• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥١) لوگوں کے گھروں میں بغیر اطلاع کے داخل ہونا
کسی کے گھر میں بغیر اطلاع کے داخل ہونا حرام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰی اَھْلِھَا ) (النور:٢٧)
''اے اہل ایمان! تم اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ کہہ لو۔''
ہمارے ہاں یہ برائی بہت عام ہے' خصوصاً قریبی رشتہ داروں میں کہ جب کسی رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو بغیر دروازہ کھٹکھٹائے یا گھنٹی دیے اندر گھس جاتے ہیں۔ گھر کی خواتین گھر کے کام کاج کے دوران ہر وقت مکمل ستر میں نہیں ہوتیں' اس لیے یہ بالکل بھی مناسب نہیں کہ بغیر اطلاع کے کسی کے گھر میں داخل ہوا جائے۔ داخل ہونا تو بڑی بات ہے اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر جھانک بھی لے تو اس کے لیے بھی حدیث میں بڑی وعید آئی ہے ۔رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((مَنِ اطَّلَعَ فِیْ بَیْتِ قَوْمٍ بِغَیْرِ اِذْنِھِمْ فَقَدْ حَلَّ لَھُمْ اَنْ یَفْقَئُوْا عَیْنَہ)) (٦)
''جو شخص بھی کسی قوم کے گھر میں بغیر ان کی اجازت کے جھانکے تو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٢) دو آدمیوں کا تیسرے کی موجودگی میں سرگوشی کرنا
مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پھیلانے والی آفات میں سے یہ بھی ایک آفت ہے کہ ایک ہی مجلس کے دو افراد تیسرے کو چھوڑ کر آپس میں سرگوشی کرنے لگیں۔ اسی لیے رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((اِذَا کُنْتُمْ ثَلَاثَةً فَلَا یَتَنَاجٰی رَجُلَانِ دُوْنَ الْآخَرِ)) (٧)
''جب تم تین ہو تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر آپس میں سرگوشی نہ کریں۔''
اسی طرح کا حکم چار یا اس سے زائد افراد کے لیے بھی ہے۔ اس حکم کا مقصد یہی ہے کہ تیسرے آدمی کی دل آزاری نہ ہو یا وہ یہ نہ سمجھے کہ یہ دونوں میرے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں۔ البتہ اگر تیسرا آدمی بقیہ دو کی سرگوشی سے راضی ہو تو پھر یہ سرگوشی حرام نہیں ہو گی۔ اور افضل عمل یہی ہے کہ اگر مجلس میں تینوں افراد برابر کے شریک ہوں اور دو نے علیحدگی میں کوئی بات کرنی ہے تو تیسرے سے اجازت لے لیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٣) اپنے کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا
ایسی برائیاں جن کو لوگ چھوٹا سمجھتے ہیں' حالانکہ اللہ کے ہاں وہ بہت بڑے گناہوں میں شمار ہوتی ہیں' ان میں سے ایک اسبالِ ازار بھی ہے' یعنی اپنی تہبند یا شلوار وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((ثَلَاثَة لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَاب اَلِیْم)) قَالَ : فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ ثَلَاثَ مِرَارًا' قَالَ اَبُوْذَرِّ: خَابُوْا وَخَسِرُوْا مَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ : ((اَلْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ)) (٨)
''تین افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو ان سے کلام کرے گا' نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا 'اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ حضرت ابوذر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ خائب و خاسر ہونے والے کون لوگ ہیں؟ تو آپۖ نے فرمایا: (پہلا شخص وہ ہے جو کہ) اپنے کپڑے کو لٹکانے والا ہے' اور (دوسرا) احسان جتلانے والا اور (تیسرا وہ تاجر جو کہ) اپنے سامان کو جھوٹی قسم سے بیچتاہے۔''
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ احادیث میں اسبالِ ازار کی جو ممانعت آئی ہے وہ تکبر کی وجہ سے اسبالِ ازار ہے' لہٰذا اگر تکبر نہ ہو تو اسبالِ ازار جائز ہے۔ یہ لوگ اسبالِ ازار کی علت تکبر بتاتے ہیں' لیکن یہ طرزِ فکر صحیح نہیں ہے۔ بعض روایات میں اسبالِ ازار کے ساتھ جو تکبر کا ذکر ہے وہ اس کی علت نہیں بلکہ حکمت ہے اور یہ واضح رہے کہ علت پر حکم کی بنیاد ہوتی ہے نہ کہ حکمت پر۔ اسی لیے اللہ کے رسولۖ کا فرمان ہے:
((مَا تَحْتَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَارِ فَفِی النَّارِ)) (٩)
''تہبند کا جو حصّہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ آگ میں جائے گا۔''
رسول اللہۖ کی یہ حدیث عام ہے' اس میں تکبر کا ذکر نہیں ہے۔ ہاں اگر اسبالِ ازار تکبر کے ساتھ ہو تو پھر اس کی سزا بڑھ جاتی ہے' جیسا کہ آپۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ جَرَّ ثَوْبَہ خُیَلَاء لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ اِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ)) (١٠)
''جو کوئی اپنے کپڑے کو تکبر کی وجہ سے کھینچے (یعنی لٹکائے )گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر کرم نہیں فرمائے گا۔''
تہبند ہو' شلوار ہو یا پتلون ہو' اس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام ہے۔ بعض روایات میں اسبالِ ازار ہی کو تکبر قرار دیا گیا ہے' اس لیے کہ یہ اکثر اوقات تکبر کا باعث بنتا ہے' لہٰذا اسی اسبالِ ازار کو بجائے خود حرمت کی علت بنا دیا گیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٤) مردوں کا سونا پہننا
ہمارے معاشرے میں ایک بیماری یہ بھی پائی جاتی ہے کہ مَردبھی عورتوں کی طرح سونے کی انگوٹھیاں اور لاکٹ وغیرہ استعمال کرتے ہیں جو کہ حرام ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((اُحِلَّ الذَّھَبُ وَالْحَرِیْرُ لِاِنَاثِ اُمَّتِیْ وَحُرِّمَ عَلٰی ذُکُوْرِھَا)) (١١)
''میری امت کی عورتوں کے لیے سونا اور ریشم حلال کیے گئے ہیں' لیکن یہ میری اُمت کے مَردوں پر حرام ہیں''۔
اللہ کے رسولۖ کی اس وعید کو دیکھیں اور ہمارے ہاں مَردوں کی جہالت اور لاعلمی کا ماتم کریں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے ایک دفعہ ایک مَرد کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپۖ نے وہ انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایا:
((یَعْمِدُ اَحَدُکُمْ اِلٰی جَمْرَةٍ مِنْ نَارٍ فَیَجْعَلُھَا فِیْ یَدِہ)) فَقِیْلَ لِلرَّجُلِ بَعْدَ مَا ذَھَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ : خُذْ خَاتِمَکَ انْتَفِعْ بِہ' قَالَ : لَا وَاللّٰہِ لاَ آخُذُہ اَبَدًا وَقَدْ طَرَحَہ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ (١٢)
'' تم میں سے کوئی آگ کے انگارے کا قصد کرتا ہے اور پھر اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیتا ہے''۔ جب اللہ کے رسولۖ چلے گئے تو اُس آدمی سے کہا گیا کہ اپنی یہ انگوٹھی لے لو اور اس سے فائدہ اٹھاو (یعنی اس کو کسی اور استعمال میں لے آو' مثلاً اپنی بیوی کو دے دویا بیچ کر قیمت استعمال کر لو) تو اُس نے کہا : نہیں اللہ کی قسم !میں اب اسے ہرگز نہیں لوں گا کیونکہ اللہ کے رسولۖ اسے پھینک چکے ہیں۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٥) مَردوں کا عورتوں کے ساتھ اور عورتوں کا مَردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا
فطرت انسانی کا یہ تقاضا ہے کہ مرد اپنی مردانگی اور عورتیں اپنی نسوانیت کو برقرار رکھیں۔ مغربی معاشروں سے ہمارے ہاں درآمد شدہ خرابیوں میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ مردعورتوں کی صفات اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں' مثلاً مردوں کا عورتوں کی طرح لمبے بال رکھنا' کانوں میں بالیاں پہننا' ہاتھوں میں کڑے اور گردن میں لاکٹ پہننا اور داڑھی منڈوانا۔ جبکہ عورتیں مردوں کی صفات اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں' مثلاً عورتوں کا مردوں کی طرح بال چھوٹے رکھنا' اپنی شلواروں کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا اور مردوں کے لباس پہننا وغیرہ۔ اللہ کے رسولۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر لعنت کی ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاء وَالْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاء بِالرِّجَالِ (١٣)
''اللہ کے رسولۖ نے اُن مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں اور اسی طرح آپۖ نے اُن عورتوں پر بھی لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں۔''
اسی طرح آپۖ نے ایسے مردوں اور عورتوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو کہ جنس مخالف کا لباس پہنتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں :
((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ لَعَنَ الرَّجُلَ یَلْبَسُ لُبْسَةَ الْمَرْأَةِ وَالْمَرْأَةُ تَلْبَسُ لُبْسَةَ الرَّجُلِ)) (١٤)
''اللہ کے رسولۖ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کے لباس جیسا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کے لباس جیسا لباس پہنتی ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٦) پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا
شریعت اسلامیہ کے محاسن میں سے ایک طہارت بھی ہے۔ ہماری شریعت میں بہت سارے احکامات ایسے ہیں جن کا تعلق نجاست کے ازالے سے ہے' ان میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ پیشاب کرتے وقت اپنے آپ کو اس کے چھینٹوں سے بچائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہۖ کا گزر ایک باغ کے پاس سے ہوا تو آپۖ نے دو انسانی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپۖ نے فرمایا:
((یُعَذَّبَانِ' وَمَا یُعَذَّبَانِ فِیْ کَبِیْرٍ)) ثُمَّ قَالَ : ((بَلٰی کَانَ اَحَدُھُمَا لَا یَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِہ وَکَانَ الآخَرُ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَةِ)) (١٥)
''ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے 'اور انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا''۔ پھر آپۖ نے فرمایا : ''کیوں نہیں 'ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب (کے چھینٹوں) سے نہیں بچتا تھا جبکہ دوسرا چغل خور تھا۔''
اسی طرح آپۖ کا ارشاد ہے:
((اَکْثَرُ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنَ الْبَوْلِ)) (١٦)
''اکثر عذابِ قبر پیشاب کی وجہ سے ہوگا۔''
یعنی پیشاب سے نہ بچنا قبر میں اکثر لوگوں کے عذاب کا باعث ہو گا۔ ہاں اگر کوئی شخص حتی الامکان اپنے آپ کو پیشاب کے چھینٹوں سے بچانے کی کوشش کرتا ہے' لیکن اس کے باوجود اس پر کچھ نہ کچھ چھینٹے پڑجاتے ہیں تو ایسے شخص کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائیں گے۔ لیکن اس شخص کو چاہیے کہ جسم یا کپڑے کے جس حصے کے بارے میں اس کا گمانِ غالب ہو کہ وہاں پیشاب کے چھینٹے پڑے ہیں اس جگہ کو دھو لے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٧) جاسوسی کرنا
چھپ کر کسی فرد یا افراد کی باتیں سننا جس کو وہ ناپسند بھی کرتے ہوں' حرام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَلَا تَجَسَّسُوْا) (الحُجُرٰت:١١)
''اور تم جاسوسی مت کرو''۔
عام طور پر عورتوں میں یہ بری عادت زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت اپنے ارد گرد محلے اور قریبی رشتہ داروں کی ٹوہ میں رہتی ہیں کہ کسی طرح ان کے گھر کے اندرونی معاملات کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔ اللہ کے رسولۖ کا ارشاد ہے:
((مَنِ اسْتَمَعَ اِلٰی حَدِیْثِ قَوْمٍ وَھُمْ لَہ کَارِھُوْنَ اَوْ یَفِرُّوْنَ مِنْہُ ھُبَّ فِیْ اُذُنِہ الْآنُکُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ))(١٧)
''جس نے کسی قوم کی باتیں کان لگا کر سنیں جبکہ وہ اس کو ناپسند کرتے ہوں یا اس سے دور بھاگتے ہوں تو ایسے شخص کے کان میں قیامت کے دن سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔''
حالت جنگ میں غیر مسلم افواج کی جاسوسی کرنا اس حکم سے مستثنی ہے۔ یہاں مراد ایسی جاسوسی ہے جو کہ کسی مسلمان بھائی کے عیوب تلاش کرنے کے لیے ہو۔ اسلام تو ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر ہمارے سامنے کسی مسلمان بھائی کا عیب آ جائے تو ہم اس پر پردہ ڈالیں اور اس کو عام نہ کریں چہ جائیکہ ہم مسلمانوں کے عیوب تلاش کرتے پھریں ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٨) پڑوسی کے ساتھ برا سلوک کرنا
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ لا وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ) (النساء:٣٦)
''اور تم اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ اور یتیموں کے ساتھ اور مساکین کے ساتھ اور رشتہ دار پڑوسی کے ساتھ اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ اور پہلو میں بیٹھنے والے ساتھی کے ساتھ اور مسافروں کے ساتھ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ۔''
پڑوسی کو تکلیف دینا کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ)) قِیْلَ وَمَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((الَّذِیْ لَا یَأْمَنُ جَارُہ بَوَایِقَہ )) (١٨)
''اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے' اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے 'اللہ کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے!'' کہا گیا :اے اللہ کے رسولۖ !کون؟ آپۖ نے فرمایا: ''وہ شخص کہ جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥٩) مؤمن پر لعنت کرنا
لعنت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے بارے میں بددعا کرنا کہ اللہ اس کو اپنی رحمت سے دُور کرے۔ لوگوں کا ایک دوسرے پر' یا والدین کا اپنی اولاد پر' یا خاوند کا بیوی پر' یا بیوی کا خاوند پر لعنت کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ رسول اللہۖکا ارشاد ہے:
((لَعْنُ الْمُؤْمِنِ کَقَتْلِہ)) (١٩)
'' مؤمن پر لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔''
عام طور پر عورتیں لعن طعن بہت کرتی ہیں۔ آپۖ کی حدیث میں عورتوں کے جہنم میں بکثرت جانے کے جو دو سبب بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک کثرت سے لعن طعن کرنا ہے' جبکہ دوسرا سبب خاوند کی ناشکری کرنا ہے۔ اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ ان دو قبیح افعال سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی شعوری کوشش کریں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦٠) چہرے پر مارنا
حضرت جابرسے روایت ہے:
نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ عَنِ الضَّرْبِ فِی الْوَجْہِ (٢٠)
''رسول اللہۖ نے چہرے پر مارنے سے منع کیا۔''
ہمارے ہاں عموماً والدین اور خصوصاً اساتذہ کی یہ عام عادت دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ بچوں کو جب مارتے ہیں تو چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہیں' حالانکہ ان کا یہ فعل بالکل بھی جائز نہیں ہے۔ چہرے پر مارنے میں انسانیت کی اہانت ہے۔ بعض اوقات چہرے پر مارنے سے جسم کا کوئی خاص عضو مثلاً آنکھ' ناک' دانت وغیرہ بے کار ہو سکتے ہیں' جو کہ بعد میں مارنے والے کے لیے شرمندگی و ندامت کے علاوہ قصاص کا بھی باعث بن جاتے ہیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top