• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مخالفینِ دین کی پیدا کردہ متواتر اور آحاد کی الجھن!

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے قرآن کریم سے متعلق ارشاد کی میں وضاحت عرض کر چکا ہوں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی بیان کردہ شرط کو محدثین کے حوالے مزین فرما سکتے ہیں۔ میں نے کم از کم آج تک یہ شرط نہیں پڑھی۔
آپ محدثین کے حوالہ سے پیش کرنے کے مطالبہ سے دستبردار ہوں، اور اپنے مؤقف کے مطابق مطالبہ کریں کہ محدثین سے یا فقہاء سے پیش کریں، تو ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں!

تو چونکہ محدثین کرام نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا اس لیے اس کے پورا ہوئے بغیر کسی روایت کو متواتر قرار دیا جائے گا۔ اور یہ شرط ساقط الاعتبار ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ کا یہ جملہ اس بات کا غماز ہے کہ فقہاء کی بیان کردہ شروط کو اگر محدثین ذکر نہ کریں، یا قبول نہ کریں، تو وہ شروط ساقط الاعتبار قرار پاتی ہیں!
بالفاظ دیگر محدثین کا حکم مسئلہ ثبوت تواتر میں فقہاء کے حکم سے فوقیت رکھتا ہے! یا یوں کہئے کہ محدثین کے حکم کے مقابلہ میں فقہاء کا حکم ساقط الاعتبار قرار پاتا ہے۔
اور ایک طرف آپ نے فرمایا تھا کہ:

بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔
ملاحظہ: متواتر کی شرط یہ ہے کہ ایسی جماعت ہو جس کا کذب پر جمع ہونا محال ہو۔ یہ صفت جماعت کی ہے یعنی ایسی "کثیر" جماعت ہو۔ باقی وہ جماعت ایک ہی علاقے کیا اگر ایک گھر سے بھی تعلق رکھے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
اور اس کا فیصلہ کہ یہ ایسی جماعت ہے علماء کرام کریں گے ان کی خبر کو اور حالت کو دیکھ کر۔
اشماریہ بھائی کسی جماعت کا ''ایسی جماعت'' ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جماعت كذب پر جمع نہیں ہو سکتی؟
ایک گھر کے چار اشخاص کا كذب پر جمع ہونا تو عقلاً اور عادتاً محال نہیں!

یہ بھی وضاحت فرما دیجیے گا کہ یہ تفریق کچھ لحاظ سے ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی کس لحاظ سے تفریق ہو سکتی ہے اور اس تفریق کا فائدہ کہاں کہاں ہوگا۔
متواتر و آحاد میں احادیث کی تقسیم میں کچھ لحاظ سے تفریق کا مطلب یہ ہے کہ سماع و بصر پر مبنی احادیث میں کثرت تعداد کے فرق کے لحاظ سے تقسیم، جبکہ یہ طرق اپنے آپ میں ایسے قرآئن پیش کریں کہ حدیث کا كذب ہونا محال ہو! اس تقسیم کا اگر کوئی فائدہ ہے تو اتنا کہ جب کثرت طرق اور ان طرق میں موجود قرآئین اس بات کو ثابت کردیں کہ کسی حدیث کا كذب ہونا محال ہے، تو ایسی حدیث کے رواة پر بحث کی حاجت نہیں رہتی!

اشماریہ بھائی! ہمارے درمیان دو نکات پر گفتگو ہے:
01: تواتر کے اعتباری معاملہ ہونے پر !
02: کثرت طرق میں وہ کون سے امور تکمیل کو پہنچ جائیں کہ کسی حدیث کے لئے وہ کثرت اس بات کو ثابت کرے کہ اس کثرت طرق کا كذب پر جمع ہونا محال ہے! یاد رہے کہ یہ معاملہ ہر حدیث کے طرق کے لحاظ سے کثرت طرق کا یکساں ہونا لازم نہیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
امام نوویؒ متواتر کے متعلق فرماتے ہیں:
ومنه المتواتر المعروف في الفقه وأصوله، ولا يذكره المحدثون، وهو قليل لا يكاد يوجد في رواياتهم
"اور اس (مشہور۔۔۔۔ ناقل) میں متواتر ہے جو فقہ اور اصول فقہ میں مذکور ہے، اور اسے محدثین ذکر نہیں کرتے، اور وہ کم ہے بہت کم ہی ان کی روایات میں پائی جاتی ہے۔"
التقریب و التیسیر 1۔85، دار الکتاب العربی

لیکن آگے اس کی تعریف ذکر کرتے ہیں جو جامع و مانع ہونے کی وجہ سے اس کی شرائط کو شامل ہے:
وهو ما نقله من يحصل العلم بصدقهم ضرورة عن مثلهم من أوله إلى آخره،
"اور وہ وہ ہے جسے ایسے لوگ نقل کریں جن کی سچائی کا علم بداہۃً حاصل ہو جائے، اپنے جیسوں سے نقل کریں ابتداء تا انتہاء۔"
بدیہی اس بات کو کہا جاتا ہے جس کے سمجھنے کے لیے غور و فکر کرنے کی ضرورت نہ ہو۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
وإنماأبهمت شروط التواتر في الأصل؛ لأنه على هذه الكيفية ليس من مباحث علم الإسناد، «وإنما هو من مباحث أصول الفقه»إذ علم الإسناد يبحث فيه عن صحة الحديث أو ضعفه؛ ليعمل به أو يترك من حيث صفات الرجال، وصيغ الأداء، والمتواتر لا يبحث عن رجاله، بل يجب العمل به من غير بحث.
نزہۃ النظر بتحقیق نور الدین عتر، 1۔45 ط الصباح
"اور میں نے تواتر کی شرائط اصل (نخبۃ الفکر۔۔۔۔۔ ناقل) میں مبہم چھوڑ دیں کیوں کہ یہ اس کیفیت پر علم اسناد کی مباحث میں سے نہیں ہے، اور یہ اصول فقہ کی مباحث میں سے ہے، اس لیے کہ علم الاسناد میں حدیث کی صحت اور ضعف سے بحث کی جاتی ہے تاکہ لوگوں کی صفات اور اداء کے الفاظ کے اعتبار سے اس پر عمل کیا جائے یا اسے چھوڑ دیا جائے۔ اور متواتر کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی بلکہ اس پر عمل بغیر بحث کے واجب ہے۔"

لیکن اس سے پہلے اس کی شرائط تفصیل سے ذکر کی ہیں:
فإذا جمع هذه الشروط الأربعة، وهي:
عدد كثير أحالت العادة تواطؤهم على الكذب.
«و» رووا ذلك عن مثلهم من الابتداء إلى الانتهاء.
وكان مستند انتهائهم الحس.
وانضاف إلى ذلك أن يصحب خبرهم إفادة العلم لسامعه.
فهذا هو المتواتر.
"سو جب یہ چار شرائط جمع ہو جائیں، اور وہ یہ ہیں: ایسی جماعت کثیر ہو جس کا جھوٹ پر جمع ہونا عادۃً محال ہو، ابتداء سے انتہاء تک اپنے جیسوں سے روایت کریں، ان کی انتہاء کی بنیاد حس پر ہو، اور اس کے ساتھ یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ ان کی خبر سامع کو علم کا فائدہ پہنچائے۔"

علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں:
وليس من مباحث هذا الفن ; فإنه لا يبحث عن رجاله ; لكونه لا دخل لصفات المخبرين فيه ; ولذلك لم يذكره من المحدثين إلا القليل ; كالحاكم، والخطيب في أوائل (الكفاية) ، وابن عبد البر، وابن حزم.
فتح المغیث 4۔16، مکتبۃ السنۃ
"اور یہ اس فن کی مباحث میں سے نہیں ہے کیوں کہ کیوں کہ خبر دینے والوں کی صفات کا اس میں دخل نہیں ہے، اور اسی وجہ سے محدثین میں سے کم نے ہی اسے ذکر کیا ہے جیسا کہ حاتم، اور خطیب نے الکفایہ کی ابتداء میں، اور ابن عبد البر نے اور ابن حزم نے۔"

لیکن اس سے قبل پوری تفصیل کے ساتھ متواتر کا ذکر کیا ہے:
واصطلاحا: هو ما يكون (مستقرا في) جميع (طبقاته) ، أنه من الابتداء إلى الانتهاء ورد عن جماعة غير محصورين في عدد معين، ولا صفة مخصوصة، بل بحيث يرتقون إلى حد تحيل العادة معه تواطؤهم على الكذب، أو وقوع الغلط منهم اتفاقا من غير قصد. وبالنظر لهذا خاصة يكون العدد في طبقة كثيرا، وفي أخرى قليلا ; إذ الصفات العلية في الرواة تقوم مقام العدد أو تزيد عليه.
هذا كله مع كون مستند انتهائه الحس ; من مشاهدة أو سماع ; لأن ما لا يكون كذلك يحتمل دخول الغلط فيه

اس کا ترجمہ اگر مطلوب ہو تو کر دوں گا۔
تو ان عبارات سے میں تو یہی سمجھا ہوں یہ اصلا فقہاء اور اصول فقہ والوں کا موضوع تھا لیکن محدثین نے بھی اسے بمع اس کی شرائط کے تفصیل سے ذکر کیا ہے جیسا کہ واضح ہے۔ تو جو کام محدثین کا ہے یعنی ثبوت کا تو وہ وہاں تک کریں گے اور آگے جو کام فقہاء کا ہے یعنی استنباط کا، تو وہ کام وہ کریں گے۔
ہاں اگر ایک شخص ہی فقیہ اور محدث دونوں ہو تو وہ دونوں کام کر لے گا۔

اگر آپ اس کے علاوہ کچھ اور سمجھے ہیں تو براہ کرم باحوالہ اپنی سمجھ کو مبرہن فرمائیے۔
بھائی جان اگر آپ کے لیے یہ بات ابھی بھی واضح نہیں ہے تو اس کا جواب پھر ابن حجر، نووی، سخاوی اور ابو شہبہ رحمہم اللہ سے لیجیے۔ یا اپنے کسی استاد محترم سے سمجھ لیجیے۔ میں صرف اپنی وسعت کے مطابق واضح کر سکتا ہوں، سمجھانا میرے بس میں نہیں۔
میرا آپ سے ان باتوں میں اختلاف نہیں ہے!
میرا مدعا یہ ہے:
آپ کے قرآن کریم سے متعلق ارشاد کی میں وضاحت عرض کر چکا ہوں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی بیان کردہ شرط کو محدثین کے حوالے مزین فرما سکتے ہیں۔ میں نے کم از کم آج تک یہ شرط نہیں پڑھی۔
آپ محدثین کے حوالہ سے پیش کرنے کے مطالبہ سے دستبردار ہوں، اور اپنے مؤقف کے مطابق مطالبہ کریں کہ محدثین سے یا فقہاء سے پیش کریں، تو ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں!

تو چونکہ محدثین کرام نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا اس لیے اس کے پورا ہوئے بغیر کسی روایت کو متواتر قرار دیا جائے گا۔ اور یہ شرط ساقط الاعتبار ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ کا یہ جملہ اس بات کا غماز ہے کہ فقہاء کی بیان کردہ شروط کو اگر محدثین ذکر نہ کریں، یا قبول نہ کریں، تو وہ شروط ساقط الاعتبار قرار پاتی ہیں!
بالفاظ دیگر محدثین کا حکم مسئلہ ثبوت تواتر میں فقہاء کے حکم سے فوقیت رکھتا ہے! یا یوں کہئے کہ محدثین کے حکم کے مقابلہ میں فقہاء کا حکم ساقط الاعتبار قرار پاتا ہے۔
اور ایک طرف آپ نے فرمایا تھا کہ:

بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ محدثین کے حوالہ سے پیش کرنے کے مطالبہ سے دستبردار ہوں، اور اپنے مؤقف کے مطابق مطالبہ کریں کہ محدثین سے یا فقہاء سے پیش کریں، تو ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں!
میں نے عرض کیا ہے:
ایک ہے کسی روایت کے متواتر ثابت ہونے کی شرط اور دوسری ہے کسی مسئلہ میں دلیل کے لیے متواتر ہونے کی شرط۔ والفرق بینہما جلی۔ اول کام فقہاء کا نہیں محدثین کا ہے اور ثانی محدثین کا نہیں فقہاء کا ہے۔
ہاں جب ایک شخص میں دونوں چیزیں جمع ہو جائیں (جیسے صرف بطور مثال ابن حجرؒ، زیلعی اور ابن قدامہؒ) تو وہ دونوں صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔
تو جس فریق کے کام کی آپ بات کرنا چاہتے ہیں اس فریق سے پیش فرما دیجیے۔ اگر مقصود اثبات تواتر ہے تو محدثین کی شرائط ذکر فرما دیجیے۔ اور اگر مقصود استنباط فقہ ہے تو فقہاء کی شرائط ذکر فرما دیجیے۔ کوئی قید نہیں ہے۔

ایک عرض یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایک شخص ایک شرط لگاتا ہے اور دوسرے وہ شرط نہیں لگاتے یا اسے قبول نہیں کرتے۔ علم حدیث میں اس کی واضح مثال ابن حبان کا ضابطہ ذکر ثقات ہے۔

اشماریہ بھائی! آپ کا یہ جملہ اس بات کا غماز ہے کہ فقہاء کی بیان کردہ شروط کو اگر محدثین ذکر نہ کریں، یا قبول نہ کریں، تو وہ شروط ساقط الاعتبار قرار پاتی ہیں!
بالفاظ دیگر محدثین کا حکم مسئلہ
ثبوت تواتر میں فقہاء کے حکم سے فوقیت رکھتا ہے! یا یوں کہئے کہ محدثین کے حکم کے مقابلہ میں فقہاء کا حکم ساقط الاعتبار قرار پاتا ہے۔
یقینا۔ لکل فن رجال۔ (آپ کے تین جملوں میں سے ہائیلائٹڈ جملے کو میں کامل سمجھتا ہوں اور اسی کی تائید مقصود ہے۔)
شاید آپ نے نوٹ بھی کیا ہو کہ میں گفتگو کے دوران عموما جب حدیث مبارکہ کے ثبوت پر بات کرتا ہوں تو محدثین کے حوالے سے کرتا ہوں۔

اشماریہ بھائی کسی جماعت کا ''ایسی جماعت'' ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جماعت كذب پر جمع نہیں ہو سکتی؟
ایک گھر کے چار اشخاص کا كذب پر جمع ہونا تو عقلاً اور عادتاً محال نہیں!
پہلی بات کہ یہ کیسے ثابت ہوتا ہے؟ تو ابن حجرؒ، سخاویؒ اور دیگر کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عادت اور عقل سے معلوم ہوگا۔
دوسری بات کہ ایک گھر کے چار اشخاص کا کذب پر جمع ہونا عقلا اور عادۃ محال نہیں؟ تو یہ محال ہے جب وہ طبقہ اصحاب النبی ﷺ سے تعلق رکھتے ہوں۔
البتہ میں نے تھوڑی دیر پہلے یہ پڑھا کہ ایک عالم (میں نام بھول گیا ہوں) نے اجماع نقل کیا ہے کہ چار تواتر کا عدد نہیں ہے۔ یہ المسودہ فی اصول الفقہ لآل تیمیہ میں مذکور ہے۔ یہ قول راجح ہے یا نہیں و اللہ اعلم۔
اور ایک اور بات کی وضاحت کر دوں کہ علامہ مناویؒ تصریح کے ساتھ الیواقیت میں فرماتے ہیں کہ تواتر نسبی چیز ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ ایک روایت ایک جماعت کے نزدیک متواتر سمجھی جائے اور دوسری جماعت کے نزدیک نہ سمجھی جائے۔

متواتر و آحاد میں احادیث کی تقسیم میں کچھ لحاظ سے تفریق کا مطلب یہ ہے کہ سماع و بصر پر مبنی احادیث میں کثرت تعداد کے فرق کے لحاظ سے تقسیم، جبکہ یہ طرق اپنے آپ میں ایسے قرآئن پیش کریں کہ حدیث کا كذب ہونا محال ہو! اس تقسیم کا اگر کوئی فائدہ ہے تو اتنا کہ جب کثرت طرق اور ان طرق میں موجود قرآئین اس بات کو ثابت کردیں کہ کسی حدیث کا كذب ہونا محال ہے، تو ایسی حدیث کے رواة پر بحث کی حاجت نہیں رہتی!
میرے ناقص فہم کا قصور ہے کہ میں آپ کی بات کو سمجھ نہیں پایا۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دیں آپ اس کی وضاحت آسان الفاظ میں کر دیجیے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ ! میرا مسئلہ تقریباً حل ہو چکا ہے، میں آج اب تک کی ہوئی بحث کو سمیٹتا ہوں ، پھر آگے کی گفتگو کرتے ہیں، ان شاء اللہ!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ ! میرا مسئلہ تقریباً حل ہو چکا ہے، میں آج اب تک کی ہوئی بحث کو سمیٹتا ہوں ، پھر آگے کی گفتگو کرتے ہیں، ان شاء اللہ!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ابن داؤد بھائی! آپ اس بحث کو سمیٹ لیں تو میں آگے بات شروع کروں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی ہماری گفتگوں میں مذکورہ نکات زیر گفتگو آئیں ہیں:
01: تواتر کے اثبات کے لئے محدثین کی شروط مقبول ہوں گی یا فقہاء کی!
02: محدثین نے فقہاء کی شروع کردہ تواتر و آحاد کی بحث کو کس لحاظ سے قبول کیا ہے!
03: کثرت طرق میں وہ کون سے امور تکمیل کو پہنچ جائیں کہ کسی حدیث کے لئے وہ کثرت اس بات کو ثابت کرے کہ اس کثرت طرق کا كذب پر جمع ہونا محال ہے! یاد رہے کہ یہ معاملہ ہر حدیث کے طرق کے لحاظ سے کثرت طرق کا یکساں ہونا لازم نہیں!
04: تواتر کے اعتباری معاملہ ہونے پر !


01: تواتر کے اثبات کے لئے محدثین کی شروط مقبول ہوں گی یا فقہاء کی!

یقینا۔ لکل فن رجال۔ (آپ کے تین جملوں میں سے ہائیلائٹڈ جملے کو میں کامل سمجھتا ہوں اور اسی کی تائید مقصود ہے۔)
شاید آپ نے نوٹ بھی کیا ہو کہ میں گفتگو کے دوران عموما جب حدیث مبارکہ کے ثبوت پر بات کرتا ہوں تو محدثین کے حوالے سے کرتا ہوں۔
تو جس فریق کے کام کی آپ بات کرنا چاہتے ہیں اس فریق سے پیش فرما دیجیے۔ اگر مقصود اثبات تواتر ہے تو محدثین کی شرائط ذکر فرما دیجیے۔ اور اگر مقصود استنباط فقہ ہے تو فقہاء کی شرائط ذکر فرما دیجیے۔ کوئی قید نہیں ہے۔
آپ نے تواتر اثبات کے کے لئے تائید بیان کی ہے۔ باقی استنباط مسائل ابھی زیر بحث نہیں!

ایک عرض یہ ہے کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایک شخص ایک شرط لگاتا ہے اور دوسرے وہ شرط نہیں لگاتے یا اسے قبول نہیں کرتے۔ علم حدیث میں اس کی واضح مثال ابن حبان کا ضابطہ ذکر ثقات ہے۔
بلکل جناب! محدثین یا فقہاء سے کچھ شذوذ کا ارتکاب بھی ہوتا!

بہر حال خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب محدثین کرام نے خبر متواتر کی بحث کو ذکر کرنا شروع کر دیا ہے اور اس کی شرائط بھی وضاحت سے ذکر کرتے ہیں، مثالیں بھی ذکر کرتے ہیں اور ہماری بحث بھی حدیث مبارکہ میں ہے تو ہم انہی کی بیان کردہ شرائط کو دیکھیں گے اور اپنی طرف سے کسی شرط کا اضافہ نہیں کریں گے۔
جب حدیث کی بحث کہ آیا کہ زیر نظر حدیث متواتر ہے یا نہیں، اس واسطے محدثین کا مؤقف یعنی کہ ان کی شروط کو دیکھا جائے گا، اور فقہاء کی شروط کو قبول نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ لكل فن رجال، اور کسی حدیث کے تواتر کا اثبات فن حدیث کا کام ہے!
اور یہ بات بھی آپ بیان کر چکے ہیں کہ متواتر کی بحث کا آغاز فقہا نے کیا، اور بعد میں متاخرین محدثین نے فقہ سے شغل کی وجہ سے اسے علم حدیث میں بھی ذکر کرنا شروع کر دیا، تو اس سے قبل تواتر کا اثبات کو کیا کرتا تھا؟ محدثین تو تواتر کی بحث نہیں کرتے تھے، یہ تو فقہاء کیا کرتے تھے!
تو اس وقت فقہاء نے فن حدیث میں دخل اندازی کیوں کی! جبکہ وہ اثبات تواتر کے فن یعنی علم حدیث کے ماہر نہ تھے!
جبکہ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ متقدمین فقہاء کے زمانے سے یہ تواتر کی بحث موجود ہے، محدثین بھی کوئی بعد کی پیدائیش تو نہیں ، جس وقت متقدمین فقہاء تھے اس وقت متقدمین محدثین بھی تھے۔ لیکن متقدمین محدثین نے تواتر کی بحث کو علم الحدیث میں ذکر نہیں کیا! کیونکہ انہوں نے علم الحدیث میں اس بحث کو قبول نہیں کیا!
لہذا اس بات کو تسلم کئے بغیر چارہ نہیں کہ تواتر کی بحث ان فقہاء کی علم لحدیث میں مداخلت تھی، کہ وہ کسی حدیث کو متواتر قرار دے کر ا سے عقائد ، تنسیخ و تخصیص وغیرہ کے مسائل کو اس حدیث سے روا رکھتے تھے، اور کسی حدیث کو آحاد سمجھ کر اس سے عقائد ، تنسیخ و تخصیص وغیرہ کے مسائل کا استنباط جائز قرار نہ دیتے!

محدثین سے متعلق یہ بات سامنے آتی ہے کہ متقدمین محدثین نے تو تواتر کی بحث کو قبول نہیں کیا گو کہ اس وقت بھی یہ بحث موجود تھی، اور بعد میں متاخرین نے اس متواتر کی بحث کو نہ صرف ذکر کیا بلکہ قبول بھی کیا! لہٰذا یہ بات تسلیم کئے بغیر بھی چارہ نہیں کہ متاخرین نے فقہاء کی تواتر کی بحث کو علم حدیث میں قبول کرکے، اور اسے علم حدیث میں داخل کرکے، متقدمین کے طرز سے قدرے انحراف کیا ہے۔

اب یہ مسئلہ کہ متأخرین محدثین نے متقدمین محدثین سے کس قدر انحراف کیا ہے، اسے سمجھنے کے لئے، پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ متاخرین محدثین نے تواتر و آحاد کی تقسیم کو کس لحاظ سے قبول کیا ہے۔

(جاری ہے)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جب حدیث کی بحث کہ آیا کہ زیر نظر حدیث متواتر ہے یا نہیں، اس واسطے محدثین کا مؤقف یعنی کہ ان کی شروط کو دیکھا جائے گا، اور فقہاء کی شروط کو قبول نہیں کیا جائے گا، کیوں کہ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ لكل فن رجال، اور کسی حدیث کے تواتر کا اثبات فن حدیث کا کام ہے!
اور یہ بات بھی آپ بیان کر چکے ہیں کہ متواتر کی بحث کا آغاز فقہا نے کیا، اور بعد میں متاخرین محدثین نے فقہ سے شغل کی وجہ سے اسے علم حدیث میں بھی ذکر کرنا شروع کر دیا، تو اس سے قبل تواتر کا اثبات کو کیا کرتا تھا؟ محدثین تو تواتر کی بحث نہیں کرتے تھے، یہ تو فقہاء کیا کرتے تھے!
تو اس وقت فقہاء نے فن حدیث میں دخل اندازی کیوں کی! جبکہ وہ اثبات تواتر کے فن یعنی علم حدیث کے ماہر نہ تھے!
جبکہ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ متقدمین فقہاء کے زمانے سے یہ تواتر کی بحث موجود ہے، محدثین بھی کوئی بعد کی پیدائیش تو نہیں ، جس وقت متقدمین فقہاء تھے اس وقت متقدمین محدثین بھی تھے۔ لیکن متقدمین محدثین نے تواتر کی بحث کو علم الحدیث میں ذکر نہیں کیا! کیونکہ انہوں نے علم الحدیث میں اس بحث کو قبول نہیں کیا!
لہذا اس بات کو تسلم کئے بغیر چارہ نہیں کہ تواتر کی بحث ان فقہاء کی علم لحدیث میں مداخلت تھی، کہ وہ کسی حدیث کو متواتر قرار دے کر ا سے عقائد ، تنسیخ و تخصیص وغیرہ کے مسائل کو اس حدیث سے روا رکھتے تھے، اور کسی حدیث کو آحاد سمجھ کر اس سے عقائد ، تنسیخ و تخصیص وغیرہ کے مسائل کا استنباط جائز قرار نہ دیتے!

محدثین سے متعلق یہ بات سامنے آتی ہے کہ متقدمین محدثین نے تو تواتر کی بحث کو قبول نہیں کیا گو کہ اس وقت بھی یہ بحث موجود تھی، اور بعد میں متاخرین نے اس متواتر کی بحث کو نہ صرف ذکر کیا بلکہ قبول بھی کیا! لہٰذا یہ بات تسلیم کئے بغیر بھی چارہ نہیں کہ متاخرین نے فقہاء کی تواتر کی بحث کو علم حدیث میں قبول کرکے، اور اسے علم حدیث میں داخل کرکے، متقدمین کے طرز سے قدرے انحراف کیا ہے۔

اب یہ مسئلہ کہ متأخرین محدثین نے متقدمین محدثین سے کس قدر انحراف کیا ہے، اسے سمجھنے کے لئے، پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ متاخرین محدثین نے تواتر و آحاد کی تقسیم کو کس لحاظ سے قبول کیا ہے۔

(جاری ہے)
بهائی جان عرض یہ ہے کہ یہ آپ باتوں کو سمیٹ رہے ہیں یا پھیلا رہے ہیں؟ (ابتسامہ)
اگر آپ نے باتوں کو سمیٹنا ہے تو پھر اپنا تبصرہ درج نہ فرمائیے ورنہ پھر اس کا جواب اور جواب الجواب ہوتا رہے گا تو ایک طویل سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ اور اگر آپ کی بات پہلے مکمل نہیں ہوئی تو اسے پہلے مکمل فرما لیں اور ہم اس پر بحث کر لیں اس کے بعد ان کو سمیٹ لیجیے گا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی ہماری گفتگوں میں مذکورہ نکات زیر گفتگو آئیں ہیں:
01: تواتر کے اثبات کے لئے محدثین کی شروط مقبول ہوں گی یا فقہاء کی!
02: محدثین نے فقہاء کی شروع کردہ تواتر و آحاد کی بحث کو کس لحاظ سے قبول کیا ہے!
03: کثرت طرق میں وہ کون سے امور تکمیل کو پہنچ جائیں کہ کسی حدیث کے لئے وہ کثرت اس بات کو ثابت کرے کہ اس کثرت طرق کا كذب پر جمع ہونا محال ہے! یاد رہے کہ یہ معاملہ ہر حدیث کے طرق کے لحاظ سے کثرت طرق کا یکساں ہونا لازم نہیں!
04: تواتر کے اعتباری معاملہ ہونے پر !
شروع تو میں نے سمیٹنے کے لئے کیا تھا، مگر پھیل ہی گیا معاملہ، کیونکہ یہ تواتر کی الجھن ہی ہے! (ابتسامہ)
یہ نکات ہیں جو زیر بحث آئیں ہیں!
آپ کہئے اس طرح اس کو آگے بڑھایا جائے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جی یہ طریقہ مناسب ہے۔ ان باتوں کے جواب میں جو گزشتہ باتوں کا نتیجہ نکلا ہے اس کو تحریر فرما دیجیے۔ پھر آگے چلتے ہیں۔
 
Top