• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجھ سے عبرت لے لو او ایسا مت کرو

شمولیت
مارچ 25، 2013
پیغامات
94
ری ایکشن اسکور
232
پوائنٹ
32
میری پوسٹ میں بھی "عصری تعلیم" سے مراد وہ نظام تعلیم نہیں ہے جو ہمارے ملک میں رائج ہے، بلکہ ایسی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم ہے جس سے لڑکیوں کے ایمان و عقائد اور اختلاقیات پر برے اثرات مرتب نہ ہوں۔
جزاک اللہ خیرا
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
عورت کی تعلیم کے خلاف کوئی بھی نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ تعلیم کس چیز کی ؟
ڈاروں کے نظریہ ارتقا کی ؟
عشقیہ داستانوں کی انگریزی پڑھانے کے نام پر ؟
فراز کی عشقیہ اردو شاعری کی ؟
کس کی ؟
حقیقت یہ ہے کہ سکول اور کالج کی تعلیم یہی ہے

اور مدارس میں خرابیاں ہیں لیکن مسلمانوں کا اصل نظام تعلیم یہی ہے
سکول وکالجز بھی خواتین کےلیے بند اور مدارس بھی خراب۔۔ تو پھر اس کا مطلب ہے عورت کو گھر ہی قید کیا جانا چاہیے۔ اور تعلیم دینی ہی نہیں چاہیے ؟
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میری پوسٹ میں بھی "عصری تعلیم" سے مراد وہ نظام تعلیم نہیں ہے جو ہمارے ملک میں رائج ہے، بلکہ ایسی جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم ہے جس سے لڑکیوں کے ایمان و عقائد اور اختلاقیات پر برے اثرات مرتب نہ ہوں۔
اگر ہم (مرد وخواتین) اس تعلیم کو نہیں سیکھیں گے تو معاشرہ سے کٹ نہیں جائیں گے ؟ یا پھر اس تعلیم کو سیکھ کر اسی تعلیم میں ہی ان کا مقابلہ کرنا بہتر ہے؟
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
گڈ مسلم بھائی لڑکیوں پڑھانا چاہئے لیکن یہ سوچیں کون سی چیز جو عصری علوم آج کل پڑھائے جاتے ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس میں ان کو کوئی فائدہ ہوتا ہے ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
گڈ مسلم بھائی لڑکیوں پڑھانا چاہئے لیکن یہ سوچیں کون سی چیز جو عصری علوم آج کل پڑھائے جاتے ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس میں ان کو کوئی فائدہ ہوتا ہے ۔
پہلے آپ اس کی نشاندہی کراسکتے ہیں کہ آج کل عصری علوم میں ٹاپ پہ کونسے علوم پڑھائے جاتے ہیں ؟ اور پھر آپ چند علوم کے نام لے کر بتائیں کہ ان علوم کا لڑکیوں کو پڑھانے کاکوئی فائدہ ہے؟ پھر میں کوشش کرونگا کہ آپ کو اس کے فوائد پر مطلع کرسکوں۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
پہلے آپ اس کی نشاندہی کراسکتے ہیں کہ آج کل عصری علوم میں ٹاپ پہ کونسے علوم پڑھائے جاتے ہیں ؟ اور پھر آپ چند علوم کے نام لے کر بتائیں کہ ان علوم کا لڑکیوں کو پڑھانے کاکوئی فائدہ ہے؟ پھر میں کوشش کرونگا کہ آپ کو اس کے فوائد پر مطلع کرسکوں۔
بھائی جان ڈاکٹر بنانا آج کل ٹاپ پر ہے لیکن جنا ب جب ڈاکٹر بنایا جاتا ہے تو اناٹومی ایک سبجکٹ ہے جس میں ایک لاش کو لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں جس میں ہر حصہ دیکھا جاتا ہے کیا یہ اخلاقی اور شرعی اعتبار سے ٹھیک ہے ۔ یہ تو سب سے معتبر اور معزز شعبہ کا حال ہے باقی آپ بتا دیں شعبے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
بھائی جان ڈاکٹر بنانا آج کل ٹاپ پر ہے لیکن جنا ب جب ڈاکٹر بنایا جاتا ہے تو اناٹومی ایک سبجکٹ ہے جس میں ایک لاش کو لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں جس میں ہر حصہ دیکھا جاتا ہے کیا یہ اخلاقی اور شرعی اعتبار سے ٹھیک ہے ۔ یہ تو سب سے معتبر اور معزز شعبہ کا حال ہے باقی آپ بتا دیں شعبے ۔
اصل سوال یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کے خواتین کے مخصوص مسائل کے لئے کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھانا پسند کریں گے یا مرد ڈاکٹر کو؟
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
اصل سوال یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کے خواتین کے مخصوص مسائل کے لئے کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھانا پسند کریں گے یا مرد ڈاکٹر کو؟
میں آج کے مروجہ نظام کے بارے میں کہہ رہا ہوں نہ کے اس شعبہ کے بارے میں ۔
 

بنت حوا

مبتدی
شمولیت
مارچ 09، 2013
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
246
پوائنٹ
0
اگر ہم (مرد وخواتین) اس تعلیم کو نہیں سیکھیں گے تو معاشرہ سے کٹ نہیں جائیں گے ؟ یا پھر اس تعلیم کو سیکھ کر اسی تعلیم میں ہی ان کا مقابلہ کرنا بہتر ہے؟
گڈ مسلم بھائی۔
پہلی بات تو یہاں پر خواتین کی تعلیم کے نقصانات بیان ہو رہے ہیں،نہ کہ مرودوں کی تعلیم کے۔اس لیے ہائی لائٹ کئے گئے الفاظ میں سے مرد نکال دیں۔
دوسری بات:
اگر خواتین موجودہ نظام تعلیم میں معاشرے کا مقابلہ کرنے لگیں گے تو سوائے امت کی بربادی کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
ہاں جب اس میدان میں مرد کافی و شافی ہیں تو پھر عورتوں کو خوامخواہ گھسیٹنے کا فائدہ؟
ٹاپ گریڈ یا لو گریڈ فیلڈ ہو۔وضاحت کر دیں کہ کیا کسی بھی فیلڈ میں مرد دنیا کا مقابلہ کرنےکے لیے کافی نہیں؟اگر نہیں ہیں تو پھر خواتین کو بھی زحمت دی جائے۔

شاکر بھائی کے سوال کا جواب:
اصل سوال یہ ہے کہ آپ اپنی بیوی کے خواتین کے مخصوص مسائل کے لئے کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھانا پسند کریں گے یا مرد ڈاکٹر کو؟
اس کے دو حصے ہیں،جس سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
پہلا حصہ:چونکہ معاشرے میں خواتین کا کالج،یونیورسٹی میں جاکر مخلوط تعلیم حاصل کرنا کسی فتنے سے کم نہیں۔یہ ایسی جگہ ہے جہاں ایک وقت میں بہت سے احکام ربانی کی مخالفت ہوتی ہے۔
مثلاً:مخلوط ہونا،عورت کا محرم کے بغیر کئی کئی دن تک مسافت(یعنی ہوسٹل میں قیام)غیرمحرم سے کلام(وہ استاد ہو یا کلاس فیلو)بے پردگی(آواز کی ہو یا یونیوفارم کی)مشترکہ اسائنمنٹس میں کام کرنے کی قباحت،اکثر ڈاکٹر،انجینئیر،ایم بے اے،یا باقی شعبوں میں تعلیم یافتہ خواتین ازدواجی زندگی کے بعد گھر تک ہی محدود ہوجاتی ہیں(جس سے ملک و قوم کا سرمایہ برباد ہوتا ہے)،اور جس چیز کو بنیاد بنایا جاتا ہے کہ ایک عورت کا علاج ایک عورت کرے اور مرد کا علاج مرد کرے۔تو یہ بھی سارا فراڈ ہے۔کیونکہ ہسپتال میں میل اور فیمیل ڈاکٹر ایک جگہ ہوتے ہیں،جہاں شرم و حیاء کی ساری حدیں پھلانگ لی جاتی ہیں۔اور ایک مریض کا علاج مرد بھی کر رہا ہوتا ہے اور عورت بھی۔بعض اوقات تو ہاوس جاب میں میل اور فیمیل ڈاکٹر کو ایک ساتھ ٹاسک دئے جاتے ہیں۔اور پچاس سال سے مخلوط نظام چلانے کے بعد بھی ہم کسی سنجیدہ مسئلے میں جب سینئر سے چیک اپ کروانے کا وقت لیتے ہیں تو وہ سینئر پروفیسر اکثر میل ہی ہوتا ہے۔
بہرحال ان سب قباحتوں سے پاک اگر آپ ایک نظام تعلیم قائم کر سکتے ہیں تو لڑکیوں کو تعلیم دی جا سکتی ہے،تاکہ عورتوں کا اعلاج کرنے والی عورتیں ہوں اور مردوں کا اعلاج کرنے والے مرد۔
لیکن چونکہ فلحال ایسے ادارے قائم نہیں ہیں اس لیے دوسرے حصے پر عمل کرنا مناسب ہوگا۔
جب تک یہ قباحتیں موجود ہیں تو پھر ایک قباحت کو دلیل بنا کر امت مسلمہ کی بیٹیوں کو خونخوار دندوں کے حوالے مت کریں۔کالج یونیورسٹی میں ہونے والے گناہوں اور قباحتوں سے ایک سو ایک درجے چھوٹی قباحت ہے کہ ایک عورت کا اعلاج ایک مرد کرے۔
اس لیے فلحال عورتوں اور مردوں کا اعلاج مردوں کو ہی کرنے دیا جائے۔
کیونکہ مجھے ایک دلیل یاد پڑتی ہے کہ جنگ میں صحابیات زخمیوں کی مرحم پٹی کیا کرتی تھیں،اور پانی پلایا کرتی تھیں،تو میرے خیال میں وہاں پر بھی ایک جنس دوسری جنس کا علاج کرتی تھی،جس سے دلیل ملتی ہے کہ مجبوری کے تحت دوسری جنس سے علاج کروایا جا سکتا ہے۔باقی دعوت دی جائے اور منظم انداز سے کیس لڑا جائے جس سے عورتوں کے الگ ادارے قائم ہو جائیں۔چاہے پہلے مرحلے میں میل ہی استاد بن جائیں۔لیکن آہتہ آہستہ میل کی جگہ فیمیل ٹیچرز لائی جائیں۔اور پھر ایک ایسا نظام قائم ہو جائے گا کہ میل کا علاج میل اور فیمیل کا علاج فیمیل۔
نوٹ:یہ سب میری رائے ہے۔اگر کسی جگہ پر شریعت کی رو سے غلطی نظر آئے تو اصلاح فرما دینا۔جزاک اللہ خیرا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جی دیکھ لیں ، کہ ہماری کالجز یونیورسٹیاں کس طرف جارہی ہیں ؟ اور ان میں کسی شریف آدمی کو کس رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے :
” ڈانس پارٹی “کی شان میں گستاخی:گولڈ میڈلسٹ طالب علم یونیورسٹی سے بیدخل

تحریر : محمد عاصم حفیظ
سید کاشان حیدرگیلانی ایگری کلچر یونیورسٹی فیصل آباد کا طالب تھا۔بیچارے نے اپنی ساری جوانی پڑھائی میں محنت کرتے گزار دی ۔ اسی یونیورسٹی سے بیچلرز میں گولڈ میڈل لیا ، ایم ایس میں بھی پہلی پوزیشن لیکر گولڈ میڈل جیتا اور اب پی ایچ ڈی کا اسٹوڈنٹ تھا۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ ہمارا ملک تو کب کا ©©”لبرل ازم“ اور روشن خیالی کی تمام حدیں پار کر چکا ہے ۔ یونیورسٹی نے تین روزہ کسان میلے کے نام پر شرکاءاور طلبا و طالبات کی ” ذہنی و روحانی تسکین“ کے لئے ڈانس پارٹی ، ناچ گانے کا بھی اہتمام کیا۔ دنیا و جہاں سے بے خبر اس ” مجرم “ نے اپنے فیس بک اکاو¿نٹ پر اس حوالے سے چند جملے لکھ ڈالے جن میں صرف اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں میں اس طرح کی سرگرمیاں طلبہ و طالبات کے لئے ہرگز مفید نہیں ۔ فیس بک پر اس کے اس اظہار خیال اور یونیورسٹی انتظامیہ کے سجائے رقص و سرور کے میلے کی شان میں گستاخی کا بہت برا منایا گیا۔ بھلا آج کے پاکستان میں کوئی جرات بھی کیسے کر سکتا ہے کہ تعلیم کے لئے انتہائی مفید ایسی سرگرمیوں میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرے ۔ اسے سخت ترین نوٹس دیا گیا ۔ بیچارے نے بہت منت سماجت کی کہ غلطی ہو گئی جی ۔ یہ تو محض میرا ذاتی اظہار خیال تھا ۔ معافی نامہ بھی جمع کرا دیا۔ لیکن جرم ہی اتنا بڑا تھا کہ معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ جب وزیر اعظم صاحب ملک کو لبرل بنانے کا اعلان کریں ۔پردہ کرنے پر یونیورسٹیاں داخلہ تک دینے سے انکا ر کر دیں تو وہاں پر ایک ایسی ” بامقصد“ محفل کی شان میں گستاخی کرنا واقعی سنگین ترین جرم ہوتا ہے ۔ ایک ہی یونیورسٹی سے دو گولڈ میڈل لینے والے پر تو ادارے فخر کیا کرتے ہیں لیکن سید کاشان حیدر کی غداری بہت گھناونا جرم تھا جس کی پاداش میں اسے یونیورسٹی سے ہی بیدخل کر دیا گیا۔ اب بیچارہ اپنی ڈگریاں اٹھائے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے ۔ یہ صرف ایک طالب علم کو دی جانیوالی سزا نہیں بلکہ اس سے ہر اس کو پیغام دیا گیا ہے جو کہ ایسی کسی بھی ”حرکت“ کا خیال ذہن میں رکھتا ہے۔ یہ ثابت ہوا کہ اب یہاں کسی بھی ایسی روایات اور سرگرمی کو روکنا تو بہت دور کی بات اس کی شان میں گستاخی بھی برداشت نہیں کی جائے گی ۔ ہو سکتا ہے کہ بہت جلد تعلیمی اداروں اور سرکاری محکموں کے داخلہ فارمزو تعیناتی کے احکامات میں یہ درج کر دیا جائے کہ کہیں آپ نماز ، روزے جیسی قدیم زمانے والی عادات کے عادی تو نہیں ؟ معاشرے میں روشن خیالی کے پھیلاو¿ میں کس حد تک تعاون کریںگے؟
ڈانس و موسیقی میں کس قدر مہارت رکھتے ہیں ؟ اور ایسی ہی معلومات کی بنا کر داخلے دئیے جائیں گے تاکہ سید کاشان حیدر گیلانی جیسے سرپھرے تعلیمی اداروں کے پرامن ماحول کو خراب نہ کر سکیں ۔
ہمارے ہاں آزادی اظہار کے نعرے اور حریت فکر کی باتیں صرف ایک مخصوص طبقے کے لئے ہی رہ گئی ہیں ۔ اگر آپ کو دین ، تاریخ اسلام ، پاکستان کیوں بنا ؟ مدارس جہالت کی فیکٹریاں ، دو قومی نظریے کے نقصانات ، علمائے کرام اور دینی طبقے پر تنقید کرنی ہے تو آپ کے لئے آزادی اظہار رائے موجود ہے ۔ لیکن اگر آپ کا ارادہ ملک میں معاشرتی بدحالی ، غیر ملکی کلچر کے فروغ، روشن خیالی اور لبرل ازم کے نام پر سجائی جانیوالی محفلوں کو زیر بحث لانے کا ہے تو کسی بھی صورت میں اظہار خیال کا حق نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے والوں کا اٹل فیصلہ ہے کہ اب اس ارض پاکستان کو لبرل اور سیکولر بنانا ہے ۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروںمیں ہم نصابی سرگرمیوں کے نام پر ڈانس پارٹیوں کا اہتمام کیا جائے ۔۔میڈیا پر فحاشی و بے راہ روی کا چلن ہو اور جو کوئی اس کے حوالے سے ذرا سا بھی اظہار تشویش کرے تو فوری طور پر اسے نشان عبرت بنا دیا جائے ۔۔ جیسا کہ فیصل آباد کے گولڈ میڈلسٹ طالبعلم ” سید کاشان حیدر گیلانی “ کو بنایا گیا ہے۔ اب اس بیچارے کے لئے کون بولے گا ۔۔کون سی سول سائٹی اس کی آواز بنے گی ؟ شائد اتنی خاموشی تو قبرستانوں میں بھی نہیں ہوتی جتنی اس قسم کے واقعات پر ہمارے معاشرے میں پھیلتی جا رہی ہے۔ کراچی میں ایک اسلامی سینیٹر کو ” سینما گھر “ بنا دیا گیا ۔ نیو ائیر نائٹ پہلی مرتبہ پوری دھوم دھام سے منائی گئی ہے ۔ چلو جی سب کو مبارک ہو کہ ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے ۔۔وہ الگ بات ہے کہ ہم نے ترقی کا مفہوم بدل لیا ہے ۔۔ لبرل معاشرہ اور سیکولر روایات کا فروغ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ سید کاشان حیدر گیلانی کے نام سے فیس بک پر ایک اکاؤنٹ ہے ، جس میں لکھا ہوا کہ ان کو یونیورسٹی کی طرف سے دوبارہ بحال کردیا گیا ہے ۔
 
Last edited:
Top