١٠ مولانا عبد الحلیم شرر اور ان کی کتبِ سیرت از محمد ساجد صدیقی
مولانا عبدالحلیم شرر ١٨٦٠ء میں مشہورادبی شہر لکھنؤ کے محلہ جھنوائی ٹولہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کا سلسلہ نسب عباسی خلیفہ امین الرشید سے جا ملتا ہے ۔یعنی آپ ہاشمی و عباسی ہیں ۔ [تراجم علمائے حدیث ہنداز ابو یحیٰ امام خان نوشہری : ٥٢٢]۔ مختصر شجرہ نسب یوں ہے۔عبدالحلیم شرر بن تفضل حسن (عبدالرحیم ) بن مولوی محمد بن مولوی نظام الدین۔
[عبدالحلیم شرر بہ حیثیت ناول نگار از ڈاکٹر علی احمد فاطمی بحوالہ دلگداز۔جنوری ١٩٣٣ء ص١١]۔
سات یا آٹھ برس کی عمر میں ان کے والد نے انہیں لکھنؤ(جہاں وہ اپنی والدہ کے پاس تھے۔) سے اپنے پاس بغرض تعلیم کلکتہ بلوالیا۔اس طرح انہیں انتہائی کم عمری میں ہی والدہ کی گوشئہ عافیت سے دور ہونا پڑا۔عبد الحلیم شرر مٹیابرج میں انتہائی تیزی اور ذہانت سے دینی علوم حاصل کرنے لگے۔وہیں ان کو شہزادوں کی صحبت میسر آئی۔جہاں سے کچھ خرافات کا اثر ان کے اخلاق میں پڑا مگر ان کی ادبی شوق و ذوق کی بھی تر بیت یہاں ہی ہوئی ۔خراب صحبت کی وجہ سے والد نے انہیں دوبارہ لکھنؤ بھیج دیا۔لکھنؤ میں انہوں نے مشہور عالم علّامہ ابو الحسنات عبدالحی حنفی لکھنوی سے بعض کتبِ درسیہ کی تحصیل کی ۔پھر ایک شیعہ عالم حامد حسین کے پاس بغرض علم ملازمت کی۔
عبدالحلیم شرر کی زندگی میں اصل انقلاب اُس وقت آیا جب مولوی نور محمد صاحب ملتانی تلمیذ مولانا عبدالحی سے شرح نخبہ پڑھی اور جامع ترمذی کے پڑھنے کے دوران ہی ان کے قلب میں علم حدیث کی محبت اتنی شدت سے بڑھی کہ آپ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حلقہ درس میں شامل ہونے کے لیے دہلی پہنچ گئے اپنے شوق و جستجو کی بدولت صرف ڈیڑھ سال میں صحاح ستہ، موطا امام مالک اور تفسیر جلالین پڑھ کر واپس اپنے وطن لکھنؤ پہنچے۔[تراجم علمائے حدیث ہند]
مولانا کی پہلی دینی اور ادبی خدمت شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی مایہ ناز کتاب ”کتا ب التوحید ”کا اُردو میں ترجمہ ہے۔ [ماہنامہ ”دلگداز” نومبر ١٩٣٣ء بحوالہ عبدالحلیم شرربحیثیت ناول نگارازڈاکٹر علی احمد فاطمی].
”کتاب التوحید”سے اپنی علمی اور تصنیفی زندگی سے ابتداء کرنا ان کے لیے بہت مبارک اور باعثِ برکت ثابت ہوا۔ دہلی ہی میں انہیں مضمون نگاری کا شوق ہوا۔اِس کے علاوہ انہوں نے شاعری بھی کی اور اپنا تخلص”شرر”رکھا۔ پھر وہ اودھ اخبار میں بحیثیت سب ایڈیٹر ملازم ہوگئے۔جہاں انہوں نے مختلف علمی ، دینی، ادبی اور فلسفیانہ مضامین لکھے۔ اس طرح اُن کے اسلوب تحریر اور ذوق ادب میں نکھار پیدا ہوا۔
مولانا کی شہرت کا اہم سبب ناول نگاری ہے۔اُ ن کے ناولوں نے بالخصوص تاریخی ناولوں نے اردو ادب کو ایک نئی جہت دی۔انہوں نے تاریخی واقعات خصوصاًاسلامی تاریخی واقعات کو ناولوں کے ذریعے اس عمدگی سے بیان کیا ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے۔مولانا نے متعدد ناول اور مضامین کے علاوہ سوانح عمری ، کتبِ تاریخ ،ڈرامے اور منظومات بھی لکھیں ۔جن کی تعداد تقریباً١٠٠ ہیں۔اردو ادب کے اس بے نظیر ادیب نے ١٧جمادی الثانی بروز جمعہ بمطابق ١٠ جنوری ١٩٢٦ء میں اس دنیائے فانی کو خیر باد کہہ دیا۔انا للہ واناالیہ راجعون۔ [عبدالحلیم شرر بہ حیثیت ناول نگار از ڈاکٹر علی احمد فاطمی ص١٤٦ ، انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی]
مولانا شرر نے اپنی پوری زندگی تاریخ و ادب اسلامی کے لیے وقف رکھی ۔ افسوس ہے کہ ایسے جلیل القدر ادیب کی ہماری علمی دنیا نے قدر نہیں کی ۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں :
"آج بازار میں شرر صاحب کا نام ماند پڑگیا ہے ، کل ” حشر و الے کل ” سے قبل ہی انشاء اللہ اسی دنیا میں پھر ابھرے گا ، جس وقت مسلمان اپنے خادموں کی تاریخ مرتب کرنا شروع کریں گے ۔ ” [معاصرین : ١١٨]
عبدالحلیم شرر کی کتب سیرت کا ایک جائزہ
ہمیں عبدالحلیم شرر کی سیرت مبارکہ ۖ کے متعلق تین کتب کا علم ہوسکا ہے۔
(١)جو یائے حق
(٢)ختم المرسلین
(٣)ولادت سرور عالم
جو یائے حق
جو یائے حق ایک تاریخی ناول ہے ۔جس کا بنیادی کردار حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ذات گرامی کو بنایاگیاہے۔اس ناول میں حضرت سلمان فارسی خطوط کے ذریعے (جو وہ ایک عیسائی عالم ”بحیرا”کو لکھتے ہیں)نبی کریم ۖ کی پوری حیات مبارکہ ،عربوں کا طرز زندگی ،نبی کریم ۖکا حسن سلوک، یہودیوں کی چالبازیاں ،صحابہ کا نبی کریم ۖسے والہانہ محبت ، جنگوں میں مسلمانوں کی بہادری و آرزوئے شہادت، فتح مکہ، نبی کریم ۖ کا وصال ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے حالات اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ِخلافت کو بھی بیان کیا ہے۔
ناول ہونے کی وجہ سے” جویائے حق ”میں منظر نگاری اور تخیلاتی جھلک موجود ہے لیکن عبدالحلیم شرر نے تاریخی واقعات کو عمدگی سے تخیل چمن سے سجاکر انتہائی مہارت سے پیش کیا ہے اور تاریخی واقعات کو تخیلات میں ضم ہونے سے بچالیا ہے۔ڈاکٹر علی احمد فاطمی لکھتے ہیں:
”یہ ناول جو دراصل ناول نہیں ہے بلکہ ایک مکمل تاریخی کتاب ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ٹھوس تاریخیت زیادہ ہے اور قصہ پن کم اس کی وجہ اس موضوع کی نزاکت ہے۔تاریخی مقصد کو ناول کی شکل دینے کے لیے تخیل کی نیرنگیاں دکھانا لازمی ہے۔لیکن اس مقدس و محترم موضوع میں تخیل کی باگ ڈور کو پورے ہوش و ہواس کے ساتھ قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے یہ ناول کم ایک تاریخی کتاب زیادہ ہے۔سیدھی اور ٹھوس عالمانہ قدروں سے بھرپور ایک مذہبی کتاب۔”[عبدالحلیم شرر بہ حیثیت ناول نگار ص٢٩٧]
” جویائے حق ” کے متعلق مولانا حسن مثنیٰ ندوی لکھتے ہیں:
”ہم مولانا عبدالحلیم شرر کی ضخیم کتاب ”جویائے حق”کو نظر انداز نہیں کرسکتے جو اپنے طرز کی نرالی کتاب ہے ۔ اس میں انہوں نے حضرت سلمان فارسی کی زندگی اس انداز میں پیش کی ہے کہ ان کی زبان سے سیرت نبوی نہایت ہی موثر انداز میں بطرز ناول بیان ہوجاتی ہے اور پڑھنے والا اسے ختم کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔”[برصغیر کے خادمین سیرت مشمولہ مضمون کتاب ” پیغمبر انسانیت ” از مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی]
ولادت سرور عالم
یہ رسالہ امام ابن جوزی کی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ [تراجم علمائے حدیث ہند از ابو یحیٰ امام خان نوشہروی : ١/ ٥٤١]
خاتم المرسلین
ابو یحییٰ امام خان نوشہری نے مولانا عبدالحلیم شرر کی تاریخی کتب میں اسے شامل کیا ہے۔ تفصیلات کا علم نہیں ہوسکا۔[تراجم علمائے حدیث ہند:٥٤١]