تفاسیر
تفسیر کبیر
التوفی حبنس تحتہ الواع بعضھا با الموت وبعضھا یا الاصعاد الی السماء۔(۶۵)
ترجمہ: امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ آیت انی متوفیک الآیہ کے تحت میں لکھتے ہیں۔ کہ توفی بمنزلہ جنس کے ہے اور اس کے تحت میں بہت سے انواع ہیں۔ مثلاً موت اور اصعاد الی السماء وغیرہ۔
بیضاوی:
التوفی اخذ الشئی وافیا والموت نوع منہ۔(۶۶)
ترجمہ: موت توفی کی ایک نوع ہے۔
مرزا صاحب کا فیصلہ
ناظرین یہ تو تھی تحقیق از روئے لغات و کلامِ عرب۔ اب شاید آپ کو مرزا صاحب کے دستخط خاص کی انتظار ہو۔ تو اس انتظار کو بھی ان شاء اللہ رفع کرا دیتا ہوں۔
مرزا صاحب نے موضوع لہٰ معنی اور مجازی معنی معلوم کرنے کے لیے ہمیں ایک پرکھ بتائی ہے۔ اب ہم اسی کسوٹی پو جو مرزا صاحب نے ہمیں دی ہے اس کو بھی پرکھتے ہیں۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ:
ثم اعلموا ان حق الفظ الموضوع لہ ان یوجد المعنی فی جمیع افرادہ من غیر تخصیص ولا تعیین۔(۶۷)
ترجمہ: یعنی جاننا چاہیے کہ بیشک لفظ موضوع لہٗ کا حق تو یہ ہے کہ اس کے جمیع افراد میں اس کا معنی بلا تخصیص و بلا تعیین پایا جائے۔
اب ہم اسی اصول کی رو سے اسی لفظ توفی کو پرکھتے ہیں تو مرزا صاحب کا معنیٰ موت نہ تو تمام افراد میں پایا جاتا ہے (ظاہر ہے کہ اگر تمام افراد میں پایا جاتا تو مرزا صاحب ذی روح کی پخ نہ لگاتے) اور نہ بلا تخصیص و تعیین ہے کیونکہ مرزا صاحب شرط لگاتے ہیں کہ اللہ فاعل ہو۔ ذی روح مفعول ہو۔ توفی باب تفعل ہو۔ نوم اور لیل کوئی قرینہ نہ ہو۔ ناظرین ذرا گن لیجئے کہ کتنی شرطیں لگائی گئی ہیں اور لطف یہ کہ شاید مرزائیوں کے نزدیک ابھی تک بلا تخصیص و تعیین ہوگا۔ (۶۸)
اس مختصر تحریر سے معلوم ہوا کہ جب مرزا صاحب کا معنی ان کے اپنے وضع کردہ اصول کے بھی خلاف پڑتا ہے۔ تو اس کے غلط و باطل ہونے میں کیا شک و شبہ؟ بخلاف اس کے ہمارا معنی ’’پورا لے لینا‘‘ جمیع افراد ہیں خواہ وہ نیند ہو، خواہ وہ موت ہو۔ خواہ اصعا دالی السماء ہو۔ خواہ عہد ہو خواہ قرض ہو وغیرہ وغیرہ) پایا جاتا ہے۔ اور ہے بھی بلا تعیین و بلا تخصیص۔
اس مختصر سی تحریر کے بعد قارئین کرام پر واضح اور ہویدا ہوگیا کہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ مسیحیت کو بچا کرنے کے لیے کیا کیا چالیں چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ خود اپنے موضوعہ اصولوں کے بھی خلاف کردیا کرتے تھے۔ یہ دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو عمداً اپنے دعاوی کو سچا ثابت کرنے کے لیے کرتے ہونگے یا سہواً، اگر عمداً کرتے تھے تو مفتری علی اللہ، مکار، عیار اور دسیسہ کار ثابت ہوئے اور سہواً تھا تو باوجود نبی ہونے کے خدا تعالیٰ نے ان کو ان کے سہو سے اخیر وقت تک ٹیچی فرشتہ کے ذریعہ سے اطلاع کیوں نہیں دی۔ تاکہ زندگی میں ہی اس کی اصلاح کر جاتے۔ اور مخلوقِ خدا کو گمراہ نہ کرتے۔ اس سے بھی ان کا متنبی ہونا ثابت ہے۔
تحریر بالا سے بالکل واضح اور ہویدا ہوگیا کہ لفظ توفی بحسب الوضع موت اور قبض روح کے لیے موضوع نہیں ہے۔ بلکہ موت اس کا مجازی معنی ہے۔ اس کا حقیقی اور وضعی معنیٰ پورا کرنا ہے۔
کمالا یخفی علی من لہ مما رسۃ فی الکتب اللغویہ۔
اب بھی اگر کوئی جاہل بے تکی ہانکتا چلا جائے کہ توفی موت اور قبض روح کے لیے موضوع ہے تو یہ اس کی جہالت کا کافی ثبوت ہے۔
الزامی جواب
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اپنی کتاب براہین احمدیہ میں آیت
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّکا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ وہ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا (۶۹)اور دیکھئے خود مرزا صاحب نے فقرہ متوفیک کے معنی ’’ پوری نعمت‘‘ دوں گا کے لیے ہیں۔
اس پر اعتراض
مرزا صاحب نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تھا۔ الہامی نہیں تھا۔ (۷۰)
الجواب:
مرزا صاحب قادیانی کا دعویٰ تھا کہ میں براہین احمدیہ کے وقت بھی عند اللہ رسول تھا۔ (۷۱)
نیز یہ کہ کتاب (براہین احمدیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش ہو کر رجسٹرڈ بھی ہوگئی تھی۔ اور قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل اور مستحکم ہے (براہین احمدیہ حاشیہ ص۲۴۸، ۲۴۹) ناظرین ! جب کشف میں (بقول مرزا صاحب) براہین احمدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش ہو کر قبولیت حاصل کر رہی تھی۔ کیا اس وقت توفی کی بحث جس کے معنی ’’ پوری نعمت دوں گا‘‘ لیے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سے نہ گزرے؟ اگر گزرے تو بقول مرزائیوں کے غلط ہونے کی وجہ سے کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کاٹ دیا؟
-----------
(۶۵) تفسیر کبیر ص۷۲، ج۸طبعہ مصر ۱۹۳۸
(۶۶) تفسیر بیضاوی ص۳۰۰، ج۱طبعہ مصر ۱۹۶۸ء
(۶۷) الاستفتاء ضمیمہ (عربی) حقیقت الوحی ص۴۳و روحانی ص۶۶۵، ج۲۲
(۶۸) مرزا نے توفی کے لفظ پر ایک انعامی چیلنج بھی دبے رکھا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ:
اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا اشعار و قصائد و نظم و نثر قدیم و جدید عرب سے یہ ثبوت پیش کرے کہ کس جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فضل ہونے کی حالت میںجو ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو وہ بجز قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر بھی اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کرکے مبلغ (ایک) ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا، ازالہ اوہام ص۹۱۹مرزا جی کے اس چیلنج کا دو حرفی خلاصہ یہ ہے کہ علماء اسلام ، یعیسی انی متوفیک ورافعک الی (پ۳اٰل عمران ۵۵) کے جو معنیٰ قبض جسم کرتے ہیں وہ غلط ہیں، لیکن مولانا ابو سعید محمد حسین محدث بٹالوی کی طرف سے جب مرزائی کو منہ توڑ جواب ملا کہ توفی کا لغوی معنی اخذ الشی وافیاً ہے اور موت اس کا معنیٰ مجازی ہے، اور جب توفی کا قرینہ رفع مذکور ہو اور الیٰ اس کاملہ مذکور ہو تو اس کا معنیٰ سوائے قبض جسم کے اور کوئی نہیں ہوتا اگر قادیانی قرآن و حدیث اور لغات عرب سے اس کے خلاف ایک بھی مثال پیش کردے تو میں اسے تین سو روپیہ انعام دوں گا، اشاعۃ السنۃ جلد ۱۴نمبر ۲، ۱۸۹۱ء مرزا نے مولانا بٹالوی مرحوم کے اس چیلنج کے بعد اپنے چیلنج و مؤقف میں کمزوری محسوس کرتے ہوئے دو تین سال کے غور کے بعد لکھا، انی قرأت کتاب اللّٰہ آیۃ آیۃ و تدبرت فیہ ثم قرأت کتب الحدیث بنظر عمیق و تدبرت فیھا فما وجدت لفظ التوفی فی القران ولا فی الاحادیث۔ اذا کان اللّٰہ فاعلہ واحد من الناس مفعولا بہ ان بمعنٰی الامانۃ وقبض الروح ومن یثبت خلاف تحقیقی ہذا فلہ اُلف من الدارھم المروجۃ انعامًا منی، حمامۃ البشرٰی ص۶۳و روحانی ص۲۷۰ج۷۔میں نے اللہ کی کتاب کو ایک ایک آیت کرکے پڑھا ہے پھر اس میں غور کیا ہے پھر کتب حدیث گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے اور پھر ان میں غور بھی کیا ہے لیکن میں نے توفی کا لفظ نہ تو قرآن میں نہ ہی حدیث میں پایا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فاعل ہو اور انسانوں میں سے کوئی شخص مفعول بہ۔ مگر اسی موت اور روح کو قبض کرنے کے معنیٰ میں اور جو شخص اس (میری تحقیق) کے خلاف ثابت کردے تو اس کے لیے ایک ہزار مروجہ درہم میریطرف سے انعام ہوگا۔ (انتھی)
اس چیلنج کو مکرر ملاحظہ کریں کہ آنجہانی نے، قبض جسم، کے چیلنج کو چھوڑ کر کس عیاری سے کہا ہے کہ موت اور قبض روح کے علاوہ معنی دکھائیںجائیں پھر اس میں ایک مزید شرط کا بھی اضافہ کردیا کہ مفعول، انسان ہو جبکہ ازالہ کے چیلنج میں صرف ذی روح کی قید تھی۔ ان رد و بدل کے بعد بھی مرزا کمال تقدس سے فرماتے ہیں کہ کذلک وعدت فی کتبی التی طبعتھا واشعتھا للمنکرین (حمامۃ البشرٰی ص۶۳) یعنی اسی طرح کا وعدہ میں نے ان کتب میں بھی کیا ہے جن کو میں نے منکرین کے لیے شائع کیا ہے۔ انتھی
اس سے بڑھ کر اور کیا غلط بیانی ہوسکتی ہے ہم اس پر، لعنۃ اللہ علی الکاذبین ، کی وعید ہی کافی سمجھتے ہیں۔ مذکورہ چیلنج بھی مرزا کے نزدیک ادھار تھا کیونکہ جھوٹے انسان کی طبیعت میں ایک خلجان ہوتا ہے آخر چار پانچ سال مزید غور و فکر اور تامل کے بعد لکھا کہ یہ قدیم محاورہ لسان العرب ہے کہ جب خدا تعالیٰ فاعل ہوتا ہے اور انسان مفعول بہ ہوتا ہے تو ایسے موقعہ پر لفظ توفی کے معنیٰ بجز وفات کے اور کچھ نہیںہوتے اور اگر کوئی شخص اس سے انکار کرے تو اس پر واجب ہے کہ ہمیںحدیث یا قرآن یا فن ادب کی کسی کتاب سے یہ دکھلا دے کہ ایسی صورت میںکوئی اور معنیٰ بھی توفی کے آجاتے ہیں اور اگر ایسا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ قدسیہ سے پیش کرسکے تو ہم بلا توقف اس کو پانچ سو روپے انعام دینے کو تیار ہیں، حاشیہ تریاق القلوب ص۱۴۵و روحانی ص۴۵۸ج ۱۵اس تحریر میں مرزاشرائط تو تقریباً وہی رکھتے ہیں لیکن ایک مزید شق اضافی کا زکر کرتے ہیں کہ انعام صرف اسے ہی ملے گا جو حدیث مصطفی میں سے مثال دکھائے گا اور وہ بھی ایک ہزار کی بجائے پانچ سو ہوگا، اس چیلنج پر بھی مرزا مادل مطمئن نہ تھا بلکہ ضمیر ملامت کر رہا تھا کہ آخر آٹھ نو سال کی محنت شاقہ اور پوری زندگی کے مکارانہ تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے مرزا نے لکھا کہ مدت ہوئی کہ اسی ثابت شدہ امر پر ایک اشتہار دیا تھا کہ جو شخص اس کے برخلاف کسی حدیث یا دیوان مستند عرب سے کوئی ایسا فقرہ پیش کرے گا جس میں باوجود اس کے کہ توفی کے لفظ کا خدا فاعل ہو اور کوئی علم مفعول بہ ہو یعنی کوئی ایسا شخص مفعول بہ ہو جس کا نام لیا گیا ہو۔ مگر باوجود اس امر کے اس جگہ وفات دینے کے معنی نہ ہوں تو اس قدر انعام دوں گا۔ اس اشتہار کا آج تک کسی نے جواب نہیں دیا اب پھر اتمام حجت کے لیے دو سو روپیہ نقد کا اشتہار دیتا ہوں کہ اگر کوئی ہمارا مخالف … کوئی ایسا فقرہ پیش کرے جس میں توفی کے لفظ کا خدا تعالیٰ فاعل ہو اور مفعول بہ کوئی علم ہو جیسے زید بکر اور خالد وغیرہ اور اس فقرہ کے معنیٰ بیداھۃ کوئی اور ہوں وفات دینے کے معنیٰ نہ ہوںتو ایسی صورت میں میں ایسے شخص کو مبلغ دو سو روپیہ نقد دوں گا۔ براہین احمدیہ ص ۲۱۱، ج۵روحانی ص۳۸۳، ج۲۱۔ اس چیلنج میں مرزا نے انعام کو پانچ سو (پہلے ہزار سے پانچ سو کیا تھا) سے دو سو روپیہ کردیا ہے اور شرائط میں سے ایک شرط مزید کا یہ اضافہ کیا ہے کہ مفعول بہ کاصراحت سے نام ہونا ضروری تھا۔ قارئین دیکھتے جانا مرزا کس طرح پیچ در پیچ ڈال رہے ہیں، پہلے ذی روح کی قید، پھر اسے کاٹ کر خاص انسان ذی روح کی قید لگا دی، پھر اسے بھی مسترد کرکے مزید کہا کہ ذی روح انسان کا نام بھی لیا گیا ہو۔
پھر لطف کی بات یہ کہ مرزا لکھتا ہے میرے پہلے اشتہار (ازالہ) میں بھی ( ذی روح انسان ہو اور وہاں اس کا نام بھی مذکور ہو) یہی شرائط تھیں، لعنۃ اللہ علی الکاذبین آمین یا الہ العالمین، پہلے کہا قبض جسم معنیٰ دکھایا جائے اب کہتے ہیں کہ موت کے علاوہ معنیٰ کوئی بھی ہو تو میں دو سو انعام دوں گا، پھر اس کوڑ پر یہ کھاج کہ فرماتے ہیں پہلے بھی یہی اشتہار دیا، الغرض مرزا شرائط کے بڑھانے گئے اور انعام کو کم کرتے گئے، ان کی یہ روش بتاتی ہیں کہ کتب حدیث اور ادب سے مرزا کو اپنے چیلنج کے خلاف امثلہ ملیں جنہیں وہ جان بوجھ کر سامنے نہ لائے مگر قادیانی حضرات مرزا کے اس چیلنج کو اب بھی پیش کرکے کہا کرتے ہیں کہ ان شرائط کے ماتحت کوئی اور معنیٰ ثابت کیا جائے، احمدیہ پاکٹ بک ص ۳۳۵۔
انعام والی بات محض قادیانی حضرات کا فریب ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا نظام ہدیت اور اس کی معرفت ہی کافی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور تمام لوگوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا الہ العالمین۔ ہم بغیر انعام لیے ہی مرزا کا چیلنج توڑ دیتے ہیں۔
(۱) صحیح ابن حبان اوردیگر کتب حدیث میںحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : اذا رمی الجمار لا یدری احد مالہ حتی یتوفا اللّٰہ یوم القیامۃ (الحدیث) الترغیب الترھیب ص۳۳۷، ج۲یعنی جب حاجی رمی جمار کرتاہے توکوئی نہیںجانتا کہ اس کا اجر وثواب کیا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حاجی کو قیامت کے روز پورا پورابدلہ دیں گے۔
(۲) ابن جریر،ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اوسط، تاریخ حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ بینما ابوبکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ یاکل مع النبی ﷺ اذ نزلت علیہ ( فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ ) فرفع ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ یدہ وقال یا رسول اللّٰہ انی اجزی بما علمت من مثقال ذرۃ من شر فقال ، یا ابابکر ما رایت فی الدنیا مما تکرہ نبمثا قیل ذر الشر ویدخر اللّٰہ لک مثاقیل ذرہ الخیر حتی توفاہ یوم القیامۃ ، تفسیر ابن کثیر ص۵۲۰،ج۴و در منثور ص۳۸۰، ج۶و مجمع الزوائد ص۱۴۵، ج۷مرزا غلام احمد قادیانی کا بڑا جانشین ثانی اور مرزائیوں کا فضل عمر اور مصلح موعود مرزا محمود احمد اپنی تفسیر کبیر ص۴۶۶، ج۹میں مذکورہ روایت کا حسب ذیل معنیٰ کرتا ہے کہ:
حضرت ابوبکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص ایک ذرہ بھر بھی نیکی کرے گا وہ اس کا انجام دیکھ لے گا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ آیت سن کر گھبرا گئے اور انہوں نے کھانے سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ایک ذرہ بھر بدی بھی مجھ سے سرزد ہوئی تو قیامت کے دن مجھے اس کی سزا ملے گی اگر ایسا ہوا تب تو بڑی مشکل ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ٹھیک ہے مگر اے ابوبکر تم گھبراؤ نہیںدنیا میں انسان کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ذرہ شر کی وجہ سے پہنچتی ہیں اس طرح خدا تعالیٰ شر کے ذروں کو یہیں ختم کردے گا اور خیر کے ذروں کو باقی رکھے گا اور انہی کی بنا پر مومن کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ انتھی بلفظہٖ۔
قارئین کرام! دیکھ لیجئے کہ پوری شرائط ہونے کے باوجود اور مرزا محمود بیسوں پاپڑ بیلنے کے باوجود ، توفاہ، کا معنیٰ موت نہیں کرسکا، پھر لطف کی بات تو یہ ہے کہ پہلی مثال میں حاجی اور آخری میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نام لے کر مفعول بنایا گیا ہے مگر معنیٰ موت نہ ہی بنتا ہے اور نہ مرزا محمود کر سکا ہے۔ ابو صہیب
(۶۹) براہین احمدیہ ص ۵۲۰، ج۴و روحانی ص۶۲۰،ج۱، و تذکرہ ص۹۷، نوٹ: مذکورہ ترجمہ آیت قرآنی کا نہیں جیسا کہ مولانا معمار مرحوم نے لکھا ہے بلکہ انہیں الفاظ میں مرزا کا الہام ہے جس کا مرزا نے معنیٰ، پوری نعمت دوں گا، کیا ہے۔ ابو صہیب
(۷۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۳۷
(۷۱) ایام الصلح ص۷۵و روحانی ص۳۰۹، ج۱۴