- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
حدیث کا صحیح مفہوم
کسی نے حدیث مذکور میں شیطان کے معنے بچہ جنانے والی دایہ کے کئے ہیں اور کسی نے حدیث مذکور میں مس شیطان سے مرض ام الصبیان مراد لیا ہے جسے ام الشیطان بھی لغتِ طب میں کہا گیا ہے وغیر ذالک ومن التاویلات اسی طرح سید احمد نے بھی ایک تاویل کی ہے کہ عیسائیوں کے مذہب میں یہ مانا گیا ہے کہ ’’ یسوع جنگل میں چالیس دن تک شیطان سے آزمایا گیا۔‘‘(۱۳۱) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں عیسائیوں کے اس خیال کی تردید کی ہے۔ یعنی تاویلات دل خوش کن تو بیشک ہیں لیکن الفاظِ حدیث ان میں سے کسی ایک تاویل کو قبول نہیں کرتے۔ پس حدیث مذکور کا صحیح مطلب میرے ناقص خیال میں صرف اسی قدر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے عند الولادۃ رونے کو مس شیطان سے تعبیر فرمایا ہے اور اِلاَّ مَرْیَمَ وَابنھا کا استثناء حدیث مذکور میں یستھل صارخا سے فرمایا ہے۔ یعنی ایک واقعہ کا بیان مقصود ہے جو وقوع پذیر ہوچکا ہے کہ سارے بچے تو پیدا ہونے کے بعد روتے ہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام و مریمعلیہا السلامپیدا ہونے کے بعد مطلق نہیں روئے تھے۔ اس سے نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام و مریم علیہا السلام کی کوئی فضیلت بیان کرنی مقصود ہے۔ نہ دوسرے انبیاء کی توہین، بلکہ صرف ایک واقعہ کی حکایت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر ہوچکا ہے۔
الزامی جواب :
مرزائیوں کی ضیافتِ طبع کے لیے مرزا صاحب کے قلم کا لکھا ہوا جواب بھی درج ذیل کیا جاتا ہے تاکہ مرزائی حضرات کا منہ بند ہو جائے اور اہل علم مسلمان مرزا صاحب قادیانی کے ’’علم و نظر‘‘ کی داد دیں:
’’ اور مسلمانوں میں یہ جو مشہور ہے کہ عیسیٰ اور اس کی ماں مس شیطان سے پاک ہیں، اس کے معنے نادان لوگ نہیں سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ پلید یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر سخت ناپاک الزام لگائے تھے اور دونوں کی نسبت شیطانی کامونکی تہمت لگاتے تھے، سو اس افترا کا رد ضروری تھا۔ پس اس حدیث کے اس سے زیادہ کوئی معنی نہیں کہ یہ پلید الزام جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر لگائے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ان معنوں کرکے وہ مس شیطان سے پاک ہیں اور اس قسم کے پاک ہونے کا واقعہ کسی اور نبی کو کبھی پیش نہیں آیا۔‘‘(۱۳۲) (وافع البلاء صفحہ آخری)
اُمْصُصُ بظراللات کی تحقیق
مرزائی اعتراض:
حضرت مرزا صاحب نے گالیاں دی ہیں تو کیا ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی تو کفار مکہ کو کہا تھا اُمْصُصْ بظر اللَّاتِ جاؤ لات بت کی شرمگاہ چومو۔ (۱۳۳)
جواب:
مرزائی معترض نے جو حوالہ پیش کیا ہے اور جو ترجمہ کیا ہے اس میں پورا پورا مرزائیت کا ثبوت دیا ہے۔ مرزائیوں کی ذہنیت خدا تعالیٰ نے بالکل مسخ کردی ہے۔ ان سے غور و فکر کی تمام قوتیں سلب کرلی ہیں۔ جب کوئی بات بن نہ آئے تو جھٹ واقعات کو موڑ توڑ کر نہایت برے طریق سے پیش کرکے بزرگانِ دین کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ مرزائیوں کی پیش کردہ عبارت کس حیثیت کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا جواب علم کی روشنی میں دیا جائے تاکہ علم دوست اور انصاف پسند حضرات کے لیے چراغِ راہ کا کام دے سکے۔
واقعات اس طرح ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفارِ مکہ میں سے ایک شخص نامی بُدَیْل بن ورقاء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے متعلق کہا: ’’ اِنَّ ھٰؤُلَآئِ لَوْ قَدْ مَسَّھُمْ حَزُّ السِّلَاحِ لَاَسْلَمُوْکَ۔ اگر ان مسلمانوں کو ذرا سی تکلیف پہنچی اور مصائب و آلام سے دوچار ہوئے تو آپ کو چھوڑ دیں گے اور دشمنوں کے حوالے کردیں گے۔
یہ بات ایک جان نثار اور فدا کار مسلمان کیونکر برداشت کرسکتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غیرت اسلامی جوش میں آگئی۔ آپ سے نہ رہا گیا فوراً بول اُٹھے۔
یعنی جاؤ، لات بت سے کہو کہ ہمیں متزلزل کردے۔ ہمارے پائے استقلال میں لغزش پیدا کردے (اگر وہ کرسکے) ہم حضور علیہ السلام کے فدا کار غلام ہیں۔ جہاں آپ کا پسینہ بہے گا ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ مگر حضور علیہ السلام پر آنچ تک نہ آنے دیں گے۔ تمہاری بکواس اور بے ہودہ گوئی ہم پر کوئی اثر نہیں کرسکتی اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ہماری عقیدت کے متعلق کوئی شک و شبہ پیدا کرسکتی ہے۔(۱۳۴)
بُدَیل نہایت عیار اور چالاک انسان تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں مسلمانوں کے اخلاص و عقیدت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کردئیے جائیں۔ اور دوسری جانب مسلمانوں کو یہ سبق دیا جائے کہ تکلیف و آزمائش کے وقت علیحدہ ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ دو پھر آپ جانیں اور دشمنانِ اسلام۔
اس کا جواب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ تیری بکواس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم تیری باتوں میں آنے والے نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا عین سعادت سمجھتے ہیں۔ تیری باتیں یا وہ گوئی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان کو حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
مرزائیوں کو جو علم و عقل سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ یہ جان لینا چاہیے کہ عربوں کا محاورہ ہے اُمْصُص بَظْرِ فُلَانَۃٍ اَوْ اُمِّہٖ فلاں اور اُمَّ (ماں) کی بجائے کسی محبوب ترین چیز کا نام بھی لیتے ہیں اور مراد ہوتی ہے کہ جاؤ جو مرضی ہے بکتے پھرو یا وہ گوئی کرو۔ اس کی وضاحت کے لیے ابن رشیق کی مشہور و معروف کتاب ’’ العمدۃ‘‘ کا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے جو ہماری اس دلیل کو مضبوط ترین کردیتا ہے۔ ’’ اِنَّ الشُّعَرَائَ ثَلَاثَۃٌ شاعر، شُوَیعر ومَاصٍ بَظْر اُمّہٖ۔ (۱۳۵)طبع ۱۹۳۴ء یعنی شاعروں کی تین قسمیں ہیں۔ ایک تو بلند پایہ شاعر، دوسرے معمولی اور گھٹیا درجے کے شاعر، تیسرے محض یا وہ گو اور تک بند۔
اب اس روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے الفاظ پر غور فرمائیے کہ مرزائیوں نے کتنا غلط اور بیہودہ ترجمہ کیا ہے ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جناب مرزا صاحب قادیانی نے اردو، فارسی اور عربی میں نہایت گندی اور فحش گالیاں اپنے مخالفوں کے حق میں استعمال کی ہیں جن کا نمونہ گزشتہ صفحات میں درج کیا جاچکا ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انتہائی جوش اور غصے کے عالم میں بھی کوئی نازیبا کلمہ استعمال نہیں فرمایا۔ صرف یہی کہا کہ تمہاری باتیں محض بکواس ہیں ہم ایسے نہیں جیسے تم نے خیال کیا ہے تمہارا خیال بالکل باطل ہے۔ بتائیے اس میں کونسی گالی ہے؟
-----------------
(۱۳۱) مرقس کی انجیل باب اول آیت ۱۳،۱۴
(۱۳۲) دافع البلائِ و معیار اہل الاصطفاء ص۴و روحانی ص۲۲۰، ج۱۸، نوٹ: مرزا نے یہی توضیح ایام الصلح ص۱۱۷تحفہ گولڑویہ ص۱۲۵، انجام آتھم اور حمامۃ البشریٰ ص۴۷میں کی ہے، ابو صہیب
(۱۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۶۱
(۱۳۴) صحیح بخاری ص ۳۷۸،ج۱کتاب الشروط باب الشروط فی الجھار، نوٹ،مرزائیوں نے، ادارۃ المصنفین ربوہ ضلع جھنگ، کی طرف سے ترجمہ ، صحیح بخاری شائع کیا تھا۔ جس کے مترجم (مرزے محمود کے رشتہ میںسالے) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تھے،انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک مبسوط حاشیہ لکھا ہے کہ یہ کلمات عرب لوگ گالی کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن یہ فقرہ استعارۃ مزا لینے اور خمیازہ بھگتنے کے معنوں میں بھی ہوسکتا ہے، لات، طائف میںقبیلہ بنو ثقیف کی دیوی تھی اور اسی کے نام پر بت خانہ تھا۔ جو ایک چٹان پر واقع تھا۔ لات دیوی خوب صورت پوشاک میں ملبوس اور زیوروں سے آراستہ و پیراستہ رکھی جاتی تھی نہ صرف بنو ثقیف بلکہ سارا عرب ہی اس کی پوجا کرتا تھا۔ جس طرح ہندوؤں میں لنگ پوجا وغیرہ کا رواج ہے اسی طرح کا ایک پوجا اس بت خانہ میں بھی ہوتی تھی اور لات کے پجاریوں میں زنا کاری اور شراب خوری بکثرت تھی … حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی … مذکورہ بالا فقرے سے ان کے عیوب کی طرف اشارہ کیا جو لات دیوی کے پجاریوں میںعام تھے۔ حاشیہ ترجمہ بخاری ص۸تا ۱۱جزء گیارہواں، طبعہ ربوہ ۱۹۷۰ء ۔ (ابو صہیب)
(۱۳۵) العمدۃ ص۹۷، تا ۹۸، ج۱طبعہ ۱۹۳۴ء
کسی نے حدیث مذکور میں شیطان کے معنے بچہ جنانے والی دایہ کے کئے ہیں اور کسی نے حدیث مذکور میں مس شیطان سے مرض ام الصبیان مراد لیا ہے جسے ام الشیطان بھی لغتِ طب میں کہا گیا ہے وغیر ذالک ومن التاویلات اسی طرح سید احمد نے بھی ایک تاویل کی ہے کہ عیسائیوں کے مذہب میں یہ مانا گیا ہے کہ ’’ یسوع جنگل میں چالیس دن تک شیطان سے آزمایا گیا۔‘‘(۱۳۱) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں عیسائیوں کے اس خیال کی تردید کی ہے۔ یعنی تاویلات دل خوش کن تو بیشک ہیں لیکن الفاظِ حدیث ان میں سے کسی ایک تاویل کو قبول نہیں کرتے۔ پس حدیث مذکور کا صحیح مطلب میرے ناقص خیال میں صرف اسی قدر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے عند الولادۃ رونے کو مس شیطان سے تعبیر فرمایا ہے اور اِلاَّ مَرْیَمَ وَابنھا کا استثناء حدیث مذکور میں یستھل صارخا سے فرمایا ہے۔ یعنی ایک واقعہ کا بیان مقصود ہے جو وقوع پذیر ہوچکا ہے کہ سارے بچے تو پیدا ہونے کے بعد روتے ہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام و مریمعلیہا السلامپیدا ہونے کے بعد مطلق نہیں روئے تھے۔ اس سے نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام و مریم علیہا السلام کی کوئی فضیلت بیان کرنی مقصود ہے۔ نہ دوسرے انبیاء کی توہین، بلکہ صرف ایک واقعہ کی حکایت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیشتر ہوچکا ہے۔
الزامی جواب :
مرزائیوں کی ضیافتِ طبع کے لیے مرزا صاحب کے قلم کا لکھا ہوا جواب بھی درج ذیل کیا جاتا ہے تاکہ مرزائی حضرات کا منہ بند ہو جائے اور اہل علم مسلمان مرزا صاحب قادیانی کے ’’علم و نظر‘‘ کی داد دیں:
’’ اور مسلمانوں میں یہ جو مشہور ہے کہ عیسیٰ اور اس کی ماں مس شیطان سے پاک ہیں، اس کے معنے نادان لوگ نہیں سمجھتے۔ اصل بات یہ ہے کہ پلید یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر سخت ناپاک الزام لگائے تھے اور دونوں کی نسبت شیطانی کامونکی تہمت لگاتے تھے، سو اس افترا کا رد ضروری تھا۔ پس اس حدیث کے اس سے زیادہ کوئی معنی نہیں کہ یہ پلید الزام جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی ماں پر لگائے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے بلکہ ان معنوں کرکے وہ مس شیطان سے پاک ہیں اور اس قسم کے پاک ہونے کا واقعہ کسی اور نبی کو کبھی پیش نہیں آیا۔‘‘(۱۳۲) (وافع البلاء صفحہ آخری)
اُمْصُصُ بظراللات کی تحقیق
مرزائی اعتراض:
حضرت مرزا صاحب نے گالیاں دی ہیں تو کیا ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی تو کفار مکہ کو کہا تھا اُمْصُصْ بظر اللَّاتِ جاؤ لات بت کی شرمگاہ چومو۔ (۱۳۳)
جواب:
مرزائی معترض نے جو حوالہ پیش کیا ہے اور جو ترجمہ کیا ہے اس میں پورا پورا مرزائیت کا ثبوت دیا ہے۔ مرزائیوں کی ذہنیت خدا تعالیٰ نے بالکل مسخ کردی ہے۔ ان سے غور و فکر کی تمام قوتیں سلب کرلی ہیں۔ جب کوئی بات بن نہ آئے تو جھٹ واقعات کو موڑ توڑ کر نہایت برے طریق سے پیش کرکے بزرگانِ دین کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ مرزائیوں کی پیش کردہ عبارت کس حیثیت کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کا جواب علم کی روشنی میں دیا جائے تاکہ علم دوست اور انصاف پسند حضرات کے لیے چراغِ راہ کا کام دے سکے۔
واقعات اس طرح ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفارِ مکہ میں سے ایک شخص نامی بُدَیْل بن ورقاء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے متعلق کہا: ’’ اِنَّ ھٰؤُلَآئِ لَوْ قَدْ مَسَّھُمْ حَزُّ السِّلَاحِ لَاَسْلَمُوْکَ۔ اگر ان مسلمانوں کو ذرا سی تکلیف پہنچی اور مصائب و آلام سے دوچار ہوئے تو آپ کو چھوڑ دیں گے اور دشمنوں کے حوالے کردیں گے۔
یہ بات ایک جان نثار اور فدا کار مسلمان کیونکر برداشت کرسکتا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غیرت اسلامی جوش میں آگئی۔ آپ سے نہ رہا گیا فوراً بول اُٹھے۔
یعنی جاؤ، لات بت سے کہو کہ ہمیں متزلزل کردے۔ ہمارے پائے استقلال میں لغزش پیدا کردے (اگر وہ کرسکے) ہم حضور علیہ السلام کے فدا کار غلام ہیں۔ جہاں آپ کا پسینہ بہے گا ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ مگر حضور علیہ السلام پر آنچ تک نہ آنے دیں گے۔ تمہاری بکواس اور بے ہودہ گوئی ہم پر کوئی اثر نہیں کرسکتی اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ہماری عقیدت کے متعلق کوئی شک و شبہ پیدا کرسکتی ہے۔(۱۳۴)
بُدَیل نہایت عیار اور چالاک انسان تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں مسلمانوں کے اخلاص و عقیدت کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کردئیے جائیں۔ اور دوسری جانب مسلمانوں کو یہ سبق دیا جائے کہ تکلیف و آزمائش کے وقت علیحدہ ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ دو پھر آپ جانیں اور دشمنانِ اسلام۔
اس کا جواب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ تیری بکواس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہم تیری باتوں میں آنے والے نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینا عین سعادت سمجھتے ہیں۔ تیری باتیں یا وہ گوئی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان کو حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
مرزائیوں کو جو علم و عقل سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ یہ جان لینا چاہیے کہ عربوں کا محاورہ ہے اُمْصُص بَظْرِ فُلَانَۃٍ اَوْ اُمِّہٖ فلاں اور اُمَّ (ماں) کی بجائے کسی محبوب ترین چیز کا نام بھی لیتے ہیں اور مراد ہوتی ہے کہ جاؤ جو مرضی ہے بکتے پھرو یا وہ گوئی کرو۔ اس کی وضاحت کے لیے ابن رشیق کی مشہور و معروف کتاب ’’ العمدۃ‘‘ کا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے جو ہماری اس دلیل کو مضبوط ترین کردیتا ہے۔ ’’ اِنَّ الشُّعَرَائَ ثَلَاثَۃٌ شاعر، شُوَیعر ومَاصٍ بَظْر اُمّہٖ۔ (۱۳۵)طبع ۱۹۳۴ء یعنی شاعروں کی تین قسمیں ہیں۔ ایک تو بلند پایہ شاعر، دوسرے معمولی اور گھٹیا درجے کے شاعر، تیسرے محض یا وہ گو اور تک بند۔
اب اس روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے الفاظ پر غور فرمائیے کہ مرزائیوں نے کتنا غلط اور بیہودہ ترجمہ کیا ہے ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جناب مرزا صاحب قادیانی نے اردو، فارسی اور عربی میں نہایت گندی اور فحش گالیاں اپنے مخالفوں کے حق میں استعمال کی ہیں جن کا نمونہ گزشتہ صفحات میں درج کیا جاچکا ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انتہائی جوش اور غصے کے عالم میں بھی کوئی نازیبا کلمہ استعمال نہیں فرمایا۔ صرف یہی کہا کہ تمہاری باتیں محض بکواس ہیں ہم ایسے نہیں جیسے تم نے خیال کیا ہے تمہارا خیال بالکل باطل ہے۔ بتائیے اس میں کونسی گالی ہے؟
-----------------
(۱۳۱) مرقس کی انجیل باب اول آیت ۱۳،۱۴
(۱۳۲) دافع البلائِ و معیار اہل الاصطفاء ص۴و روحانی ص۲۲۰، ج۱۸، نوٹ: مرزا نے یہی توضیح ایام الصلح ص۱۱۷تحفہ گولڑویہ ص۱۲۵، انجام آتھم اور حمامۃ البشریٰ ص۴۷میں کی ہے، ابو صہیب
(۱۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۹۶۱
(۱۳۴) صحیح بخاری ص ۳۷۸،ج۱کتاب الشروط باب الشروط فی الجھار، نوٹ،مرزائیوں نے، ادارۃ المصنفین ربوہ ضلع جھنگ، کی طرف سے ترجمہ ، صحیح بخاری شائع کیا تھا۔ جس کے مترجم (مرزے محمود کے رشتہ میںسالے) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تھے،انہوں نے مذکورہ حدیث پر ایک مبسوط حاشیہ لکھا ہے کہ یہ کلمات عرب لوگ گالی کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن یہ فقرہ استعارۃ مزا لینے اور خمیازہ بھگتنے کے معنوں میں بھی ہوسکتا ہے، لات، طائف میںقبیلہ بنو ثقیف کی دیوی تھی اور اسی کے نام پر بت خانہ تھا۔ جو ایک چٹان پر واقع تھا۔ لات دیوی خوب صورت پوشاک میں ملبوس اور زیوروں سے آراستہ و پیراستہ رکھی جاتی تھی نہ صرف بنو ثقیف بلکہ سارا عرب ہی اس کی پوجا کرتا تھا۔ جس طرح ہندوؤں میں لنگ پوجا وغیرہ کا رواج ہے اسی طرح کا ایک پوجا اس بت خانہ میں بھی ہوتی تھی اور لات کے پجاریوں میں زنا کاری اور شراب خوری بکثرت تھی … حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی … مذکورہ بالا فقرے سے ان کے عیوب کی طرف اشارہ کیا جو لات دیوی کے پجاریوں میںعام تھے۔ حاشیہ ترجمہ بخاری ص۸تا ۱۱جزء گیارہواں، طبعہ ربوہ ۱۹۷۰ء ۔ (ابو صہیب)
(۱۳۵) العمدۃ ص۹۷، تا ۹۸، ج۱طبعہ ۱۹۳۴ء