فرق یہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور تم یہ زحمت گوارا نہیں کرتے۔
ان لوگوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کیونکہ
اندھی تقلید عقلوں کو سلب کرکے رکھ دیتی ہے
ابو حسن :میں قرآن و سنت کا طالب علم ہوں الحمدللہ اور بات علماء سے جان کر ہی کرتا ہوں اہل علم سے رابطہ ہے الحمد للہ بحرحال یہ آپ کے بڑے ہیں اور میں آپ کی دل آزاری نہیں چاہتا لیکن انکی بات میرے لیے صفر کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے لئے واضح نص موجود ہے
صاحب :میں مفتی صاحب کو معتبر عالم مانتا ہوں
ابو حسن :میں قول رسول ﷺ کے سامنے انکو بے حثیت مانتا ہوں
صاحب :آپ سے میں بحث نہیں کرنا چاہتا ، مفتی سعید صاحب فقیہ ہے اور اللہ نے بہت نوازاہ ہے
ابو حسن :میں ہرگز بحث نہیں کررہا اور نہ ہی ایسا ارادہ تھا ،امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں " دلیل کتاب و سنت ﷺ میں ہے"،
اور اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا "جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو رد کر دے، تو وہ ہلاکت کے کنارے پر ہے"
صاحب :کچھ موقعوں پر منہ بند رکھنے میں ہی عافیت ہوتی ہے جیسے مچھلی منہ کھولتے ہی کنڈی کا شکار ہوجاتی ہے
ابو حسن :اہل علم کی تنبیہ ہر وقت ذہن میں رہتی ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوں الحمدللہ ،
لیکن کوئی خلاف " نص" بات کرے تو اسکی بات صفر ہے " صحیح نص " کے سامنے
ابوسنان الاسدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
إذا كان طالب قبل أن يتعلم مسألة في الدين يتعلم الوقيعة في الناس، متى يفلح؟
ترجمہ: جب طالب علم دین کا کوئی مسئلہ سیکھنے سے پہلے علماء پر طعن کو سیکھے گا تو کیسے کامیاب ہوگا؟
(ترتیب المدارک ط اوقاف المغرب: 4/104)
جیسے کہ کچھ اہل علم جھوٹی منگھڑت احادیث بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ کس ذات پر جھوٹ بھول رہے ہیں
صاحب : (جیسے کہ کچھ اہل علم جھوٹی منگھڑت احادیث بیان کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ کس ذات پر جھوٹ بھول رہے ہیں)اس کے جواب میں فرمایا "وہ علماء کو حق ہے وہ کہے نہ کے آپ علماء کی اصلاح کرے" آپ کتابیں دیکھ کر بات کرتے جب کے ان علماء نے سالوں اہل علم اور مدرسہ میں مجاہدہ کرکے سینہ بہ سینہ سیکھا ہے اور امت کے علماء کا اعتماد ہے جو سب سے بڑی بات ہے اس لئے کم از کم میں آپ کی بات ان علماء کے خلاف ماننے کو تیار نہیں باقی آپ اپنی رائے کے مکلف ہے
ابو حسن : شاید آپ کے علم میں نہیں میں بھی دو زانو بیٹھا ہوں طالب علم کی حیثیت سے الحمدللہ
صاحب :سب جانتا ہوں بھائی ، یہ نبی کے وارث ہیں احترام اور ادب ضروری ، آپ نے وہ قربانی نہیں دی جو ان علماء نے دی آپ کی کوئی سند نہیں میں نہیں مانتا
ابو حسن : آپ کو میں کب کہہ رہا ہوں کہ مجھے مانو؟ بہرحال یہ حضرت آپ کے نزدیک بہت بڑی ہستی ہونگے لیکن میں انکی بات پر کان نہیں رکھتا ،میرے لیے سیدالاولین و الاخرین ﷺ کا فرمان اعلیٰ و ارفع ہے
صاحب : آپکو لگتا ہے تو پاکستان کے علماء مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم جن کو عرب علماء بھی مانتے ہے ان سے اس بارے میں معلوم کر لے وہ اپ کو حدیث بھی بہتر انداز میں سمجھا دینگے ہمارے علماء کی یہی تعلیم ہے ، پھر طنزا لکھا " آپ بڑے ہو معاف کردو"
ابو حسن : میری باتوں کو آپ نظر انداز کردیں انکی کوئی حیثیت نہیں لیکن جو احادیث میں نے لکھی ہیں ان سے آپ ان حضرت کی باتوں کا موازنہ کرلیں
جزاک اللہ خیرا
پھر انہوں نے مجھے ایک ویڈیو کلپ گھمن صاحب کا بھیج دیا جس میں وہ اپنے طلبا کو اصطلاحات احادیث بیان کررہے تھے اور کیا زبردست ضعیف حدیث کے ضعف کو ختم کرنے کا فارمولا بیان کیا اور ساتھ میں یہ بھی سمجھایا کہ اگر کوئی سند کے ضعف پر بات کرے تو گھبرانا نہیں اور پھر فرمایا "ایک کمزور بندہ اگر ایک ٹیبل کو اٹھانا چاہے تو اٹھاسکے گا ؟ جواب نہیں میں آیا ، پھر کہا اگر چار کمزور بندے ملکر اٹھائیں ؟ تو جواب ہاں میں ملا ، اب حضرت نے فرمایا کہ اگر ایک ضعیف سند 4 طرق سے ملے اور چاروں ہی ضعیف ہوں تو 4 کے ملنے سے اسکا ضعف ختم ہوجاتا ہے
ابو حسن :صاحب آپ بھی میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں؟ کہاں میں طالب علم اور کہاں مناظر اسلام حضرت متکلم الیاس گھمن صاحب؟ انکی اونچے درجے کی باتیں کہاں سمجھ پاؤں گا؟ آپ کا حضرت متکلم الیاس گھمن صاحب سے رابطہ ہے؟
میرا سلام عرض کردیجیے گا اور ساتھ میں " حضرت علامہ خضرت حیات بھکروی" کا سلام بھی عرض کردیجیے گا اور انہیں کہے گا کہ اگر آپ کی صحت ٹھیک ہوگئی ہے اور "دست" رک گئے ہیں تو علامہ صاحب آپ کا انتظار فرما رہے ہیں مناظرہ کیلئے ابھی تک تو 10 برس ہوگئے ہیں
صاحب : آپ اپنے مسائل انہی سے پوچھ لیں البتہ مجھے نہ سنائے آپ ہی پہنچا دے
ابو حسن :حضرت مجاہد بیان فرماتے ہیں کہ بشیر بن کعب عدوی ابن عباس کے پاس آئے اور احادیث بیان کرنا شروع کیں اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمایا لیکن ابن عباس نے نہ اس کی احادیث غور سے سنیں اور نہ ہی اس کی طرف دیکھا بشیر نے عرض کیا اے ابن عباس ! کیا بات ہے کہ میں آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کر رہا ہوں اور آپ سنتے ہیں نہیں ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ایک وہ وقت تھا کہ جب ہم کسی سے یہ سنتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو ہماری نگاہیں دفعتا بے اختیار اس کی طرف لگ جاتیں اور غور سے اس کی حدیث سنتے لیکن جب سے لوگوں نے ضعیف اور ہر قسم کی روایات بیان کرنا شروع کر دیں تو ہم صرف اسی حدیث کو سن لیتے ہیں جس کو صحیح سمجھتے ہیں(صحیح مسلم)
حضرت متکلم اصطلاحات احادیث میں اپنا منطق بیان کررہے ہیں ،جس کے بارے میں محدثین اور آئمہ جرح و تعدیل علم ہی نہیں رکھتے تھے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما کیا فرما رہے ہیں اوپر حدیث میں دیکھ لیجیے اور یہ دور بھی خیر القرون کا دور ہے ،میں آپ کو قرآن و سنت اور آثار صحابہ میں سے دلیل دے رہا ہوں اور آپ گھمن اور دوسرے احباب کی باتیں کر رہے ہیں میری باتیں کوڑے میں ڈالیں اور قرآن وسنت اور آثار صحابہ اور آئمہ کی بات کو اپنائیں
أبا هريرة قال لرجل يا ابن أخي إذا حدثتك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا فلا تضرب له الأمثال
حضرت ابوہریرہ نے ایک آدمی سے بیان فرمایا اے بھتیجے! جب میں تم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حدیث مبارکہ بیان کیا کروں تو تم (اس کے مقابلے میں) لوگوں کی باتیں (قیل وقال) بیان نہ کیا کرو
قال الإمام أبو حنيفة رحمه الله " لا يحل لأحد أن يأخذ بقولنا ما لم يعلم من أين أخذناه "
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے" كسى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ ہمارے قول كو لے اور اسے علم ہى نہ ہو كہ ہم نے وہ قول كہاں سے ليا ہے "
وفي رواية عنه " حرام على من لم يعرف دليلي أن يفتي بكلامي "
اور ايک روايت ميں ان كا قول ہے" جو شخص ميرى دليل كا علم نہ ركھتا ہو اس كے ليے ميرى كلام كا فتوى دينا حرام ہے "
آج کل نام امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ لیکر فتوی اپنا تھوپ دیتے ہیں اور نکتہ چینی کرنے والے امام صاحب کو برا کہہ رہے ہوتے ہیں اور کچھ میں ویسے تعصب پایا جاتا ہے اور وہ اصل کو چھوڑ کر امام صاحب پر چڑھ دوڑتے ہیں ، اللہ ﷻ سمجھ عطا فرمائے
قال الإمام أبو حنيفة قال رحمه الله " إذا صح الحديث فهو مذهبي " زاد في رواية أخرى " فإننا بشر ، نقول القول اليوم ونرجع عنه غدا "
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے " جب حديث صحيح ہو تو وہى ميرا مذہب ہے "ايک دوسرى روايت ميں اضافہ ہے" يقينا ہم بشر ہيں "اور ايک روايت ميں ہے" آج ہم ايک قول كہتے ہيں، اور كل اس سے رجوع كر لينگے "
وقال رحمه الله " إذا قلت قولا يخالف كتاب الله تعالى ، وخبر الرسول صلى الله عليه وسلم فاتركوا قولي "
اور رحمہ اللہ كا قول ہے" اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو "
اللہ اکبر ،امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ خود یہ حکم دیں کہ " اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو " لیکن ہم کہیں " نہ نہ" ہم تو آپ کی یہ بات ہرگز نہ مانیں گے کیونکہ ہم پکے حنفی ہیں اورجو کوئی بھی اس کے برخلاف " احناف میں ایسا ہے کہہ کر ورغلائے گا " ہم اسکی بات کو ضرو بضرو مانیں گے نہ خود سے علم دین حاصل کریں گے اور نہ ہی تحقیق کرینگے اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ کے اس قول کو پس پشت ڈالتے ہوئے سینہ ٹھوک کر کہیں گے کہ " ہم پکے حنفی ہیں "
صاحب :میں مجھے ضرورت ہوگی علماء سے رابطہ کر لونگا ہوں ،بس میں اپنے علماء سے پوچھ کر قدم رکھتا ہوں ،معاف کریے اگر آپ کو برا لگا ہو
ابو حسن :میرے لیے قرآن وسنت اور آثار صحابہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں نہ کہ گھمن جیسے علماء؟ مجھے برا نہیں لگا فقط افسوس اس بات کا ہے کہ آپ قرآن و سنت اور آثار صحابہ کی بجائے انکی باتوں پر زیادہ دھیان رکھے ہوئے ہیں ، میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں
صاحب :یہ علماء قران حدیث بیان کرتے ہیں اور امت کا اعتماد ہے الحمد اللہ
ابو حسن :امت کا نہیں مخصوص طبقے کا کہیں ہاں انکی جگہ آپ آئمہ اربعہ کا کہیں تو میں سرخم تسلیم کرونگا کہ امت کا ان پر بھرپور اعتماد تھا ، ہے اور رہے گا ان شاءاللہ
صاحب :ہمارے اکابرین اور علماء کا اور امت کا بھی اعتماد ہے اب
آپ کو نہ ہو ؟ نہ رکھیں ،رہی شاگرد جو بات کہتے ہیں وہ پورا بیان سناؤں پھر میں ہمارے اداروں میں بھیجتا ہوں
ابو حسن :صاحب آپ اپنے وقت کا ضیاع نہ کریں ،کیونکہ میں پھر قرآن وسنت اور آثار صحابہ کی بات کروں گا اور آپ اس کے سامنے اپنے علماء پر اعتماد کی بات ؟ تو حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا ،چاہے وہ سچ کہیں یا حدیث کے معاملے میں جھوٹ بھی بیان کریں اور یہاں مسجدمیں علماء میں سے کسی ایک نے بھی اعتراض نہیں کیا سوائے میرے اور پھر حق بات کہنے والے محدثین نے ان لوگوں کو جھوٹا قرار دیا یہ نہیں دیکھا کہ بیان کرنے والا کون ہے بلکہ اس بات کو سامنے رکھا کہ جھوٹ سیدالاولین و الاخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے منسوب کیا جارہا ہے (یہ ایک واقع تھا 3 برس قبل کا اور ایک عالم نے جوکہ اپنی طرف سے شیخ الحدیث بھی ہیں انہوں نے بیان کیا اور اس میں دو حدیثیں جھوٹی بیان کیں اور اس وقت تو ان سے بات نہ ہوسکی اور وہ انڈیا چلے گئے میں نے انکا رابطہ نمبر کسی سے لیا اور ان سے ان احادیث کے متعلق سوال کیا تو بتایا کہ فلاں کتاب میں ہے اور جب اس میں دیکھا تو سرے سے ہی یہ بات موجود ہی نہی اور اس دوران میں نے مختلف شیخ الحدیث حضرات سے اس بارے سوال کیا اور ہر ایک نے لاعلمی کا اظہار کیا گزشتہ برس ایک شیخ الحدیث سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کس نے یہ بیان کی ہے ؟ میں نام نہیں بتانا چاہتا تھا لیکن میرے ساتھ ایک دوست عالم نے جھٹ سے نام بتادیا ،اور انہوں نے کہا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے حدیث کے معاملہ میں ،اور پھر صاحب بیان گزشتہ رمضان میں آئے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ تو آپ جھوٹی حدیثیں بیان کرتے ہیں؟ کہنے لگے ہمیں اپنے بڑوں پر اعتماد ہے ، میں نے کہا کہ آپ کے بڑوں کے بڑوں نے فرمایا ہے
ہم نے نیک لوگوں کا کذب فی الحدیث سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں دیکھا ابن ابی عتاب نے کہا کہ میری ملاقات سعید بن قطان کے بیٹے سے ہوئی میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ کہتے تھے کہ ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے اور ان کے بھی بڑوں نے فرمایا کہ محمد بن سیرین مشہور تابعی نے فرمایا کہ علم حدیث دین ہے تو دیکھ کہ کس شخص سے تم اپنا دین حاصل کر رہے ہو)