کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
مجبوری کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم
ہانی بن عبد اللہ بن محمد جبیر، ترجمہ: عمران اسلم
انسانوں کی اصلاح سے خالق حقیقی جل جلالہ سے بڑھ کر اور کون آگاہ ہو سکتا ہے، جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے اور کوئی ذات بھی ایسی نہیں ہے جو انسانی حالات و وقائع سے اس سے زیادہ باخبر ہو۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے:(اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ١ؕ وَ هُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ) (الملك:١٤)
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے، حالانکہ وہ باریک بین اور خبردار ہے۔‘‘
وہ بابرکت ذات جس نے نفس انسانی کو بنایا اور اس کی نیکی و بُرائی اور اس کے ابہام کو جانتی ہے کہ انسان کس طرح مائل بہ نیکی ہوسکتا ہے اور کیسے تقویٰ کے راستوں پر گامزن ہوسکتا ہے، اگرچہ اس دور میں نام نہاد تجدد اور آزادی کے دعویدار انسان کی فلاح کے لاکھ دعوے کریں۔ فرمان عالی شان ہے:
’’وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ١۫ وَ يُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا‘‘(النساء:٢٧)
’’اور اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کررہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کردور نکل جاؤ۔‘‘
مذہبِ اسلام میں حیاتِ دنیوی کے حوالے سے منفرداور بے مثال ہدایات موجود ہیں۔ سعادت و کامرانی کایہ واحد مذہب ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی جمیع مشکلات و مصائب کا حل موجود ہے۔ذیل میں ہم انسانی زندگی کے دو اہم مسائل ’’مجبوری اور غصے کی حالت میں دی گئی طلاق اور اس کے وقوع یا عدمِ وقوع‘‘ کے بارے فقہاے اسلام کی آرا پیش کررہے ہیں جس سے اسلام کے انسانیت کی فلاح وسعادت کے دعوے کی بھرپور تصدیق وتائید ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں فقہا کے اَقوال و اَدلہ پیش کرنے کے بعد راجح موقف کو آخرمیں درج کیا جائے گا۔
’طلاق‘ کی لغوی تعریف
یہ مصدر ہے:طلقت المرأة وطلقت تطلق طلاقا فهي طالق سے یعنی چھوڑنا، ترک کرنا اور الگ کر دینا ۔کہا جاتا ہے:طلق البلاد یعنی اس نے شہر چھوڑ دیا، اور أطلق الأسیر یعنی قیدی کو رہا کردیا۔اسی طرح یہ چند دیگر معانی پربھی دلالت کرتا ہے:
• اس کا اطلاق پاک، صاف اور حلال پر بھی ہوتا ہے۔کہاجاتا ہے :هو لك طلق یعنی وہ تیرے لیے حلال ہے۔
• اسی طرح بُعد اور دوری پر بھی بولا جاتا ہے، کہا جاتا ہے:طلق فلان ’’فلاں شخص دور ہوا۔‘‘
• اسے خروج اور نکلنے کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے جیساکہ أنت طلق من هذا الأمر(اللسان:٤؍٢٦٩٦، مجمل اللغہ:٣؍٣٣٠) ’’یعنی تو اس معاملے سے خارج ہے۔‘‘
طلاق کی شرعی تعریفمذکورہ معانی پر گہری نظر ڈالتے ہیں تو مقصود لفظ ’طلاق‘ اور ان میں ہم یک گونہ ربط پاتے ہیں۔جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اس کو چھوڑ رہا ہوتا ہے اور کسی دوسرے کے لیے اسے حلال کررہا ہوتا ہے۔ اس سے دوری اختیار کر رہا ہوتا ہے تو اس عقد سے بھی نکل رہا ہوتا ہے جو ان دونوں کو جمع کیے ہوئے تھا،چنانچہ لفظ طلاق میں یہ تمام معانی جمع ہو جاتے ہیں۔ (حافظ ابن حجر فی فتح الباری :٩؍٢٥٨)
طلاق کی شرعی تعریف کے سلسلہ میں فقہائے کرام کی طرف سے متعدد عبارات دیکھنے میں آئی ہیں ۔ ان میں سے جامع و مانع تعریف اس طرح ہوگی:
حل قید النکاح (وبعضه) في الحال أوالمآل بلفظ مخصوص (الدر المختار:٤١٤٢)
’’حال یا مستقبل میں کسی مخصوص لفظ کے ساتھ نکاح کی گرہ کھولنا۔‘‘
یہ تعریف الدر المختار کی ہے جس پر اہل علم کااتفاق موجود ہے۔میں نے اس میں (وبعضه) کا اضافہ اس لیے کیاہے کہ اس میں طلاقِ رجعی بھی داخل ہو جائے ۔(الروض المربع لابن قاسم:٤٨٢٦)
طلاق کی مشروعیت پر دلائل
١۔طلاق کی مشروعیت پر کتاب وسنت اور اجماع سے بھی واضح دلائل موجود ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے :
’’اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ‘‘(البقرۃ:٢٢٩)
’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کردیا جائے۔‘‘
٢۔ایک جگہ ارشاد ہے:
’’يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ۠ لِعِدَّتِهِنَّ‘‘(الطلاق:١)
’’اے نبیﷺ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت میں طلاق دیا کرو۔‘‘
٣۔اِرشاد نبویﷺ ہے:
«إنما الطلاق لمن أخذ بالساق» (سنن ابن ماجہ:٢٠٨١)
’’طلاق کا اختیار اسی کو ہے جو پنڈلی تھامتا ہے۔‘‘
اسی طرح آپﷺ نے حضرت حفصؓہ کو طلاق دی اور پھر ان سے رجوع کیا۔(سنن نسائی:٣٥٦٠،سنن ابوداؤد:٢٢٨٣)
طلاق کی مشروعیت پر بیسیوں احادیث و آثار موجود ہیں۔(نیل الاوطار:٦؍٢٤٧، جمع الفوائد:١؍٦٧١)
٤۔جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو صدرِ اوّل سے لے کر موجودہ زمانہ تک طلاق کے جواز پراجماع چلاآرہا ہے اور کسی ایک نے بھی اس کاانکارنہیں کیا۔(المغنی لابن قدامہ:١٠ ؍٣٢٣)
مجبوری (اِكراه) کی طلاق
الإکراه لغوی طور پر یہ أکَرِهَ یَکرَه سے مصدر ہے۔ یعنی کسی کوایسے کام کے کرنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا جائے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو۔ اصلاً یہ کلمہ رضا اور پسند کی مخالفت پر دلالت کر تا ہے ۔ امام فرا کہتے ہیں:
یقال أقامني على کره ــ بالفتح ــ إذا أکرهك علیه إلىٰ أن قال: فیصیر الکره بالفتح فعل المضطر (اللسان:٥؍٣٨٦٥)
’’کہا جاتا ہے مجھے مجبور کیا گیا۔ یعنی جب یہ فتحہ کے ساتھ ہوتو اس سے مراد مجبور شخص کا فعل ہو گا۔‘‘
اکراہ کی اصطلاحی تعریف :
’’انسان کاایساکام کرنا یاکوئی ایسا کام چھوڑنا جس کے لیے وہ راضی نہ ہو۔ اگر اسے مجبور کیے بغیر آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ ایسا نہ کرے۔‘‘
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اکراہ سے مراد آدمی کا کوئی ایسا کام کرنا ہے جو وہ کسی دوسرے کے لیے انجام دیتا ہے۔(معجم لغة الفقهاء:ص٨٥)
مختلف اعتبار سے اِکراہ کی متعدد اقسام ہیں۔اِکراہ اقوال میں بھی ہو سکتا ہے اور افعال میں بھی۔جہاں تک افعال کا تعلق ہے تو اس کی بھی دو اقسام ہیں: مجبور اور غیر مجبور۔
اَقوال میں اکراہ
علماے کرام نے اقوال میں جبر کی صحت کو تسلیم کیا اور اس پر اتفاق کیا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جو شخص حرام قول پر مجبور کیا جائے، اُس پر جبر معتبر مانا جائے گا۔اسے وہ حرام بات کہ کر اپنے آپپ کو چھڑانا جائزہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ زبردستی کا تصور تمام اقوال میں پایا جاتا ہے ،لہٰذا جب کوئی شخص کسی بات کے کہنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس پر کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور وہ لغو جائے گا۔
تاہم اس ضمن میں اگر ادلہ شرعیہ کا جائزہ لیا جائے تو عدم تفریق کا قول زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ فرمانِ عالی شان ہے:اس سلسلے میں احناف نے فسخ اور عدم فسخ کے مابین تفریق کوملحوظ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اکراہ خرید وفروخت اور اُجرت دینے میں ہو پھر تو وہ فسخ ہو جائے گا ، لیکن طلاق، عتاق (آزادی) اور نکاح میں فسخ کا احتمال باقی نہیں رہے گا۔ لہٰذا جو شخص بیع و تجارت کے لیے مجبور کیے جانے کے بعد بیع کرلے تو اس کو اختیار ہے، چاہے تو اس بیع کو باقی رکھے یا پھر فسخ کردے،لیکن طلاق، آزادی اور نکاح میں میں اختیار باقی نہیں رہے گا۔(العنایة والکفایة:٨؍١٦٦)
’’اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِيْمَانِ‘‘(النحل:١٠٦)
’’مگر یہ کہ وہ مجبور کیاگیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو۔‘‘
امام شافعی اس کے متعلق فرماتے ہیں:
إن اﷲ سبحانه وتعالىٰ لما وضع الکفر عمن تلفظ به حال الکراه أسقط عنه أحکام الکفر، کذٰلك سقط عن المکره ما دون الکفر لإن الأعظم إذا سقط سقط ما هو دونه من باب أولىٰ (الام:٣،٢٧٠)
’’ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حالتِ اکراہ میں کلمۂ کفر کہنے میں رخصت عنایت کی ہے اور اس سےکفریہ احکام ساقط کیے ہیں، بالکل اسی طرح کفر کے علاوہ دیگر چیزیں بھی مجبور سے ساقط ہوجائیں گی، کیونکہ جب بڑا گناہ ساقط ہوگیا تو چھوٹے گناہ تو بالاولیٰ ساقط ہوجائیں گے۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إن اﷲ وضع عن أمتي الخطأ والنسیان وما استُکرهوا علیه» (سنن ابن ماجہ:٢٠٤٥)
’’اللہ تعالیٰ نے میری اُمت سے خطا و نسیان اورمجبوری سے کیے جانے والے کام معاف کر دئیے ہیں۔‘‘
ابن قیم الجوزیہ کہتے ہیں:’’ مکرہ کی کسی کلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، قرآنِ کریم بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیاجائے، وہ کافر نہیں ہو گا اور اسی طرح جو اسلام کے لیے مجبور کیاجائے، اسے مسلمان بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ سنت میں بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور شخص سے تجاوز کیا ہے اور اس کو مؤاخذے سے بری قرار دیا ہے……اس کے بعد امام ابن قیم اقوال اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اَقوال میں اکراہ اور افعال میں اکراہ کے مابین فرق یہ ہے کہ افعال کے وقوع پذیر ہو جانے کے بعد اس کے مفاسد کا خاتمہ ناممکن ہے۔ جبکہ اقوال کے مفاسد کو سوئے ہوئے اور مجنون پر قیاس کرتے ہوئے دور کیا جا سکتا ہے۔‘‘(زاد المعاد:٥؍٢٠٥،٢٠٦)
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اکراہ (جبر) کی ایک تقسیم درست اور غیر درست کے اعتبار سے بھی کی گئی ہے۔غیر درست اکراہ تو وہ ہے کہ جس میں ظلم و زیادتی سے کوئی بات منوائی گئی ہو۔ جبکہ درست اِکراہ یہ ہے کہ جس میں حاکم کسی شخص کو اپنا مال بیچنے پر مجبور کرے تاکہ وہ اس سے اپنا قرض ادا کرے۔(جامع العلوم والحکم: ص٣٧٧)
یا وہ ایلاء کرنے والے کو طلاق دینے پر مجبور کرے جب کہ وہ رجوع کرنے سے انکا رکرے۔
اکراہ کی شرائط
اہل علم نے اکراہ کی درج ذیل شرائط کا تذکرہ کیا ہے:
١۔اکراہ اس شخص کی طرف سے ہو گا جو صاحب قدرت ہو جیسے حکمران۔
٢۔مجبور کو ظن غال ہو کہ اکر میں نے اس کی بات نہ مانی تو یہ وعید اور اپنی دھمکی کو نافذ کر دے گا اور مجبور اس سے بچنے یا بھاگنے سے عاجز ہو۔
٣۔اکراہ ایسی چیز سے ہو جس سے مجبور کو نقصان پہنچنے کا ڈر ہو۔(شرح الکبیر:٢؍٣٦٧)
ان شروط پر مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ نے اتفاق کا اظہار کیا ہے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگوں نے چند دیگر شرائط کا اضافہ بھی کیا ہے۔ ظاہر بات یہ ہے کہ اکراہ کی تحدید حاکم اور مفتی کے ساتھ خاص کی جائے گی اور انہی کے ثابت کردہ اکراہ کا اعتبار کیا جائے گا۔کیونکہ یہ لوگوں کے احوال کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔(الکفایة:٨؍١٦٨)
اکراہ کی صورت میں وقوع ِ طلاق
اس تحریر میں مجبوری کی طلاق کو موضوعِ بحث بنانے کا مقصد اس قضیے کا حل ہے کہ ایسی طلاق وقوع پذیرہوتی ہے یا نہیں؟
امام مالک، شافعی،احمد اور داؤد ظاہری کے نزدیک ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہی قول عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابن عمر، ابن زبیر، ابن عباس اور دیگر کثیر جماعت کا ہے۔ جبکہ امام ابوحنیفہ اور ان کے صاحبین نے اس طلاق کے وقوع کا موقف اختیار کیاہے اور یہی موقف شعبی، نخعی اور ثوری کا بھی ہے۔(الکفایة والعنایة:٣؍٣٤٤)
سبب ِاختلاف یہ ہے کہ مجبور کیا جانے والا مختار ہے یا نہیں؟ کیونکہ طلاق کے الفاظ بولنے والے کا ارادہ تو طلاق دینے کا نہیں ہوتا اور وہ تو اپنے تئیں دو برائیوں میں سے کم تر برائی کو اختیار کر رہا ہوتا ہے اور وہ مجبور کرنے والے کی وعید سے بچنے کے لیے طلاق دینے کو اختیار کر لیتا ہے ۔
اَحناف اور ان کے مؤیدین کے دلائل
١۔نصب الرایة میں ہے کہ ایک آدمی سو رہا تھا کہ اس کی بیوی نے چھری پکڑ کر اس کے گلے پر رکھی اور دھمکی دی کہ تو مجھے طلاق دے، ورنہ میں تیرا کام تمام کردوں گی۔ اس شخص نے اسے اللہ کا واسطہ دیا لیکن وہ نہ مانی۔لہٰذا اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ پھر وہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اور تمام ماجرا بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا:
«لاقیلولة في الطلاق» (نصب الرایة:٣؍٢٢٢) ’’طلاق میں کوئی فسخ نہیں ہے۔‘‘
٢۔ابوہریرہ سے روایت ہے:
«ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح والطلاق والرجعة» (سنن ترمذی: ١١٨٤)
’’تین چیزوں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے۔ نکاح، طلاق اور رجوع۔‘‘
اَحناف اس حدیث سے اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ مذاق کرنے والے کا مقصد تو وقوعِ طلاق نہیں ہوتا بلکہ اس نے فقط لفظ کا ارادہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی طلاق کا واقع ہونا واضح کرتا ہے کہ مجرد لفظ کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس طرح مجبور کو بھی مذاق کرنے والے پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ دونوں کا مقصود لفظ ہوتا ہے ،معنیٰ مراد نہیں ہوتا۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٣۔حضرت عمر سے مروی ہے:
أربع مبهمات مقفولات لیس فیهن رد: النکاح والطلاق، والعتاق والصدقة (ايضاً)
’’چار مبہم چیزیں بند کی ہوئی ان میں واپسی نہیں ہو سکتی:نکاح،طلاق، آزادی اور صدقہ‘‘
٤۔ایک حدیث حضرت حذیفہؓ اور ان کے والدِ گرامی سے متعلق ہے جب ان دونوں سے مشرکین نے نہ لڑنے کا حلف لیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«نفى لهم بعهدهم ونستعین اﷲ علیهم» (صحیح مسلم:١٧٨٧)
’’ ہم ان سے معاہدہ پورا کریں گے اور اللہ سے ان کے خلاف مدد مانگیں گے۔‘‘
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قسم حالت اکراہ اور غیر اکراہ میں برابرہے۔لہٰذا مجرد لفظ کے ساتھ کسی حکم کی نفی کے لیے اکراہ کو معتبر نہیں مانا جائے گا۔ جیسا کہ طلاق۔(فتح القدیر:٣؍٣٤٤)
٥۔اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں طلاق ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس پر غیر مجبور کی طلاق کے احکام مرتب ہوں گے۔(الهدایة: ٣؍٣٤٤)
دلائل کا جائزہ
١۔سب سے پہلے نقل کی جانے والی حدیث: لا قیلولة في الطلاق ضعیف ہے۔ امام ابن حزم اس کے متعلق فرماتے ہیں : ’’هٰذا خبر في غایة السقوط‘‘(المحلیٰ:١٠؍٣٠٤) لہٰذا اس سے استدلال بھی ساقط ہوا۔
٢۔اور جو«ثلاث جدهن جد…» سے استدلال کرتے ہوئے مکرہ کو مذاق کرنے والے پر قیاس کیاگیا ہے تو یہ قیاس درست نہیں ہے۔(تہذیب السنن لابن القیم:٦؍١٨٨)
کیونکہ مجبور شخص نہ تو لفظ کا ارادہ کرتا ہے اور نہ اس کے سبب کا وہ تو لفظ کے بولنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ،اگرچہ قصد پر مجبور نہیں ہوتا جب کہ مذاق کرنے والا تو لفظ طلاق اپنے اختیار سے بولتا ہے اگرچہ اس کے سبب کا قصد نہیں کرتا۔لہذا جو شخص اپنے اختیار سے سبب کو اختیار کرے اس پر تو مسبب لازم ہو جائے گا،جیسے مذاق کرنے والا ہے ،لیکن مجبور نہ تو لفظ کا ا رادہ کرتا ہے نہ اس کے سبب کا تو اسے مذاق کرنے والے پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟
٣۔ذکر کردہ حضرت عمرؓ کا قول ہمیں نہیں ملا۔ اگر ہم اس کی صحت کا اعتبار کر بھی لیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب طلاق واقع ہوجائے گی تو پھر دوبارہ لوٹناممکن نہیں رہے گا جبکہ مکرہ کی طلاق تو واقع ہی نہیں ہوئی۔ وہ تو مجبوری کی بنا پر صرف اور صرف لفظ بول رہا ہے۔تاکہ وہ مجبور کرنے والے سے بچ سکےجب کہ حضرت عمرکے متعلق صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اُنہوں نے مکرہ کی طلاق کو لغو قرار دیا۔(زاد المعاد:٥؍٢٠٦ تا ٢٠٩)
٤۔اور جو حضرت حذیفہ اور ان کے والد کا واقعہ سامنے رکھتے ہوئے طلاق کو قسم پر قیاس کیا گیا ہے اور ان دونوں کومجرد لفظ کے ساتھ متعلق کیا گیاہے۔
تو اس کا جواب بھی یہ ہے کہ یہ قیاس درست نہیں ہے، کیونکہ طلاق میں صرف لفظ کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لیے متکلم کا ارادہ اور اس کے مدلولات کا علم ضروری ہے، کیونکہ شارع نے سوئے ہوئے، بھولنے والے اور پاگل کی طلاق کو واقع نہیں کیا ۔(ایضاً:٥؍٢٠٤،٢٠٥)
اس سے یقیناً ان دونوں کے مابین فرق نظر آتا ہے لہٰذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔
٥۔اس سے استدلال کہ یہ طلاق مکلّف کی طرف سے ایسے محل میں ہے جس کا وہ مالک ہے لہٰذا اس کی طلاق کی تنفیذ اسی طرح ہوگی جس طرح غیر مکرہ کی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اس سے ملتے جلتے دیگر دلائل کا جائزہ لے چکے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکرہ کو غیر مکرہ پر قیاس کرنا کسی طوربھی مناسب نہیں ہے۔اس کی تردید دوسرے قول کے دلائل سے بھی ہو جائے گی جو ہم ذکر کرنے والے ہیں۔
مجبوری کی طلاق کے غیر معتبر ہونےپر جمہورکے دلائل
١۔حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے ہوئے سنا:
«لا طلاق ولا عتاق في غلاق» (مسند احمد:٦؍٢٧٦)
’’زبردستی کی کوئی طلاق اور آزادی نہیں ہے۔‘‘
اور اِکراہ زبردستی میں شامل ہے، کیونکہ مجبورومکرہ شخص تصرف کا حق کھو بیٹھتاہے۔
٢۔حضرت علی ؓسے موقوفاً روایت ہے:
’’کل طلاق جائز إلا طلاق المعتوه والمكره‘‘(سنن ترمذی : ١١٩١)
’’دیوانے اور مكره کے سوا ہرایک کی طلاق جائز ہے۔‘‘
٣۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عباس کا قول ہے:
’’طلاق السکران والمستکره لیس بجائز‘‘(صحیح بخاری، ترجمة الباب : باب الطلاق فی الغلاق)
’’مجبوری اور نشے کی حالت میں طلاق جائز نہیں ہے۔‘‘
٤۔ثابت بن احنف نے عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب کی اُمّ ولد سے نکاح کرلیا۔ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب نے مجھے بلایا۔میں اُن کے ہاں آیا تو وہاں دو غلام کوڑے اور زنجیریں پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس نے مجھ سے کہا: تو نے میرے باپ کی اُمّ ولد سے میری رضا کے بغیر نکاح کیاہے۔ میں تجھے موت کے گھاٹ اُتار دوں گا۔ پھر کہنے لگا: تو طلاق دیتا ہے یا میں کچھ کروں؟ تومیں نے کہا: ہزار بار طلاق۔ میں اس کے ہاں سے نکل کرعبداللہ بن عمر ؓکے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: یہ طلاق نہیں ہے، اپنی بیوی کے پاس چلا جا۔ پھر میں عبداللہ بن زبیر کے پاس آیا تو اُنہوں نے بھی یہی فرمایا۔(مؤطا امام مالک، کتاب الطلاق، باب جامع الطلاق: ١٢٤٥)
٥۔چونکہ یہ قول زبردستی منوایا جاتا ہے، اس لیے یہ کوئی تاثیر نہیں رکھتا۔ جیسا کہ مجبوری کی حالت میں کلمۂ کفر کہنا۔(المغنی:١٠؍٣٥١، زادالمعاد:٥؍٢٠٤)
بیان کردہ عمومی دلائل سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ مکرہ کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
راجح موقف
بیان کردہ دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ مکرہ کی طلاق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جمہور کے موقف کو ترجیح دینے کی درج ذیل وجوہات ہیں:
١۔جمہور کے دلائل کا قوی ہونا۔
٢۔احناف کے دلائل کا کمزور ہونا،کیونکہ ان پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں۔
٣۔یہی موقف اُصولِ شریعہ اور قواعد کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیوں کا رد ہو جاتا ہے ۔ شیخ احمد دہلوی کہتے ہیں:
’’اگر مکرہ کی طلاق کو طلاق شمار کیا جائے تو اس سے زبردستی کا دروازہ کھل جائے گا اور بعید نہیں ہے کہ کوئی طاقتور اسی دروازہ سے کمزور کی بیوی کو چھین لے۔ جب بھی اس کے دل کو کوئی خاتون بھلی لگے، وہ تلوار کے زور پر زبردستی طلاق دلوائے گا۔ لیکن جب اس قسم کی اُمیدوں کا سدباب کر دیا جائے گا تو لوگ ان مظالم سے بچے رہیں گے جو اکراہ کی وجہ سے پیش آسکتے ہیں۔‘‘(حجۃ البالغۃ:2؍138)
بہت سے محققین اسی موقف کے حامل نظر آتے ہیں، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ(مجموع الفتاویٰ:٣٣؍١١٠)، ابن قیم (زادالمعاد: ٥؍٣٠٤)، امام شوکانی(نیل الوطار:٦؍٢٦٥) اور نواب صدیق بن حسن قنوجی(الروضة الندیة:٢؍٤٢) شامل ہیں۔