• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مبینہ تحریف ِقرآن کا قائل کون ؟

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر انس بھائی
اگلا سوال

پیش ِخدمت ہے سپاہ ِصحابہ اور وہابیوں کا 40 پاروں والا قرآن

اس سلسلے میں ہم نے مندرجہ ذیل مستند سُنی کتابوں پر انحصار کیا ہے:
1۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج 9 ص 95 ؛ امام ابن حجر عسقلانی
2۔ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج 9 ص 345 ؛ علامہ بدروالدین آئینی
3۔ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری، ج 7 ص 482 ؛ علامہ شہابالدین قستلانی
فتح الباری کی روایت ملاحضہ ہو:
قال أقل ما يجزئ من القراءة في كل يوم وليلة جزء من أربعين جزءا من القرآن
کم سے کم مقدار میں قرآن کا پڑھنا کافی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دن و رات 40 پاروں میں سے 1 پارہ پڑھا جائے
یہ روایت وہابی حضرات کی پسندیدہ ویب سائٹ پر موجود کتاب فتح الباری میں بھی باآسانی پڑھی جاسکتی ہے
http://www.al-eman.com/hadeeth/viewchp.asp?BID=12&CID=439#s6
ہم جانتے ہیں کہ آج ہم تمام مسلمانوں کے پاس موجود قرآن 30 پاروں میں تقسیم ہے لیکن آج ہمیں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ سپاہ صحابہ اور دیگر نواصب کے عقیدہ کے مطابق موجودہ قرآن میں سے پورے 10 پاروں کی کمی ہے۔ لہٰذا اب نواصب چند کمزور شیعہ روایات کو بنیاد بنا کر ہم پر تحریف ِ قرآن کا عقیدہ تھوپنے سے پہلے اپنے عقیدہ کی وضاحت کریں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
فتح الباری کی روایت ملاحضہ ہو:
قال أقل ما يجزئ من القراءة في كل يوم وليلة جزء من أربعين جزءا من القرآن
کم سے کم مقدار میں قرآن کا پڑھنا کافی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دن و رات 40 پاروں میں سے 1 پارہ پڑھا جائے
فتح الباری سے یہ بات نقل کرکے روافض اہل سنت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اہل سنت کے یہاں بھی چالیس پارہ کا موقف پایا جاتاہے ، لیکن یہ بہت بڑا مغالطہ ہے جس کی تفصیل پیش خدمت ہے۔

سب سے پہلے حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا پورا کلام دیکھتے ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
(قَوْلُهُ بَابُ فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ وَقَوْلُ الله تَعَالَى فاقرءوا مَا تيَسّر مِنْهُ)
كَأَنَّهُ أَشَارَ إِلَى الرَّدِّ عَلَى مَنْ قَالَ أَقَلُّ مَا يُجْزِئُ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ جُزْءٌ مِنْ أَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ الْقُرْآنِ وَهُوَ مَنْقُولٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاهْوَيْهِ وَالْحَنَابِلَةِ لِأَنَّ عُمُومَ قَوْلِهِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ يَشْمَلُ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ فَمَنِ ادَّعَى التَّحْدِيدَ فَعَلَيْهِ الْبَيَانُ وَقَدْ أَخْرَجَ أَبُو دَاوُدَ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فِي كَمْ يُقْرَأُ الْقُرْآنُ قَالَ فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ قَالَ فِي شَهْرٍ الْحَدِيثَ وَلَا دَلَالَةَ فِيهِ عَلَى الْمُدَّعِي
[فتح الباري لابن حجر: 9/ 95]
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ فرمانا: ’’اس بات کا بیان کہ کتنی مدت میں قرآن مجید ختم کرنا چاہئے؟ اور اللہ تعالی کا فرمان : ( تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو) ‘‘۔
اس بات سے امام بخاری رحمہ اللہ گویا ان لوگوں پر رد کررہے ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ : ’’ہردن رات میں کم سے کم قران کا جوحصہ پڑھنا کافی ہے وہ ہے قران کے چالیس حصوں میں سے ایک حصہ (یعنی تیس پاروں پر مشتمل قران کا چالیسواں حصہ ) ‘‘ یہ بات اسحاق بن راہویہ اور حنابلہ سے منقول ہے ۔(یہ بات قابل رد اس لئے ہے ) کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ’’تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو‘‘ اس سے کم پڑھنے کو بھی شامل ہے (یعنی اگر دن رات میں چالیسویں حصہ سے کم قران پڑھ لیا جائے تو یہ بھی جائز ہے اس آیت کی رو سے) اس لئے جو شخص تحدید کا دعوی کرتا ہے (یعنی یہ کہتا ہے کہ ایک دن رات میں قران کا چالیسواں حصہ پڑھنا چاہئے) اس پر دلیل دینا لازم ہے ۔
اور ابوداؤد نے دوسرے طریق سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ( : انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ:) کتنے دنوں میں قرآن پڑھا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "چالیس دنوں میں" پھر فرمایا "ایک مہینے میں" اس کے بعد پوری حدیث ہے۔۔۔(یعنی پھر کہا "بیس دنوں میں" پھر کہا: "پندرہ دنوں میں" پھر کہا "دس دنوں میں" پھر کہا "سات دنوں میں" اور سات سے کم نہیں کیا۔) اور اس حدیث میں مذکورہ دعوی کرنے والے (یعنی ایک دن رات میں قران کا چالیسواں حصہ پڑھنے کی بات کہنے والے) کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔

میرے خیال سے میں نے جو درست ترجمہ پیش کیا ہے اگرکوئی سنجیدگی سے اسے پڑھ لے تو وہ ساری حقیقت فورا سمجھ جائے گا ۔
تھوڑی سی تفصیل پیش کرتاہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب فتح الباری سے جوبات نقل کی گئی ہے وہ کوئی روایت یعنی حدیث نہیں ہے جیسا کہ روافض باور کرانا چاہتے ہیں بلکہ یہاں بعض لوگوں کی ایک رائے پیش کی گئ ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ رائے کیا ہے ؟؟؟ روافض نے یہ ظاہر کیا ہے یہاں چالیس پاروں کی بات ہورہی ہے اورچالیس پاروں میں سے ایک پارہ پڑھنے کی بات کہی گئی ہے ۔اوراسی حساب سے انہوں نے مذکورہ عبارت کا ترجمہ بھی کیا ہے ۔
لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں قران کے پاروں کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ ایک دن رات میں قران کا کتنا حصہ پڑھا جائے اس پر بات ہورہی ہے اوراس ضمن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کچھ لوگوں کا یہ موقف نقل کیا ہے کہ ایک دن رات میں قران کا چالیسواں حصہ پڑھنا چاہئے ۔ یعنی قران اصل میں جتنی مقدار میں ہے یعنی تیس پاروں میں تو ان تیس پاروں کا چالیس حصہ کرکے اس کا ایک حصہ دن رات میں پڑھا جائے ۔ یہ بعض لوگوں کا موقف ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ موقف اپنانے والوں پر رد کررہے ہیں کہ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :’’تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی نے کوئی تحدید نہیں کی ہے کہ ایک دن رات میں قران کا کتنا حصہ پڑھا جائے بلکہ یہ کہا کہ جو آسان ہو پڑھو ۔ اس لئے یہ تحدید کرنا کہ ایک دن رات میں قران کا چالیسواں حصہ پڑھنا چاہئے یہ درست نہیں ہے۔

اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں چالیس دن میں قران ختم کرنے کی بات ہے اور جس سے مذکورہ موقف رکھنے والے یعنی ایک دن رات میں قران کا چالیسواں حصہ پڑھنے کی بات کہنے والے استدلال کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جب حدیث میں چالیس دن میں قران ختم کرنے کی بات کہی گئی ہے تو ظاہر ہے ایک دن رات میں قران کا چالیسواں حصہ پڑھنا چاہئے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وضاحت کررہے ہیں کہ اس حدیث سے یہ استدلال درست نہیں ہے ۔ کیونکہ اس حدیث میں آگے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ میں بھی یعنی تیس دن میں بھی قران ختم کرنے کی بات کہی ہے ۔اور اس پر عمل کرنے کی صورت میں ایک دن رات میں قران کا تیسواں حصہ پڑھا جائے ۔اس لئے حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک دن رات میں قران کاچالیسوں حصہ ہی پڑھنا چاہئے ۔


یہ ہے پوری حقیقت جسے رافض توڑ مروڑ کر پیش کررہے ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ نقل کردہ عبارت میں قران کے چالیس پاروں میں سے ایک پارہ پڑھنے کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ اصل قران جو تیس پاروں پر مشتمل ہے اس کے چالیسویں حصہ کو ایک دن پڑھنے کی بات ہوری ہے ، اس سے یہاں کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت قران کے چالیس پاروں کے قائل ہیں ؟؟؟

اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔
مثال کے طور پر میں یہ کہوں :
أَنَا اقْرَأُ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ جُزْءًامِنْ أَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ سورة البقرة
یعنی میں ہردن رات میں سورہ بقرہ کے چالیس حصہ سے ایک حصہ پڑھتا ہوں ۔

تو کیا اس کا یہ مطلب ہوگا میں سورہ بقرہ کو چالیس پاروں پر مشتمل مان رہا ہوں؟؟
ہرگز نہیں بلکہ میں تو سورہ بقرہ کے چالیسویں حصہ کو پڑھنے کی بات کررہاہوں ۔

یہی معاملہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی پیش کردہ عبارت میں ہے یعنی یہاں قران کے چالیس پاروں کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ اصل قران جو تیس پاروں پر مشتمل ہے اس کے چالیسویں حصہ کو پڑھنے کی بات ہورہی ہے یعنی ایک دن رات میں اصل قران کے چالیسوں حصہ کو پڑھنے کی بات ہورہی ہے۔

امید ہے کہ اس قدر وضاحت کافی ہوگی
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی جان۔۔۔!
گویا تیس پاروں کے چالیس اجزاء کئے جائیں اور ان کا ایک جز پڑھا جائے تو یہ پونا سپارہ بنتا ہے۔
اور یہاں چالیس اجزاء میں سے ایک جز کی تلاوت کی بھی تصدیق کے بجائے تردید کی جا رہی ہے، اور تردید بھی قال کے صیغے سے مجہول لوگوں کے کلام کی۔ بہت خوب! اللہم زد فزد۔

اسی سے روافض کی دیانت بھی واضح ہو جاتی ہے اور یہ بھی کہ روافض کی اپنی کتب میں تحریف قرآن پر دال معصومین سے منسوب متواتر السند روایات کے بالمقابل کیسے یہ حضرات بزور اہل سنت کو بھی اسی کشتی کا سوار ثابت کرنے کی فکر میں، دور از کار تاویلات اور کذب بیانی و تحریف سے کام لیتے ہیں!
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر شیخ کفایت اللہ
اب میں اگلا سوال نقل کرتا ہوں۔
سُنی علماء کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن سے کچھ الفاظ کھو گئے

سب سے پہلے ہم علامہ جلال الدین سیوطی کے اُن الفاظ کو نقل کرنا چاہینگے جو انہوں نے اپنی معروف تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کئے:
حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں
پھر سورہ احزاب کے مقدمہ میں علامہ صاحب نے امام سفیان ثوری کا ایک عظیم قول انہی کے شاگرد امام عبدالرزاق سنعانی(المتوفی 211 ھ)کی زبانی نقل کرتے ہیں::
خرج عبد الرزاق عن الثوري قال‏:‏ بلغنا ان ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يقرأون القرآن أصيبوا يوم مسيلمة، فذهبت حروف من القرآن‏.‏
عبد الرزاق نے ثوری سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: مجھ تک بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ (ص) کے اُن صحابہ میں سے جو قاری ِ قرآن تھے مسلمہ کے روز قتل ہوگئے اور اُن کے قتل کے ساتھ قرآن سے الفاظ کھو گئے
خاندان یزید کی گمراہ اولاد یعنی تنگ نظر وہابی و سلفی اور سپاہ یزید کا شدت پسند ٹولہ جوشیعہ خیرالبریہ کے خلاف ہمیشہ اپنی ذہن کا گند اُگلتے دکھائی دیتے ہیں اور شیعوں پر اس لئے کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہیں کہ کچھ شیعہ کتابوں میں بعض احادیث ہیں جن سے تحریف ِ قرآن کا شبہ ہوتا ہے وہ لوگ ذرا اپنے چہیتے اماموں کی روایات کی جانب اپنی نظریں دوڑائیں اور اگر اُن میں غلطی سے کوئی شرم باقی رہ گئی ہو تو وہ وہی فتوٰی جو وہ شیعوں کے خلاف دیتے ہیں اپنے اُن اماموں کے خلاف دے کر انصاف کا تقاضہ پورا کریں جنہوں نے اپنی کتب میں تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات نقل کیں۔ ویسے ہمیں امید تو نہیں کہ سپاہ یزید منافقت کا دامن ترک کرتے ہوئے انصاف سے کام لے گی لیکن پھر بھی ہم فیصلہ اُن پر ہی چھوڑتے ہیں۔
صحابی عبداللہ ابن عمر کا عقیدہ کہ قرآن کا بیشتر حصہ کھو گیا

خلیفہ دوم کے گھر کے چشم و چراغ، یزید کے اہم ترین حامی اور سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی حضرات کی معتبر شخصیت جناب عبد اللہ ابن عمر نے اپنا عقیدہ ِ تحریف ِ قرآن بیان کر کے دشمنان ِ شیعہ کے مذہب میں چار چاند لگا دیئے۔ حوالہ:
1۔ تفسیر در المنثور، ج 1 ص 106
2۔ الاتقان، ج 2 ص 64 (اردو ایڈیشن)
3۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 25
4۔ فضائل قرآن، ج 2ص 135
سنی مسلک کے پہلے ادوار کے جید علماء میں سے ایک علامہ قاسم بن سلام (المتوفی 222 ھ)اپنی کتاب فضائل قرآن میں نقل کرتے ہیں:
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن أيوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال : « لا يقولن أحدكم قد أخذت القرآن كله وما يدريه ما كله ؟ قد ذهب منه قرآن كثير ، ولكن ليقل : قد أخذت منه ما ظهر منه
ابن عمر (ر) نے کہا کہ بیشک تم لوگوں میں سے کوئی یہ بات کہے گا کہ میں نے تمام قرآن اخذ کرلیا ہے ۔ بجایکہ اُسے یہ بات معلوم ہی نہیں کہ تمام قرآن کتنا تھا۔ کیونکہ قرآن میں سے بہت سا حصہ جاتا رہا ہے
سپاہ یزید و دیگر ناصبی برادری یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ شیعہ تحریف کے قائل ہیں جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مکمل ہے ۔ لیکن یہاں صحابی عبداللہ ابن عمر کا فرمان ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ کھو گیا اب یا تو ابن عمر جھوٹ بول رہے تھے یا پھر سپاہ یزید والے معمول کے مطابق اس معاملے میں بھی جھوٹ بک رہے ہیں ؟ اُن کی نظر میں صحابہ تو جھوٹ بول نہیں سکتے وہ بھی اس مشہور گھرانے کا صحابی، تو پھر نتیجہ یہ ہوا کہ سپاہ یزید اور ان کی پوری ناصبی برادری جھوٹی ٹھہری اور ان کا تحریف ِ قرآن کا عقیدہ عیاں ہوا۔
سپاہ یزید کی جانب سے ابن عمر کے بیان کے دفاع میں وضاحتیں

نواصب عبد اللہ ابن عمر کے اس دلیرانہ بیان سے پریشان ہو کر چند ایک بہانوں تک پہنچتے ہیں تاکہ وہ تحریف ِ قرآن کے عقیدہ کے کھُلنے والی عمرو عیّار کی زنبیل کو بند کرسکیں۔ ان کی جانب سے جو وضاحتیں عام طور سے پیش کی جاتیں ہیں وہ یہ ہیں:
پہلی وضاحت: روایت معتبر نہیں
یہ نواصب کا پہلا حربہ ہے ۔
ہمارا جواب:
ناصبی حضرات کے اس بہانے کو مٹی میں ملانے کے لئے ہم اس روایت میں موجود راویوں کے متعلق امام ذھبی اور امام ابن حجرعسقلانی کی آراء درج کرہے ہیں جس کے بعد یہ ثابت ہوجائےگا کہ یہ روایت کسی بھی صورت میں صحیح کے درجے سے کم نہیں۔ اسماعیل بن ابراہم کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ حجت ہیں (الکاشف، ج 1 ص 242) جبکہ ابن حجر نے اسے ثقہ قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 90)۔ ایوب السختیانی کے متعلق ذھبی کہتے ہیں کہ وہ امام حافظ اور سید العلماء ہیں(سیراعلام النبلا، ج 6 ص 15) جبکہ ابن حجر نے انہیں 'ثقہ ثبت حجت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 1 ص 117)۔ نافع کے متعلق ذھبی نے کہا ہے کہ وہ تابعین کے امام ہیں (الکاشف، ج 2 ص 315) جبکہ ابن حجر نے'ثقہ ثبت' قرار دیا ہے (تقریب التھذیب، ج 2 ص 231)۔
اور پھر یہ روایت امام جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے اور ہم یاد دلا تے چلیں کہ سیوطی نے اپنی کتاب تفسیر در المنثور کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے:
حمد اُس اللہ کی جس نے مجھے توفیق دی کی میں اس عظیم کتاب کی تفسیر اُن ذرائع سے لکھوں جو مجھ تک اعلیٰ اسناد سے پہنچی ہیں
دوسری وضاحت: روایت میں لفظ ذھب استعمال ہوا ہے جسکا مطلب نسخ کے ہیں ناکہ کھو جانے کے
دوسرا اور سب سے ذیادہ استعمال ہونے والا بہانہ جو سپاہ یزید کے مُلاوں نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے وہ یہ کہ لفظ ذھب جو اس روایت میں استعمال ہوا ہے اس کے معنی نسخ کے ہیں کھو جانے کے نہیں لہٰذا صحابی عبد اللہ ابن عمر کا بیان نسخ شدہ آیات کے متعلق تھا اور اس سے تحریف کا امکان بالکل بھی ظاہر نہیں۔
ہمارا پہلا جواب: سپاہ یزید کو چیلنج کو وہ ذھب کے معنی نسخ ثابت کردیں
سپاہ صحابہ والوں کو چیلنج ہے کہ اگر انہوں نے اپنی مائوں کا دودھ پیا ہے نہ کہ جھنگوی فیکٹری کی بوتل کا تو وہ کسی معتبر لغت سے اپنے دعویٰ کو ثابت کریں کہ لفظ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ان کی شرانگیز تنظیم کے وہ تمام مشکوک الولادت لیڈران جو اب اس دنیا میں نہیں اگر قبر کے عذاب سے بھی اُٹھ کر آجائیں تو بھی وہ یہ ثابت نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر وہ اپنے گھر کی لغت استعمال کررہے ہیں جو کہ نسل در نسل ان کے ساتھ آرہی ہے جس کے مطابق تبرہ کا مطلب گالیاں دینا ، تقیہ کی مطلب منافقت ، نکاح المتعہ کا مطلب زنا کاری اور شیعہ کا مطلب کافر ہے تو جاہلوں کا تو علاج ہمارے پاس نہیں انہیں احمقوں کی جنت ہی مبارک ہو۔
ہمارا دوسرا جواب: خلیفہ دوم حضرت عمر نے ذھب کے معنی نسخ سمجھنے والوں کی تردید کردی ہے

صحیح بخاری کی مشہور روایت ہے:
روایت ہے زید بن ثابت سے، انہوں نے کہا جب یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) مسلمان مارے گئے (سات سو صحابہ شہید ہوئے ) تو ابو بکر صدیق (ر) نے مجھے کہلوا بھیجا ، میں گیا تو دیکھا حضرت عمر بھی وہاں بیٹھے ہیں ، ابو بکر صدیق نے کہا کہ عمر میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یمامہ کی لڑائی میں قرآن کے قاری بہت مارے گئے ہیں ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن ہاتھ سے جاتا رہے تو مناسب سمجھتا ہوں آپ قرآن کو اکھٹا کرنے کا حکم دے دیجئے ۔۔۔
صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1091 کتاب التفسیر، (مکتبہ رحمانیہ لاہور)
یہی روایت صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے:
Abu Bakr As-Siddiq sent for me when the people! of Yamama had been killed (i.e., a number of the Prophet's Companions who fought against Musailama). (I went to him) and found 'Umar bin Al-Khattab sitting with him. Abu Bakr then said (to me), "Umar has come to me and said: "Casualties were heavy among the Qurra' of the! Qur'an (i.e. those who knew the Quran by heart) on the day of the Battle of Yalmama, and I am afraid that more heavy casualties may take place among the Qurra' on other battlefields, whereby a large part of the Qur'an may be lost .Therefore I suggest, you..."
جو عربی لفظ حضرت عمر نے 'کھو جانے' یا 'ہاتھ سے جاتا رہنے' کے لئے استعمال کیا ہے وہ 'ذھب' ہی ہے۔ اس حدیث کو انٹرنیٹ پر موجود عربی صحیح بخاری میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ لنک درج ہے۔
صحیح بخاری ، (انگریزی)، حدیث 5037
جو لوگ یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ذھب کے معنی نسخ کے ہیں وہ بیٹے کے بیان کو پڑھنے سے قبل باپ کے بیان پر غور کریں جو کہ خلیفہ دوم بھی ہیں۔ اگر ذھب کے معنی نسخ ہیں تو حضرت عمر کے بیان کا مطلب کچھ یوں بنتا ہے:
۔۔۔ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اسی طرح لڑائیوں میں قاری مارے جائیں اور بہت سا قرآن منسوخ ہوتا رہے۔۔۔
جو کہ سراسر غلط ہے کیونکہ جنگ یمامہ حضرت ابو بکر کے دور ِ حکمرانی میں لڑی گئی اور قرآن کا نسخ رسول کے زمانے میں ہوتا ہے۔ کیا نواصب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ حضرت ابو بکر کو اگلا رسول مانتے ہیں ؟
 
Top