رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
اسلام علیکم
مسئلہ 1: کون سی حدیث "متواتر" کہلانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
آسان لفظوں میں: متواتر حدیث کی اصطلاحی تعریف ہے، وہ حدیث جس کا غلطی یا کذب نہ ہونا ثابت ہو جائے۔
ان دو اقوال میں فرق کو نوٹ کریں ایک ہے یہ کہنا کہ "حدیث کا غلطی یا کذب ہونا ثابت نہ ہونا" اور دوسرا ہے "حدیث کا غلطی یا کذب نہ ہونا ثابت ہونا۔" ان دونوں میں فرق ہے۔ یہ فرق نیچے دیے مواد پر غور کرنے سے مزید نکھڑ کر سامنے آ جائے گا، ان شاء اللہ۔
خطیب بغدادی اپنی الکفایۃ (ص 16) میں متواتر کی اس طرح تعریف کرتے ہیں:
"هو ما يخبر به القوم الذين يبلغ عددهم حدا يعلم عند مشاهدتهم بمستقر العادة أن اتفاق الكذب منهم محال , وأن التواطؤ منهم في مقدار الوقت الذي انتشر الخبر عنهم فيه متعذر , وأن ما أخبروا عنه لا يجوز دخول اللبس والشبهة في مثله , وأن أسباب القهر والغلبة والأمور الداعية إلى الكذب منتفية عنهم"
ترجمہ: "متواتر وہ خبر ہے جسے روایت کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق ہونا عادتاََ محال ہو۔ اور جب وہ خبر ہر جگہ پھیلی اور منتشر ہوئی اس وقت ان سب کا ایک دوسرے کے درمیان سازش یا اتحاد کرنا ممکن نہ ہو۔ اور یہ کہ ان کا روایت کو نقل کرنے میں کسی قسم کی غلط فہمی، اور شبہ کا دخل نہ ہو۔ اور زبردستی، غلبہ، اور دوسرے عناصر جو انہیں جھوٹ پر اتفاق کرنے پر آمادہ کر سکتے ہوں موجود نہ ہوں۔"
ابن الصلاح اسے اپنے مقدمہ (ص 59) میں اس طرح متعارف کرواتے ہیں:
"الخبر الذي ينقله من يحصل العلم بصدقه ضرورة"
ترجمہ: "متواتر وہ خبر ہے جسے وہ لوگ روایت کریں جن کی صداقت (اجتماعی طور پر) مسلّم تجزیہ کے بعد ضروری ثابت ہو جائے۔"
حافظ عراقی، حافظ ابن حجر العسقلانی، اور حافظ سخاوی نے بھی متواتر کی اسی طرح کی تعریفیں نقل کی ہیں۔
اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ متواتر لازمی طور پر کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو راویوں کے ہر طبقے میں تین، بیس، یا چالیس راویوں سے مروی ہو۔ یہ اعداد بعض کے نزدیک کم سے کم مقدار بتائی جاتی ہے تواتر (یعنی یہ ثابت کرنا کہ خبر غلطی نہیں ہے) حاصل کرنے کے لئے۔ یہ اعداد (بعض کے نزدیک) تواتر کو سمجھانے یا بیان کرنے کا محض ایک طریقہ ہیں، اور انہیں تواتر کی تعریف کا حصہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
سیوطی تدریب الراوی (ج 2 ص 176) میں فرماتے ہیں:
"لا يعتبر فيه عدد معين في الأصح"
ترجمہ: "قولِ راجح میں متواتر کے حصول میں راویوں کی خاص تعداد کو معین کرنا صحیح نہیں ہے۔"
اس کے بعد سیوطی نے علماء کے درمیان تواتر حاصل کرنے کے لئے کم سے کم راویوں کی مقدار کے تعیین میں اختلاف ذکر کیا ہے۔
پس "آحاد" وہ حدیث ہے جو تواتر تک نہ پہنچتی ہو، چاہے اسے ہر طبقے میں جتنے مرضی راویوں نے نقل کیا ہو۔ چنانچہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
"خبر الآحاد فهو ما قصر عن صفة التواتر"
ترجمہ: "خبر آحاد وہ خبر ہے جو متواتر بننے سے رہ جائے۔" (الکفایہ: ص 16)
اور ابن حجر العسقلانی نخبہ الفکر (ص 1) میں فرماتے ہیں:
"وكلها - سوى الأول - آحاد"
ترجمہ: "ہر خبر سوائے متواتر کے، آحاد کہلاتی ہے۔"
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آحاد حدیث ایک یا زائد طبقے میں ایک یا دو راویوں سے مروی حدیث کو کہتے ہیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ہر وہ حدیث جس کا غلط یا کذب ہونا ثابت نہ ہو سکا، آحاد کہلاتی ہے۔
مخالفینِ دین کی پیدا کردہ متواتر اور آحاد کی الجھن
صاحبِ تحریر: استاذ ہیثم ہمدان
سورس: ملتقی اہل الحدیث
مترجم: رضا حسن
سورس: ملتقی اہل الحدیث
مترجم: رضا حسن
مسئلہ 1: کون سی حدیث "متواتر" کہلانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟
آسان لفظوں میں: متواتر حدیث کی اصطلاحی تعریف ہے، وہ حدیث جس کا غلطی یا کذب نہ ہونا ثابت ہو جائے۔
ان دو اقوال میں فرق کو نوٹ کریں ایک ہے یہ کہنا کہ "حدیث کا غلطی یا کذب ہونا ثابت نہ ہونا" اور دوسرا ہے "حدیث کا غلطی یا کذب نہ ہونا ثابت ہونا۔" ان دونوں میں فرق ہے۔ یہ فرق نیچے دیے مواد پر غور کرنے سے مزید نکھڑ کر سامنے آ جائے گا، ان شاء اللہ۔
خطیب بغدادی اپنی الکفایۃ (ص 16) میں متواتر کی اس طرح تعریف کرتے ہیں:
"هو ما يخبر به القوم الذين يبلغ عددهم حدا يعلم عند مشاهدتهم بمستقر العادة أن اتفاق الكذب منهم محال , وأن التواطؤ منهم في مقدار الوقت الذي انتشر الخبر عنهم فيه متعذر , وأن ما أخبروا عنه لا يجوز دخول اللبس والشبهة في مثله , وأن أسباب القهر والغلبة والأمور الداعية إلى الكذب منتفية عنهم"
ترجمہ: "متواتر وہ خبر ہے جسے روایت کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق ہونا عادتاََ محال ہو۔ اور جب وہ خبر ہر جگہ پھیلی اور منتشر ہوئی اس وقت ان سب کا ایک دوسرے کے درمیان سازش یا اتحاد کرنا ممکن نہ ہو۔ اور یہ کہ ان کا روایت کو نقل کرنے میں کسی قسم کی غلط فہمی، اور شبہ کا دخل نہ ہو۔ اور زبردستی، غلبہ، اور دوسرے عناصر جو انہیں جھوٹ پر اتفاق کرنے پر آمادہ کر سکتے ہوں موجود نہ ہوں۔"
ابن الصلاح اسے اپنے مقدمہ (ص 59) میں اس طرح متعارف کرواتے ہیں:
"الخبر الذي ينقله من يحصل العلم بصدقه ضرورة"
ترجمہ: "متواتر وہ خبر ہے جسے وہ لوگ روایت کریں جن کی صداقت (اجتماعی طور پر) مسلّم تجزیہ کے بعد ضروری ثابت ہو جائے۔"
حافظ عراقی، حافظ ابن حجر العسقلانی، اور حافظ سخاوی نے بھی متواتر کی اسی طرح کی تعریفیں نقل کی ہیں۔
اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ متواتر لازمی طور پر کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو راویوں کے ہر طبقے میں تین، بیس، یا چالیس راویوں سے مروی ہو۔ یہ اعداد بعض کے نزدیک کم سے کم مقدار بتائی جاتی ہے تواتر (یعنی یہ ثابت کرنا کہ خبر غلطی نہیں ہے) حاصل کرنے کے لئے۔ یہ اعداد (بعض کے نزدیک) تواتر کو سمجھانے یا بیان کرنے کا محض ایک طریقہ ہیں، اور انہیں تواتر کی تعریف کا حصہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
سیوطی تدریب الراوی (ج 2 ص 176) میں فرماتے ہیں:
"لا يعتبر فيه عدد معين في الأصح"
ترجمہ: "قولِ راجح میں متواتر کے حصول میں راویوں کی خاص تعداد کو معین کرنا صحیح نہیں ہے۔"
اس کے بعد سیوطی نے علماء کے درمیان تواتر حاصل کرنے کے لئے کم سے کم راویوں کی مقدار کے تعیین میں اختلاف ذکر کیا ہے۔
پس "آحاد" وہ حدیث ہے جو تواتر تک نہ پہنچتی ہو، چاہے اسے ہر طبقے میں جتنے مرضی راویوں نے نقل کیا ہو۔ چنانچہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
"خبر الآحاد فهو ما قصر عن صفة التواتر"
ترجمہ: "خبر آحاد وہ خبر ہے جو متواتر بننے سے رہ جائے۔" (الکفایہ: ص 16)
اور ابن حجر العسقلانی نخبہ الفکر (ص 1) میں فرماتے ہیں:
"وكلها - سوى الأول - آحاد"
ترجمہ: "ہر خبر سوائے متواتر کے، آحاد کہلاتی ہے۔"
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آحاد حدیث ایک یا زائد طبقے میں ایک یا دو راویوں سے مروی حدیث کو کہتے ہیں۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ ہر وہ حدیث جس کا غلط یا کذب ہونا ثابت نہ ہو سکا، آحاد کہلاتی ہے۔