• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مخالفینِ دین کی پیدا کردہ متواتر اور آحاد کی الجھن!

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہی بات تو میں نے کہی عرض کی تھی، کہ گو کہ قرآن کریم اور اس کی قراءت متواتر ہے، لیکن کیا ہر حافظ قرآن نے قرآن کو اور اس کی قراءت کو تواتر کے ساتھ حاصل کیا ہے؟
اس پر ہم نے عرض کیا تھا کہ ہر حافظ قرآن کے لئے قرآن اور اس کی قراءت خبر آحاد ہی ہے، جب تک کہ وہ حافظ قرآن، اس قرآن اور اس کی قراءت کو کم از کم چار مختلف اساتذہ سے نہیں سنتا، جن کا ''کذب'' پر متفق ہونا محال ہو، کیوں کہ بصورت دیگر آپ نے ہی جو شروط اپنے اگلے مراسلہ میں پیش کی ہیں ان میں سے دو پوری نہیں ہوتیں، فتدبر!
میں آپ کی بات بخوبی سمجھ گیا ہوں۔ جزاک اللہ۔
بھائی جان بات یہ ہے کہ تواتر کا تعلق نفس روایت سے ہوتا ہے ذات راوی سے نہیں۔ مثال کے طور پر آپ حدیث من "کذب علی متعمدا" کو ہی لے لیں۔ اگر یہ حدیث میں نے صرف ایک استاد سے پڑھی ہے تو آپ کے ارشاد کے مطابق یہ میرے لیے متواتر نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ روایت بہر حال متواتر ہے چاہے میں ایک سے لوں یا جماعت سے۔ اسی لیے محدثین کرام و فقہاء دونوں فریقوں نے کہیں بھی یہ شرط نہیں لگائی کہ تواتر اس شخص کے لیے ہوگا جو کہ خود جماعت کثیر سے حاصل کرے۔
اور یہ شرط اگر مان لیں تو قرآن کریم کی حیثیت پر بھی شبہ آجائے گا کیوں کہ اکثر حفاظ نے پورا قرآن صرف ایک استاد سے پڑھا ہوتا ہے۔ یعنی یہ قرآن اکثر حفاظ کے لیے خبر واحد ہو جائے گا۔ ایسی خبر واحد جس کی سند بھی معلوم نہ ہو اور ایسی خبر واحد کی حیثیت کیا ہوتی ہے یہ آپ جانتے ہیں۔
اس لیے تواتر نفس روایت میں ہوتا ہے، روایت متواتر ہوتی ہے، ذات راوی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فتأمل۔


ہم نے جو مدعا پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ کیا عقائد اور تخصیص و تنسیخ و دیگر معاملات میں حدیث کا متواتر ہونا لازم ہے؟ ہمارا مؤقف ہے نہیں، یہ لازم نہیں! اس پر ایک عام فہم دلیل یہ پیش کی کہ قرآن کریم پر ہم سب کا ایمان ہے، اور حافظ قرآن کو قراءت پڑھتا ہے اس کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ وہ قرآن اور اس کی قراءت جو اس نے اپنے استاد سے سیکھی ہے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کے ذریعہ نازل فرمائی، یہ حافظ قرآن کا عقیدہ ہوتا ہے، مگر اس نے یہ قرآن اور اس کی قراءت تواتر نہیں بلکہ آحاد روایت سے حاصل کیا ہوتا ہے! اگر عقیدہ میں تواتر کی شرط کو لازم قرار دیا جائے تو اس قرآن کے جسی کی کہ وہ حافظ قراءت کرتا ہے مننزل من اللہ ہونے کے عقیدہ پر حرف آتا ہے، فتدبر!!
آپ کے قرآن کریم سے متعلق ارشاد کی میں وضاحت عرض کر چکا ہوں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی بیان کردہ شرط کو محدثین کے حوالے مزین فرما سکتے ہیں۔ میں نے کم از کم آج تک یہ شرط نہیں پڑھی۔

باقی عقیدہ اس سے ثابت ہوتا ہے یا نہیں اس موضوع کو ان شاء اللہ عنقریب بیان کروں گا۔ کچھ تحقیق کرنی ہے۔
تخصیص و تنسیخ کا معاملہ مختلف ہے۔ ایک مرتبہ پہلے اس پر بات کرچکا ہوں۔ کبھی موقع ہوا تو دوبارہ بات کروں گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیا فائدہ.......... اب تک اس سلسلے میں کچھ پڑھا نہیں. بالکل کورا ھوں. اسکے بعد اختلاف اور اسکے بعد یہ عربی.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم جناب @اشماریہ شاہ صاحب!
کچھ ہمارا بھی خیال کریں. اردو میں لکھیں یا ترجمہ کر دیں. بڑی مہربانی ھوگی
محترم بھائی! میں آپ کی پریشانی کو سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن مجھے اتنا ترجمہ لکھنے میں کافی دقت ہوتی ہے۔
ارادہ یہ ہے کہ آئیندہ عربی عبارت کا خلاصہ اردو میں لکھ دیا کروں گا ان شاء اللہ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے نکتہ پر آنے سے قبل ایک بات پوچھتا چلوں کہ ہم نے جو یہاں کسی روایت کے متواتر ہونے کے حوالہ سے شرط بیان کی ہے، کیا اس شرط کی پورا ہوئے بغیر کوئی روایت متواتر قرار دی جا سکتی ہے؟
اس بات کا اگر آپ جواب دے دیں تو باقی اگلی بات سمجھنے سمجھانے میں آسانی رہے گی!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اس بات کا اگر آپ جواب دے دیں تو باقی اگلی بات سمجھنے سمجھانے میں آسانی رہے گی!
اگر آپ کی مراد یہ شرط ہے:
جب تک کہ وہ کم از کم چار مختلف اساتذہ سے وہ بھی جو مختلف علاقوں میں ہوں، اور جو کبھی آپس میں ملے بھی نہ ہوں
تو چونکہ محدثین کرام نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا اس لیے اس کے پورا ہوئے بغیر کسی روایت کو متواتر قرار دیا جائے گا۔ اور یہ شرط ساقط الاعتبار ہے۔

ملاحظہ: متواتر کی شرط یہ ہے کہ ایسی جماعت ہو جس کا کذب پر جمع ہونا محال ہو۔ یہ صفت جماعت کی ہے یعنی ایسی "کثیر" جماعت ہو۔ باقی وہ جماعت ایک ہی علاقے کیا اگر ایک گھر سے بھی تعلق رکھے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
اور اس کا فیصلہ کہ یہ ایسی جماعت ہے علماء کرام کریں گے ان کی خبر کو اور حالت کو دیکھ کر۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! آپ کی باتوں میں بہت تضاد پیدا ہو گیا ہے، میں آپ کی عبارات کو ملون کرتا ہوں اور اس تضاد کی جانب نشاندہی کرتا ہوں، اس کی وضاحت فرما دیں:
آپ نے تحریر فرمایا:
تو چونکہ محدثین کرام نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا اس لیے اس کے پورا ہوئے بغیر کسی روایت کو متواتر قرار دیا جائے گا۔ اور یہ شرط ساقط الاعتبار ہے۔
آپ نے یہ بھی رقم کیا ہے کہ:
اور معاصر عالم أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق المحمدي کی عبارت میں دونوں باتوں کا جواب ملتا ہے:
"ولما كان لأهل الفقه والأصول السبق في تصنيف كتب مصطلح الحديث، ولاسيما الشافعية منهم، فقد ظهر منهجهم الفقهي بسطوع في غالب أبواب هذه الكتب، ثم أدخلوا فيها مباحث فقهية أصولية بحتة، لم يتعرض لها أهل الحديث البتة، كمبحث المتواتر والآحاد، وإطلاق قبول الزيادة من الثقة، وغيرها من المباحث الأخرى، ومن يقرأ كتاب الكفاية يجد الخطيب يرجح صنيع الفقهاء في أكثر من موضع، مع أنه يكتب في مصطلح أهل الحديث!
التصنيف في مصطلح الحديث بين مدرستي الحديث والفقه 1۔7

یعنی بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔ یہ تو بعد کے ان علماء نے جن کا فقہ میں بھی مقام تھا، اسے اصول حدیث میں ذکر کرنا شروع کر دیا۔
اب جب آپ یہ کہتے ہیں کہ متواتر و آحاد کی بحث فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے ، محدثین نے تو فقط فقہ سے شغل رکھنے کی وجہ سے اصول حدیث میں ذکر کرنا شروع کر دیا ، تو پھر محدثین سے تواتر کی شروط کے بیان کا مطالبہ کیوں؟

آپ نے تحریر کیا:
ملاحظہ: متواتر کی شرط یہ ہے کہ ایسی جماعت ہو جس کا کذب پر جمع ہونا محال ہو۔ یہ صفت جماعت کی ہے یعنی ایسی "کثیر" جماعت ہو۔ باقی وہ جماعت ایک ہی علاقے کیا اگر ایک گھر سے بھی تعلق رکھے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
اور اس کا فیصلہ کہ یہ ایسی جماعت ہے علماء کرام کریں گے ان کی خبر کو اور حالت کو دیکھ کر۔
جبکہ آپ اس سے قبل رقم فرما چکے ہیں کہ:
اس میں رجال کے حوالے سے بحث نہیں کی جاتی۔ روایات میں اس کا ذکر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ یہ اعلی ترین قسم شمار کی جاتی ہے تصحیح میں۔
اور؛
مضمون نگار نے یہ ظاہر کیا ہے کہ متواتر اور خبر واحد کی تفریق علم الکلام والوں نے کی ہے۔ کیوں کہ وہ بدعتی تھے۔
دوسرا یہ تفریق متقدمین علماء حدیث کے یہاں نہیں پائی جاتی تھی۔
حافظ ابن حجرؒ کے قول سے دوسرے اشکال کا جواب ملتا ہے:
وإنما أبهمت شروط المتواتر في الأصل؛ لأنه على هذه الكيفية ليس من مباحث علم الإسناد. إذ علم الإسناد يبحث فيه عن صحة الحديث أو ضعفه؛ ليعمل به أو يترك من حيث: صفات الرجال وصيغ الأداء، والمتواتر لا يبحث عن رجاله، بل يجب العمل به من غير بحث.
نزہۃ النظر 1۔43 ط مطبعۃ سفیر

یعنی متواتر کی بحث علم الاسناد کا حصہ ہی نہیں ہے۔ اسی لیے متقدمین نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
ایک طرف آپ نے درج کیا کہ متواتر کی بحث علم الاسناد کا حصہ ہی نہیں ہے ، اور اس میں رجال کے حوالے سے بحث نہیں کی جاتی، تو دوسری جانب آپ فرماتے ہیں کہ علماء کسی جماعت کی روایت کردہ خبر کے تواتر کا فیصلہ کرتے وقت اس جماعت کی حالت کو دیکھیں گے!
نوٹ: اشماریہ بھائی آپ پہلے عقیدہ کے باب میں تواتر کے لازم ہونے کے مسئلہ پر اپنی تحقیق تحریر فرما لیں، تاکہ آگے بحث الجھ نہ جائے، کیونکہ مذکورہ بالا باتوں کا تعلق بھی اسی سے ہے!
باقی عقیدہ اس سے ثابت ہوتا ہے یا نہیں اس موضوع کو ان شاء اللہ عنقریب بیان کروں گا۔ کچھ تحقیق کرنی ہے۔
یہاں آپ سے بیان میں غلطی واقع ہو گئی ہے، کیونکہ اس مسئلہ میں کسی کو کوئی اشکال نہیں کہ متواتر سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے، مسئلہ مخلتلف فیہ یہ ہے کہ آیا عقیدہ کے اثبات کے لئے تواتر لازم ہے یا نہیں!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! آپ کی باتوں میں بہت تضاد پیدا ہو گیا ہے، میں آپ کی عبارات کو ملون کرتا ہوں اور اس تضاد کی جانب نشاندہی کرتا ہوں، اس کی وضاحت فرما دیں:
جزاک اللہ خیرا۔
آپ نے تحریر فرمایا:
آپ نے یہ بھی رقم کیا ہے کہ:
اب جب آپ یہ کہتے ہیں کہ متواتر و آحاد کی بحث فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے ، محدثین نے تو فقط فقہ سے شغل رکھنے کی وجہ سے اصول حدیث میں ذکر کرنا شروع کر دیا ، تو پھر محدثین سے تواتر کی شروط کے بیان کا مطالبہ کیوں؟
اس سے قبل یہ بات چل رہی تھی کہ متواتر کی بحث متکلمین کی پیدا کردہ ہے۔ اس پر یہ حوالہ عرض کیا تھا کہ یہ فقہ سے متعلق ہے۔
باقی جب محدثین نے اسے باقاعدہ علم حدیث میں ذکر کرنا شروع کر دیا ہے (چاہے فقہ سے شغل کی وجہ سے) تو یہ اس میں شامل ہو گئی۔ اس طرح فنون میں کثرت سے ہوتا ہے کہ ایک فن کی چیزیں دوسرے فن میں بھی ذکر ہوتی ہیں۔ راوی خبر واحد کی بحث علم الاسناد کا حصہ ہے لیکن اہل اصول فقہ اسے ذکر کرتے ہیں۔ علم کا ضروری اور نظری ہونا منطق کا موضوع ہے لیکن اصول حدیث میں بھی مذکور ہوتا ہے۔ البتہ بعض اوقات ایک جگہ پر اصطلاحات کا صرف ذکر ہوتا ہے اور دوسری جگہ تفصیل ہوتی ہے اور بعض اوقات دونوں جگہ تفصیل ہوتی ہے جیسے متواتر میں ہے اور بعض اوقات دو جگہوں پر ایک ہی اصطلاح کے معانی میں فرق ہوتا ہے جیسے مشہور اور سنت میں ہے۔
بہر حال خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب محدثین کرام نے خبر متواتر کی بحث کو ذکر کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی شرائط بھی وضاحت سے ذکر کرتے ہیں، مثالیں بھی ذکر کرتے ہیں اور ہماری بحث بھی حدیث مبارکہ میں ہے تو ہم انہی کی بیان کردہ شرائط کو دیکھیں گے اور اپنی طرف سے کسی شرط کا اضافہ نہیں کریں گے۔
ہاں جب ہم اس حدیث سے حاصل ہونے والی فقہ پر بات کریں گے تو پھر فقہاء کی شروط کو دیکھیں گے۔

آپ نے تحریر کیا:
جبکہ آپ اس سے قبل رقم فرما چکے ہیں کہ:
اور؛
ایک طرف آپ نے درج کیا کہ متواتر کی بحث علم الاسناد کا حصہ ہی نہیں ہے ، اور اس میں رجال کے حوالے سے بحث نہیں کی جاتی، تو دوسری جانب آپ فرماتے ہیں کہ علماء کسی جماعت کی روایت کردہ خبر کے تواتر کا فیصلہ کرتے وقت اس جماعت کی حالت کو دیکھیں گے!
جی اس میں رجال کے حوالے سے بحث نہیں کی جاتی اور یہ میرا ذاتی قول نہیں ہے بلکہ علماء کرام کا قول ہے جیسا کہ مذکور ہے۔ لیکن جماعت کی حالت کو اس اعتبار سے دیکھا جاتا ہے ان کی کتنی کثرت کافی ہے خلاف واقعہ، غلطی یا جھوٹ پر جمع ہونے سے محفوظ ہونے کے لیے۔ مثال کے طور پر صحابہ کرام رض میں سے چار پانچ کی تعداد بھی کافی ہے لیکن آج کے دور میں عوام ہوں تو بہت بڑی تعداد ہونی چاہیے۔ باقی وہ ثقہ ہیں یا غیر ثقہ وغیرہ یہ نہیں دیکھا جاتا۔

آخر میں احترام کے ساتھ عرض یہ ہے کہ اگر آپ کسی بات کو سمجھ نہ پائیں تو اسے دریافت فرما لیا کریں۔ آپ کے نہ سمجھنے سے کوئی بات متضاد نہیں ہو جاتی۔ اسے تضاد کا عنوان دینا غلط ہے۔

یہاں آپ سے بیان میں غلطی واقع ہو گئی ہے، کیونکہ اس مسئلہ میں کسی کو کوئی اشکال نہیں کہ متواتر سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے، مسئلہ مخلتلف فیہ یہ ہے کہ آیا عقیدہ کے اثبات کے لئے تواتر لازم ہے یا نہیں!
جزاک اللہ۔

نوٹ: اشماریہ بھائی آپ پہلے عقیدہ کے باب میں تواتر کے لازم ہونے کے مسئلہ پر اپنی تحقیق تحریر فرما لیں، تاکہ آگے بحث الجھ نہ جائے، کیونکہ مذکورہ بالا باتوں کا تعلق بھی اسی سے ہے!
آپ کی اوپر والی ابحاث کے اختتام پر تحقیق کا موقع ملے گا۔ مجھے ابھی تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ متواتر کی جو بحث تھریڈ میں شروع ہوئی تھی اس کے سلسلے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا موقف ایک ہی ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا مؤقف میں نے یہاں بیان کیا تھا:
میں اس مسئلہ میں یہ سمجھا ہوں کہ متواتر اور آحاد کی کے تفریق کچھ لحاظ سے تو ہو سکتی ہے، مگر دین میں احتجاج کے لئے خواہ وہ عقائد کے مسائل میں ہو یا فروعی مسائل میں ، کوئی فرق نہیں!
ویسے بھی تواتر ایک اعتباری معاملہ ہے!
ٹھیک! پھر میں شام ميں آپ کی باتوں پر اپنا مدعا بیان کرتا ہوں، ان شاء اللہ!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا مؤقف میں نے یہاں بیان کیا تھا:

ٹھیک! پھر میں شام ميں آپ کی باتوں پر اپنا مدعا بیان کرتا ہوں، ان شاء اللہ!
جزاک اللہ خیرا۔
یہ بھی وضاحت فرما دیجیے گا کہ یہ تفریق کچھ لحاظ سے ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی کس لحاظ سے تفریق ہو سکتی ہے اور اس تفریق کا فائدہ کہاں کہاں ہوگا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
باقی جب محدثین نے اسے باقاعدہ علم حدیث میں ذکر کرنا شروع کر دیا ہے (چاہے فقہ سے شغل کی وجہ سے) تو یہ اس میں شامل ہو گئی۔ اس طرح فنون میں کثرت سے ہوتا ہے کہ ایک فن کی چیزیں دوسرے فن میں بھی ذکر ہوتی ہیں۔ راوی خبر واحد کی بحث علم الاسناد کا حصہ ہے لیکن اہل اصول فقہ اسے ذکر کرتے ہیں۔ علم کا ضروری اور نظری ہونا منطق کا موضوع ہے لیکن اصول حدیث میں بھی مذکور ہوتا ہے۔ البتہ بعض اوقات ایک جگہ پر اصطلاحات کا صرف ذکر ہوتا ہے اور دوسری جگہ تفصیل ہوتی ہے اور بعض اوقات دونوں جگہ تفصیل ہوتی ہے جیسے متواتر میں ہے اور بعض اوقات دو جگہوں پر ایک ہی اصطلاح کے معانی میں فرق ہوتا ہے جیسے مشہور اور سنت میں ہے۔
آپ کی اس بات سے میں بلکل متفق ہوں۔
اس سے قبل یہ بات چل رہی تھی کہ متواتر کی بحث متکلمین کی پیدا کردہ ہے۔ اس پر یہ حوالہ عرض کیا تھا کہ یہ فقہ سے متعلق ہے۔
اشماریہ بھائی! کیا دوسرے مقام پر آپ اپنے اس مؤقف کی نفی کردیں گے؟ جب آپ اس بات کے قائل ہیں تو کسی دوسرے مقام پر آپ اس کی نفی نہیں کر سکتے! جب آپ کے بقول:
بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔
جب بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے، تو آپ کے مدعا کے مطابق متواتر کے معاملات میں فقہاء کے مؤقف ہی مطالبہ ہونا چاہئے!

بہر حال خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب محدثین کرام نے خبر متواتر کی بحث کو ذکر کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی شرائط بھی وضاحت سے ذکر کرتے ہیں، مثالیں بھی ذکر کرتے ہیں اور ہماری بحث بھی حدیث مبارکہ میں ہے تو ہم انہی کی بیان کردہ شرائط کو دیکھیں گے اور اپنی طرف سے کسی شرط کا اضافہ نہیں کریں گے۔
ہاں جب ہم اس حدیث سے حاصل ہونے والی فقہ پر بات کریں گے تو پھر فقہاء کی شروط کو دیکھیں گے۔
بھائی جان! یہ بحث تواتر کا تعلق حدیث سے ہی ہے تو پھر یہ تواتر کی بحث فقہاء کا کام کیوں ہوا؟ یہ کام تو پھر محدثین کا ہی ہونا چاہئے! لیکن آپ نے فرمایا تھا کہ:
بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ نے یہاں یہ کہا ہے کہ محدثیں کی بیان کردہ شروط پر جب ایک حدیث متواتر ثابت ہو جائے تو پھر اس حدیث سے فقہ اخذ کرنے ميں فقہاء کی شروط کو دیکھیں گے!
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ثبوت تواتر محدثین کا کام ہے اور پھر تواتر و آحاد سے عقائد کو مسائل کے اخذ کرنے میں فقہاء کے شروط کو مدّ نظر رکھا جائے گا، تو ایسی صورت میں تواتر و آحاد کی بحث کہ متواتر کیا ہے اور کیسے ثابت ہوتی ہے، یہ بحث فقہاء کی نہیں رہتی! جیسے کہ کسی حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کی بحث فقہاء کی نہیں محدثین کی ہے! اور پھر اس سے استدلال و فقہ کو اخذ کرنا فقہاء کا کام ہے ( یہ میرا نظریہ نہیں!)
لیکن محدثین نے کسی مسئلہ میں دلیل کے اثبات کے لئے متواتر کی شرط کو قبول نہیں کیا ، جیسا کہ فقہاء اہل الرائے نے عقیدہ و دیگر معاملات میں متواتر کی شرط کو لازم قرار دیا ہے!
جب آپ کے بقول متواتر کی بحث فقہاء کا کام ہے تو شروط بھی فقہاء کی ہی بیان کردہ ہونی چاہئے، اور محدثین اسے ذکر کریں تو فبہا اگر نہ کریں تو ان کے ذکر کرنے سے فرق نہیں پڑتا، بلکہ فقہاء کا ذکر کرنا ہی اصل ہے!
معاملہ یہ ہے کہ آپ کے بیان میں تضاد واقع ہو گیا ہے! آپ کی بات اس وقت درست ہو گی کہ آپ اس معاملہ کو یوں سمجھیں کہ:
متواتر و آحاد کی بحث کا آغاز فقہاء نے کیا، اور بعد میں محدثین نے بھی اسے ایک لحاظ سے قبول کیا، فقہاء کی بیان کردہ متواتر و آحاد کی تعریف و شروط کو قبول کیا، سوائے کچھ اختلاف کے!


جی اس میں رجال کے حوالے سے بحث نہیں کی جاتی اور یہ میرا ذاتی قول نہیں ہے بلکہ علماء کرام کا قول ہے جیسا کہ مذکور ہے۔ لیکن جماعت کی حالت کو اس اعتبار سے دیکھا جاتا ہے ان کی کتنی کثرت کافی ہے خلاف واقعہ، غلطی یا جھوٹ پر جمع ہونے سے محفوظ ہونے کے لیے۔
میرے بھائی! آپ کا یہ جملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایک بات کے جھوٹ ہونے کے محال ہونے کے لئے جماعت کی کثرت کچھ اور کافی ہے اور دوسری بات کے جھوٹ ہونے کے محال ہونے کے لئے ممکن ہے وہی کثرت کافی نہ ہو، گو کہ یہ جماعت انہیں راویوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہوں!
اگر کسی بات کے جھوٹ ہونے کے محال ہونے کے لئے صرف کثرت کو ہی معیار ٹھہرایا جائے تو، ایک بات میں اس جماعت پر یقین کامل اور دوسری بات ناقابل یقین کیوں؟
جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا:


اس کا فیصلہ کہ یہ ایسی جماعت ہے علماء کرام کریں گے ان کی خبر کو اور حالت کو دیکھ کر۔
آپ اس بات کی وضاحت کیجئے آخر علماء کن امور کو دیکھ کر کسی حدیث کے متواتر ہونے کا فیصلہ کریں گے!

مثال کے طور پر صحابہ کرام رض میں سے چار پانچ کی تعداد بھی کافی ہے لیکن آج کے دور میں عوام ہوں تو بہت بڑی تعداد ہونی چاہیے۔ باقی وہ ثقہ ہیں یا غیر ثقہ وغیرہ یہ نہیں دیکھا جاتا۔
اس بات کو یاد رکھیے گا، آگے کام آئے گی!

آخر میں احترام کے ساتھ عرض یہ ہے کہ اگر آپ کسی بات کو سمجھ نہ پائیں تو اسے دریافت فرما لیا کریں۔ آپ کے نہ سمجھنے سے کوئی بات متضاد نہیں ہو جاتی۔ اسے تضاد کا عنوان دینا غلط ہے۔
اس پر گفتگو نہیں کرتا، کہ بات موضوع سے ہٹ کر کسی اور رخ کو نکل سکتی ہے!

میں آپ کی بات بخوبی سمجھ گیا ہوں۔ جزاک اللہ۔
بھائی جان بات یہ ہے کہ تواتر کا تعلق نفس روایت سے ہوتا ہے ذات راوی سے نہیں۔ مثال کے طور پر آپ حدیث من "کذب علی متعمدا" کو ہی لے لیں۔ اگر یہ حدیث میں نے صرف ایک استاد سے پڑھی ہے تو آپ کے ارشاد کے مطابق یہ میرے لیے متواتر نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ روایت بہر حال متواتر ہے چاہے میں ایک سے لوں یا جماعت سے۔
یہ بات تو میں کہہ رہا ہوں کہ ایک روایت جو کہ متواتر ہو، گو کہ اس کا تواتر علماء کے علم میں ہے، انہوں نے اس مختلف سندوں سے پڑھا ہو، انہیں تو معلوم ہے کہ روایت متواتر ہے۔ اب ایک عالم اپنی کتاب یا بیان میں اس روایت کے متواتر ہونے کا بتلا دیتا ہے، ایسی صورت میں قارئین یا سامعین کے لئے اس روایت کے متواتر کے ہونے کی گواہی بھی خبر واحد سے ہی ہے، اور جبکہ وہ عالم اپنی کتاب یا بیان میں متعدد کتب سے اس روایت کی سندیں بھی بیان کردیں، لیکن قارئین یا سامعین کے لئے ان سب کے درمیان ایک واحد راوی ہوگا، اور وہ ہوگا صاب کتاب یا صاحب بیان! لہٰذا ان کے لئے یہ خبر واحد ہی ہے گو کہ نفس روایت متواتر ہی کیوں نہ ہو! الا یہ کہ قارئین یا سامعین ان کتب میں اس سند کا مطالعہ کرلیں یا اتنے علماء سے اسی طرح اس روایت کے متواتر ہونے کی خبر سب لیں۔ فتدبر!
آپ فرماتے ہیں کہ :


لیکن ایسا نہیں ہے۔
ایسا کیوں نہیں؟ آپ کے پاس اپنے لئے تواتر کا کیا ثبوت ہے؟ یہی کہ آپ کو اپنے استاد کی خبر واحد کے ذریعہ اس کے متواتر ہونے معلوم ہوا ہے! لیکن اس سے آپ کے لئے تواتر تو ثابت نہیں ہوتا!

روایت بہر حال متواتر ہے چاہے میں ایک سے لوں یا جماعت سے۔
اشماریہ بھائی! آگر آپ کسی روایت کو جو تواتر کے ساتھ کتب حدیث میں موجود ہو، اسے آپ ایک سے بھی نہ لیں تو پھر بھی وہ روایت متواتر کی متواتر ہی رہے گی، گو کہ آپ نے کبی وہ سنی بھی نہ ہو! اور یہی بات تمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے، اس میں علماء و عوام سب شامل ہیں!
اشماریہ بھائی، اسی لئے میں نے کہا تھا کہ ''تواتر ایک اعتباری معاملہ ہے'' فتدبر!


اور یہ شرط اگر مان لیں تو قرآن کریم کی حیثیت پر بھی شبہ آجائے گا کیوں کہ اکثر حفاظ نے پورا قرآن صرف ایک استاد سے پڑھا ہوتا ہے۔ یعنی یہ قرآن اکثر حفاظ کے لیے خبر واحد ہو جائے گا۔
یہی بات تو ہم سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قرآن اور اس کی قراءت اکثر حفاظ کے لئے خبر واحد ہے!
قرآن کی حیثیت پر شبہ ہمارے مؤقف کی وجہ سے نہیں آتا، یہ عقیدہ کے باب میں تواتر کو شرط قرار دینے کی وجہ سے آتا ہے۔ شکر ہے ہمارے مدعا کاایک نکتہ تو آپ نے سمجھا! لیکن پھر غلط فہمی میں ہمیں ہی الزام دے دیا!


ایسی خبر واحد جس کی سند بھی معلوم نہ ہو اور ایسی خبر واحد کی حیثیت کیا ہوتی ہے یہ آپ جانتے ہیں۔
اس لیے تواتر نفس روایت میں ہوتا ہے، روایت متواتر ہوتی ہے، ذات راوی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فتأمل۔
اشماریہ بھائی! نفس روایت کے متواتر ہونے کا میں کب انکار کر رہا ہوں؟ لیکن میں تو قارئین، سامعین یا شاگرد کے لئے تواتر کے ثبوت کی بات کر رہا ہوں!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جزاك الله خیرا ابن داود بهائی۔
میں آپ کی پوسٹ میں سے جن چیزوں کا جواب انہیں تحریر کر رہا ہوں۔
جب بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے، تو آپ کے مدعا کے مطابق متواتر کے معاملات میں فقہاء کے مؤقف ہی مطالبہ ہونا چاہئے!
امام نوویؒ متواتر کے متعلق فرماتے ہیں:
ومنه المتواتر المعروف في الفقه وأصوله، ولا يذكره المحدثون، وهو قليل لا يكاد يوجد في رواياتهم
"اور اس (مشہور۔۔۔۔ ناقل) میں متواتر ہے جو فقہ اور اصول فقہ میں مذکور ہے، اور اسے محدثین ذکر نہیں کرتے، اور وہ کم ہے بہت کم ہی ان کی روایات میں پائی جاتی ہے۔"
التقریب و التیسیر 1۔85، دار الکتاب العربی

لیکن آگے اس کی تعریف ذکر کرتے ہیں جو جامع و مانع ہونے کی وجہ سے اس کی شرائط کو شامل ہے:
وهو ما نقله من يحصل العلم بصدقهم ضرورة عن مثلهم من أوله إلى آخره،
"اور وہ وہ ہے جسے ایسے لوگ نقل کریں جن کی سچائی کا علم بداہۃً حاصل ہو جائے، اپنے جیسوں سے نقل کریں ابتداء تا انتہاء۔"
بدیہی اس بات کو کہا جاتا ہے جس کے سمجھنے کے لیے غور و فکر کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
وإنماأبهمت شروط التواتر في الأصل؛ لأنه على هذه الكيفية ليس من مباحث علم الإسناد، «وإنما هو من مباحث أصول الفقه»إذ علم الإسناد يبحث فيه عن صحة الحديث أو ضعفه؛ ليعمل به أو يترك من حيث صفات الرجال، وصيغ الأداء، والمتواتر لا يبحث عن رجاله، بل يجب العمل به من غير بحث.
نزہۃ النظر بتحقیق نور الدین عتر، 1۔45 ط الصباح
"اور میں نے تواتر کی شرائط اصل (نخبۃ الفکر۔۔۔۔۔ ناقل) میں مبہم چھوڑ دیں کیوں کہ یہ اس کیفیت پر علم اسناد کی مباحث میں سے نہیں ہے، اور یہ اصول فقہ کی مباحث میں سے ہے، اس لیے کہ علم الاسناد میں حدیث کی صحت اور ضعف سے بحث کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی صفات اور اداء کے الفاظ کے اعتبار سے اس پر عمل کیا جائے یا اسے چھوڑ دیا جائے۔ اور متواتر کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ اس پر عمل بغیر بحث کے واجب ہے۔"

لیکن اس سے پہلے اس کی شرائط تفصیل سے ذکر کی ہیں:
فإذا جمع هذه الشروط الأربعة، وهي:
عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذب.
«و» رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء.
وكان مستند انتهائهم الحس.
وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه.
فهذا هو المتواتر.
"سو جب یہ چار شرائط جمع ہو جائیں، اور وہ یہ ہیں: ایسی جماعت کثیر ہو جس کا جھوٹ پر جمع ہونا عادۃً محال ہو، ابتداء سے انتہاء تک اپنے جیسوں سے روایت کریں، ان کی انتہاء کی بنیاد حس پر ہو، اور اس کے ساتھ یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ ان کی خبر سامع کو علم کا فائدہ پہنچائے۔"

علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں:
وليس من مباحث هذا الفن ; فإنه لا يبحث عن رجاله ; لكونه لا دخل لصفات المخبرين فيه ; ولذلك لم يذكره من المحدثين إلا القليل ; كالحاكم، والخطيب في أوائل (الكفاية) ، وابن عبد البر، وابن حزم.
فتح المغیث 4۔16، مکتبۃ السنۃ
"اور یہ اس فن کی مباحث میں سے نہیں ہے کیوں کہ کیوں کہ خبر دینے والوں کی صفات کا اس میں دخل نہیں ہے، اور اسی وجہ سے محدثین میں سے کم نے ہی اسے ذکر کیا ہے جیسا کہ حاتم، اور خطیب نے الکفایہ کی ابتداء میں، اور ابن عبد البر نے اور ابن حزم نے۔"

لیکن اس سے قبل پوری تفصیل کے ساتھ متواتر کا ذکر کیا ہے:
واصطلاحا: هو ما يكون (مستقرا في) جميع (طبقاته) ، أنه من الابتداء إلى الانتهاء ورد عن جماعة غير محصورين في عدد معين، ولا صفة مخصوصة، بل بحيث يرتقون إلى حد تحيل العادة معه تواطؤهم على الكذب، أو وقوع الغلط منهم اتفاقا من غير قصد. وبالنظر لهذا خاصة يكون العدد في طبقة كثيرا، وفي أخرى قليلا ; إذ الصفات العلية في الرواة تقوم مقام العدد أو تزيد عليه.
هذا كله مع كون مستند انتهائه الحس ; من مشاهدة أو سماع ; لأن ما لا يكون كذلك يحتمل دخول الغلط فيه

اس کا ترجمہ اگر مطلوب ہو تو کر دوں گا۔
تو ان عبارات سے میں تو یہی سمجھا ہوں یہ اصلا فقہاء اور اصول فقہ والوں کا موضوع تھا لیکن محدثین نے بھی اسے بمع اس کی شرائط کے تفصیل سے ذکر کیا ہے جیسا کہ واضح ہے۔ تو جو کام محدثین کا ہے یعنی ثبوت کا تو وہ وہاں تک کریں گے اور آگے جو کام فقہاء کا ہے یعنی استنباط کا، تو وہ کام وہ کریں گے۔
ہاں اگر ایک شخص ہی فقیہ اور محدث دونوں ہو تو وہ دونوں کام کر لے گا۔

اگر آپ اس کے علاوہ کچھ اور سمجھے ہیں تو براہ کرم باحوالہ اپنی سمجھ کو مبرہن فرمائیے۔

بھائی جان! یہ بحث تواتر کا تعلق حدیث سے ہی ہے تو پھر یہ تواتر کی بحث فقہاء کا کام کیوں ہوا؟ یہ کام تو پھر محدثین کا ہی ہونا چاہئے!
بھائی جان اگر آپ کے لیے یہ بات ابھی بھی واضح نہیں ہے تو اس کا جواب پھر ابن حجر، نووی، سخاوی اور ابو شہبہ رحمہم اللہ سے لیجیے۔ یا اپنے کسی استاد محترم سے سمجھ لیجیے۔ میں صرف اپنی وسعت کے مطابق واضح کر سکتا ہوں، سمجھانا میرے بس میں نہیں۔

لیکن محدثین نے کسی مسئلہ میں دلیل کے اثبات کے لئے متواتر کی شرط کو قبول نہیں کیا ، جیسا کہ فقہاء اہل الرائے نے عقیدہ و دیگر معاملات میں متواتر کی شرط کو لازم قرار دیا ہے!
ایک ہے کسی روایت کے متواتر ثابت ہونے کی شرط اور دوسری ہے کسی مسئلہ میں دلیل کے لیے متواتر ہونے کی شرط۔ والفرق بینہما جلی۔ اول کام فقہاء کا نہیں محدثین کا ہے اور ثانی محدثین کا نہیں فقہاء کا ہے۔
ہاں جب ایک شخص میں دونوں چیزیں جمع ہو جائیں (جیسے صرف بطور مثال ابن حجرؒ، زیلعی اور ابن قدامہؒ) تو وہ دونوں صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔

جب آپ کے بقول متواتر کی بحث فقہاء کا کام ہے تو شروط بھی فقہاء کی ہی بیان کردہ ہونی چاہئے، اور محدثین اسے ذکر کریں تو فبہا اگر نہ کریں تو ان کے ذکر کرنے سے فرق نہیں پڑتا، بلکہ فقہاء کا ذکر کرنا ہی اصل ہے!
عرض کیا ہے:
ایک ہے کسی روایت کے متواتر ثابت ہونے کی شرط اور دوسری ہے کسی مسئلہ میں دلیل کے لیے متواتر ہونے کی شرط۔ والفرق بینہما جلی۔ اول کام فقہاء کا نہیں محدثین کا ہے اور ثانی محدثین کا نہیں فقہاء کا ہے۔
ہاں جب ایک شخص میں دونوں چیزیں جمع ہو جائیں (جیسے صرف بطور مثال ابن حجرؒ، زیلعی اور ابن قدامہؒ) تو وہ دونوں صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔

معاملہ یہ ہے کہ آپ کے بیان میں تضاد واقع ہو گیا ہے! آپ کی بات اس وقت درست ہو گی کہ آپ اس معاملہ کو یوں سمجھیں کہ:
متواتر و آحاد کی بحث کا آغاز فقہاء نے کیا، اور بعد میں محدثین نے بھی اسے ایک لحاظ سے قبول کیا، فقہاء کی بیان کردہ متواتر و آحاد کی تعریف و شروط کو قبول کیا، سوائے کچھ اختلاف کے!
اوپر محدثین کی شرائط مذکور تھیں۔ یہاں فقہاء کی ذکر کرتا ہوں:
ويشترط في التواتر أن يبلغ عدد الرواة حدًّا يحيل العقل تواطؤهم على الكذب، وأن يتوفر هذا العدد في كل طبقة على مر الزمان وتعاقب القرون، واختلف العلماء في العدد الذي يتحقق به التواتر، ولكنهم اتفقوا على الضابط فيه وهو أن تشعر النفس باليقين والطمأنينة فيهم.
الوجیز فی اصول الفقہ للزحیلی 1۔143، ط دار الخیر
"اور تواتر میں شرط یہ لگائی گئی ہے کہ رواۃ کی تعداد ایسی حد تک پہنچ جائے کہ عقل ان کے جھوٹ پر جمع ہونے کو محال سمجھ لے، اور یہ تعداد ہر زمانے میں ہر طبقہ میں پائی جائے۔ اور علماء کا اس عدد میں جس سے تواتر ثابت ہوتا ہے اختلاف ہے لیکن ان کا اس میں ایک ضابطہ پر اتفاق ہے اور وہ یہ کہ ان (رواۃ) میں عقل یقین اور اطمینان حاصل کر لے۔"

فالمتواتر: ما رواه جماعة كثيرون، يستحيل في العادة أن يتواطؤوا على الكذب، وأسندوه إلى شيء محسوس
الاصول من علم الاصول لابن عثیمین 1۔65، دار ابن الجوزی
"متواتر وہ ہے جسے کثیر جماعت نے نقل کیا ہو، عادۃً ان کے جھوٹ پر جمع ہونے کو محال سمجھا جاتا ہو اور اس کی نسبت محسوس امر کی جانب کریں۔"

تعیین اختلاف آپ کے ذمے!

میرے بھائی! آپ کا یہ جملہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ایک بات کے جھوٹ ہونے کے محال ہونے کے لئے جماعت کی کثرت کچھ اور کافی ہے اور دوسری بات کے جھوٹ ہونے کے محال ہونے کے لئے ممکن ہے وہی کثرت کافی نہ ہو، گو کہ یہ جماعت انہیں راویوں پر ہی مشتمل کیوں نہ ہوں!
اگر کسی بات کے جھوٹ ہونے کے محال ہونے کے لئے صرف کثرت کو ہی معیار ٹھہرایا جائے تو، ایک بات میں اس جماعت پر یقین کامل اور دوسری بات ناقابل یقین کیوں؟
قال السخاوی فی فتح المغیث:
وبالنظر لهذا خاصة يكون العدد في طبقة كثيرا، وفي أخرى قليلا ; إذ الصفات العلية في الرواة تقوم مقام العدد أو تزيد عليه.
"اور خاص اس کو دیکھتے ہوئے (کہ ایسی حد ہو جس کا جھوٹ پر جمع ہونا عمدا یا اتفاقا محال ہو۔۔۔۔۔ ناقل) تعداد ایک طبقہ میں زیادہ اور ایک میں کم ہو جاتی ہے اس لیے کہ رواۃ میں عالی صفات تعداد کے قائم مقام ہو جاتی ہے یا ان سے بڑھ جاتی ہے۔"

باقی میں نے یہ نہیں کہا کہ ایک ہی جماعت کی ایک خبر متواتر اور ایک غیر متواتر ہوگی۔ میری بات واضح ہے:
مثال کے طور پر صحابہ کرام رض میں سے چار پانچ کی تعداد بھی کافی ہے لیکن آج کے دور میں عوام ہوں تو بہت بڑی تعداد ہونی چاہیے۔
صحابہ کرام الگ جماعت ہیں اور آج کے دور کے عوام الگ۔

آپ اس بات کی وضاحت کیجئے آخر علماء کن امور کو دیکھ کر کسی حدیث کے متواتر ہونے کا فیصلہ کریں گے!
قال السخاوی:
إذ الصفات العلية في الرواة تقوم مقام العدد أو تزيد عليه.
تو صفات عالیہ دیکھیں گے کہ کتنی ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ سب نے یہ ذکر کیا ہے کہ عادت اور عقل ان کے جھوٹ پر جمع ہونے کو محال سمجھیں۔ اب یہ فیصلہ علماء کا ہے کہ کون سی جماعت ایسی ہے۔ عوام میں تو بہت سے لوگ دو تین ملنگوں کے کچھ کہنے پر بھی بات کو سچ مان بیٹھتے ہیں۔

اس بات کو یاد رکھیے گا، آگے کام آئے گی!
جزاک اللہ خیرا

یہ بات تو میں کہہ رہا ہوں کہ ایک روایت جو کہ متواتر ہو، گو کہ اس کا تواتر علماء کے علم میں ہے، انہوں نے اس مختلف سندوں سے پڑھا ہو، انہیں تو معلوم ہے کہ روایت متواتر ہے۔ اب ایک عالم اپنی کتاب یا بیان میں اس روایت کے متواتر ہونے کا بتلا دیتا ہے، ایسی صورت میں قارئین یا سامعین کے لئے اس روایت کے متواتر کے ہونے کی گواہی بھی خبر واحد سے ہی ہے، اور جبکہ وہ عالم اپنی کتاب یا بیان میں متعدد کتب سے اس روایت کی سندیں بھی بیان کردیں، لیکن قارئین یا سامعین کے لئے ان سب کے درمیان ایک واحد راوی ہوگا، اور وہ ہوگا صاب کتاب یا صاحب بیان! لہٰذا ان کے لئے یہ خبر واحد ہی ہے گو کہ نفس روایت متواتر ہی کیوں نہ ہو! الا یہ کہ قارئین یا سامعین ان کتب میں اس سند کا مطالعہ کرلیں یا اتنے علماء سے اسی طرح اس روایت کے متواتر ہونے کی خبر سب لیں۔ فتدبر!
میرے بھائی۔ آپ اجتہاد کے اعلی مقام پر ہوں گے شاید۔ میں ٹھہرا کم علم آدمی۔ مجھے تو وہی پتا ہے اور وہی سمجھ میں آتا ہے جو علماء کتابوں میں لکھ گئے ہیں اور میں نے ان کی کسی تحریر میں ایسی کوئی بات نہیں پڑھی۔ میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ انہوں نے متواتر میں یہ بحث بھی کی ہو کہ یہ اس شخص کے لیے متواتر ہے جسے ساری سندیں معلوم ہوں۔ بلکہ انہوں نے مطلقا تواتر کی بات کی ہے۔
اس لیے مہربانی فرما کر مجھے اپنی بات پر کسی کا حوالہ عنایت فرمائیے۔

قرآن کی حیثیت پر شبہ ہمارے مؤقف کی وجہ سے نہیں آتا، یہ عقیدہ کے باب میں تواتر کو شرط قرار دینے کی وجہ سے آتا ہے۔
اگر آپ نے ایک استاد سے قرآن سیکھا ہے اور آپ کے نزدیک یہ خبر واحد ہے آپ کے موقف کے مطابق۔ تو اس خبر واحد کی سند تو معلوم نہیں ہے۔
ایک عاجزانہ سوال یہ ہے کہ جس خبر واحد کی سند معلوم نہ ہو اس کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ (قطع نظر عقیدہ یا مسائل کے باب کے)۔
 
Top