جزاک اللہ خیر شیخ کفایت اللہ
اب میں اگلا سوال نقل کرتا ہوں۔
سُنی علماء کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن سے کچھ الفاظ کھو گئے
سب سے پہلے ہم علامہ جلال الدین سیوطی کے اُن الفاظ کو نقل کرنا چاہینگے جو انہوں نے اپنی معروف تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کئے:
حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں
پھر سورہ احزاب کے مقدمہ میں علامہ صاحب نے امام سفیان ثوری کا ایک عظیم قول انہی کے شاگرد امام عبدالرزاق سنعانی(المتوفی 211 ھ)کی زبانی نقل کرتے ہیں::
خرج عبد الرزاق عن الثوري قال: بلغنا ان ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يقرأون القرآن أصيبوا يوم مسيلمة، فذهبت حروف من القرآن.
عبد الرزاق نے ثوری سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: مجھ تک بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ (ص) کے اُن صحابہ میں سے جو قاری ِ قرآن تھے مسلمہ کے روز قتل ہوگئے اور اُن کے قتل کے ساتھ قرآن سے الفاظ کھو گئے
خاندان یزید کی گمراہ اولاد یعنی تنگ نظر وہابی و سلفی اور سپاہ یزید کا شدت پسند ٹولہ جوشیعہ خیرالبریہ کے خلاف ہمیشہ اپنی ذہن کا گند اُگلتے دکھائی دیتے ہیں اور شیعوں پر اس لئے کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ کچھ شیعہ کتابوں میں بعض احادیث ہیں جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ ہوتا ہے وہ لوگ ذرا اپنے چہیتے اماموں کی روایات کی جانب اپنی نظریں دوڑائیں اور اگر اُن میں غلطی سے کوئی شرم باقی رہ گئی ہو تو وہ وہی فتوٰی جو وہ شیعوں کے خلاف دیتے ہیں اپنے اُن اماموں کے خلاف دے کر انصاف کا تقاضہ پورا کریں جنہوں نے اپنی کتب میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات نقل کیں۔ ویسے ہمیں امید تو نہیں کہ سپاہ یزید منافقت کا دامن ترک کرتے ہوئے انصاف سے کام لے گی لیکن پھر بھی ہم فیصلہ اُن پر ہی چھوڑتے ہیں۔
صحابی عبداللہ ابن عمر کا عقیدہ کہ قرآن کا بیشتر حصہ کھو گیا
خلیفہ دوم کے گھر کے چشم و چراغ، یزید کے اہم ترین حامی اور سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی حضرات کی معتبر شخصیت جناب عبد اللہ ابن عمر نے اپنا عقیدہ ِ تحریف ِ قرآن بیان کر کے دشمنان ِ شیعہ کے مذہب میں چار چاند لگا دیئے۔ حوالہ:
1۔ تفسیر در المنثور، ج 1 ص 106
2۔ الاتقان، ج 2 ص 64 (اردو ایڈیشن)
3۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 25
4۔ فضائل قرآن، ج 2ص 135
سنی مسلک کے پہلے ادوار کے جید علماء میں سے ایک علامہ قاسم بن سلام (المتوفی 222 ھ)اپنی کتاب فضائل قرآن میں نقل کرتے ہیں:
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : « لا يقولن أحدكم قد أخذت القرآن كله وما يدريه ما كله ؟ قد ذهب منه قرآن كثير ، ولكن ليقل : قد أخذت منه ما ظهر منه
ابن عمر (ر) نے کہا کہ بیشک تم لوگوں میں سے کوئی یہ بات کہے گا کہ میں نے تمام قرآن اخذ کرلیا ہے ۔ بجایکہ اُسے یہ بات معلوم ہی نہیں کہ تمام قرآن کتنا تھا۔ کیونکہ قرآن میں سے بہت سا حصہ جاتا رہا ہے
سپاہ یزید و دیگر ناصبی برادری یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ شیعہ تحریف کے قائل ہیں جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مکمل ہے ۔ لیکن یہاں صحابی عبداللہ ابن عمر کا فرمان ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ کھو گیا اب یا تو ابن عمر جھوٹ بول رہے تھے یا پھر سپاہ یزید والے معمول کے مطابق اس معاملے میں بھی جھوٹ بک رہے ہیں ؟ اُن کی نظر میں صحابہ تو جھوٹ بول نہیں سکتے وہ بھی اس مشہور گھرانے کا صحابی، تو پھر نتیجہ یہ ہوا کہ سپاہ یزید اور ان کی پوری ناصبی برادری جھوٹی ٹھہری اور ان کا تحریف ِ قرآن کا عقیدہ عیاں ہوا۔
سپاہ یزید کی جانب سے ابن عمر کے بیان کے دفاع میں وضاحتیں
نواصب عبد اللہ ابن عمر کے اس دلیرانہ بیان سے پریشان ہو کر چند ایک بہانوں تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ تحریف ِ قرآن کے عقیدہ کے کھُلنے والی عمرو عیّار کی زنبیل کو بند کرسکیں۔ ان کی جانب سے جو وضاحتیں عام طور سے پیش کی جاتیں ہیں وہ یہ ہیں:
پہلی وضاحت: روایت معتبر نہیں
یہ نواصب کا پہلا حربہ ہے ۔
ہمارا جواب:
ناصبی حضرات کے اس بہانے کو مٹی میں ملانے کے لئے ہم اس روایت میں موجود راویوں کے متعلق امام ذھبی اور امام ابن حجرعسقلانی کی آراء درج کرہے ہیں جس کے بعد یہ ثابت ہوجائےگا کہ یہ روایت کسی بھی صورت میں صحیح کے درجے سے کم نہیں۔ اسماعیل بن ابراہم کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ حجت ہیں (الکاشف، ج 1 ص 242) جبکہ ابن حجر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 90)۔ ایوب السختیانی کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ امام حافظ اور سید العلماء ہیں(سیراعلام النبلا، ج 6 ص 15) جبکہ ابن حجر نے انہیں 'ثقہ ثبت حجت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 117)۔ نافع کے متعلق ذھبی نے کہا ہے کہ وہ تابعین کے امام ہیں (الکاشف، ج 2 ص 315) جبکہ ابن حجر نے'ثقہ ثبت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 2 ص 231)۔
اور پھر یہ روایت امام جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے اور ہم یاد دلا تے چلیں کہ سیوطی نے اپنی کتاب تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے:
حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں
دوسری وضاحت: روایت میں لفظ ذھب استعمال ہوا ہے جسکا مطلب نسخ کے ہیں ناکہ کھو جانے کے
دوسرا اور سب سے ذیادہ استعمال ہونے والا بہانہ جو سپاہ یزید کے مُلاوں نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے وہ یہ کہ لفظ ذھب جو اس روایت میں استعمال ہوا ہے اس کے معنی نسخ کے ہیں کھو جانے کے نہیں لہٰذا صحابی عبد اللہ ابن عمر کا بیان نسخ شدہ آیات کے متعلق تھا اور اس سے تحریف کا امکان بالکل بھی ظاہر نہیں۔
ہمارا پہلا جواب: سپاہ یزید کو چیلنج کو وہ ذھب کے معنی نسخ ثابت کردیں
سپاہ صحابہ والوں کو چیلنج ہے کہ اگر انہوں نے اپنی مائوں کا دودھ پیا ہے نہ کہ جھنگوی فیکٹری کی بوتل کا تو وہ کسی معتبر لغت سے اپنے دعویٰ کو ثابت کریں کہ لفظ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ان کی شرانگیز تنظیم کے وہ تمام مشکوک الولادت لیڈران جو اب اس دنیا میں نہیں اگر قبر کے عذاب سے بھی اُٹھ کر آجائیں تو بھی وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر وہ اپنے گھر کی لغت استعمال کررہے ہیں جو کہ نسل در نسل ان کے ساتھ آرہی ہے جس کے مطابق تبرہ کا مطلب گالیاں دینا ، تقیہ کی مطلب منافقت ، نکاح المتعہ کا مطلب زنا کاری اور شیعہ کا مطلب کافر ہے تو جاہلوں کا تو علاج ہمارے پاس نہیں انہیں احمقوں کی جنت ہی مبارک ہو۔
ہمارا دوسرا جواب: خلیفہ دوم حضرت عمر نے ذھب کے معنی نسخ سمجھنے والوں کی تردید کردی ہے
صحیح بخاری کی مشہور روایت ہے:
روایت ہے زید بن ثابت سے، انہوں نے کہا جب یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) مسلمان مارے گئے (سات سو صحابہ شہید ہوئے ) تو ابو بکر صدیق (ر) نے مجھے کہلوا بھیجا ، میں گیا تو دیکھا حضرت عمر بھی وہاں بیٹھے ہیں ، ابو بکر صدیق نے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یمامہ کی لڑائی میں قرآن کے قاری بہت مارے گئے ہیں ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن ہاتھ سے جاتا رہے تو مناسب سمجھتا ہوں آپ قرآن کو اکھٹا کرنے کا حکم دے دیجئے ۔۔۔
صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1091 کتاب التفسیر، (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یہی روایت صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے:
Abu Bakr As-Siddiq sent for me when the people! of Yamama had been killed (i.e., a number of the Prophet's Companions who fought against Musailama). (I went to him) and found 'Umar bin Al-Khattab sitting with him. Abu Bakr then said (to me), "Umar has come to me and said: "Casualties were heavy among the Qurra' of the! Qur'an (i.e. those who knew the Quran by heart) on the day of the Battle of Yalmama, and I am afraid that more heavy casualties may take place among the Qurra' on other battlefields, whereby a large part of the Qur'an may be lost .Therefore I suggest, you..."
جو عربی لفظ حضرت عمر نے 'کھو جانے' یا 'ہاتھ سے جاتا رہنے' کے لئے استعمال کیا ہے وہ 'ذھب' ہی ہے۔ اس حدیث کو انٹرنیٹ پر موجود عربی صحیح بخاری میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ لنک درج ہے۔
صحیح بخاری ، (انگریزی)، حدیث 5037
جو لوگ یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں وہ بیٹے کے بیان کو پڑھنے سے قبل باپ کے بیان پر غور کریں جو کہ خلیفہ دوم بھی ہیں۔ اگر ذھب کے معنی نسخ ہیں تو حضرت عمر کے بیان کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے:
۔۔۔ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن منسوخ ہوتا رہے۔۔۔
جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ جنگ یمامہ حضرت ابو بکر کے دور ِ حکمرانی میں لڑی گئی اور قرآن کا نسخ رسول کے زمانے میں ہوتا ہے۔ کیا نواصب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حضرت ابو بکر کو اگلا رسول مانتے ہیں ؟