اگر ہم (مرد وخواتین) اس تعلیم کو نہیں سیکھیں گے تو معاشرہ سے کٹ نہیں جائیں گے ؟ یا پھر اس تعلیم کو سیکھ کر اسی تعلیم میں ہی ان کا مقابلہ کرنا بہتر ہے؟
گڈ مسلم بھائی۔
پہلی بات تو یہاں پر خواتین کی تعلیم کے نقصانات بیان ہو رہے ہیں،نہ کہ مرودوں کی تعلیم کے۔اس لیے ہائی لائٹ کئے گئے الفاظ میں سے مرد نکال دیں۔
دوسری بات:
اگر خواتین موجودہ نظام تعلیم میں معاشرے کا مقابلہ کرنے لگیں گے تو سوائے امت کی بربادی کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
ہاں جب اس میدان میں مرد کافی و شافی ہیں تو پھر عورتوں کو خوامخواہ گھسیٹنے کا فائدہ؟
ٹاپ گریڈ یا لو گریڈ فیلڈ ہو۔وضاحت کر دیں کہ کیا کسی بھی فیلڈ میں مرد دنیا کا مقابلہ کرنےکے لیے کافی نہیں؟اگر نہیں ہیں تو پھر خواتین کو بھی زحمت دی جائے۔
شاکر بھائی کے سوال کا جواب:
اصل سوال یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کے خواتین کے مخصوص مسائل کے لئے کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھانا پسند کریں گے یا مرد ڈاکٹر کو؟
اس کے دو حصے ہیں،جس سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
پہلا حصہ:چونکہ معاشرے میں خواتین کا کالج،یونیورسٹی میں جاکر مخلوط تعلیم حاصل کرنا کسی فتنے سے کم نہیں۔یہ ایسی جگہ ہے جہاں ایک وقت میں بہت سے احکام ربانی کی مخالفت ہوتی ہے۔
مثلاً:مخلوط ہونا،عورت کا محرم کے بغیر کئی کئی دن تک مسافت(یعنی ہوسٹل میں قیام)غیرمحرم سے کلام(وہ استاد ہو یا کلاس فیلو)بے پردگی(آواز کی ہو یا یونیوفارم کی)مشترکہ اسائنمنٹس میں کام کرنے کی قباحت،اکثر ڈاکٹر،انجینئیر،ایم بے اے،یا باقی شعبوں میں تعلیم یافتہ خواتین ازدواجی زندگی کے بعد گھر تک ہی محدود ہوجاتی ہیں(جس سے ملک و قوم کا سرمایہ برباد ہوتا ہے)،اور جس چیز کو بنیاد بنایا جاتا ہے کہ ایک عورت کا علاج ایک عورت کرے اور مرد کا علاج مرد کرے۔تو یہ بھی سارا فراڈ ہے۔کیونکہ ہسپتال میں میل اور فیمیل ڈاکٹر ایک جگہ ہوتے ہیں،جہاں شرم و حیاء کی ساری حدیں پھلانگ لی جاتی ہیں۔اور ایک مریض کا علاج مرد بھی کر رہا ہوتا ہے اور عورت بھی۔بعض اوقات تو ہاوس جاب میں میل اور فیمیل ڈاکٹر کو ایک ساتھ ٹاسک دئے جاتے ہیں۔اور پچاس سال سے مخلوط نظام چلانے کے بعد بھی ہم کسی سنجیدہ مسئلے میں جب سینئر سے چیک اپ کروانے کا وقت لیتے ہیں تو وہ سینئر پروفیسر اکثر میل ہی ہوتا ہے۔
بہرحال ان سب قباحتوں سے پاک اگر آپ ایک نظام تعلیم قائم کر سکتے ہیں تو لڑکیوں کو تعلیم دی جا سکتی ہے،تاکہ عورتوں کا اعلاج کرنے والی عورتیں ہوں اور مردوں کا اعلاج کرنے والے مرد۔
لیکن چونکہ فلحال ایسے ادارے قائم نہیں ہیں اس لیے دوسرے حصے پر عمل کرنا مناسب ہوگا۔
جب تک یہ قباحتیں موجود ہیں تو پھر ایک قباحت کو دلیل بنا کر امت مسلمہ کی بیٹیوں کو خونخوار دندوں کے حوالے مت کریں۔کالج یونیورسٹی میں ہونے والے گناہوں اور قباحتوں سے ایک سو ایک درجے چھوٹی قباحت ہے کہ ایک عورت کا اعلاج ایک مرد کرے۔
اس لیے فلحال عورتوں اور مردوں کا اعلاج مردوں کو ہی کرنے دیا جائے۔
کیونکہ مجھے ایک دلیل یاد پڑتی ہے کہ
جنگ میں صحابیات زخمیوں کی مرحم پٹی کیا کرتی تھیں،اور پانی پلایا کرتی تھیں،تو میرے خیال میں وہاں پر بھی ایک جنس دوسری جنس کا علاج کرتی تھی،جس سے دلیل ملتی ہے کہ مجبوری کے تحت دوسری جنس سے علاج کروایا جا سکتا ہے۔باقی دعوت دی جائے اور منظم انداز سے کیس لڑا جائے جس سے عورتوں کے الگ ادارے قائم ہو جائیں۔چاہے پہلے مرحلے میں میل ہی استاد بن جائیں۔لیکن آہتہ آہستہ میل کی جگہ فیمیل ٹیچرز لائی جائیں۔اور پھر ایک ایسا نظام قائم ہو جائے گا کہ میل کا علاج میل اور فیمیل کا علاج فیمیل۔
نوٹ:یہ سب میری رائے ہے۔اگر کسی جگہ پر شریعت کی رو سے غلطی نظر آئے تو اصلاح فرما دینا۔جزاک اللہ خیرا۔