- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
ماشاءاللہ میں نے سعودیہ کا ماحول پاکستنا کے مقابلے میں بہت بہترین پایا اگرچہ آئیڈیل ماحول تو قسمت سے ہی حاصل ہوتا ہے مگر پاکستان کے مقابلے میں وہاں توحید کا غلبہ اور فحاشی کے سیلاب کا نہ ہونا بہت اچھا لگا یہاں تو ہم چھپ چھپ کر دعوت دے رہے ہوتے ہیں اور وہاں مشرک ایسا کر رہے ہوتے ہیں اللہ تعالی اس توحید کے پودے کو جو امام الدعوۃ رحمہ اللہ لگا گئے تھے ہمیشہ مظبوط رکھے اور شریعت کی بالادستی قائم رکھے جو ابھی تک امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی کہ وہاں شرعی سزائیں کیوں دی جاتی ہیں15۔ حال ہی میں آپ نے حج کی سعادت حاصل کی ، سعودیہ کے ماحول کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے ۔؟
یہاں یہ بھی بتا دوں کہ وہاں حکمرانوں کی طرف سے جو شریعت کی مخالفتیں کی جاتی ہیں اور امریکہ کا ساتھ دیا جاتا ہے تو اس پر دکھ ہوتا ہے اور ایک سچے مسلمان کو ضرور ہونا بھی چاہئے اور اسکا رد کرنا چاہئے مگر جب ہم باقی اچھی باتوں کا اپنے ملک سے موازنہ کرتے ہیں تو سورہ روم میں جیسے رومیوں اور فارسیوں کے موازنہ سے مومنوں کے خوش ہونے کا ذکر ملتا ہے اس طرح ہمیں بھی خوشی ہوتی ہے
جی محترم بھائی پہلے تبلیغی جماعت کا سرگرم رکن تھا پھر جماعۃ الدعوہ کا رکن بنا اس حوالے سے اپنے علاقے کا دعوت و اصلاح کا مسئول وقتا فوقتا رہا ہوں کھبی دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے انکے ساتھ کام کم ہوا کبھی زیادہ ہوا میری سرگرمیوں میں انکے پروگرام اٹینڈ کرنا اور کبھی مختلف جگہوں پر جا کر دروس دینا شامل رہا ہے یا پھر مالی طور پر تعاون ہوا ہے اسکے علاوہ زیادہ وقت نہیں دے سکا16۔ سنا ہے آپ کسی جماعت کے سرگرم رکن بھی رہے ہیں ، اس حوالے سے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں بتائیں ۔
یہاں یہ بھی بتا دوں کہ میں جماعت کے ساتھ تو شروع دن سے ہوں جب سے اہل حدیث ہوا ہوں اور ہر جمعت کے کارکن کو اسکے ساتھ کچھ اختلافات ہوتے ہیں مثلا میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی مشرک سے فنڈ لیتے ہوئے اسکو جہاد کی بشارتیں دینا غلط ہے اسی وجہ سے میں یہاں مدرسہ کے لئے بھی اس بات کا خیا رکھتا تھا اور اکثر بکرا دینے آنے والوں اجنبیوں کو توحید کی دعوت دیتا تھا اور ہماری جماعت کے بڑے علماء مثلا شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ اور عبد لارحمن عابد حفظہ اللہ وغیرہ بھی یہی موقف رکھتے ہیں مگر مسئول اپنی کارکردگی کے لئے اسکی خلاف ورشی کر جاتے ہیں تو میں اس کو درست تو نہ سمجھتا تھا مگر اس اختلاف کو ہوا نہیں دیتا تھا اسی طرح بعد میں جب افغانستان پر امریکی حملہ ہوا تو اس بارے میرا موقف کچھ باتوں میں شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے ساتھ ملتا تھا اور جماعت کا بھی وہی تھا کہ پاکستان میں جہاد کو درست تو نہیں سمجھنا اور نہ کرنا ہے مگر اس لڑائی میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ دینے کو کھل کر غلط کہنا ہے اور عرب مجاہدین جو قبائلی علاقوں میں ہیں انکو درست سمجھنا ہے
مگر بعد میں کچھ حالات کی نزاکتوں کی وجہ سے جماعت کو مجبورا کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں جو انکے لئے درست بھی ہیں اور انکے بڑوں کو انکو ماننا ناگزیر ہو گیا تھا مگر اس جماعت کے ساتھ رضاکارانہ کام کرنے والے ہر آدمی کے لئے میرا خیال تھا کہ ایسا کرنا لازمی نہیں تھا جیسا کہ ہمارے شیخ امین اللہ پشاوری باوجود اس کے کہ وہ جماعت کے پروگراموں میں جاتے ہیں اور رضاکارانہ انکے ساتھ ہیں وہ ان باتوں کی حمایت نہیں کرتے تھے اسی لحاظ سے بیچ میں ایک دفعہ مسئول سے کچھ اختلافات ہونے کی وجہ سے میں جماعت سے تھوڑا پیچھے رہا ہوں مگر بعد میں جب کلیئر ہو گیا کہ یہ ایک قسم کا اجتہادی اختلاف ہے اور مجھے ایک بات اگر درست معلوم ہوتی ہے تو جماعت کو دوسری بات تو دونوں اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں تو معاملہ بہتر ہو گیا اور دوبارہ اسی طرح سرگرمیاں شروع ہو گئیں
محترم بھائی میرے خیال میں خود کو بہادر سمجھنا یا نہ سمجھنا ہماری بہادری کو معیار نہیں ہوتا بلکہ ہماری بہادری دکھانے کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ جس چیز کے لئے ہم بہادری دکھانا چاہ رہے ہیں اسکی اہمیت موت یا تکلیف کے مقابلے میں ہمارے لئے کتنی ہے چنانچہ ابو جہل نے جب کہا تھا کہ میری گردن نیچے سے کاٹنا تو اس وقت اسکے لئے موت یا تکلیف کی اتنی اہمیت نہیں تھی جتنی کہ اپنی انا کی اہمیت تھی پس اسی انا کے لئے ہی مشرکین عرب جب کسی کو پناہ دے دیتے تھے تو پھر چاہے ساری آل اولاد ہی قتل نہ ہو جائے اس تک کسی کو نہیں پہنچنے دیتے تھے یعنی انکے ہاں موت کی محبت سے بھی زیادہ کسی اور چیز کی محبت موجود تھی پس انکو بہادر جانا جاتا تھا پس کہا جاتا ہے کہ چونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری دنیا سے ٹکر لینا تھی تو اس لئے ایسی بہادر قوم کا چناو کیا گیا جو کہ موت (جو بہادری میں سب سے بڑی آڑ ہوتی ہے) کو انا کے سامنے کچھ نہیں سمجھتی تھی پس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اس بہادری کا رخ موڑنا پڑا کہ انا کی جگہ اسلام کو اہمیت انکےاندر رکھ دی تو پھر ہمیں انس بن نضر رضی اللہ عنہ جیسے شہزادے ملتے ہیں کہ جنکو اتنے زخم آئے کہ انکی بہن نے انکی انگلیوں سے اسکو پہچانا اور ہماے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا امی حمزہ رضی اللہ عنہ سید الشہدا کا کلیجہ چبا دیا گیا تو انکی بہن صفیہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے سے کہا کہ انکو انکی لاش نہ دیکھنے دو مگر جب جاہلیت میں لوگ انا کے لئے بہادری دکھاتے تھے تو کیا وہ نہیں دکھا سکتی تھی تو انہوں نے کہا کہ اسکی فکر نہ کریں میں اپنے حواس برقرار رکھوں گی17۔خود كو بہادر سمجھتے ہیں ؟اور کن چیزوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں ؟(ابتسامہ)
آج ہمارےاندر وھن کی بیماری نے ہی ہماری دین کے لئے بہادری دکھانے کو ختم کر دیا ہے
پس جس کام کی میرے نزدیک اہمیت موت یا تکلیف سے زیادہ ہے اسکے لئے تو میں بہادری دکھاوں گا ورنہ نہیں
جہاں تک یہ بات ہے کہ میں کن چیزوں سے خوفزدہ ہوتا ہوں تو وہ میں کیوں بتاوں تاکہ آپ مجھے انسے ڈرا سکیں (ابتسامہ)
محترم بھائی میں اس وقت زمانے کے فتنوں سے بہت ڈرتا ہوں جس میں سب سے بڑے فتنوں میں مال اور عورت کا فتنہ ہے جن کے لئے واقعی مجھے لاحول ولا قوۃ پڑھنا پڑتا ہے اور اللہ تعالی کی رحمت کا محتاج ہونا پڑتا ہے آپ (محترم خضر حیات بھائی) تو جس ملک میں رہتے ہیں وہاں عورت کا فتنہ شاید ہمارے جیسا نہ ہو مگر مال کا فتنہ زیادہ ہو گا یہاں ہمیں جگہ جگہ معاشرے سے واسطہ پڑتا ہے تو یہ دونوں فتنے منہ کھولے ہر کسی کو ہڑپ کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں سوائے جس پر اللہ کی رحمت ہو (اللھم اجعلنا منھم امین یا رب العالمین)
یہاں یہ بھی بتا دوں کہ یہ مال اور عورت کا فتنہ اس طرح کا نہیں ہو گا کہ سب کو سیدھا پیسے کے پیچھے لگا دے یا سب کو پہلی دفعہ ہی زنا پر لگا دے بلکہ لوگوں کو شیطان اسکی حالت کے مطابق آہستہ آہستہ خراب کرتا ہے پس ہو سکتا ہے کہ ہمارے دیندار بھائیوں کو پہلے گھر کی ضرورتوں والی احادیث دکھائے اور عورت کے لحاظ سے بتائے کہ عائشہ رضی اللہ عنھا بھی تو مردوں سے باتیں کرتی اور پڑھاتی تھیں وغیرہ پھر اس سے بھی آگے بڑھائے گا اور پھر حتی تتبع ملتھم کے مطابق ہم رک نہیں سکیں گے الا من رحم ربی