• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٣) خرید و فروخت کے وقت دکان دار کا مال کے عیب کو چھپانا
اللہ کے رسولۖ کا کھانے (غالباً گندم) کے ایک ڈھیر پر سے گزر ہوا' آپۖ نے اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈالا تو آپۖ ' کو اندر سے وہ گیلا محسوس ہوا تو آپۖ نے فرمایا:
((مَا ھٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟)) قَالَ : اَصَابَتْہُ السَّمَاء یَارَسُوْلَ اللّٰہِ' قَالَ : ((اَفَلَا جَعَلْتَہ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ؟ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ)) (١٢)
''اے کھانے کے مالک! یہ کیا ہے؟'' اس نے کہا :اے اللہ کے رسولۖ !اس کو بارش پہنچی تھی (اس لیے یہ اندر سے گیلا ہے) تو آپۖ نے فرمایا :''تو نے اسے کھانے کے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھیں ؟جس نے ملاوٹ کی اُس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔''
آج کل ہم بازار میں دیکھتے ہیں کہ اکثر دکان دار حضرات اچھا مال دکھا کر گاہک کو گھٹیا مال پکڑا دیتے ہیں۔ مزید برآں اس حرکتِ بد پر فخر محسوس کرتے اور اپنے آپ کو تجربہ کار کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولۖ کا ایسے دکان داروں کے بارے میں یہ فرمان ہے کہ ان کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں' یعنی ایسے دھوکے باز میری اُمت میں سے نہیں ہیں۔
اگر کسی چیز کا عیب گاہک پر واضح کر دیا جائے تو پھر اُس کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ' لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ اَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْب اِلاَّ بَیَّنَہ لَہ)) (١٣)
''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کوکوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو' سوائے اس کے کہ وہ اس عیب کو اس کے لیے واضح کردے۔''
جب تک گاہک کوئی چیز خرید کر دکان سے چلا نہ جائے اُس وقت تک دکان دار اور خریدار دونوں کے پاس یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ وہ اپنے سودے سے پھر جائیں۔ لیکن جب گاہک کوئی چیز خرید کر چلا جائے تو پھر اُس کے بعد یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اگر دوسرے فریق کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا تو اُس سودے سے برکت ختم ہو جائے گی' اگرچہ گناہ صرف اسی کو ہو گا جس نے دھوکہ دیا یا جھوٹ بولا۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا اَوْ قَالَ:حَتّٰی یَتَفَرَّقَافَاِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَھُمَا فِیْ بَیْعِھِمَا' وَاِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَةُ بَیْعِھِمَا))(١٤)
''بیچنے اور خریدنے والے کے پاس اُس وقت تک چیز کو واپس کرنے کا اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہو جائیں۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں گے اور عیب کو ظاہر کریں گے تو اُن کے لیے اس بیع میں برکت ڈال دی جائے گی۔ اور اگر وہ دونوں عیب کو چھپائیں گے اور جھوٹ بولیں گے تو اُن کی بیع میں برکت ختم کر دی جائے گی۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٤) بیع نجش
اللہ کے رسولۖ نے قیمت بڑھانے کی خاطر بولی لگانے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا:
((لَا تَنَاجَشُوْا )) (١٥)
'' آپس میں قیمت بڑھانے کے لیے بولی نہ لگاو۔''
''نجش'' سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو بکتا ہوا دیکھے تو خواہ مخواہ اس کی قیمت بڑھا دے۔ اُس قیمت بڑھانے والے کا مقصد اُس چیز کو خریدنا نہ ہو بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہو کہ یہ چیز مہنگے داموں بک جائے۔ بعض اوقات یہ قیمت بڑھانے والے دکان دار کے ساتھ مل کر گاہک کو پھنسانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں دکان دار اور ایسی بولی لگانے والا دونوں اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ بعض اوقات دکان دار تو اس فعل میں شریک نہیں ہوتا لیکن قیمت بڑھانے والا اس نیت سے قیمت بڑھاتا رہتا ہے کہ خریدار کو نقصان ہو۔ ایسی صورت میں صرف قیمت بڑھانے والا ہی گناہ گار ہو گا۔ امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
ھٰذَا حَرَام بالاجماع' والبیع صحیح' والاثم مختص بالناجش ان لم یعلم بہ البائع' فان واطأہ علی ذلک اثما جمیعا (١٦)
''بیع نجش کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے' لیکن یہ بیع ہو جاتی ہے' اگرچہ ایسا کرنے والا گناہ گار ہو گا' اور گناہ اس کو ہو گا جس نے قیمت بڑھائی بشرطیکہ دکان دار کو اس کا علم نہ ہو' اگر دکان دار بھی ساتھ ملا ہوا ہو تو دونوں گناہ گار ہوں گے۔''
اس بیع کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں خریدار کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ اور دھوکے کی اسلام میں قطعی ممانعت ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٥) جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کرنا
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جمعہ کی اذان کے بعد ہر قسم کی تجارت اور خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْر لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ) (الجمعة)
''اے اہل ایمان! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہو جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑے چلے آو اور ہر قسم کی تجارت اور کاروبار کو چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگرتم جانتے ہو۔''
دیکھنے میں آ رہا ہے کہ لوگ نمازِ جمعہ کی اذان کے بعد بھی اپنے کاروبار اور دُنیوی مشاغل میں مصروف رہتے ہیں اور مسجد میں نہیں آتے۔ حالانکہ جمعہ کی نماز جتنی ضروری ہے اتنا ہی جمعہ کا خطبہ سننا بھی ضروری ہے۔ جمعہ کے خطبے کا اصل مقصد وعظ و نصیحت ہوتا ہے کہ ہر ہفتے انسان کی یاد دہانی کا ایک سلسلہ قائم رہے اور اُس کے عمل میں سستی پیدا نہ ہو۔ لیکن اکثر افراد کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کے لیے عین جماعت کے وقت آتے ہیں اور دو' رکعتیں فرض پڑھ کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اس آیت مبارکہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اذانِ جمعہ کے بعد ہر قسم کے دُنیوی مشاغل کو چھوڑ کر جمعہ کے لیے گھر سے نکل پڑنا چاہیے۔ الاّ یہ کہ کوئی شخص جمعہ کی تیاری میں مصروف ہو تو اسے جلد از جلد تیاری مکمل کر کے مسجد کی طرف چل پڑنا چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٦) چوری کرنا
چوری کرنا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے' جس کی حد ہاتھ کاٹنا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا جَزَآء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْز حَکِیْم) (المائدة)
''اورچوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت' ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو' یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کمایا اور اللہ کی طرف سے سزا ہے۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔''
چوری بہرحال چوری ہی ہوتی ہے چاہے تھوڑے مال کی ہو یا زیادہ مال کی ۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((لَعَنَ اللّٰہُ السَّارِقَ یَسْرِقُ الْبَیْضَةَ فَتُقْطَعُ یَدُہ وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدُہ)) (١٧)
''اللہ تعالیٰ اُس چور پر لعنت کرے جو کہ انڈا چوری کرتا ہے اور اُس پر اُس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور رسّی چوری کرتا ہے اور اس پر اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔''
کسی سرکاری ادارے مثلاً سکول' کالج' یونیورسٹی وغیرہ کے فنڈز کھا جانا بھی چوری میں آتا ہے۔ چونکہ سرکاری مال مسلمانوں کی اجتماعی ملکیت ہے اس لیے اس کو ذاتی استعمال میں لانا حرام ہے۔ سرکاری مال کو سرکاری محکموں میں خواہ وہ پولیس ہو یا فوج' واپڈا ہو یا سوئی گیس' غرض ہر محکمے میں ناجائز استعمال کیا جاتا ہے' جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام الناس کی بہت بڑی تعداد بنیادی سہولیات مثلاً بجلی' پانی' گیس' ہسپتال' سڑکوں' تعلیم وغیرہ سے محروم رہ جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو ہمارے ہاں سسٹم کی خرابی ہے' لیکن ایک دوسری بڑی وجہ جہالت بھی ہے کہ لوگ سرکاری فنڈز کے ذاتی استعمال کو چوری سمجھتے ہی نہیں۔ اس لیے دیکھنے میں آیاہے کہ بہت سے دین دار حضرات بھی اس فعل میں ملوث ہو جاتے ہیں اور اس کو اپنا حق سمجھ کراستعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٧) رشوت لینا اور دینا
قاضی یا حاکم یا کسی سرکاری ملازم کو اس وجہ سے رشوت دینا کہ وہ باطل کو حق کر دے یا باطل کو چھپا لے' تو یہ ایسا جرم ہے جو کسی دوسرے بھائی پر ظلم و ستم کرنے کے مترادف ہے اور فتنہ و فساد پھیلانے کا موجب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(وَلاَ تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ) (البقرة)
''اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاو اور ان کو حکام کی طرف نہ لے جاو کہ تم لوگوں کے مال میں سے ایک حصہ کھا سکو گناہ کے ساتھ اور تم جانتے بوجھتے ایسا کرتے ہو۔''
ہمارے ہاں رشوت کا مرض بہت زیادہ عام ہو گیا ہے' خصوصاً سرکاری محکموں کا تو یہ حال ہے کہ جائز حق وصول کرنے کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ اپنے کسی حق کے حصول کے لیے یا اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے مجبوراً رشوت دینا اس وعید میں داخل نہیں ہے جو کہ قرآن و سنت میں وارد ہوئی ہے۔ ہاں اگر رشوت لینے یا دینے سے اصل مقصود کسی پر ظلم کرنا ہو' یا کسی کا حق مارنا ہو' یا اپنے جرم کو چھپانا ہو یا قوم کا پیسہ ہڑپ کرنا وغیرہ ہو تو ایسی تمام صورتوں میں رشوت لینا اور دینا حرام ہوگا۔ رسول اللہۖ کا ارشادہے:
((لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الرَّاشِیْ وَالْمُرْتَشِیْ))(١٨)
''رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٨) کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا
کسی کی زمین پر ظلم و زیادتی سے قبضہ کر لینا بہت بڑا جرم ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرمۖ نے فرمایا:
((مَنْ اَخَذَ مِنَ الْاَرْضِ شَیْئًا بِغَیْرِ حَقِّہ خُسِفَ بِہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ اِلٰی سَبْعِ اَرَضِیْنَ)) (١٩)
''جس نے کسی کی زمین کو ناحق دبایا تو ایسے شخص کو قیامت کے دن سات زمینوں کے نیچے تک دھنسا دیا جائے گا۔''
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
((مَنْ ظَلَمَ قِیْدَ شِبْرٍ مِنَ الْاَرْضِ طُوِّقَہ مِنْ سَبْعِ اَرَضِیْنَ)) (٢٠)
''جس نے کسی دوسرے کی بالشت برابر زمین بھی ظلم و زیادتی سے چھین لی تو قیامت کے دن سات زمینوں کو اُس کی گردن میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔''
ایک طرف اللہ کے رسولۖ کی اِن وعیدوں کو دیکھیں اور دوسری طرف معاشرے میں موجود قبضہ گروپوں کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں لوگ اسلامی تعلیمات سے کس قدر اعراض کر رہے ہیں! پچھلے ہی دنوں ایک معروف اخبار میں قبضہ گروپ کے خلاف ایک تحقیقی رپورٹ چھپی ہے جس میں قبضہ گروپوں کے طریقۂ واردات اورعام شہریوں پر اِن کے مظالم اور اُن کی نمائندگی کرنے والے سرکاری عناصر کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ رپورٹ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان میں کس قدر تیزی سے قبضہ گروپ عوام الناس کی زمینوں پر ظالمانہ قبضہ کر کے اُن پر بڑے بڑے پلازے اور عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں! طرفہ تماشا یہ کہ یہ سب کچھ سرکار اور محکمہ پولیس کی نگرانی اور ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ اللہ کے رسولۖ نے تو ایسے شخص پر بھی لعنت فرمائی ہے جو کہ زمین کی حدود کو تبدیل کر دیتا ہے تاکہ اپنے پڑوسی کی جگہ کا کچھ حصہ اپنی جگہ میں ملا سکے۔ یہ کام چاہے کوئی پٹواری یا تحصیلدار کرے یا خود زمین کا مالک کرے' دونوں صورتوں میں حرام ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ کا ارشادِ مبارک ہے:
((لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ غَیَّرَ مَنَارَ الْاَرْضِ)) (٢١)
''اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر لعنت فرمائے جس نے زمین کی علامات (یا حدود ) کو تبدیل کردیا۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٩) جوا
جوا بھی شریعت اسلامیہ میں حرام ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) (المائدة)
''اے اہل ایمان! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں' سو اِن سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاو۔''
دَورِ جاہلیت میں اہل عرب کی بری عادات میں جوا بھی شامل تھا' جس کی معروف شکل اُن کے ہاں یہ ہوتی تھی کہ دس افراد ایک اونٹ میں مساوی طور پر شریک ہوتے' پھر تیروں کے ذریعے قرعہ نکالتے اور سات افراد اس اونٹ کے گوشت میں سے معین حصہ لے لیتے جبکہ باقی تین افراد محروم رہ جاتے۔ اکثر اوقات اس طرح سے حاصل شدہ گوشت کو غریبوں اور مساکین میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ اس طرح غرباء کا بھی کچھ نہ کچھ بھلا ہو جاتا تھا۔ جوئے کے اندر یہی وہ منفعت تھی کہ جس کی طرف قرآن نے اِن الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
(وَاِثْمُھُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا ) (البقرة:٢١٩)
''اور اِن دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔''
موجودہ دَور میں بھی جوئے کی ایک معروف شکل تاش کے پتوں(play cards)پر جوا کھیلنا ہے' لیکن عصر حاضر کے فتنوں میں سے ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ سود اور جوئے کی بہت ساری ایسی شکلیں معاشرے میں رواج پا گئیں ہیں کہ لوگ اِن کو سود اور جوا ہی نہیں سمجھتے۔ مثلاً قسمت کی پڑیا' لاٹری کی تمام صورتیں' اخبارات کے پزل' مختلف قسم کے ریفل ٹکٹ' ایسے انعامی بانڈز کہ جن میں انسان کی رقم ضائع ہوجاتی ہے' سب جوئے ہی کی مختلف قسمیں ہیں۔ اسی طرح حکومت کی طرف سے جاری کردہ پرائز بانڈز بھی سود اور جوئے کا مرکب ہیں۔ اسی قسم کا حکم بیمے کا بھی ہے' یہ بھی سود اور جوئے کا مرکب ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
١) رواہ ابوداود' کتاب الادب' باب فی مشی النساء مع الرجال فی الطریق۔ اسے امام البانی نے ''حسن'' کہا ہے۔
٢) صحیح ابن خزیمہ' کتاب الصلاة۔
٣) رواہ مسلم' کتاب الصلاة' باب تسویة الصفوف واقامتھا وفضل الاول فالاول منھا۔
٤) رواہ مسلم' کتاب الصلاة' باب خروج النساء الی المساجد اذا لم یترتب علیہ فتنة۔
٥) رواہ البخاری' کتاب مواقیت الصلاة' باب وقت الفجر۔
٦) سنن ابی داود' کتاب الصلاة' باب فی اعتزال النساء فی المساجد عن الرجال۔
٧) رواہ مسلم' کتاب الصلاة' باب خروج النساء الی المساجد اذا لم یترتب علیہ فتنة وانھا لا تخرج مطیبة۔
٨) صحیح البخاری' کتاب الحج' باب طواف النساء مع الرجال۔
٩) صحیح البخاری' کتاب المغازی' باب غزوة الطائف فی شوال سنة ثمان۔
١٠) سنن النسائی' کتاب الطلاق' باب التغلیظ فی الانتفاء من الولد۔
١١) صحیح مسلم' کتاب المساقاة' باب لعن آکل الربا۔
١٢) صحیح مسلم' کتاب الایمان' باب قول النبیۖ من غشنا فلیس منا۔
١٣) سنن ابن ماجہ' کتاب التجارات' باب من باع عیبا فلیبینہ۔
١٤) صحیح البخاری' کتاب البیوع' باب اذا بین البیعان ولم یکتما ونصحا۔
١٥) سنن ابی داود' کتاب البیوع' باب فی النھی عن النجش۔
١٦) عون المعبود شرح ابی داود' کتاب البیوع' باب فی النھی عن النجش۔
١٧) صحیح البخاری' کتاب الحدود' باب قول اللہ تعالیٰ : (وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا)۔
١٨) سنن ابن ماجہ' کتاب الاحکام' باب التغلیظ فی الحیف والرشوة۔
١٩) صحیح البخاری' کتاب المظالم والغصب' باب اثم من ظلم شیئا من الارض۔
٢٠) صحیح البخاری' کتاب المظالم والغصب' باب اثم من ظلم شیئا من الارض۔
٢١) صحیح مسلم' کتاب الاضاحی' باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالیٰ ولعن فاعلہ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤٠) کسی کی سفارش کرنے پر تحفہ لینا
کسی مسلمان بھائی کے لیے سفارش کرنا تا کہ اس کو کوئی نفع حاصل ہو' مستحسن امر ہے اور قرآن و سنت میں اس کی تائید آئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّکُنْ لَّہ نَصِیْب مِّنْھَا ) (النّساء:٨٥)
''جو کوئی اچھی سفارش کرے گا تو اس کے لیے اس میں سے حصہ ہو گا۔''
اسی طرح رسول اللہۖ کے پاس جب کوئی سائل یا ضرورت مند آتا تو آپۖ' فرماتے:
((اِشْفَعُوْا فَلْتُؤْجَرُوْا )) (١)
''تم سفارش کرو تا کہ تمہیں اجر دیا جائے ۔''
اگر کسی کے عہدے' مقام اور مرتبے کی وجہ سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہو تواسے یہ فائدہ ضرور پہنچانا چاہیے۔ لیکن اس میں اتنا خیال ضرور رکھ لیا جائے کہ کسی سفارش کی وجہ سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کا حق نہ مارا جائے یا اس پر ظلم نہ ہو۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
(( مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّنْفَعَ اَخَاہُ فَلْیَفْعَلْ)) (٢)
''جو تم میں سے اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکے تو وہ ایسا ضرور کرے۔''
لیکن کسی مسلمان بھائی کے لیے سفارش کر کے اس سے ہدیہ وصول کرنا جائز نہیں ہے' بلکہ حرام ہے۔رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((مَنْ شَفَعَ لِاَخِیْہِ بِشَفَاعَةٍ فَاَھْدٰی لَہ ھَدِیَّةً عَلَیْھَا فَقَبِلَھَا فَقَدْ اَتٰی بَابًا عَظِیْمًا مِنْ اَبْوَابِ الرِّبَا )) (٣)
''جس نے اپنے مسلمان بھائی کے لیے سفارش کی' پھر اس نے اُسے اِس پر کوئی تحفہ دیا اوراس (سفارش کرنے والے) نے اس تحفے کو قبول کر لیا تو وہ (سفارش کرنے والا) سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔''
ہمارے سرکاری محکموں میں یہ بیماری بہت عام ہے۔ سرکاری ملازمین اپنے افسروں سے سفارش کروانے کے لیے تحفے اور ہدیے لے کر جاتے ہیں اور وہ انہیں قبول کر لیتے ہیں' جو کہ قطعاً حرام فعل ہے۔ اگرچہ جائز سفارش کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے' لیکن چونکہ اس پر تحفے تحائف دینا اور لینا بہت سی خرابیوں کا دروازہ کھول دیتا ہے اس لیے ایسے تحائف کو شریعت اسلامیہ میں حرام قرار دیا گیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤١) مزدور سے کام لے کر اُس کی اجرت نہ دینا
رسول اللہۖ نے اس بات کی تلقین کی ہے کہ مزدور کو اس کی اجرت دینے میں جلدی کرنی چاہیے۔ آپۖ کا ارشاد ہے:
((اَعْطُوا الْاَجِیْرَ اَجْرَہ قَبْلَ اَنْ یَّجِفَّ عَرَقُہُ)) (٤)
''مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔''
ہمارے ہاں عام طور پر سرکاری محکموں اور پرائیویٹ سیکٹرز میں ملازمین کے ساتھ اس معاملے میں بہت زیادتی اور استحصال پایا جاتا ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہیں:
ا) بعض افراد کسی مخصوص کام کے لیے کسی شخص کو اجرت پر رکھتے ہیں اور اپنی پسند کے مطابق کام نہ ہونے پر مزدور کی اجرت دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ب) بعض افراد یا ادارے اپنے ملازمین کو مکمل اجرت ادا نہیں کرتے' بلکہ اُن کی اجرت کا کچھ حصہ خود ہڑپ کر جاتے ہیں۔ سرکاری محکموں میں یہ خرابی عام ہے۔
ج) بعض افراد اپنے ملازمین سے معاہدے میں طے شدہ وقت سے زائد کام کرواتے ہیں جبکہ اس اضافی مدت کی اجرت نہیں دیتے' یہ بھی اسی استحصال میں داخل ہے۔
د) اسی طرح بعض افراد اپنے ملازمین کو اجرت دیتے وقت تنگ کرتے اور تأخیر سے کام لیتے ہیں' بلاوجہ ان کو حیلے بہانے سے ٹالتے رہتے ہیں اور وہ بے چارے اپنے حق کو وصول کرنے کی غرض سے کچہری اور عدالت کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔
کسی ملازم کی اجرت میں بلاوجہ تأخیر کرنا قطعاًناجائز ہے' کیونکہ یہ ایک مسلمان بھائی کو اذیت دینے کے مترادف ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((قَالَ اللّٰہُ : ثَلَاثَة اَنَا خَصْمُھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ : رَجُل اَعْطٰی بِیْ ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُل بَاعَ حُرًّا فَاَکَلَ ثَمَنَہُ وَرَجُل اسْتَاْجَرَ اَجِیْرًا فَاسْتَوْفٰی مِنْہُ وَلَمْ یُعْطِ اَجْرَہ)) (٥)
''اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تین آدمیوں کا مَیں قیامت کے دن دشمن ہوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام کی قسم دی پھر اُس کو توڑ دیا' دوسرا وہ آدمی جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اُس کی قیمت کھا لی اور تیسرا وہ آدمی جس نے کسی شخص کو اجرت پر رکھا تواس سے کام تو پورا لے لیا لیکن اسے اس کی اُجرت نہ دی۔''
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top