• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مخالفینِ دین کی پیدا کردہ متواتر اور آحاد کی الجھن!

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
اسلام علیکم
مخالفینِ دین کی پیدا کردہ متواتر اور آحاد کی الجھن

صاحبِ تحریر: استاذ ہیثم ہمدان
سورس: ملتقی اہل الحدیث
مترجم: رضا حسن

مسئلہ 1: کون سی حدیث "متواتر" کہلانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
آسان لفظوں میں: متواتر حدیث کی اصطلاحی تعریف ہے، وہ حدیث جس کا غلطی یا کذب نہ ہونا ثابت ہو جائے۔
ان دو اقوال میں فرق کو نوٹ کریں ایک ہے یہ کہنا کہ "حدیث کا غلطی یا کذب ہونا ثابت نہ ہونا" اور دوسرا ہے "حدیث کا غلطی یا کذب نہ ہونا ثابت ہونا۔" ان دونوں میں فرق ہے۔ یہ فرق نیچے دیے مواد پر غور کرنے سے مزید نکھڑ کر سامنے آ جائے گا، ان شاء اللہ۔

خطیب بغدادی اپنی الکفایۃ (ص 16) میں متواتر کی اس طرح تعریف کرتے ہیں:
"هو ما يخبر به القوم الذين يبلغ عددهم حدا يعلم عند مشاهدتهم بمستقر العادة أن اتفاق الكذب منهم محال , وأن التواطؤ منهم في مقدار الوقت الذي انتشر الخبر عنهم فيه متعذر , وأن ما أخبروا عنه لا يجوز دخول اللبس والشبهة في مثله , وأن أسباب القهر والغلبة والأمور الداعية إلى الكذب منتفية عنهم"
ترجمہ: "متواتر وہ خبر ہے جسے روایت کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق ہونا عادتاََ محال ہو۔ اور جب وہ خبر ہر جگہ پھیلی اور منتشر ہوئی اس وقت ان سب کا ایک دوسرے کے درمیان سازش یا اتحاد کرنا ممکن نہ ہو۔ اور یہ کہ ان کا روایت کو نقل کرنے میں کسی قسم کی غلط فہمی، اور شبہ کا دخل نہ ہو۔ اور زبردستی، غلبہ، اور دوسرے عناصر جو انہیں جھوٹ پر اتفاق کرنے پر آمادہ کر سکتے ہوں موجود نہ ہوں۔"

ابن الصلاح اسے اپنے مقدمہ (ص 59) میں اس طرح متعارف کرواتے ہیں:
"الخبر الذي ينقله من يحصل العلم بصدقه ضرورة"
ترجمہ: "متواتر وہ خبر ہے جسے وہ لوگ روایت کریں جن کی صداقت (اجتماعی طور پر) مسلّم تجزیہ کے بعد ضروری ثابت ہو جائے۔"

حافظ عراقی، حافظ ابن حجر العسقلانی، اور حافظ سخاوی نے بھی متواتر کی اسی طرح کی تعریفیں نقل کی ہیں۔

اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ متواتر لازمی طور پر کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو راویوں کے ہر طبقے میں تین، بیس، یا چالیس راویوں سے مروی ہو۔ یہ اعداد بعض کے نزدیک کم سے کم مقدار بتائی جاتی ہے تواتر (یعنی یہ ثابت کرنا کہ خبر غلطی نہیں ہے) حاصل کرنے کے لئے۔ یہ اعداد (بعض کے نزدیک) تواتر کو سمجھانے یا بیان کرنے کا محض ایک طریقہ ہیں، اور انہیں تواتر کی تعریف کا حصہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

سیوطی تدریب الراوی (ج 2 ص 176) میں فرماتے ہیں:
"لا يعتبر فيه عدد معين في الأصح"
ترجمہ: "قولِ راجح میں متواتر کے حصول میں راویوں کی خاص تعداد کو معین کرنا صحیح نہیں ہے۔"
اس کے بعد سیوطی نے علماء کے درمیان تواتر حاصل کرنے کے لئے کم سے کم راویوں کی مقدار کے تعیین میں اختلاف ذکر کیا ہے۔

پس "آحاد" وہ حدیث ہے جو تواتر تک نہ پہنچتی ہو، چاہے اسے ہر طبقے میں جتنے مرضی راویوں نے نقل کیا ہو۔ چنانچہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
"خبر الآحاد فهو ما قصر عن صفة التواتر"
ترجمہ: "خبر آحاد وہ خبر ہے جو متواتر بننے سے رہ جائے۔" (الکفایہ: ص 16)

اور ابن حجر العسقلانی نخبہ الفکر (ص 1) میں فرماتے ہیں:
"وكلها - سوى الأول - آحاد"
ترجمہ: "ہر خبر سوائے متواتر کے، آحاد کہلاتی ہے۔"

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آحاد حدیث ایک یا زائد طبقے میں ایک یا دو راویوں سے مروی حدیث کو کہتے ہیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ہر وہ حدیث جس کا غلط یا کذب ہونا ثابت نہ ہو سکا، آحاد کہلاتی ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 2: متواتر اور آحاد کے امتیاز کو سب سے پہلے کس نے متعارف کروایا؟

کسی ایک مخصوص شخص جس نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا، اس کا نام تو نا معلوم ہے۔
البتہ ہمیں درج ذیل چیزوں کا علم ضرور ہے:
  1. سلف کے اہل الحدیث میں سے تو کسی نے بھی اس فرق کو بڑھاوا نہیں دیا۔
  2. اس کے برعکس، کئی متقدم علمائے اسلام نے اس تفریق کی مذمت کی ہے۔ ان میں سے دو ایسے علماء جنہوں نے بڑے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے وہ ہیں: (1) امام شافعی (المتوفی 204 ھ) اور (2) امام عثمان بن سعید الدارمی (المتوفی 280)۔

جاری ہے ان شاء اللہ۔۔۔۔۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 3: امام شافعی کی متواتر اور آحاد کی بحث کی مذمت:
اپنی عظیم الشان کتاب، الام میں امام شافعی نے اپنے کئی مناظروں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک مناظرے میں آپ نے متواتر اور آحاد کے اس امتیاز پر بحث کی ہے۔ ذیل میں اس مناظرے کا ترجمہ کیا جاتا ہے جس کی شروعات تواتر کے نظریہ پر بحث سے ہو گی۔

امام شافعی (ج 7 ص 296) فرماتے ہیں:
"فقلت له حدد لي تواتر الأخبار بأقل مما يثبت الخبر واجعل له مثالا لعلم ما يقول وتقول قال نعم إذا وجدت هؤلاء النفر للأربعة الذين جعلتهم مثالا يروون واحدا فتتفق روايتهم أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حرم شيئا أو أحل شيئا استدللت على أنهم بتباين بلدانهم وأن كلا منهم قبل العلم عن غير الذي قبله عنه صاحبه وقبله عنه من أداه إلينا ممن لم يقبل عن صاحبه أن روايتهم إذا كانت هذا تتفق عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فالغلط لا يمكن فيها قال فقلت له لا يكون تواتر الأخبار عندك عن أربعة في بلد ولا إن قبل عنهم أهل بلد حتى يكون المدني يروي عن المدني والمكي يروي عن المكي والبصري عن البصري والكوفي عن الكوفي حتى ينتهي كل واحد منهم بحديثه إلى رجل من أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - غير الذي روى عنه صاحبه ويجمعوا جميعا على الرواية عن النبي - صلى الله عليه وسلم - للعلة التي وصفت قال نعم لأنهم إذا كانوا في بلد واحد أمكن فيهم التواطؤ على الخبر ولا يمكن فيهم إذا كانوا في بلدان مختلفة فقلت له لبئسما نبثت به على من جعلته إماما في دينك"
قریب قریب ترجمہ: "میں نے اس شخص سے کہا کہ تواتر کی تعریف بیان کرو اور اس کی ایک مثال بھی پیش کرو۔
اس نے کہا: اچھا تو آپ نے ان چار راویوں کی جومثال پیش کی ہے، اگر وہ سب رسول اللہ ﷺ سے ایک روایت کے الفاظ بیان کرنے میں متفق ہوں کہ نبی نے یہ چیز حرام قرار دی یا یہ چیز حلال قرار دی، اور ان میں سے ہر ایک راوی مختلف ملک سے تعلق رکھتا ہو، اور ہر ایک نے یہ روایت ہر ایک کے مقابلے میں مختلف شخص سے لی اور ہر ایک نے ہر ایک کے مقابلے میں ایک مختلف شخص کو بیان کی ہو تو تب جا کر اس روایت کے غلط ہونے کا امکان ختم ہو گا۔
تو میں نے کہا کہ تمہارے نزدیک کوئی خبر اس وقت تک متواتر نہیں ہو سکتی۔۔۔ جب تک کہ مدنی راوی دوسرے مدنی راوی سے، مکی راوی دوسرے مکی راوی سے، بصری راوی دوسرے بصری راوی سے، اور کوفی راوی کوفی راوی سے روایت بیان نہیں کرتا حتی کہ ہر راوی اس سلسلہ کی انتہاء ایک مختلف صحابی رسول پر کرے اور وہ سب نبی اکرم ﷺ سے اس روایت کے متن پر متفق ہوں؟
اس نے کہا: ہاں بالکل، کیونکہ اگر وہ ایک ہی ملک میں رہتے ہوتے تو ان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ کسی خبر (کے گھڑنے) پر آپس میں سازش یا اتحاد کر لیں، لیکن اگر وہ مختلف ممالک سے ہوں گے تو ایسا کرنا ان کے لئے ممکن نہ ہو گا۔
تو میں نے اس سے کہا کہ افسوس ہے تمہارے ان لوگوں پر الزام تراشی کرنے پر جن کو تم نے اپنے دین کا امام و رہنماء بنایا۔"


امام شافعی یہاں پر بھلا کیا فرما رہے ہیں؟
وہ یہاں پر اپنے مخالف کی اس فکر پر مذمت کر رہے ہیں کہ اس کے اساتذہ اس کو جھوٹ کہیں گے، جبکہ وہ اس کی نگاہ میں ثقہ و معتبر تصور کیے جاتے ہیں۔ اور یہ لوگ ہی اس کے دینی علم کا مصدر تھے۔

آگے چل کر امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ان کا مخالف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر بھی تواتر کے اصول کو لاگو کرنے سے نہیں رکام جو کہ بالکل بے ہودہ ہے۔

آپ نے اپنے مخالف کو یہ بھی بتایا کہ راویانِ حدیث کثرت سے مختلف ممالک کا سفر کیا کرتے تھے۔ لہٰذا اگر کوئی راوی کسی خاص ملک سے تعلق رکھتا تھا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کا کسی دوسرے ملک سفر کر کے کسی راوی سے مل کر سازش کرنا نا ممکن ہو گا۔

پس ہم دیکھتے ہیں کہ امام شافعی نے راویوں کے جھوٹ پر متحد نہ ہونے کے ثبوت کے لئے تواتر کے مطالبے کی مذمت کی ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 4: امام شافعی کا "خبر العامہ" کے استعمال کے متعلق ایک شبہ کا ازالہ:
اپنے کئی مقالوں میں امام شافعی نے بعض روایتوں کو "خبر العامہ" کے زمرے میں تقسیم کرنے کو قبول کیا ہے۔ تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ امام شافعی نے متواتر کی مذمت کی ہے؟
عرض ہے کہ خبر العامہ اور متواتر حدیث دونوں ایک نہیں ہیں بلکہ الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس کا درج ذیل جوابات سے مظاہرہ کی جا سکتا ہے:

اولا: جب امام شافعی نے اپنے مخالف سے پوچھا کہ "تمہارے نزدیک سنت نبوی کس طرح ثابت ہوتی ہے؟"
تو اس نے کہا: "أنها تثبت من أحد ثلاثة وجوه" کہ یہ تین میں سے کسی ایک طریقے سے ثابت ہوتی ہے۔
امام شافعی نے کہا: "فاذكر الأول منها" تو ان میں سے پہلا طریقہ بیان کرو۔
اس نے کہا: "خبر العامة عن العامة" خبرِ عام یعنی بے شمار لوگوں کی بے شمار لوگوں سے روایت۔
امام شافعی نے کہا: "أكقولكم الأول مثل أن الظهر أربع؟" تمہارا مطلب ہے کہ جیسے ظہر کی نماز کا چار رکعت ہونا ہے؟
اس نے کہا: "نعم" ہاں۔
تو امام شافعی نے فرمایا: "هذا مما لا يخالفك فيه أحد علمته فما الوجه الثاني؟" اس بارے میں تو میں کسی کو نہیں جانتا جو تمہارے اس قول سے مخالفت کرے۔ دوسرا طریقہ کیا ہے؟
اس نے کہا: "تواتر الأخبار" یعنی روایتوں کا تواتر۔ (کتاب الام: 7/296)۔

جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں ان دو طریقوں میں فرق ہے۔ پس خبر العامہ جس کو امام شافعی کے مخالف نے ذکر کیا اور جس سے امام شافعی نے اتفاق کیا، وہ تواتر نہیں ہے۔

ثانیا: امام شافعی نے تواتر کی مذمت کی ہے، تو یہ اور خبر العامہ ایک کیسے ہو سکتے ہیں جسے انہوں نے قبول کیا ہے؟

ثالثا: اگر ہم ان روایتوں کا مطالعہ کریں جن کو امام شافعی نے خبر العامہ قرار دیا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں تواتر کی شرائط نہیں پائی جاتی۔ مثال کے طور پر ظہر چار رکعات ہے، یہ راویوں کی کسی ایسی بڑی تعداد سے روایت نہیں کی گئی تھی جو مختلف ممالک میں رہتے ہوں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا خبر العامہ کہہ کر آپ متواتر مراد نہیں لے سکتے۔

تو خبر العامہ آخر کیا ہے؟
یہ ایک ایسی خبر ہے جسے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے پہلے کے مسلمانوں کی بڑی تعداد سے روایت کیا ہو، اور اس طرح آگے۔۔۔ مثلا ظہر کی نماز کی رکعات چار ہیں۔ اور یہ کہ موت کے بعد روح جسم کو چھوڑ کر نکل جاتی ہے۔ یہ کثرتِ روایت اپنے آپ ہی (بائی ڈیفالٹ) اس روایت کو مقبول بنا دے گی۔
یہ اسی طرح ہے جس طرح یہ کہنا کہ سونامی کے طوفان کا آنا عام لوگوں میں بائی ڈیفالٹ تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ لاکھوں کڑوڑوں نے اس واقعے کو لاکھوں کڑوڑوں سے روایت کیا ہے جس سے اس کا جھوٹ ہونا نا ممکن ہو جاتا ہے۔
پس یہ تواتر کی طرح نہیں ہے کیونکہ تواتر کو بائی ڈیفالٹ نہیں بلکہ تحقیق کے زریعے ثابت کیا جاتا ہے۔ اس بات کا مظاہرہ مناظرے میں امام شافعی کے مخالف کے بیان کردہ فرق سے کیا جا سکتا ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 5: اس موضوع پر امام شافعی کس سے مناظرہ کر رہے تھے؟
امام شافعی نے اپنی کتاب الام میں اپنے مخالف کا نام تو ذکر نہیں کیا ہے لیکن بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ امام شافعی "بشر بن غیاث المریسی (المتوفی 218)" سے مناظرہ کر رہے تھے۔ امام ذہبی وغیرہ نے امام شافعی کے بشر سے بعض مناظروں کا ذکر بھی کیا ہے۔

بشر المریسی کون تھا؟
امام ذہبی سیر اعلام النبلاء (10/199) میں فرماتے ہیں:
"كان بشر من كبار الفقهاء.أخذ عن: القاضي أبي يوسف. وروى عن: حماد بن سلمة، وسفيان بن عيينة. ونظر في الكلام، فغلب عليه، وانسلخ من الورع والتقوى، وجرد القول بخلق القرآن، ودعا إليه، حتى كان عين الجهمية في عصره وعالمهم، فمقته أهل العلم، وكفره عدة، ولم يدرك جهم بن صفوان، بل تلقف مقالاته من أتباعه"
ترجمہ: "بشر کبار فقہاء میں سے تھا۔ اس نے قاضی ابو یوسف سے علم اخذ کیا۔ اور حماد بن سلمہ اور سفیان بن عیینہ سے حدیث روایت کی۔ پھر اس نے علم کلام کا مطالعہ شروع کیا اور وہ اس پر غالب آ گیا۔ اور اس نے پرہیزگاری اور تقوی چھوڑ دیا۔ اور قرآن کے مخلوق ہونے کے کلام کو پروان دیا اور اس کی طرف دعوت دی حتی کہ وہ جہمیوں کا سردار بن گیا اور اپنے زمانے میں ان کا بہت بڑا عالم کہلایا۔ تو اہل علم نے اس کی مذمت کی اور بعض نے اس کو کافر بھی قرار دیا۔ اس نے جہم بن صفوان جو نہیں پایا لیکن اس کے مقالات کو اس کے تلامذہ کے زریعے حاصل کیے۔"

الغرض متواتر اور آحاد کی اس بحث کا مصدر اہل بدعت ہی تھے۔ اور امام شافعی اس بدعی نظریہ کے مقابلے میں سنت کا دفاع کررہے تھے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 6: امام دارمی کی متواتر اور آحاد کی بحث کی مذمت:
اپنی کتاب "الرد علی بشر المریسی العنید" میں آپ فرماتے ہیں:
"
وادعيت أيضا في دفع آثار رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحكة لم يسبقك إلى مثلها عاقل من الأمة، ولا جاهل، فزعمت أنه لا تقوم الحجة من الآثار الصحيحة التي تروى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى كل حديث لو حلف رجل بطلاق امرأته أنه كذب لم تطلق امرأته2. ثم قلت: ولو حلف رجل بهذه اليمين على حديث لرسول الله صلى الله عليه وسلم صحيح عنه أنه كذب ما طلقت امرأته.
فيقال لهذا المعارض الناقض على نفسه: قد أبطلت بدعواك هذه جميع الآثار التي تروى عن النبي صلى الله عليه وسلم، ما احتججت منها لضلالتك وما تحتج، ولو كنت ممن يلتفت إلى تأويله، لقد سننت للناس سنة وحددت لهم في الأخبار حدا لم يستفيدوا مثلها من أحد من العالمين قبلك، ولوجب على كل مختار من الأئمة في دعواك ألا يختار منها شيئا حتى يبدأ باليمين بطلاق امرأته فيحلف أن هذا الحديث صدق أو كذب البتة، فإن كان شيئا طلقت به امرأته استعمله وإن لم تطلق تركه.
ويلك! إن العلماء لم يزالوا يختارون هذه الآثار ويستعملونها وهم يعلمون أنه لا يجوز لأحد منهم أن يحلف على أصحها أن النبي صلى الله عليه وسلم قال البتة وعلى أضعفها أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يقله البتة، ولكنهم كانوا لا يألون الجهد في الأخبار الأحفظ نها والمثل فالأمثل من رواتها في أنفسهم ويرون أن الأيمان التي ألزمتهم فيها بطلاق نسائهم مرفوعة عنهم حتى ابتدعتها أنت من غير أن يسبقك إليها مسلم وكافر. ففي دعواك يجب على القضاة والحكام أن لا يحكموا بشهادة العدول عندهم إلا بشيء يمكن القاضي أن يحلف عليه بطلاق امرأته أن الشاهد به قد صدق. أو أنه إن حلف عليها بطلاق امرأته أنها كذب لم تطلق امرأته.
ويحك! من سبقك إلى هذا التأويل من أمة محمد صلى الله عليه وسلم؟
"
ترجمہ: "سنت نبویہ کا انکار کرنے کے چکر میں تم نے ایک مضحکہ خیز دعوی کیا ہے جو کو تم سے پہلے امت کے نہ کسی عقل مند اور نہ ہی کسی جاہل شخص نے کیا ہے۔
تم کہتے ہو کہ سنت نبویہ اس وقت تک قابل اعتبار نہیں ہو گی جب تک ایک شخص اس بات کی قسم نہ اٹھائے کہ اگر یہ روایت جھوٹ ہے تو اس کی بیوی کو طلاق ہو، تا کہ اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو جائے۔ اور یہ کہ وہ شخص اس بات کی قسم اٹھائے کہ اس کی بیوی کو طلاق ہو اگر یہ روایت جو صحیح تسلیم کی جاتی ہےکہ یہ صحیح نہیں ہے، تا کہ اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو جائے۔
تو ہم اس مخالف کو کہتے ہیں جو اپنی تردید خود کر رہا ہے کہ اپنے اس دعوے سے تم نے تمام احادیث نبویہ کو باطل قرار دے دیا ہے، وہ بھی جنہیں تم اپنی گمراہی کے لئے حجت بناتے ہو اور وہ بھی جنہیں تم حجت نہیں بناتے۔ تم ایسے شخص کو جس پر دھیان دینا بے سود ہے۔ تم نے ایک ایسی چیز ایجاد کی ہے جسے تم سے پہلے کسی انسان نے نہیں کی۔
تمہارے قول کے مطابق ہر امام پر یہ لازم آتا ہے کہ جو بھی انہیں احادیث نبویہ بیان کرے تو وہ اس کی روایت اس وقت تک قبول نہ کریں جب تک وہ اپنی بیوی پر طلاق کی قسم نہ اٹھا لے۔۔۔۔
افسوس ہے تم پر، علماء نے تو ہمیشہ احادیث نبویہ کو قبول اور نافذ کیا ہے اور وہ جانتے تھے کہ کسی راوی کو ان میں سب سے صحیح روایات پر اس بات پر قسم اٹھانا کہ انہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے جائز نہیں ہے، اور نہ ہی ان میں سے ضعیف ترین روایات پر کہ انہیں نبی اکرم ﷺ نے نہیں فرمایا ہے۔
بلکہ انہوں نے اس بات کو یقین بنانے کے لئے اتنی زیادہ جدوجہد اور کوششیں صرف نہیں کہ روایت بہت اچھی طرح محفوظ ہو۔ انہوں نے اس بات کو کبھی لازمی نہیں سمجھا کہ بیوی کی طلاق کی قسم اٹھائی جائے جس طرح تم مطالبہ کرتے ہو۔ تم ایسی چیز لے کر آئے ہو جسے تم سے پہلے نہ تو کسی مسلم اور نہ ہی کسی کافر نے پیش کیا ہے۔
تمہارے قول کی بنیاد پر، قاضیوں اور حکمرانوں کو کسی عادل کی کسی گواہی پر حکم نہیں دینا چاہیے الا یہ کہ اگر قاضی یہ قسم اٹھانے پر راضی ہو جائے کہ اگر شاہدوں کی گواہی سچی نہیں ہے تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے۔۔۔
افسوس ہے تم پر، امت محمدیہ میں تم سے پہلے کس نے یہ بات کہی ہے؟
"

اس بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلف نے کبھی کسی روایت کو قبول کرنے سے پہلے اس بات کو لازم قرار نہیں دیا کہ اس روایت کے متعلق یہ ثابت کیا جائے کہ وہ غلط یا کذب نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہی بات تواتر کے حامی بھی کہتے ہیں۔ سلف نے احادیث کو پرکھنے میں اپنی طرف سے پوری کوشش کی اور تا کہ ان میں سے صحیح احادیث تک رسائی ہو سکے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 7: کیا سنت میں متواتر حدیث کا وجود ہے؟
اس کا آسان جواب ہے: نہیں۔
آپ کوئی ایسی حدیث نہیں پائیں گے جسے کم سے کم تین صحابہ روایت کرتے ہوں، اور ہر ایک سے تین تابعین روایت کرتے ہوں اور اسی طرح پوری سند تک۔ بلکہ اہل الحدیث نے اس پر کبھی کوئی فکر ہی نہیں کی (کہ کتنے راوی ہر طبقے میں روایت کرتے ہیں)۔ ہم نے پچھلے مسئلہ میں دیکھا کہ علماء نے اس تفریق کو بدعت کی حد تک مذمت کیا ہے۔

امام ابن الصلاح اپنے مقدمہ (ص 59) میں فرماتے ہیں:
"ولعل ذلك لكونه لا تشمله صناعتهم، ولا يكاد يوجد في رواياتهم۔۔۔۔ومن سئل عن إبراز مثال لذلك فيما يروى من الحديث أعياه تطلبه"
"(متواتر حدیث) حدیث کے فن میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس کا ذکر محدثین کی روایات میں پایا جاتا ہے۔۔۔۔ اور جس شخص کو بھی اس طرح کی کوئی روایت پیش کرنے کا سوال کیا جائے تو وہ ناکام ہو جائے گا۔"

ایک اکلوتی مثال جسے ابن الصلاح وغیرہ پیش کر سکے ہیں وہ ہے حدیث: "من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار

تو اگر حال یہ ہے تو پھر علماء جب کسی روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ، "ہمیں تواتر کے ساتھ نبی ﷺ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا۔۔۔" تو ان کی مراد کیا ہوتی ہے؟
تواتر سے ان علماء کی مراد اصطلاحی تواتر نہیں ہوتا۔ ابن عبد البر، ابن تیمیہ، اور ابن حزم وغیرہ نے اس لفظ سے جو مراد لیا ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت کو نبی اکرم ﷺ سے کثرت سے روایت کی جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے مختلف مواقعوں پر مختلف حالتوں میں فلاں چیز کہی یا کی مثلا، قبروں کو عبادت گاہ بنانے کی ممانعت، سورج گرہن کی نماز، اور طائفہ منصورہ والی حدیث وغیرہ۔

ان میں سے کوئی منفرد روایت ایسی نہیں جو ہم تک ایسے طریق سے پہنچی ہو جس کے ہر طبقے میں کم سے کم تین راوی ہوں، اور باقی شرائط پر بھی پوری اترتی ہو۔

بعض علماء تواتر کا استعمال ایسی چیز کو بیان کرنے کے لئے بھی کرتے ہیں جو سنت میں بکثرت اور غالب ہو چاہے اس چیز کی روایت متواتر نہ بھی ہو۔ اسے "متواتر المعنوی" کہتے ہیں۔ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ چیز یا نظریہ سنت میں اتنی دفعہ اور بار بار ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے، مثلا: اسلامی بھائی چارہ کا نظریہ، یہ کہ اگلی زندگی میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، اور پاکیزگی پُرفضیلت ہے وغیرہ۔ لیکن ان میں سے کوئی منفرد روایت جو یہ نظریات بیان کرتی ہیں وہ اصطلاحی معنی میں متواتر نہیں ہیں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 8: ایک عام شبہ کا ازالہ: کہ یہ بات عقلا بالکل جائز لگتی ہے کہ کسی روایت کو اس وقت تک قبول نہ کیا جائے جب تک اس کا غلط نہ ہونا ثابت نہ ہو جائے:
یہ دعوی کہ یہ طریقہ عقلا مناسب ہے، اس کا مطلب یہ ہے:
  1. کہ سلف، جن پر ہمارا دین مبنی ہے، وہ ثقہ راویوں سے روایات کو ان کے غلط نہ ہونے کے ثبوت کو طلب کیے بغیر قبول کرنے میں عقلی طور پر قابل نہیں تھے۔
  2. کہ ہمارے روز مرہ کے تمام امور بے عقلی طریقے پر چل رہے ہیں۔ جب آپ کا مکینک آپ کو فون کر کے کہتا ہے کہ آپ کی گاڑی تیار ہے تو کیا آپ اس سے اس بات کا ثبوت طلب کرتے ہیں کہ اس نے غلطی نہیں کی ہے؟ یا جب کوئی ڈاکٹر آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کو انفیکشن ہے اور اس کے لئے آپ کو فلاں دوائی لینی ہے، تو کیا آپ اس بات کا ثبوت طلب کرتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا؟ یقینا نہیں، بلکہ آپ اپنے مکینک اور ڈاکٹر پر بھروسہ کرتے ہیں اور جو خبر وہ آپ کو دیتے ہیں آپ اسے مان لیتے ہیں۔
لیکن ہم دین کے معاملات کی بات کر رہے ہیں، کسی ٹوٹی ہوئی گاڑی کی نہیں؟
بالکل۔ لیکن ہم اپنے دین کی طرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے زیادہ حفاظتی نہیں ہو سکتے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ"
"اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ"

اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی ثقہ ومعتبر شخص ہمیں کوئی خبر دے تو ہمیں اسے قبول کر لینا چاہیے بنا اس کے جھوٹ نہ ہونے کا ثبوت طلب کیے بغیر۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورہ توبہ (آیت 122) میں یہ بھی فرمایا:
"وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ"
"اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہئے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وه دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وه ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وه ڈر جائیں"

اللہ تعالیٰ نے تواتر کو مسئلہ نہیں بنایا۔

مزید براں، ہم اپنے دین کی طرف اپنے پیارے نبی ﷺ سے زیادہ حفاظتی نہیں ہو سکتے۔ آپ منفرد صحابی کو مختلف ممالک میں بھیجا کرتے تھے تا کہ وہ انہیں دین سکھائے، بغیر تواتر کی فکر کیے۔

احتیاط برتنے کے لئے کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم فقہ کے معاملات میں آحاد حدیث کو قبول کر لیں گے لیکن عقیدہ کے معاملات میں نہیں؟
چاروں مذاہبِ فکر کا موقف ہے کہ آحاد حدیث علم اور عمل دونوں کا جواز دیتی ہے۔ دیکھیں مختصر الصواعق المرسلہ لابن القیم۔
ہم قرآن، سنت، یا سلف کی تعلیمات میں کبھی فقہ اور عقیدہ کی اس تفریق کو نہیں دیکھتے۔ یہ تو اہل کلام تھے جو سب سے پہلے اس نظریہ کو لے کر آئے۔

اس احتیاط کے ساتھ ایک اور مسئلہ امام البانی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: "اگر ہم اس تفریق کو تسلیم کر لیں، تو ہم اس حدیث کے ساتھ کیا کریں جس میں فقہ اور عقیدہ دونوں موجود ہوں؟"

مثلا: جہنم سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی حدیث، عذابِ قبر اور دجال سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی حدیث، اور نماز میں تسلیم سے پہلے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی حدیث۔ کیا ہمیں ان پر بغیر جہنم کے اقرار، بغیر عذابِ قبر کے اقرار، اور بغیر دجال کے اقرار (یعنی عقیدہ) کے عمل (فقہ) کرنا چاہیے؟ یہ تو پھر دوہرا میعار کہلائے گا۔
لہٰذا یہ تفریق قابل قبول نہیں ہے۔

علاوہ ازیں، ہم دیکھتے ہیں کہ اہل کلام اس تفریق کو صرف تبھی بکثرت استعمال کرتے ہیں جب یہ ان کے مفاد میں ہو۔ اس کے علاوہ ہم انہیں اپنی بدعات کے ثبوت میں حدیث کا استعمال کرتے دیکھتے ہیں اگرچہ وہ متواتر نہ ہو۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 9: جب متواتر اور آحاد کی تفریق نہ شریعی ہے اور نہ عقلی، تو پھر اہل کلام کیوں اس کی طرف راغب ہوئے؟
جیسا کہ امام دارمی نے بشر المریسی سے فرمایا: "سنت نبویہ کا انکار کرنے کے چکر میں تم نے ایک مضحکہ خیز دعوی کیا ہے۔۔۔" جب اہل بدعت نے سنت کو ان کے گمراہی کے راستے میں رکاوٹ بنتے دیکھا تو انہوں نے اس تفریق کی طرف رجوع کیا تا کہ اپنے خلاف سنت پر مبنی اعتراضوں کی تردید کی جا سکے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 10: ان لوگوں میں سے جنہوں نے متواتر اور آحاد کی تفریق کو فروغ دیا ان میں بعض اہل سنت کے عظیم علماء بھی شامل ہیں مثلا خطیب بغدادی، ابن الصلاح اور دیگر کئی لوگ۔ ایسا کیوں ہے؟
یہ ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ اس کے لئے الگ سے ایک پورا مضمون درکار ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ کس طرح کلام نے بہت سے اسلامی اور لغوی علوم میں اپنے داخلے کا راستہ ہموار کیا۔ اور حدیث کی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔

مختصرا عرض ہے کہ، شیعیت کے خطرے کو پیچھے ہٹانے کے لئے بہت سے سنی حکومتوں مثلا سلجوقیوں نے اشعریہ کو فروغ دیا۔ اشعری لوگ شیعوں کی تردید میں اہل حدیث کی نسبت زیادہ کام کر رہے تھے۔ اشعری مذہب کا فروغ اپنے ساتھ علم کلام کا فروغ بھی لایا۔

اشعریوں ہی نے اسلامی سکولوں اور مدرسوں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا تھا اور وہی ان کے لئے نصاب تیار کرتے تھے۔ اور حکومت بھی انہی سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فاضل طلبہ کو ہی نوکریوں پر رکھتے تھے۔ اہل حدیث کا کردار آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا۔ اس رجحان میں مزید تیزی تب آئی جب نظام الملک نے حکمرانی سنبھالی۔ اسی دور میں مسلم دنیا میں اسلامکا سکہ پلٹا اور اشعرزم کی آمد کے ساتھ سنی مذہب کو معاشرے سے خارج سمجھا جانے لگا۔

حدیث بھی ان علوم میں سے ایک علم تھا جو اس مداخلت سے اثر انداز ہوا۔ اور بہت سے علماء نے علوم حدیث کے اس نئے ورژن کو ہی صحیح اور مناسب ورژن سمجھنا شروع کر دیا۔

مسئلہ 11: کیا اسی وجہ سے زیادہ تر اسلامی یونیوسٹیاں اس تفریق کو اپنے حدیثی نصاب میں پڑھاتے ہیں؟
ہاں بالکل، پچھلی صدیوں سے اب تک علم، کلام کی علوم حدیث میں مداخلت ہی کی وجہ سے علم حدیث متاثر ہوا ہے۔
 
Top