ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ حق صرف اہل حدیث کا جماعتی موقف ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے گمراہی ہے۔ کیونکہ کسی اہل حدیث کی انفرادی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی جب تک جمہور اہل حدیث کا موقف اس رائے کی تائید میں نہ ہو۔ یاد رہے کہ جماعت اہل حدیث میں سب سے پہلے صحابہ پھر تابعین، تبع تابعین، ائمہ محدیثین اور آج تک کے تمام اہل حدیث علماء شامل ہیں۔ جو ان کا موقف ہوگا وہی حق ہوگا اور اسے ہی اہل حدیث کا جماعتی موقف کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد پاک کے مطابق ایک فرقہ ہمیشہ حق پر رہے گا۔اہل علم جیسے امام احمد بن حنبل وغیرھم نے تصریح کی ہے کہ وہ فرقہ اہل حدیث ہے۔ تو پھر ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ ہر دور میں کسی بھی مسئلہ میں جو مسلک و مذہب جمہور اہل حدیث کا ہے وہی حق ہے۔ اور جب وہی حق ہے تو ہم اہل حدیث کے جماعتی موقف کا مطالبہ کیوں نہ کریں؟!
شاہد بھائی !
یہاں آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہے ۔ ہر جگہ جمہور کا موقف حق نہیں ہوتا اور نہ ہی جمہور کا ہر موقف اہل حدیث کا مذہب ہے ۔
اگر آپ کو اس بات پر اعتراض بلکہ اصرار ہے تو اپنے اصول کے مطابق اس اصول کو ثابت کرنے کے لیے کوئی حوالہ پیش کریں کہ جو مسلک و مذہب جمہور اہل حدیث کا ہے وہی حق ہے ۔
آل تقلید اور اہل حدیث کے عمل و سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اہل حدیث سلف صالحین کے متفقہ فہم پر اپنے عمل کی بنیاد رکھتا ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا کیونکہ سلف صالحین کا کسی مسئلہ پر اتفاق اجماع ہے اور امت کا اجماع معصوم ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ پوری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ جبکہ مقلد کے ہر عمل کی بنیاد اس کے امام کا قول ہوتا ہے چاہے غلط ہو یا صحیح۔اور اکثر غلط ہی ہوتا ہے جس میں مقلد کی گمراہی کے امکانات کافی سے زیادہ روشن ہوتے ہیں۔
اگر تو آپ کی مراد یہ ہےکہ اہل حدیث کے ماخذ شریعت قرآن و سنت ہیں اور ان سے مسائل اخذ کرنے کے متفقہ اصول ہیں تو اس بات سے موافقت ہے ۔ اور اسی بات کو پہلے میں اپنے الفاظ میں بیان کر چکا ہوں ۔
او راگر آپ کی مراد اس متفقہ فہم سے یہ ہے کہ اہل حدیث یعنی سلف کا تمام فروعی مسائل میں اتفاق ہے ۔ یعنی نماز اور دیگر عبادات میں پیش آمدہ مسائل میں ہمارا جو موقف ہے وہ تمام سلف صالحین کا متفقہ موقف ہے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔ اور اس طرح کی بات کرنے والے کے لیے ہم یوں عذر تلاش کرسکتے ہیں کہ وہ الفقہ المقارن کے حوالے سے علماء و فقہاء کی مساعی جمیلہ سے بے خبر ہیں ۔
اصل بات تو یہ ہے کہ قرآن وسنت اور سلف صالحین کے متفقہ اصول و قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے مجتہدین نے کسی مسئلہ میں اجتہاد کیا ہے لیکن نتیجہ مختلف نکلا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں سے بعض اہل حدیث اور دوسرے غیر اہل حدیث ہیں ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے ملاحظہ فرمائیں :
دیکھیں بھائی جس کو ہم ’’ اہل حدیث ‘‘ کہتے ہیں اس کی پہچان یا خصوصیت خاص افراد نہیں بلکہ ان کا ’’ منہج سلیم ‘‘ ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی اتباع اور اس کی مخالفت کرنے والوں کرنے والوں کا رد ۔ مخالفت کرنے والا چاہے کوئی کوئی اہل حدیث ہو یا غیر اہل حدیث ۔
لہذا قرآن و سنت کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کسی اہل حدیث عالم کا فتوی رد کر دیا جائے گا تو اس سے دونوں مفتیان کرام اہل حدیث ہی رہیں گے ۔ کیونکہ دونوں نے قرآن وسنت کو مد نظر رکھتے ہوئے اجتہاد کیا ہے علیحدہ بات ہے کہ اجتہاد کا نتیجہ مختلف نکلا ہے ۔ لیکن بنیاد ایک متفق ہونے کی وجہ سے آپ کے الفاظ میں ’’ موقف جماعتی ‘‘ ہی رہے گا ۔
البتہ اگر کسی ایک ہی رائے پر تعصب اور ضد کی بنیاد پر اڑ جائیں گے تو پھر مسئلہ خراب ہے ۔
اور آپ نے بجا فرمایا :
خلاصہ یہ ہے کہ مفتی کے فتوے کی بنیاد صرف قرآن و حدیث پر نہیں بلکہ اہل حدیث کے فہم پر بھی ہونی چاہیے ورنہ گمراہی کا امکان بہت زیادہ ہے۔
مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے ۔ لیکن آپ جو نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں اس سے اختلاف ہے ۔ کیونکہ آپ کے نزدیک فروعی مسائل میں حق وہی ہے جس پر جمہور ہیں اور اسی کو آپ جماعتی موقف کہتے ہیں ۔
حالانکہ حق بعض دفعہ جمہور سے ہٹ کر بھی ہوسکتا ہے اور بعض دفعہ قلیل علماء کی بات جمہور کے مقابلہ میں راجح اور اقرب الی الکتاب والسنۃ ہوتی ہے ۔ بدایۃ المجتہد اردو ترجمہ میں مل سکتی ہے اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی ۔
میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہم کوئی ایسا فتویٰ دینگے جو کہ اہل حدیث کے جماعتی موقف کے خلاف ہوگا کیونکہ یقینا ایسا فتوی مبنی بر حق نہیں ہوسکتا جو کہ جمہور اہل حدیث کے موقف کے خلاف ہو۔تو جب بھی ہم حق بیان کرینگے تو اہل باطل ہماری فتویٰ ویب سائٹ کا حوالہ دے گا کہ دیکھو تمہارے مفتی تو اسے صحیح کہتے ہیں لیکن تم غلط کہہ رہے ہو۔
تنبیہ: جمہور اہل حدیث کا موقف ہی میرے نزدیک اہل حدیث کا جماعتی موقف ہے۔
بات بالکل آسان ہے لیکن شاید آپ نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ اگر آپ واقعتا کسی فتوی کو قرآن وسنت کے خلاف سمجھتے ہیں تو اس کا انکار کریں ۔ اور آپ کو جو الزام دیتا ہے اس کو کہیں کہ ہم مفتی کی اسی بات کو مانتے ہیں جو قرآن وسنت کے مطابق ہوگی ۔مفتی (مثلا آئمہ أربعہ ) ہمارے لیے ماخذ شریعت اور ہم پر حجت نہیں ہیں بلکہ ہم پر حجت قرآن وسنت ہے ۔
باقی آپ کی تنبیہ پر ہم نے پہلےبھی توجہ دلادی ہے کہ حق جمہور میں منحصر نہیں ہے ۔ نتیجتا حق اہل حدیث کے جماعتی موقف میں بھی منحصر نہیں ہے ۔ اور اس بات پر آپ کے اصرار کا مطلب یہ ہے کہ مختلف فیہ مسائل میں ہر جگہ آپ جمہور کے موقف پر کاربند ہیں ۔
زیادہ دور نہیں جاتے جس فتوی پر آپ نے تنقید کی ہے اسی میں ہم آپ کا موقف جاننا چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ جمہور آئمہ کا اس بارے میں کیا موقف ہے ۔ ارو ساتھ دلیل بھی ذکر کیجیے گا ۔
انتہائی نامعقول اور بے ہودہ فتویٰ ہے۔
آپ نے جو یہ فتوی صادر کیا ہے ۔ کیا اہل حدیث کا جماعتی موقف یہی ہے ؟
فرض کریں اس فتوی میں مفتی صاحب سے غلطی ہوگئی ہے ۔ لیکن یہ فتوی کوئی آج تو نہیں آیا اگر آپ اس فتوی کے مصدر سے واقف ہیں تو آپ کے لیے یہ اندازا لگانا مشکل نہیں کہ فتوی کتنی دیر پہلے کا ہے ۔
اور اس کے بعد کتنے لوگوں نے اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے لیکن آپ جیسی بد زبانی کسی نے نہیں کی ۔
کیا کسی مسئلہ میں مجتہد سے غلطی ہوجائے تو اس کو بیہودگی سے تعبیر کرنا یہ جمہور کا موقف ہے ؟ اہل حدیث کا جماعتی موقف ہے ؟ یا پھر آپ کے جوش بلا ہوش کی پیداوار ہے ؟
اہل حدیث کسی کے فتوے کا ذمہ دار نہیں ہوتا جو فتویٰ دینے والا ہی وہی اپنے فتویٰ کی دلیل فراہم کرنے کا ذمہ دار بھی ہے۔
اگر یہی بات ان لوگوں سے کہہ دیں جو آپ کو محدث فتوی کے فتوی کا الزام دیں گے تو جس پریشانی میں آپ گرفتار ہیں اس سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت اور دین کا صحیح فہم عطا فرمائے ۔