اور والدین کی عدم رضامندی کو والدین کا ”قصور“ سمجھتے ہوئے ”دین اسلام“ سے اپنے حق میں کوئی ”فتویٰ“ چاہتی ہے۔ بھئی آپ کو کسی فتویٰ کی کیا ضرورت ہے۔ جب اتنے سارے گناہ کرلئے ہیں تو ایک گناہ اور سہی۔ آپ کو اگر دینی اقدار کی فکر ہوتی تو پہلے ہی اتنی ساری شرعی حدود نہ پھلانگتی۔ اور اگر غلطی ہو ہی گئی تھی تو والدین کے عدم رضامندی پر ہی سنبھل جائیں اور اللہ سے اب تک کے گناہوں پر توبہ کر لیں۔
(×) مان باپ وها راضی نهیں هورهے حالانکه وه لڑکا شریعت پر پورا اترتا هے نه هی کوئی شرعی برائی هے۔
تجزیہ: (1) لڑکی اپنے آپ کو ماں باپ سے زیادہ عقلمند سمجھ رہی ہے۔ (2) جنہوں نے نے اسے پال پوس کر جوان کیا، اب اسے اپنا خیر خواہ نہیں مان رہی (3) باپ اور بھائی مرد ہونے کے ناطے دیگر لڑکوں کو زیادہ آسانی سے ”چیک“ کرسکتے ہیں کہ وہ اخلاق اور کردار کے کس معیار پر ہے۔ وہ واقعی اچھا ہے یا اچھا بننے کی ایکٹنگ کررہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک لڑکی کبھی بھی خود سے چیک نہیں کرسکتی، بالخصوص جب وہ اس کے عشق میں ڈوبی ہوئی ہو۔ لیکن لڑکی یہ سمجھ رہی ہے کہ میرے باپ بھائی میرے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں، لڑکے کو ”ناپسند“ کرکے غلطی کر رہے ہیں۔ میں اکیلی جوان لڑکی تو اس معاملہ میں ”درست“ ہوں لیکن میرے تجربہ کار ماں باپ اور بھائی ”غلطی“ پر ہیں۔ یہ تکبر اور غرور کی انتہا ہے، جس میں وہ لڑکی مبتلاہے۔ اسے ان سب گناہوں اور غلطیون کا خمیازہ اس دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا، اگر اس لڑکے سے شادی کرلی تو اور آخرت کی سزا تو مقدر ہے ہی، جو شرعی حدود کی پامالی پر ملے گی (اگر اس پر سچے دل سے توبہ کی مہلت نہ ملی تو)
میری دعا ہے کہ اللہ اُس لڑکی کو عقل عطا کرے۔ دین کی صحیح سمجھ عطا کرے۔ اب تک کئے جانے والے گناہوں پر شرمندگی اور توبہ نصیب ہو۔ اللہ کے بعد والدین اور بھائی سے معافی مانگے اور اُس نامحرم لڑکے سے ہر قسم کا تعلق ختم کرے۔ پھر والدین جہاں کہیں، وہاں شادی کرلے۔
نوٹ: اگر ممکن ہو تو اُس لڑکی کو یہ جواب پڑھوا دیجئے۔ شکریہ