شاہد نذیر بھائی کچھ عرض کرنا چاہوں گا ۔
جزاک اللہ خضر حیات بھائی آپ کی اس عرض سے مجھے بھی مزید عرض کرنے کا موقعہ ملا۔
١۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فتوی کی بنیاد قرآن وسنت ہونی چاہیے کسی بھی جماعت کا ’’ جماعتی موقف ‘‘ نہیں ہونا چاہیے ۔ کیونکہ یہ بالکل وہی بات ہے جو مقلدین کرتے ہیں کہ ہمارے امام صاحب کا فتوی یا ہمارے مذہب کا ’’ مفتی بہ قول ‘‘ یہ ہے قرآن و حدیث سے ہمیں کوئی غرض نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جس میں سے ایک فرقہ جنت میں اور باقی جہنم میں جائینگے۔سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ وہ ناجی فرقہ صرف اور صرف اہل حدیث ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہر اہل حدیث خود ہی قرآن و حدیث کو کھول کر بیٹھ جاتا ہے اور اسے اپنی عقل وفہم سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے کسی اہل علم یا سلف کی رہنمائی کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اہل حدیث کے مذہب سے واقف ہی نہیں۔ اہل حدیث قرآن و حدیث پر تو عمل کرتا ہے لیکن اپنی عقل و فہم سے نہیں بلکہ سلف صالحین کے متفقہ فہم کے مطابق۔جیسے حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا:
خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔(فتاویٰ اہل حدیث، جلد١،صفحہ ١١١)
ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ حق صرف اہل حدیث کا جماعتی موقف ہے اس کے علاوہ جو کچھ ہے گمراہی ہے۔ کیونکہ کسی اہل حدیث کی انفرادی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی جب تک جمہور اہل حدیث کا موقف اس رائے کی تائید میں نہ ہو۔ یاد رہے کہ جماعت اہل حدیث میں سب سے پہلے صحابہ پھر تابعین، تبع تابعین، ائمہ محدیثین اور آج تک کے تمام اہل حدیث علماء شامل ہیں۔ جو ان کا موقف ہوگا وہی حق ہوگا اور اسے ہی اہل حدیث کا جماعتی موقف کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد پاک کے مطابق ایک فرقہ ہمیشہ حق پر رہے گا۔اہل علم جیسے امام احمد بن حنبل وغیرھم نے تصریح کی ہے کہ وہ فرقہ اہل حدیث ہے۔ تو پھر ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ ہر دور میں کسی بھی مسئلہ میں جو مسلک و مذہب جمہور اہل حدیث کا ہے وہی حق ہے۔ اور جب وہی حق ہے تو ہم اہل حدیث کے جماعتی موقف کا مطالبہ کیوں نہ کریں؟!
آل تقلید اور اہل حدیث کے عمل و سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اہل حدیث سلف صالحین کے متفقہ فہم پر اپنے عمل کی بنیاد رکھتا ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا کیونکہ سلف صالحین کا کسی مسئلہ پر اتفاق اجماع ہے اور امت کا اجماع معصوم ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ پوری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ جبکہ مقلد کے ہر عمل کی بنیاد اس کے امام کا قول ہوتا ہے چاہے غلط ہو یا صحیح۔اور اکثر غلط ہی ہوتا ہے جس میں مقلد کی گمراہی کے امکانات کافی سے زیادہ روشن ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ مفتی کے فتوے کی بنیاد صرف قرآن و حدیث پر نہیں بلکہ اہل حدیث کے فہم پر بھی ہونی چاہیے ورنہ گمراہی کا امکان بہت زیادہ ہے۔
ابتسامہ ۔ بھائی اپنا اور ان کا فرق سمجھیں ۔
بھائی ان کی مجبوری ہےکہ وہ اپنے بزرگوں کا غلط سلط دفاع کریں چاہے قرآن وسنت میں ہزاروں تأویلات کرنی پڑیں ۔ لیکن ہمیں الحمد للہ ایسی کوئی مجبوری نہیں لہذا اگر کسی جگہ کسی بزرگ کی بات کتاب وسنت کے خلاف نظر آئے تو بجائے ان ( اہل تقلید ) کے نقش قدم پر چلنے کے کھلےدل سے اس کا اعتراف کریں ۔
میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہم کوئی ایسا فتویٰ دینگے جو کہ اہل حدیث کے جماعتی موقف کے خلاف ہوگا کیونکہ یقینا ایسا فتوی مبنی بر حق نہیں ہوسکتا جو کہ جمہور اہل حدیث کے موقف کے خلاف ہو۔تو جب بھی ہم حق بیان کرینگے تو اہل باطل ہماری فتویٰ ویب سائٹ کا حوالہ دے گا کہ دیکھو تمہارے مفتی تو اسے صحیح کہتے ہیں لیکن تم غلط کہہ رہے ہو۔
تنبیہ: جمہور اہل حدیث کا موقف ہی میرے نزدیک اہل حدیث کا جماعتی موقف ہے۔
مثال کےطور پر یہی فتویٰ دیکھ لیں:
مقلدین کے پیچھے نماز پڑھنا اور ان کی منکوحہ سے نکاح کرنا - Powered by Kayako Fusion Help Desk Software
انتہائی نامعقول اور بے ہودہ فتویٰ ہے۔ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اہل بدعت بار بار آپ کو اس فتویٰ کو حوالہ دے کر ثابت کرنے کی کوشش کرینگے کہ وہ اہل سنت ہیں۔ نہ جانے ان مفتیان کرام کی اہل سنت سے کیا مراد ہے؟ شاید تقلید کو بھی یہ حضرات سنت سمجھتے ہیں جبھی مقلدین کو اہل سنت کہہ رہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بدعتی کی تعظیم کرنا دین کی عمارت کو ڈھادینا ہے۔ کیا دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا اور نماز ہوجانے کا فتویٰ دینا ان بدعتیوں کی تعظیم نہیں ہے؟ کیا کسی ایک صحابی سے بھی ثابت ہے کہ اہل بدعت کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ جب دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے تو میراا ن مفتیان کرام سے سوال ہے کہ بیچارے بریلویوں نے کیا قصور کیا ہے ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں ہوتی؟؟؟ دونوں ایک ہی امام کے مقلد، ایک ہی مذہب کے ماننے والے، ایک ہی فقہ پر عمل پیرا، دونوں ہی تصوف کے چاروں سلسلوں میں بیعت کرنے اور کروانے والے، دونوں ہی شرک و بدعت کی لعنت میں مبتلا۔ تو پھر بریلویوں سے یہ امتیازی سلوک کیوں؟ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ بریلویوں کے پیچھے نماز ہوجانے کا فتویٰ بھی دیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا فتویٰ لوگوں کی نماز اور ایمان خراب کروانے کا موجب ہے۔اور اس طرح کے فتوے قرآن و حدیث کو سلف کے فہم کے بغیر سمجھنے کا نتیجہ ہیں۔اللہ اس گمراہی سے محفوظ رکھے۔آمین