• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مخالفینِ دین کی پیدا کردہ متواتر اور آحاد کی الجھن!

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
مسئلہ 12: قطعی اور ظنی کی تفریق:
یہ تفریق متواتر اور آحاد کی تفریق کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔
قطعی کا مطلب ہے: یقینی۔
ظنی کا مطلب ہے: محتمل۔

ان دو قسموں کو اہل کلام نے حدیث کی صحت اور معنی دونوں پر لاگو کیا ہے جس کے نتیجے میں چار قسمیں سامنے آئیں:
  1. قطعی الثبوت قطعی الدلالۃ: یعنی ایسے روایت جو اپنی صحت اور معنی دونوں کے لحاظ سے یقینی و قطعی ہو۔ اس کی ایک مثال قرآن کی یہ آیت ہے کہ: "نماز قائم کرو"۔ یہ عبارت صحت کے لحاظ سے قطعی ہے اور اس کا ایک ہی معنی ہے۔
  2. قطعی الثبوت ظنی الدلالۃ: یعنی صحت کے لحاظ سے یقین لیکن معنی کے لحاط سے محتمل یا ظنی یعنی اس خبر کا معنی متفق علیہ نہیں ہے۔
  3. ظنی الثبوت قطعی الدلالۃ: مثلا کوئی بھی آحاد حدیث جس کا معنی صاف اور ایک ہو۔
  4. ظنی الثبوت ظنی الدلالۃ: مثلا کوئی آحاد حدیث۔ اس کی صحت محتمل ہے اور اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں لہٰذا اس کا معنی بھی محتمل ہے۔
یہ تفریق سلف کے مابین ہرگز نہیں پائی جاتی اور ایسی کوئی دلیل بھی نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو اس تفریق کا ان کے نزدیک مسائل و احکام اخذ کرنے میں کوئی اثر یا کردار تھا۔ ہمارے اسلاف ہر صحیح حدیث سے علم اور عمل دونوں کا فائدہ لیتے تھے۔

اس بارے میں مجھے صرف اتنا ہی کہنا ہے۔ جو کچھ بھی صحیح بات میں نے کی وہ اللہ کی طرف سے ہے اور غلطی میری اور شیطان کی طرف سے ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مفید علم سکھائے اور جو وہ ہمیں سکھائے اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے۔ آمین

ختم شدہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بہت عمدہ!
جزاکم اللہ خیرا!
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
در اصل دشمنان اسلام نے آحاد اور متواتر کا ہوا کھڑا کرکے یہ کھدیا کہ آحاد ظنی ہیں اور انسے عقیدہ کے باب میں استدلال نہیں کیا جا سکتا اسکو تسلیم کرنے سے اسلام کی بنیاد ہی گر جاتی ہے کیونکہ اسلام کی بنیاد ہی خبرآحاد پر قایم ہے آپ غور کریں کہ اسلام لانے والے جبریل علیہ السلام ہیں اور اور سننے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ یہاں استاذ بھی واحد اور شاگرد بھی واحد۔ پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے والے صحابہ کرام میں اکثر و بیشتر ایک یا دو صحابی ہوتے تھے بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ دوسے زیادہ صحابی مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سنتے رہے ہوںتو اگر آحاد کو ظنی مان کر رد کردیا جاے تو اسلام کی بنیاد ہی ڈھاجاییگی اسی لیے محدثین نے اس نظریہ کو رد کرکے عقیدہ و عمل میں آحادروایت کو قبول کیا ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ روایت صحیح ہو۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ماشاءاللہ ، اللہ تعالی مزید علم میں برکت دے ۔
حافظ ثناء اللہ زاہدی صاحب حفظہ اللہ نے بھی اس موضوع پر ایک علمی مضمون تحریر فرمایا ہے ۔ غالبا وہ ان کی کسی عربی تالیف کا حصہ ہے ، لیکن ’’ رشد ‘‘ کے قراءات نمبر میں سے کسی میں اردو ترجمہ کے ساتھ موجود ہے ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ اس کے لئے الگ سے ایک پورا مضمون درکار ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ کس طرح کلام نے بہت سے اسلامی اور لغوی علوم میں اپنے داخلے کا راستہ ہموار کیا۔ اور حدیث کی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔
مختصرا عرض ہے کہ، شیعیت کے خطرے کو پیچھے ہٹانے کے لئے بہت سے سنی حکومتوں مثلا سلجوقیوں نے اشعریہ کو فروغ دیا۔ اشعری لوگ شیعوں کی تردید میں اہل حدیث کی نسبت زیادہ کام کر رہے تھے۔ اشعری مذہب کا فروغ اپنے ساتھ علم کلام کا فروغ بھی لایا۔
اشعریوں ہی نے اسلامی سکولوں اور مدرسوں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا تھا اور وہی ان کے لئے نصاب تیار کرتے تھے۔ اور حکومت بھی انہی سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فاضل طلبہ کو ہی نوکریوں پر رکھتے تھے۔ اہل حدیث کا کردار آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا۔ اس رجحان میں مزید تیزی تب آئی جب نظام الملک نے حکمرانی سنبھالی۔ اسی دور میں مسلم دنیا میں اسلامکا سکہ پلٹا اور اشعرزم کی آمد کے ساتھ سنی مذہب کو معاشرے سے خارج سمجھا جانے لگا۔
حدیث بھی ان علوم میں سے ایک علم تھا جو اس مداخلت سے اثر انداز ہوا۔ اور بہت سے علماء نے علوم حدیث کے اس نئے ورژن کو ہی صحیح اور مناسب ورژن سمجھنا شروع کر دیا۔
اولاتو عنوان ہی غلط ہے کہ احاد اور متواتر کی الجھن مخالفین دین کی پیداکردہ ہے،اگریہاں پر ہم یہ عرض کرناشروع کردیں گے کہ کن کبار علماء ومحدثین نے متواتر اور احاد کا فرق کیاہے اوران کی بنیاد پر عقائد اورفروعات کا فرق رواٹھہرایاہے تو شاید امت کا بیشتر اوربڑاطبقہ مخالف دین ثابت ہوجائے گا۔
مضمون نگار نے اس اقتباس میں جوکچھ ارشاد فرمایاہے، وہ ان کے ذہنی تخیل کی پرواز ضرور ہے لیکن ثبوت ان کے ہاتھ کچھ نہیں ہیں،سوال یہ ہے کہ چلو غزالی اور جوینی تو اشعری ہیں علم کلام سے شغفت رکھتے ہیں، یہ خطیب بغدادی تو اہل حدیث ہیں، بیہقی تو اہل حدیث ہیں،ان کو کیاہوا، وہ کیوں تواتر اور احاد کی الجھن میں پڑگئے،اگر کہاجائے کہ اشعریوں سے متاثر ہوگئے تواس تاثر کا ثبوت دیناہوگا،صرف دعویٰ کرناکافی نہیں ہوگا، ورنہ ان کے دوسرے موقف کے تعلق سے بھی محض تاثر کا دعویٰ کیاجاسکتاہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مسئلہ 10: ان لوگوں میں سے جنہوں نے متواتر اور آحاد کی تفریق کو فروغ دیا ان میں بعض اہل سنت کے عظیم علماء بھی شامل ہیں مثلا خطیب بغدادی، ابن الصلاح اور دیگر کئی لوگ۔ ایسا کیوں ہے؟
یہ ایک تفصیل طلب سوال ہے۔ اس کے لئے الگ سے ایک پورا مضمون درکار ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ کس طرح کلام نے بہت سے اسلامی اور لغوی علوم میں اپنے داخلے کا راستہ ہموار کیا۔ اور حدیث کی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔

مختصرا عرض ہے کہ، شیعیت کے خطرے کو پیچھے ہٹانے کے لئے بہت سے سنی حکومتوں مثلا سلجوقیوں نے اشعریہ کو فروغ دیا۔ اشعری لوگ شیعوں کی تردید میں اہل حدیث کی نسبت زیادہ کام کر رہے تھے۔ اشعری مذہب کا فروغ اپنے ساتھ علم کلام کا فروغ بھی لایا۔

اشعریوں ہی نے اسلامی سکولوں اور مدرسوں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا تھا اور وہی ان کے لئے نصاب تیار کرتے تھے۔ اور حکومت بھی انہی سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فاضل طلبہ کو ہی نوکریوں پر رکھتے تھے۔ اہل حدیث کا کردار آہستہ آہستہ ختم ہو رہا تھا۔ اس رجحان میں مزید تیزی تب آئی جب نظام الملک نے حکمرانی سنبھالی۔ اسی دور میں مسلم دنیا میں اسلامکا سکہ پلٹا اور اشعرزم کی آمد کے ساتھ سنی مذہب کو معاشرے سے خارج سمجھا جانے لگا۔

حدیث بھی ان علوم میں سے ایک علم تھا جو اس مداخلت سے اثر انداز ہوا۔ اور بہت سے علماء نے علوم حدیث کے اس نئے ورژن کو ہی صحیح اور مناسب ورژن سمجھنا شروع کر دیا۔

مسئلہ 11: کیا اسی وجہ سے زیادہ تر اسلامی یونیوسٹیاں اس تفریق کو اپنے حدیثی نصاب میں پڑھاتے ہیں؟
ہاں بالکل، پچھلی صدیوں سے اب تک علم، کلام کی علوم حدیث میں مداخلت ہی کی وجہ سے علم حدیث متاثر ہوا ہے۔
کمال ہے۔

"حدیث بھی ان علوم میں سے ایک علم تھا جو اس مداخلت سے اثر انداز ہوا۔ اور بہت سے علماء نے علوم حدیث کے اس نئے ورژن کو ہی صحیح اور مناسب ورژن سمجھنا شروع کر دیا۔"

کیا ہم نے سوچا کہ اس بات سے ہم کن علماء حدیث پر اعتراض کر رہے ہیں؟ خطیب بغدادی سے لے کر موجودہ دور کے علماء تک سب پر۔ کیا سب علم حدیث میں اس قدر کمزور تھے کہ انہیں یہی نہیں پتا چل سکا کہ کون سا علم حدیث صحیح ہے اور کون سا نہیں؟ تو پھر ان کے باقی علم پر کیا بھروسہ؟ نیز اس صورت میں اس مضمون کے جو لکھاری ہیں ان کے علم پر کیا بھروسہ؟

مضمون نگار نے یہ ظاہر کیا ہے کہ متواتر اور خبر واحد کی تفریق علم الکلام والوں نے کی ہے۔ کیوں کہ وہ بدعتی تھے۔
دوسرا یہ تفریق متقدمین علماء حدیث کے یہاں نہیں پائی جاتی تھی۔
حافظ ابن حجرؒ کے قول سے دوسرے اشکال کا جواب ملتا ہے:
وإنما أبهمت شروط المتواتر في الأصل؛ لأنه على هذه الكيفية ليس من مباحث علم الإسناد. إذ علم الإسناد يبحث فيه عن صحة الحديث أو ضعفه؛ ليعمل به أو يترك من حيث: صفات الرجال وصيغ الأداء، والمتواتر لا يبحث عن رجاله، بل يجب العمل به من غير بحث.
نزہۃ النظر 1۔43 ط مطبعۃ سفیر

یعنی متواتر کی بحث علم الاسناد کا حصہ ہی نہیں ہے۔ اسی لیے متقدمین نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
اور معاصر عالم أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق المحمدي کی عبارت میں دونوں باتوں کا جواب ملتا ہے:
"ولما كان لأهل الفقه والأصول السبق في تصنيف كتب مصطلح الحديث، ولاسيما الشافعية منهم، فقد ظهر منهجهم الفقهي بسطوع في غالب أبواب هذه الكتب، ثم أدخلوا فيها مباحث فقهية أصولية بحتة، لم يتعرض لها أهل الحديث البتة، كمبحث المتواتر والآحاد، وإطلاق قبول الزيادة من الثقة، وغيرها من المباحث الأخرى، ومن يقرأ كتاب الكفاية يجد الخطيب يرجح صنيع الفقهاء في أكثر من موضع، مع أنه يكتب في مصطلح أهل الحديث!
التصنيف في مصطلح الحديث بين مدرستي الحديث والفقه 1۔7

یعنی بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔ یہ تو بعد کے ان علماء نے جن کا فقہ میں بھی مقام تھا، اسے اصول حدیث میں ذکر کرنا شروع کر دیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرے خیال میں تعبیر ذرا مناسب کرلینی چاہیے ۔ جیساکہ اوپر دیے گئے لنک کا عنوان مناسب ہے ، ورنہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ تواتر اور آحاد کی تقسیم اسلامی علوم و فنون میں ’ دخیل ‘ ہے ۔
اولاتو عنوان ہی غلط ہے کہ احاد اور متواتر کی الجھن مخالفین دین کی پیداکردہ ہے،اگریہاں پر ہم یہ عرض کرناشروع کردیں گے کہ کن کبار علماء ومحدثین نے متواتر اور احاد کا فرق کیاہے اوران کی بنیاد پر عقائد اورفروعات کا فرق رواٹھہرایاہے تو شاید امت کا بیشتر اوربڑاطبقہ مخالف دین ثابت ہوجائے گا۔
بیان کریں ، کن کبار محدثین نے تواتر اور آحاد کا فرق رکھا ہے ؟ متقدمین میں خطیب بغدادی کے علاوہ شاید کوئی اور نام نہ ملے سکے ۔
کیا ہم نے سوچا کہ اس بات سے ہم کن علماء حدیث پر اعتراض کر رہے ہیں؟ خطیب بغدادی سے لے کر موجودہ دور کے علماء تک سب پر۔ کیا سب علم حدیث میں اس قدر کمزور تھے کہ انہیں یہی نہیں پتا چل سکا کہ کون سا علم حدیث صحیح ہے اور کون سا نہیں؟ تو پھر ان کے باقی علم پر کیا بھروسہ؟ نیز اس صورت میں اس مضمون کے جو لکھاری ہیں ان کے علم پر کیا بھروسہ؟
’خطیب بغدادی سے لیکر موجودہ دور تک کے علماء ‘ جیسی مجمل تعبیر کی بجائے ، اگر واقعتا شروع سے لیکر آخر تک علماء کے مناہج دیکھ لیے جائیں تو شاید اس قدر حیرانی نہ ہو ۔
مضمون نگار نے یہ ظاہر کیا ہے کہ متواتر اور خبر واحد کی تفریق علم الکلام والوں نے کی ہے۔ کیوں کہ وہ بدعتی تھے۔
ویسے آپ کے نزدیک درست کیا ہے ؟ سب سے پہلے یہ تقسیم کس نے کی ؟
دوسرا یہ تفریق متقدمین علماء حدیث کے یہاں نہیں پائی جاتی تھی۔
مطلب دیگر علماء کے ہاں پائی جاتی ہے ؟ امام شافعی رحمہ اللہ علم اصول فقہ کے پہلے مصنف مانے جاتےہیں ، ان کے ہاں یہ تقسیم پائی جاتی ہے ؟
حافظ ابن حجرؒ کے قول سے دوسرے اشکال کا جواب ملتا ہے:
وإنما أبهمت شروط المتواتر في الأصل؛ لأنه على هذه الكيفية ليس من مباحث علم الإسناد. إذ علم الإسناد يبحث فيه عن صحة الحديث أو ضعفه؛ ليعمل به أو يترك من حيث: صفات الرجال وصيغ الأداء، والمتواتر لا يبحث عن رجاله، بل يجب العمل به من غير بحث.
نزہۃ النظر 1۔43 ط مطبعۃ سفیر
یعنی متواتر کی بحث علم الاسناد کا حصہ ہی نہیں ہے۔ اسی لیے متقدمین نے اس کا ذکر نہیں کیا۔
اگر روایات کی صحت و ضعف سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، تو روایات کی تحقیق کے ضمن میں ایسی مباحث کیوں ذکر کی جاتی ہیں ؟
اور معاصر عالم أبو ذر عبد القادر بن مصطفى بن عبد الرزاق المحمدي کی عبارت میں دونوں باتوں کا جواب ملتا ہے:
"ولما كان لأهل الفقه والأصول السبق في تصنيف كتب مصطلح الحديث، ولاسيما الشافعية منهم، فقد ظهر منهجهم الفقهي بسطوع في غالب أبواب هذه الكتب، ثم أدخلوا فيها مباحث فقهية أصولية بحتة، لم يتعرض لها أهل الحديث البتة، كمبحث المتواتر والآحاد، وإطلاق قبول الزيادة من الثقة، وغيرها من المباحث الأخرى، ومن يقرأ كتاب الكفاية يجد الخطيب يرجح صنيع الفقهاء في أكثر من موضع، مع أنه يكتب في مصطلح أهل الحديث!
التصنيف في مصطلح الحديث بين مدرستي الحديث والفقه 1۔7
یعنی بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔ یہ تو بعد کے ان علماء نے جن کا فقہ میں بھی مقام تھا، اسے اصول حدیث میں ذکر کرنا شروع کر دیا۔
بطور امثلہ کچھ ذکر ہونا چاہیے کہ متقدمین فقہاء کےہاں یہ تقسیم پائی جاتی تھی ، تاکہ افہام و تفہیم ممکن ہو سکے ۔
 
Last edited:
Top