عبقری ریڈر
رکن
- شمولیت
- ستمبر 08، 2013
- پیغامات
- 180
- ری ایکشن اسکور
- 163
- پوائنٹ
- 41
آڈیٹر عبقری کے قلم سے۔۔۔
روز بے شمار دکھی لوگ مجھے ملتے ہیں' سکھی میرے پاس کیوں آئینگے؟ میرے پاس توصرف اور صرف دکھی لوگ آتے ہیں اور آکر اپنے غم کی کہانیاں سناتے ہیں' ایک غم جو مسلسل میرے سامنے بارہا آرہا ہے وہ ہے محبت کی شادی' یہ محبت کی شادی آخر ناکام کیوں ہوتی ہے؟
اور محبت کی شادی کے بعد جھگڑے کیوں شروع ہوجاتے ہیں؟ قارئین! جتنا نالج 'علم 'معلومات' مطالعہ اور ریسرچ بڑھتی جارہی ہے' اتنا گھریلو زندگیاں ناکام اور مسلسل ناکامیوں کی طرف بڑھتی جارہی ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے اور بچیاں اس کام میں لگ جاتے ہیں جو کام پہلے بڑے کرتے تھے۔ پہلےکبھی بھی لڑکی کو لڑکے نے دیکھا نہیں ہوتا تھا بس اس وقت دیکھتا جب شادی ہوکر اس کے گھر میں دلہن آجاتی تھی اور زندگی بہت اچھی گزرتی تھی۔ ہلکی پھلکی اگر گھرمیں کوئی نوک جھونک ہوبھی جاتی تھی تو ایک دو دن میں ختم ہوکر پھر زندگی کے قدم رواں دواں ہوجاتے تھے۔ لیکن اب عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے کیلئے جینے مرنے کی قسمیں اور بعض اوقات خودکشی کی کوششیں اور پھر خودکشی ہوبھی جاتی ہے' پھر شادی ہونے کے بعد مسلسل جھگڑے' ناچاقیاں' پریشانیاں اور پھر اس کا اثر نسلوں پر پڑتا ہے' گھروں پر پڑتا ہے۔ وہ مائیں جو بڑی چاہتوں
اورمحبت سے اپنے بیٹوں کو پالتی ہیں' وہی مائیں خون کے آنسو رو کر لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہیں اوروالد محبت کا غم لیے قبروں میں چلے جاتے ہیں۔
بس نقصان یہاں سے شروع ہوا ہے کہ جو کام بڑوں نے کرنا تھا وہ چھوٹوں نے کرنا شروع کردیا۔مجھے ایک صاحب بتانے لگے ایک پرانی فلم مغلِ اعظم آئی تھی۔ اس فلم کے دیکھنے کے بعد بے شمار لڑکیاں اپنا گھر چھوڑ کرآشناؤں کے ساتھ چل نکلیں۔ یہ اس وقت کی کہانی ہے جب فلم دیکھنے کیلئے صرف سینماؤں کا رخ کرنا پڑتا تھا اور جب گھر گھر خود سینما بن جائے اور نسلوں کے اندر ایک ایسی سوچ پیدا ہوجائے کہ انہوں نے اپنی شادی کا انتخاب خود کرنا ہے' اپنے جینے مرنے کی کہانی خود بنانی ہے تو اس وقت پھر یہ گھریلو ناچاقیاں 'گھریلو عذاب کی شکل میں اللہ کی طرف سے مسلط کردیا جاتا ہے۔
ایک تجربہ بتاتاہوں' غور سے پڑھیے گا ' سنیے گا اور دل کی گرہ میں اس کو باندھ لیجئے گا۔
جو بیٹا اور بیٹی والدین کو پریشان کرکے 'مجبور کرکے اپنی پسند کی شادیاں کرتے ہیں اور آخر کار والدین خون کے
آنسو بہا کر' مجبور ہوکر اس شادی کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ چاہے وہ بعد میں سارے جہان میں کہتا پھرے کہ میری شادی والدین کی پسند کی ہے' والدین کی اس ناپسندی کا عذاب اللہ اس کو گھریلو ناچاقیوں اور گھریلو الجھنوں کی صورت میں دیتا اور اس کی ساری زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
پھر وہ اس عذاب سے خلاصی پانے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں لیکن پھر بھی سکون نہیں ملتا اور زندگی سسکتے اورالجھتے گزر جاتی ہے۔ انوکھی بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ چند ہوں گے یا کوئی ایک ہوگا جو یہ کہے گا یہ مجھے نافرمانی کی سزا ملی ہے ورنہ ساری زندگی ایک دوسرے سے شکوے کرتے' معاشرے اور زمانے کا شکوہ کرتے کرتے یوں ہی زندگی تمام ہوجاتی ہے۔
میری درخواست ہے اپنے رشتے کے معاملات اپنے والدین پر ڈال دیں اور دل ہی دل میں اللہ سے دو نفل پڑھ کر اعمال کرکے دعا کریں یااللہ! آسمان سے ہمارے لیے وہ خیر کے فیصلے اتار جومیرے لیے بہتر ہوں۔ اللہ میں اپنی پسند نہیں میں تیری پسند چاہتا ہوں جو تو میرے لیے پسند کردے پھر اگر زندگی میں کوئی جیون ساتھی مل جائے اس سے صبر سے' برداشت سے' درگزر سے کام لیتے ہوئے زندگی کے شب و روز گزاریں۔
روز بے شمار دکھی لوگ مجھے ملتے ہیں' سکھی میرے پاس کیوں آئینگے؟ میرے پاس توصرف اور صرف دکھی لوگ آتے ہیں اور آکر اپنے غم کی کہانیاں سناتے ہیں' ایک غم جو مسلسل میرے سامنے بارہا آرہا ہے وہ ہے محبت کی شادی' یہ محبت کی شادی آخر ناکام کیوں ہوتی ہے؟
اور محبت کی شادی کے بعد جھگڑے کیوں شروع ہوجاتے ہیں؟ قارئین! جتنا نالج 'علم 'معلومات' مطالعہ اور ریسرچ بڑھتی جارہی ہے' اتنا گھریلو زندگیاں ناکام اور مسلسل ناکامیوں کی طرف بڑھتی جارہی ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے اور بچیاں اس کام میں لگ جاتے ہیں جو کام پہلے بڑے کرتے تھے۔ پہلےکبھی بھی لڑکی کو لڑکے نے دیکھا نہیں ہوتا تھا بس اس وقت دیکھتا جب شادی ہوکر اس کے گھر میں دلہن آجاتی تھی اور زندگی بہت اچھی گزرتی تھی۔ ہلکی پھلکی اگر گھرمیں کوئی نوک جھونک ہوبھی جاتی تھی تو ایک دو دن میں ختم ہوکر پھر زندگی کے قدم رواں دواں ہوجاتے تھے۔ لیکن اب عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے کیلئے جینے مرنے کی قسمیں اور بعض اوقات خودکشی کی کوششیں اور پھر خودکشی ہوبھی جاتی ہے' پھر شادی ہونے کے بعد مسلسل جھگڑے' ناچاقیاں' پریشانیاں اور پھر اس کا اثر نسلوں پر پڑتا ہے' گھروں پر پڑتا ہے۔ وہ مائیں جو بڑی چاہتوں
اورمحبت سے اپنے بیٹوں کو پالتی ہیں' وہی مائیں خون کے آنسو رو کر لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہیں اوروالد محبت کا غم لیے قبروں میں چلے جاتے ہیں۔
بس نقصان یہاں سے شروع ہوا ہے کہ جو کام بڑوں نے کرنا تھا وہ چھوٹوں نے کرنا شروع کردیا۔مجھے ایک صاحب بتانے لگے ایک پرانی فلم مغلِ اعظم آئی تھی۔ اس فلم کے دیکھنے کے بعد بے شمار لڑکیاں اپنا گھر چھوڑ کرآشناؤں کے ساتھ چل نکلیں۔ یہ اس وقت کی کہانی ہے جب فلم دیکھنے کیلئے صرف سینماؤں کا رخ کرنا پڑتا تھا اور جب گھر گھر خود سینما بن جائے اور نسلوں کے اندر ایک ایسی سوچ پیدا ہوجائے کہ انہوں نے اپنی شادی کا انتخاب خود کرنا ہے' اپنے جینے مرنے کی کہانی خود بنانی ہے تو اس وقت پھر یہ گھریلو ناچاقیاں 'گھریلو عذاب کی شکل میں اللہ کی طرف سے مسلط کردیا جاتا ہے۔
ایک تجربہ بتاتاہوں' غور سے پڑھیے گا ' سنیے گا اور دل کی گرہ میں اس کو باندھ لیجئے گا۔
جو بیٹا اور بیٹی والدین کو پریشان کرکے 'مجبور کرکے اپنی پسند کی شادیاں کرتے ہیں اور آخر کار والدین خون کے
آنسو بہا کر' مجبور ہوکر اس شادی کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں۔ چاہے وہ بعد میں سارے جہان میں کہتا پھرے کہ میری شادی والدین کی پسند کی ہے' والدین کی اس ناپسندی کا عذاب اللہ اس کو گھریلو ناچاقیوں اور گھریلو الجھنوں کی صورت میں دیتا اور اس کی ساری زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
پھر وہ اس عذاب سے خلاصی پانے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں لیکن پھر بھی سکون نہیں ملتا اور زندگی سسکتے اورالجھتے گزر جاتی ہے۔ انوکھی بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ چند ہوں گے یا کوئی ایک ہوگا جو یہ کہے گا یہ مجھے نافرمانی کی سزا ملی ہے ورنہ ساری زندگی ایک دوسرے سے شکوے کرتے' معاشرے اور زمانے کا شکوہ کرتے کرتے یوں ہی زندگی تمام ہوجاتی ہے۔
میری درخواست ہے اپنے رشتے کے معاملات اپنے والدین پر ڈال دیں اور دل ہی دل میں اللہ سے دو نفل پڑھ کر اعمال کرکے دعا کریں یااللہ! آسمان سے ہمارے لیے وہ خیر کے فیصلے اتار جومیرے لیے بہتر ہوں۔ اللہ میں اپنی پسند نہیں میں تیری پسند چاہتا ہوں جو تو میرے لیے پسند کردے پھر اگر زندگی میں کوئی جیون ساتھی مل جائے اس سے صبر سے' برداشت سے' درگزر سے کام لیتے ہوئے زندگی کے شب و روز گزاریں۔