• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ ربیع الأول اور عیدمیلاد

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ماہ ربیع الأول اور عیدمیلاد
ابوالفوزان کفایت اللہ السنابلیؔ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
''عید میلاد'' کی تاریخ
عید میلاد'' کے موجد فاطمی خلفاء ہیں :
عہد نبوی ﷺ،عہدصحابہ رضی اللہ عنہم،نیزتابعین عظام اوران کے بعدکے ادوارمیں ''عید میلاد'' کاکوئی تصورنہیں تھا،بلکہ یہ بدعت بہت بعدمیں ایجادہوئی یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کاانکارمیلاد منانے والے بھی نہیں کرسکتے ۔لہٰذاجب یہ بات مسلم ہے کہ اس عمل کی ایجاد بعد میں ہوئی توہمیں یہ ضرور پتہ لگاناچاہئے کہ اس کی ایجاد کب ہوئی ؟اور اسے ایجاد کرنے والے کون لوگ تھے؟اس سلسلے میں جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ اس بدعت کی ایجاد فاطمی دور ) 362؁ھ ، 567؁ھ ( میں ہوئی ،اور اسے ایجاد کرنے والے بھی فاطمی خلفاء ہی تھے۔أحمد بن علی بن عبد القادر، أبو العباس الحسینی العبیدی، تقی الدین المقریزی (المتوفی۸۴۵)لکھتے ہیں:​
''وکان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنة أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنة،موسم أول العام،ویوم عاشورآئ،ومولدالنبی ﷺ۔۔۔۔''
یعنی فاطمی خلفاء کے یہاں سال بھرمیں کئی طرح کے جشن اورمحفلوں کاانعقاد ہوتاتھااوروہ یہ ہیں : سال کے اختتام کاجشن ،نئے سال کاجشن،یوم عاشورآء کا جشن،اورمیلاد النبی ﷺکاجشن۔ [الخطط المقریزیۃ :ج1ص495]۔
اور تقریباًیہی بات احمد بن علی بن احمد الفزاری القلقشندی ثم القاہری (المتوفی:۸۲۱ھـ)نے کچھ یوں نقل کی ہے:
اَلْجُلُوسُ الثَّالِث جُلُوسہ فِی موْلدِ النَّبِیِّ ﷺَ فِی الثَّانِی عَشرَ مِنْ شَہرِ رَبِیْعِ الأوَّلِ وَکَانَ عَادَتہُمْ فِیہِ أنْ یَّعمَلَ فِی دَارِ الْفِطْرة عِشرُونَ قِنطَاراً مِنَ السُّکَّرِ الفَائِقِ حلْویٰ مِنْ طَرَائِفِ الأصْنَافِ، وَتَعبّی فِی ثَلاثَمِائَةصیْنِیة نُحَاسٍ۔فَإذَا کَانَ لَیلَة ذٰلِکَ الموْلِد، تَفَرَّقَ فِی أرْبَابِ الرُّسُوْمِ: کَقَاضِی الْقُضَاة، وَدَاعِی الدُّعَاة، وَقُرّاء الْحضرَة، وَالخُطبَاء ، وَالْمُتصَدّرِینْ بِالجَوامِعِ القَاہِرَة وَمِصرَ، وَقَومة الْمُشَاہِدِ وَغَیْرہم مِمَّن لَہ اسْم ثَابِت بِالدِّیوَانِ۔
تیسرا جلوس ربیع الاول کو میلاد النبی ﷺکا نکالا جاتا تھا ۔اس جلوس میں انکا طریقہ یہ تھا کہ دار الفطرہ میں ۰ ۲قنطار عمدہ شکر سے مختلف قسم کا حلوہ تیار کیا جاتااور پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور جب میلاد کی رات ہوتی تو اس حلوہ کو مختلف ارباب رسوم مثلاً:قاضی القضاۃ ،داعی الدعاۃ ،قرائ، واعظین ،قاہر ہ اور مصرکی جامع مساجد کے صدور ،مزاروں کے مجاور ونگران اور دیگر ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا جن کا نام رجسٹرڈ ہوتا ۔[صبح الأعشی :ج3ص 576] ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مولاناسید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''اسلام میں میلاد کی مجلسو ں کارواج غالباًچوتھی صدی سے ہوا''[سیرۃ النبی : ج3 ص 664 ]۔
مذکورہ حوالوں سے معلوم ہواکہ ''عید میلاد'' فاطمی دور) 362؁ھ ، 567؁ھ ( میںایجاد ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے فاطمی خلفاء ہی تھے ،تفصیل کے لئے دیکھئے :البدع الحولیۃ :ص137تا151۔
ز فاطمی خلفاء کی حقیقت:
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بدعت کوایجاد کرنے والے فاطمی خلفاء حقیقت میں کون تھے ؟ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ فاطمی خلفائ، آپ ﷺکی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہاکی نسل سے ہرگز نہیں تھے بلکہ یہ لوگ یہودیوں اورمجوسیوں کی اولاد تھے اور اسلام کے کٹر دشمن تھے ،انہوں نے اسلام کومٹانے کے لئے اسلام کالبادہ اوڑھ لیااور سراسر جھوٹ اور فریب کاسہارالیتے ہوئے اپنے آپ کوفاطمی النسل ظاہرکیا،لیکن علماء وقت نے ان کے اس جھوٹ کاپردہ چاک کردیااور صاف اعلان کردیا کہ یہ لوگ فاطمی النسل ہرگز نہیں ہیں ۔چنانچہ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں :
''وأھل العلم بالأنساب من المحققین ینکرون دعواہ فی النسب ''
خاندان ونسب کے جاننے والے محققین علماء نے ان کے فاطمی النسل ہونے کے دعوی کی تردید کی ہے[وفیات الأعیان: ج3ص117، 118]۔
بلکہ 402؁ھ میں تو اہل سنت کے اکابرکی ایک میٹینگ ہوئی جس میں چوٹی کے محدثین ،فقہاء ، قاضیان اور دیگر بزرگان نے شرکت کی اور سب نے متفقہ طور پریہ فیصلہ دیا کہ خود کوفاطمی النسل ظاہر کرنے والے خلفاء جھوٹے اورمکار ہیں اہل بیت سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے ،پھرعلماء کے اس متفقہ فیصلہ کوتحریری شکل میں لکھاگیااورتمام لوگوں نے اس پردستخط کئے [دیکھئے :البدایۃ والنھایۃ:ج 11 ص360،361، اور اس کااردوترجمہ تاریخ ابن کثیر:ج11 ص779 ،780]۔
علماء کی اس متفقہ تحریر میں فاطمیوں کی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گی :
''ھذا لحاکم بمصر-ھو وسلفہ-کفار فساق فجار، ملحدون زنادقة ،معطلون ،وللاسلام جاحدون، ولمذھب المجوسیة والثنویةمعتقدون، قد عطلوا الحدود، وأباحو الفروج ،وأحلواالخمر،وسفکوا الدمائ،وسبواالأنبیائ،ولعنواالسلف، و ادعواالربوبیةوکتب فی سنة اثنتین وأربع مائةللھجرة، وقد کتب خطہ فی المحضر خلق کثیر''
یعنی مصر کایہ بادشاہ حاکم اوراس کے تمام اگلے سربراہان ،کافر،فاجر،فاسق،ملحد، زندیق،فرقہ معطلہ سے تعلق رکھنے والے ، اسلام کے منکر اورمذہب مجوسیت اورثنویت کے معتقد تھے۔ان تمام لوگو ں نے حدود شرعیہ کوبے کارکردیاتھاحرام کاریوں کومباح کردیاتھا،مسلمانوں کاخون بے دردی سے بہایا،انبیاء کرام کوگالیاں دیں ،اسلاف پرلعنتیں بھیجیں ،خدائی کے دعوے کئے یہ ساری باتیں ۴۰۲ھ؁ میں ہرطبقہ کے بے شمارآدمیوں کی موجودگی میں لکھی گئی ہیں ۔۔۔اور بہت سے لوگو ںنے اس میں دستخط کئے ہیں [دیکھئے :البدایۃ والنھایۃ:ج11ص 361، اور اس کااردوترجمہ تاریخ ابن کثیر:ج11ص779،780مذکورہ ترجمہ اسی کتاب کاہے ] ۔
اسی پر بس نہیں بلکہ بعض علماء نے اپنی بعض کتابوں میںان کے کفروفسق پرخصوصی بحث کی ہے مثلاً امام غزالی نے اپنی کتاب ''فضائح الباطنیۃ '' ایک خصوصی بحث کرتے ہوئے انہیں خالص کافر قرار دیا[دیکھئے :فضائح الباطنیۃ :ج1ص ج37]۔
بلکہ بعض علماء نے توان کے خلاف مستقل کتاب لکھ ڈالی ہے مثلاًامام قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ نے ''کشف الأستار وھتک الأستار''نامی کتاب لکھی اور اس میں ثابت کیاکہ فاطمی ،مجوسیوں کی اولاد ہیں اور ان کامذھب یہودونصاری کے مذہب سے بھی بدتر ہے ۔
یہ توعلماء اہل سنت کافیصلہ ہے ،لطف تو یہ ہے کہ وہ معتزلہ اور شیعہ جوعلی صسے افضل کسی کو نہیں سمجھتے انہوں نے بھی فاطمیوں کوکافر اورمنافق قرار دیاہے [مجموع فتاوی ابن تیمیۃ : ج35ص129]۔
غرض یہ کہ جمہور امت نے انہیں کافروفاسق قرار دیاہے علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''وکذالک النسب قدعلم أن جمہور الأمة تطعن فی نسبھم،ویذکرون أنہم من أولاد المجوس أوالیہود،ھذامشھور من شھادة علماء الطوائف من الحنفیة ،و المالکیة ،والشافعیة ،والحنابلة ،وأھل الحدیث، وأھل الکلام،وعلماء النسب والعامة وغیرہم''
یعنی اسی طرح فاطمیوں کانسب بھی جھوٹا ہے اوریہ بات سب کومعلوم ہے کہ جمہور امت فاطمیوں کے نسب کوغلط قراردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ مجوسیوں یا یہودیوں کی اولاد ہیں ،یہ بات مشہور ومعروف ہے اس کی گواہی حنفیہ، مالکیہ ،شافعیہ،حنابلہ،اہل حدیث ،اہل کلام کے علمائ،نسب کے ماہرین اورعوام وخواص سب دیتے ہیں [مجموع فتاوی ابن تیمیۃ :ج35ص128]۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ''عید میلاد'' کی ایجاد کرنے والے مسلمان نہ تھے بلکہ یہ یہودیوں اور مجوسیوں کی ایجاد ہے انہوں نے گہری سازش کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنی حقیقت چھپانے کے لئے خود کوفاطمی النسل کہااور اپنے اس دعوی کومضبوط بنانے کے لئے'' عید میلاد'' کاڈرامہ کھیلاتاکہ لوگوں کویقین ہوجائے کہ واقعی یہ لوگ اہل بیت میں سے ہیں ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مسلمانوں میں اس بدعت کارواج:
فاطمی دور کے مسلمانوں نے یہودیوں کی ایجادکردہ بدعت کوقبول نہیں کیااور یہ بدعت صرف فاطمی خلفاء ہی تک محدود رہی ،لیکن تقریباًدوسوسال کے بعد''عمربن محمد'' نام کاایک ملااورمجہول الحال شخص ظاہر ہوااور اس نے اس یہودی بدعت کی تجدیدکی ،اور''ابوسعید الملک المعظم مظفرالدین بن زین الدین کوکبوری ''نامی بادشاہ جوایک فضول خرچ اوربداخلاق بادشاہ تھا، لہولعب، گانے اورباجے سننااس کامشغلہ تھا،بلکہ وہ خودبھی ناچتا تھا[تاریخ مرآۃ الزمان ،وفیات الأعیان بحوالہ تاریخ میلاد:ص25،26]۔
اس بدخلق بادشاہ نے اس بدعت کومسلمانوں میں رائج کیا۔اس کے بعد ''ابو الخطاب بن دحیہ'' نامی ایک کذاب اور بددماغ شخص نے بادشاہ کوخوش کرنے کے لئے اس موضوع پرایک کتاب لکھ ڈالی پوری دنیامیں اس موضوع پریہ پہلی کتاب ہے جسے اس کذاب نے تالیف کی اس مؤلف کو تمام ائمہ نے متفق ہوکر کذاب کہاہے :ابن نجار کہتے ہیں :
''رأیت الناس مجتمعین علی کذبہ ووضعہ وادعائہ لسمع مالم یسمعہ ولقاء من لم یلقہ''
یعنی تمام لوگوں کااس بات پراتفاق ہے کہ ابن دحیۃ جھوٹااور حدیثیں گھڑنے والاہے اوریہ ایسے شخص سے سننے کادعوی کرتاہے جس سے ہرگز نہیں سنا اور ایسے شخص سے ملاقات کادعوی کرتاہے جن سے ہرگز نہیں ملا[لسان المیزان:ج4ص295]
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اور حافظ ابن حجراس کے بارے محدثین کافیصلہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''کثیرالوقیعة فی الأئمة وفی السلف من العلماء خبیث اللسان أحمق شدید الکبر قلیل النظر فی أمور الدین ''
یعنی ابن دحیہ ائمہ اورسلف کی شان میں گستاخی کرنے والاتھا، یہ بدزبان ،احمق اوربڑامتکبر تھا [لسان المیزان:ج4ص296]۔
اورحافظ سیوطی لکھتے ہیں :
ابن دحیہ اپنی عقل سے فتوی دے دیتاپھراس کی دلیل تلاش کرنے لگ جاتااورجب اسے کوئی دلیل نہ ملتی تواپنی طرف سے حدیث گھڑ کے پیش کردیتا،مغرب میں قصر کرنے کی حدیث اسی نے گھڑی ہے [تدریب الراوی:286/1]۔
قارئین کرام! یہ ہے ''عید میلاد'' کی تاریخ ،یہ یہودیوں کی ایجاد ہے اور اسے مسلمانوں میں ان لوگوں نے رائج کیاجوانتہائی بداخلاق ،احمق اورکذاب لوگ تھے اگر کوئی صرف انہیں باتوں پرغور کرلے تووہ یقینا یہی فیصلہ کرے گاکہ اسلام میں اس بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
''عید میلاد'' کی شرعی حیثیت
قرآن و حدیث کی رو سے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ ''عیدمیلاد'' بدعات میں سے ایک بدترین بدعت ہے ،بہت سارے لوگوں کویہ غلط فہمی ہے کہ قران وحدیث میں اگرعید میلاد کاحکم نہیں ہے تو اس کی ممانعت بھی نہیں ہے ،حالانکہ یہ غلط خیال ہے کیونکہ عید میلاد کی ممانعت اور اس کابطلان قرا ن وحدیث دونوں میں موجودہے لیکن قران وحدیث کی یہ دلیلیں دیکھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ قران وحدیث میں بعض چیزوں کوعام طورپر باطل قرار دیاگیاہے اورکسی خاص چیز کانام نہیں لیاگیاہے ۔لہٰذا یہاں یہ نہیں سمجھناچاہئے کی اس کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہیں ہے ،مثال کے طورپر اہل حدیث سمیت پوری امت کے نزدیک کافرقراردئے گئے ''مرزغلام احمدقادیانی ''کانام قران وحدیث میں کہیں نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود بھی اہل حدیث سمیت پوری امت کامانناہے کہ قران وحدیث کی روسے قادیانی کی نبوت باطل ہے ،کیونکہ قرآن میں جویہ کہاگیاکہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں یعنی آپﷺکے بعد جوبھی نبوت کادعوی کرے گااس کی نبوت باطل ہے تواس بطلان میں قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے ۔اسی طرح حدیث میں آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا یعنی آپ ﷺکے بعد جوبھی نبوت کادعوی کرے گااس کی نبوت باطل ہے تواس بطلان میں قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے ۔ٹھیک اسی طرح عید میلاد بھی قرآن وحدیث کی رو سے باطل ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
{آج میں نے تمہارادین مکمل کردیا} [مائدہ:3/5] ۔
یعنی اب اگرکوئی دین میں کسی نئی چیز کادعوی کرے گاتو وہ باطل ہے ،عید میلاد بھی دین میں نئی چیزہے لہٰذاقرآن کی اس آیت کی روشنی میں باطل ہے اسی طرح آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ :
''جس نے بھی ہمارے دین میں کوئی نئی چیزایجاد کی وہ مردود ہے ''[بخاری:-کتاب الصلح:اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،نمبر2697 ]۔
اور عید میلادبھی دین میں نئی چیز ہے لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں باطل ہے ۔نیز اللہ تعالیٰ کایہ بھی ارشاد ہے کہ :
{اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے مت بڑھو}[الحجرات :1/49]
یعنی دین میں جس عمل کاحکم اللہ اور اس کے رسول ﷺنہ دیں اسے مت کرو،عیدمیلاد منانے کا حکم نہ اللہ نے دیانہ اس کے رسول ﷺ نے لہٰذاقرآن کی اس آیت میں عیدمیلاد سے منع کیاگیاہے ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
''دین میں نئی چیزیں مت ایجاد کرو''[أبوداؤد:-کتاب السنۃ: باب فی لزوم السنۃ،4607والحدیث صحیح]
یعنی دین میں جس عمل کاحکم نہ ہواسے مت کرو،عیدمیلاد منانے کاحکم دین میں نہیں ہے لہٰذا اس حدیث میں عیدمیلاد سے منع کیاگیا ہے ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عید میلاد قران وحدیث کی روشنی میں باطل اور ممنوع ہے ۔لہٰذا اب یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ عید میلاد منانے کاحکم نہیں ہے تواس سے منع بھی نہیں کیاگیاہے کیونکہ قران و حدیث سے اس کابطلان اوراس کی ممانعت پیش کی جاچکی ہے ۔واضح رہے کہ جہاں تک رسول اکرم ﷺ سے محبت کاتعلق ہے تو اس سے کسی کوانکار نہیں ،بلکہ حدیث رسو لﷺکے مطابق ہماراعقیدہ تویہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ اللہ کے رسول ﷺ اس کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں ،لیکن محبت کاطریقہ کتاب وسنت سے ثابت ہونا چاہئے ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
عید میلاد کے دلائل کاجائزہ:
عیدمیلاد منانے والے ایک طرف تواسے'' بدعت حسنہ ''کہتے ہیں یعنی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کاحکم قران وحدیث میں نہیں ہے بلکہ یہ بعد کی ایجاد ہے یعنی بدعت ہے لیکن بدعت حسنہ ہے ،مگر دوسر ی طرف قرآن وحدیث سے اس کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں ،یہ عجیب تضاد ہے !کیونکہ اگر اس کے دلائل قران وحدیث میں ہے تو یہ بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ہے ،اور اگر یہ بدعت حسنہ ہے تو قرآن وحدیث میں ا س کے دلائل کا ہوناممکن ہی نہیں ،صرف اسی بات پرغور کرلینے سے وہ تمام دلائل بے معنی ہوجاتے ہیں جومیلاد کے جوازمیں پیش کئے جاتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ایک اوربات قابل غور ہے کہ اگر قرآن وحدیث میں عید میلاد کاحکم ہے تویہ حکم سب سے پہلے کس کوملا؟ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو،پھر سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس حکم پرعمل کیوں نہ کیا؟ اس کادوہی جواب ہوسکتاہے ایک یہ کہ صحابہ کرام نے اس حکم کی نافرمانی کی،یہ ماننے کی صور ت صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کاارتکاب ہوگاونعوذباللہ من ذلک۔اوردوسرایہ کہ قران وحدیث میں یہ حکم موجودہی نہیں اسی لئے صحابہ کرام نے اس پرعمل نہ کیا، یہ ماننے کی صورت میں صحابہ کی عظمت برقرار رہتی ہے ،لیکن یہ دعوی غلط ثابت ہوتاہے کہ قران وحدیث میں اس کے دلائل ہیں ۔مگر افسوس ہے کہ کچھ لوگ اس سیدھی سادھی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور قرآن وحدیث سے زبردستی عید میلاد کے دلائل کشیدکرتے ہیں ۔اس قسم کے دلائل بہت پیش کئے جاتے ہیں ،مذکورہ تفصیل سے ایسے تمام دلائل کی حقیقت واضح ہوگئی ان پرمزید کچھ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن پھربھی ہم بعض دلائل پرخصوصی بحث کرتے ہیں تاکہ بات اور واضح ہوجائے :
ز غلط فہمی :
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ}
کہہ دیجئے !کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ،پس اسکے ساتھ وہ خوش ہوجائیں ، وہ اس سے بہتر ہے جسے یہ جمع کرتے ہیں ۔[۱۰؍یونس:۵۸]۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت پر خوشی ہونے کا حکم دے رہے ہیں ۔ اور نبی کریم ﷺتو رحمۃ للعالمین ہیں، لہٰذا انکی آمد پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیے ۔
وضاحت :
اولاً: اس آیت میں آپ ﷺکی ولادت باسعادت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے ۔ہاں اس سے پچھلی آیت میں نزول قرآن اور نزول ہدایت کا ذکر ضرور ہے ۔
ثانیا:اس آیت میں جس فضل ورحمت کا تذکرہ ہے عمرفارق رضی اللہ عنہ نے اس سے مراد کتاب وسنت کو بتلایا ہے ۔ملاحظہ ہو:
عَنْ أَیْفَعَ بْنَ عَبْدٍ قال لَمَّا قَدِمَ خَرَاجُ الْعِرَاقِ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَرَجَ عُمَرُ وَمَوْلًی لَہُ، فَجَعَلَ عُمَرُ یَعُدُّ الْإِبِلَ، فَإِذَا ہِیَ أَکْثَرُ مِنْ ذَلِکَ، وَجَعَلَ عُمَرُ یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّہِ وَجَعَلَ مَوْلَاہُ یَقُولُ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، ہَذَا وَاللہِ مِنْ فَضْلِ اللہِ وَرَحْمَتِہِ، فَقَالَ عُمَرُ: کَذَبْتَ، لَیْسَ ہُوَ ہَذَا، یَقُولُ اللہُ تَعَالَی:{قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا}یَقُولُ:بِالْہُدَی وَالسُّنَّۃِ وَالْقُرْآنِ، فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا، ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ، وَہَذَا مِمَّا یَجْمَعُونَ
ایفع بن عبدکہتے ہیں کہ جب عراق کاخراج عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیاتوعمرفاروق رضی اللہ عنہ اپنے ایک غلام کے ساتھ نکلے،عمرفاروق رضی اللہ عنہ اونٹوں کاشمارکرنے لگے وہ بہت زیاد ہ تھے،عمرفاروق رضی اللہ عنہ کہنے لگے :''اللہ کاشکر ہے'' ۔اوران کا غلام کہنے لگا:''اے امیرالمؤمنین ! اللہ کی قسم یہ اللہ کافضل اوراس کی رحمت ہے''۔تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا:''تو نے غلط کہا ،ایسا نہیں ہے ،اللہ تعالی فرماتاہے:{کہہ دیجئے !کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ،پس اسکے ساتھ وہ خوش ہوجائیں ،}یعنی ہدایت ، سنت اورقران سے خوش ہوجائیں ،اس لئے اسی ہدایت ، سنت اورقران سے خوش ہو،اوریہ (ہدایت اور قرا ن وسنت ) تمہاری جمع کردہ چیزوں سے بہترہے ۔اوریہ (ہدایت اور قرا ن وسنت ) تمہاری جمع کردہ چیزوں سے بہترہے ''۔[حلیۃ الأولیائ:۵؍۱۳۳]۔
ثالثا: لغت عرب میں فرحت ، خوشی محسوس کرنے کو کہتے ہیں ، خوشی یا جشن منانے کو نہیں۔خوش ہونا اور چیز ہے، اور خوشی منانا یا جشن منانا اور چیز ہے ۔ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ مثلاً للہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں غزوئہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے:
{فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللہِ }[۹؍التوبۃ:۔۸۱]۔
رسول اللہ ﷺ (کے ساتھ غزوہ تبوک پر جانے کے بجائے آپ ﷺ) سے پیچھے رہنے والے خوش ہوئے ۔تو کیا منافقین نے جشن منایا اور ریلیاں نکالی تھیں یا دلی خوشی محسوس کی تھی ؟
رابعاً: اگر یہ آیت واقعتا جشن منانے کی دلیل ہے تو پھر رسول اللہ ﷺ،صحابہ کرام،تابعین و تبع تابعین وائمہ دین نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟
ز غلط فہمی :-
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً مِنَ السَّمَاء ِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِنْکَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ}
عیسیٰ بن مریم نے کہااے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما جوہمارے اول و آخر سب کے لیے عید ہو جائے اور تیری طرف سے نشانی ہو ۔ اور ہمیں رزق دے اور تو ہی سب رزق دینے والوں میں سے بہترین رزق دینے والا ہے ۔[۵؍المائدۃ:۔۱۱۴]۔
اس آیت میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام مائدہ کے نازل ہونے کے دن کو عید کا دن قرار دے رہے ہیں ۔ تو ہم آمد رسولﷺکے دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دے سکتے ؟
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
وضاحت :
اس آیت کو عید میلاد النبیﷺپر دلیل بنانا غلط ہے ۔ کیونکہ:
اولاً: عیسیٰ بن مریم علیہ السلام مائدہ کو عید قرار دے رہے ہیں نہ کہ مائدہ نازل ہونے کے دن کو ، کیونکہ{ تَکُونُ لَنَا عِیدًا}میں کلمہ ''تکون''واحد مؤنث کا صیغہ ہے جس کا مرجع مائدہ ہے۔اور مائدہ کا نزول باعث خوشی ہے نہ کہ باعث جشن۔
ثانیا ً: اگر یہاں سے عید مراد لے بھی لی جائے تو پھر ہر مائدہ کے نزول پر عید منانا لازم آتا ہے اورنزول مائدہ والا یہ کام توروزانہ بلا ناغہ صبح وشام ہوتا تھا ۔ اور پھر عید منانے اور جشن منانے میں بڑا فرق ہے ۔ مسلمانوں کی عید ین یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کے دن بھی رسول اللہ ﷺسے جشن منانا یا ریلیاں اور جلوس نکالنا ثابت نہیں، فتدبر...!
ز غلط فہمی :
کہاجاتاہے کہ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی رشتہ دار نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا تیراکیاحال ہے ؟ابولہب نے کہا:تم سے جداہوکر میں نے کوئی راحت نہ پائی سوائے اس کے کہ مجھے پیر کے دن انگوٹھے اورشہادت کی انگلی کے بیچ سے کچھ پینے کومل جاتاہے بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ یہ چیز دودھ اورشہد تھی ۔
وضاحت :
أولاً:یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں:
(۱)پہلی وجہ یہ ہے کہ اس روایت کوعروہ نے بیان کیاہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ انہیں یہ روایت کہاں سے ملی ؟ اور کس سے سنا؟لہٰذا یہ روایت منقطع یعنی ضعیف ہے ۔
(۲)دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت قرآ نی بیان کے خلاف ہے کیونکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ اور اس کی انگلیاں صحیح سلامت ہیں بلکہ کوئی چیز پینے کے بھی قابل ہیں ،جب کہ قرآن کابیان ہے کہ{ تبت یدا أبی لھب } [مسد:1/111 ]۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مولانااحمدرضاصاحب اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا''[کنزالایمان:ترجہ سورہ مسد ،آیت 1 ص] ۔
اور پیرمحمد کرم شاہ سجادہ نشین اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''ٹوٹ جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اوروہ تباہ وبرباد ہو گیا''[ضیاء القرآن:ترجہ سورہ مسد ،آیت 1 ]۔
غور کیجئے کہ جب قرآنی بیان کے مطابق ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ وبرباد ہوچکے ہیں تو پھراسے دودھ اورشہد پینے کے لئے ہاتھ اور انگلیاں کہاں سے نصیب ہوگئیں ۔اب کس کابیان صحیح ہے مذکور ہ روایت کایاقرآن مجید کا؟؟؟
(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت شرعی احکام کے خلاف ہے کیونکہ شریعت کی نظر میں بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان کاارتکاب کرنے والے شخص کے سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں اور اسے کسی بھی عمل کاکوئی فائدہ نہیں ملتا،
ز مثلاًشرک اتنابڑاجرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں فرمایا:
{اگر فرضاًیہ حضرا ت بھی شرک کرتے توجوکچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے}[انعام:88/6]۔
بلکہ امام الانبیاء ﷺکے بارے میں فرمایا:
{اگر آپ نے شرک کیاتوآپ کاعمل بھی ضائع ہوجائے گا}[زمر:65/39]۔
اور اس میں کسی کوشک نہیں کہ ابو لہب نے شرک جیسے عظیم جرم کاارتکاب کیاہے ۔
اسی طرح ابولہب نے کفربھی کیااور یہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
{جوایمان کامنکروکافر ہے اس کے اعمال ضائع اور برباد ہیں }[مائدہ:5/5]۔
اسی طرح ابولہب نے اللہ کی وحی کوناپسندکیاہے اوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
{یہ اس لئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیزوں کوناپسند کرتے ہیں پس اللہ نے ان کے اعمال ضائع وبرباد کردئے }[محمد:9/47]۔
اسی طرح ابولہب نے اللہ کے رسول ﷺ سے دشمنی کی ہے اوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
{جن لوگوں نے کفر کیااللہ کی راہ سے لوگوں کوروکااوررسول کی مخالفت کی اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت ظاہر ہوچکی یہ ہرگز ہرگز اللہ کاکچھ نہیں بگاڑسکیں گے اوراللہ ایسے لوگو ں کے اعمال برباد کردے گا}[محمد:32/47]۔
اسی طرح ابولہب نے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے آواز بلندکی ہے اوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
{اے ایما ن والو!اپنی آوازیں نبی کی آوازسے اوپرنہ کرواور نہ ان سے اونچی آوازسے بات کروجیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو،کہیں (ایسانہ ہوکہ )تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو}[الحجرات:2/49]۔
غور کیجئے کہ مذکورہ جرائم میں سے جب صرف کسی ایک کے ارتکاب سے سار ے اعمال برباد ہو جاتے ہیں توابولہب جیساملعون شخص تو ان سارے جرائم کامرتکب ہے ،ایسے بھیانک مجرم کی تو پہاڑ و سمندر جیسی نیکیاں بھی برباد ہوجائیں گی چہ جائے کہ ایک پل کی اظہارخوشی اسے کوئی فائدہ پہنچاسکے ! معلوم ہواکہ شریعت کی روسے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ابولہب کواس کے کسی بھی عمل کاکوئی فائدہ پہنچ سکے لہٰذا مذکورہ روایت صحیح ہوہی نہیں سکتی ۔
(۴)چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت تاریخی حقیقت کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس میں یہ بیان ہواہے کہ ابولہب نے آپ ﷺ کی پیدائش کے وقت اپنی لونڈی ثویبیہ کوآزاد کیا جبکہ تاریخی بیان یہ ہے کہ ابولہب نے ثویبیہ کو آپ ﷺ کی پیدائش کے پچاس سال کے بعد آزادکیا،حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
'' واعتقھا أبولہب بعد ما ھاجر النبی ﷺ الی المدینة ''
یعنی ابولہب نے اپنی لونڈی ثویبیہ کو آپ ﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آزاد کیا،[استیعاب: ج1ص12]۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
ابن الجوزی لکھتے ہیں :
''جب آپ ﷺ نے ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہاسے شادی کی تو ثویبیہ ابھی تک لونڈی تھیں وہ آپ ﷺ کے پاس آتیں اور آپ ﷺ اور ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہاان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ''[الوفاباحوال المصطفی:179,178/1]۔
بلکہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہانے جب دیکھا کہ آپ ﷺابولہب کی لونڈی ثویبیہ کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں توانہوں نے آپ ﷺکی دلجوئی کی خاطر ابولہب سے ثویبیہ کوخریدکرآزاد کرنا چاہا لیکن ملعون ابولہب نے اسے بیچنے سے انکار کردیااور جب آپ ﷺ مکہ چھوڑ کرمدینہ ہجرت کر گئے تب ابولہب نے ثویبیہ کوآزاد کیا۔
[الطبقات :ج1ص109,108]۔
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت تاریخی بیان کے بھی خلاف ہے لہٰذاقطعاً صحیح نہیں ۔
ثانیاً:
مذکورہ خواب جس نے بھی دیکھاہے ظن غالب ہے کہ اسے کفر کی حالت میں دیکھاہے اورغیر مسلم کاخواب تودرکنارشریعت میں اس کابیان بھی حجت نہیں ۔
ثالثاً:
مذکورہ روایت میں جوواقعہ ہے وہ شریعت اسلامیہ کے نزول سے پہلے کاواقعہ ہے اور شریعت اسلامیہ کے آنے کے بعد جب تورات ،زبوراورانجیل جیسی آسمانی کتابیں ہمارے لئے حجت نہیں ہیں پھر ابولہب جیسے کافروملعون کاعمل ہمارے لئے کیسے حجت ہوسکتاہے ۔
رابعاً:
مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللہ کے نبی ﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے ،عہد نبوی ،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے ادوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں ''عیدمیلاد ''کی دلیل نہیںہے ۔
ز غلط فہمی :
کہاجاتاہے کہ آ پ ﷺ پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور اس بار ے میں آپ ﷺ سے پوچھاگیا توآپ ﷺ نے فرمایا:'' اسی دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھے رسالت ملی ہے ۔
وضاحت :
أولاً: اس حدیث سے عید میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے ،کیونکہ آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھاہے اوراگریہ عید کادن ہوتاتوآپ ﷺہرگزہرگزروزہ نہ رکھتے کیونکہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے[بخاری:-کتاب الصوم:باب صوم یوم الفطر،نمبر1990]
معلوم ہواکہ آپﷺنے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھاہے لہٰذا آپﷺکی پیدائش کادن ''عیدمیلاد'' یاکسی بھی طرح کی عیدکادن نہیں ہوسکتا۔
ثانیاً: آپﷺنے اپنی ولادت کی تاریخ(9یا12ربیع الاول)کونہیں بلکہ ولادت کے دن (پیر) کوروزہ رکھاہے ،خواہ اس دن کوئی بھی تاریخ ہویایہ دن کسی بھی ہفتہ یاکسی بھی مہینہ میں ہو ، لہٰذا جوشخص پورے سال کوچھوڑکرصرف ایک مہینہ اور اس میں بھی صرف ایک ہی ہفتے اور اس میں بھی صرف ایک ہی دن کواہمیت دیتاہے توگویاکہ وہ آپ ﷺکی سنت کی اصلاح کررہاہے اوریہ بہت بڑی جسارت ہے ۔
ثالثاً:آپ ﷺ نے مذکورہ حدیث میں پیرکے دن روزہ رکھنے کی دو وجہ بتلائی ہے ،ایک یہ کہ آپ ﷺ اسی دن پیداہوئے اوردوسری یہ کہ اس دن آپ ﷺکورسالت ملی ،یہ دونوں چیزیں ایک ہی دن واقع ہوئی ہیں لیکن دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے چنانچہ آپ ﷺ کی ولادت 9یا12ربیع الاول کوہوئی اورآپﷺ کورسالت21؍رمضان کوملی، لہٰذا اگر پیدائش کی تاریخ کو''عید میلاد'' منانا چاہئے تورسالت کی تاریخ کو''عید رسالت'' بھی مناناچاہئے بلکہ اس پرتوزیادہ زوردیناچاہئے کیونکہ رسالت ہی آپ ﷺکی عظمت کاسبب ہے نیز اس کااقرار ہمارے کلمہ کاایک حصہ بھی ہے ! اوراگر ''عید رسالت ''منانادرست نہیں تو''عید میلاد'' منانابھی غیردرست ہے ۔
رابعاً:آپﷺ صرف پیرہی کاروزہ علیحدہ طورپرنہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جمعرات کابھی روزہ رکھتے تھے ،لہٰذا سنت کے آدھے حصے کواہم سمجھنااور دوسرے آدھے کوفراموش کردیناسنت رسول کو بدلنا ہے اوریہ ناجائزہے ۔
خامساً:آپ ﷺنے پیر کے دن روزہ رکھنے کی یہ وجہ بھی بتلائی ہے کہ اسی دن بندوں کے اعمال رب کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں [ترمذی :کتا ب الصوم:ماجاء فی صوم الاثنین والخمیس،نمبر747 صحیح]
ظاہرہے کہ یہ خصوصیت پیرکے دن کوحاصل ہے نہ کہ12ربیع الاول کی تاریخ کو،کیونکہ یہ تاریخ تو ہرسال پیرکے علاوہ دوسرے دنوں میں پڑتی رہتی ہے بلکہ بسااوقات یہ تاریخ جمعہ کوبھی پڑجاتی ہے اب جس وجہ سے آپ ﷺ پیرکاروزہ رکھتے تھے (یعنی اعمال کابارگاہ الٰہی میں پیش ہونا)یہ وجہ جمعہ کے دن ہرگز نہیں پائی جاتی نیزجمعہ کے دن خصوصی روزہ رکھنابھی حرام ہے ۔اس سے واضح ہوگیاکہ آپ ﷺ روزہ رکھنے میں پیر کے دن کااہتمام کرتے تھے نہ کہ کسی تاریخ کاخواہ اس میں کوئی بھی دن آئے پس دن کوچھوڑکرتاریخ کااہتمام کرناسنت رسول کے سراسرخلاف ہے ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
سادساً:آپ ﷺنے اپنی پیدائش کے دن جوعمل کیاہے وہ ہے ''روزہ رکھنا''لیکن عید میلاد میں اس کے بالکل خلاف عمل ہوتاہے میلاد منانے والے نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھتے بلکہ اس دن وہ کھانے کاجو اہتمام کرتے ہیں وہ شایدہی کسی اوردن ہو۔اب سوچئے کہ یہ آپ ﷺ سے محبت ہے یا آپ ﷺسے عداوت ہے ۔
سابعاً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللہ کے نبی ﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے ،عہد نبوی ،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے ادوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں ''عیدمیلاد ''کی دلیل نہیںہے ۔
غلط فہمی :
کہاجاتاہے کہ آپﷺ یوم عاشورآء کاروزہ رکھتے تھے اور اس کاحکم بھی فرماتے تھے،کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضر ت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کوفرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی ۔ اور ہمیں بالاولی چاہئے کہ آپ ﷺ کی ولادت کے بابرکت دن کاروزہ رکھیں ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
وضاحت :
أولاً: اس حدیث سے بھی عید میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے ،کیونکہ آپ ﷺ نے موسی علیہ السلام کی فتح کے دن روزہ رکھاہے عید نہیں منائی ہے کیونکہ اگر عید مناتے توآپ ﷺاس دن ہرگز ہرگزروزہ نہ رکھتے اس لئے کہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے[بخاری:-کتاب الصوم:باب صوم یوم الفطر،نمبر1990]غور کیجئے کہ آپﷺ توروزہ رکھیں اورہم عیدمنائیں ،یہ آپﷺکی مخالفت نہیں تواور کیاہے ؟
ثانیاً:آپ ﷺ نے عاشورآء کے روزہ کی فضیلت میں موسی علیہ السلام کی فتح کاحوالہ دیاہے نہ کی موسی علیہ السلام کی پیدائش کا،اب یوم فتح کایوم پیدائش سے کیاتعلق؟غور کیجئے کہ جس طرح فرعون سے نجات ،موسی علیہ السلام کی فتح ہے ،اسی طرح فتح مکہ بھی آپ ﷺ کی عظیم فتح ہے ،لیکن اس مماثلت کے باوجود بھی فتح مکہ کے د ن ایساکوئی اہتمام جائز نہیں ہے ،توپھریوم پیدائش جس کااس حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اس کاجواز اس حدیث سے کیونکر نکل سکتاہے ؟
ثالثاً:آپ ﷺ کے عاشورآء کاروزہ رکھنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ اس دن موسی علیہ السلام کی فتح ہوئی ہے بلکہ آپ ﷺ مکہ میں شروع ہی سے عاشورآء کاروزہ رکھتے چلے آرہے تھے ،البتہ جب مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ کومعلوم ہواکہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں توآپﷺ نے اس کاتاکیدی حکم صادر فرما دیااور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ حکم بھی منسوخ ہوگیاالبتہ اس کے استحبا ب کوآپﷺ نے باقی رکھا [بخاری :-کتا ب الصوم :باب صیام عاشورآئ،نمبر2002 اور2004]
معلوم ہواکہ عاشورآء کے روزہ کی اصل وجہ موسی علیہ السلام کی فتح نہیں تھی البتہ آپ ﷺ نے اس روزہ کی فضیلت میں یہ بات بھی شامل کرلی تھی ۔
رابعاً:آپ ﷺنے صحابہ کے مشورے پریہ تعلیم بھی دی کہ یوم عاشورآء کے ساتھ ساتھ ایک دن کاروزہ اوررکھاجائے تاکہ یہود کی مشابہت نہ ہو،[مسلم:کتاب الصیام:باب أی یوم یصام فی عاشورآئ، 1334]
غور کیجئے کہ جب اس حدیث میں مذکوراصل سنت ایک دن کی نہیں ہے تواس حدیث سے یک روزہ عید میلاد کاثبوت کہاں سے نکل سکتاہے جس کااس حدیث سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے ۔
خامساً:دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکور ہ حدیث میں جواصل تعلیم ہے وہ ہے عاشورآء کے دن روزہ رکھنا،لیکن افسوس ہے کہ میلاد منانے والوں نے بڑی بے دردی سے اس سنت کاگلاگھونٹ دیاہے ، چنانچہ جب محرم میں عاشورآء کایہ دن آتاہے تو یہ لوگ اس دن روزہ رکھنے کے بجائے کھانے پینے کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو پکڑپکڑ کرشربت پلاتے ہیں ،اور اس دن انہیں یہ حدیث یاد نہیں آتی ،بلکہ یاددلانے پربھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتے ،لیکن حیرت ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں یہی حدیث ان کی نظر میں بہت اہم ہوجاتی ہے ،حالانکہ اس مہینے سے اس حدیث کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے!سوال یہ ہے کہ جن کی نظرمیں مذکورہ حدیث کی اصل تعلیم قابل عمل نہیں ہے وہ اسی حدیث سے دیگر چیزیں ثابت کرنے کی جرأت کیسے کرتے ہیں ۔
سادساً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللہ کے نبی ﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے ،عہد نبوی ،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے ادوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں ''عیدمیلاد ''کی دلیل نہیںہے ۔
 
Top