- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بالفاظ دیگر محدثین کا حکم مسئلہ ثبوت تواتر میں فقہاء کے حکم سے فوقیت رکھتا ہے! یا یوں کہئے کہ محدثین کے حکم کے مقابلہ میں فقہاء کا حکم ساقط الاعتبار قرار پاتا ہے۔
اور ایک طرف آپ نے فرمایا تھا کہ:
ایک گھر کے چار اشخاص کا كذب پر جمع ہونا تو عقلاً اور عادتاً محال نہیں!
اشماریہ بھائی! ہمارے درمیان دو نکات پر گفتگو ہے:
01: تواتر کے اعتباری معاملہ ہونے پر !
02: کثرت طرق میں وہ کون سے امور تکمیل کو پہنچ جائیں کہ کسی حدیث کے لئے وہ کثرت اس بات کو ثابت کرے کہ اس کثرت طرق کا كذب پر جمع ہونا محال ہے! یاد رہے کہ یہ معاملہ ہر حدیث کے طرق کے لحاظ سے کثرت طرق کا یکساں ہونا لازم نہیں!
آپ محدثین کے حوالہ سے پیش کرنے کے مطالبہ سے دستبردار ہوں، اور اپنے مؤقف کے مطابق مطالبہ کریں کہ محدثین سے یا فقہاء سے پیش کریں، تو ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں!آپ کے قرآن کریم سے متعلق ارشاد کی میں وضاحت عرض کر چکا ہوں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اپنی بیان کردہ شرط کو محدثین کے حوالے مزین فرما سکتے ہیں۔ میں نے کم از کم آج تک یہ شرط نہیں پڑھی۔
اشماریہ بھائی! آپ کا یہ جملہ اس بات کا غماز ہے کہ فقہاء کی بیان کردہ شروط کو اگر محدثین ذکر نہ کریں، یا قبول نہ کریں، تو وہ شروط ساقط الاعتبار قرار پاتی ہیں!تو چونکہ محدثین کرام نے اس شرط کو ذکر نہیں کیا اس لیے اس کے پورا ہوئے بغیر کسی روایت کو متواتر قرار دیا جائے گا۔ اور یہ شرط ساقط الاعتبار ہے۔
بالفاظ دیگر محدثین کا حکم مسئلہ ثبوت تواتر میں فقہاء کے حکم سے فوقیت رکھتا ہے! یا یوں کہئے کہ محدثین کے حکم کے مقابلہ میں فقہاء کا حکم ساقط الاعتبار قرار پاتا ہے۔
اور ایک طرف آپ نے فرمایا تھا کہ:
بحث متواتر فقہاء کا کام ہے اور علم فقہ کا نتیجہ ہے۔
اشماریہ بھائی کسی جماعت کا ''ایسی جماعت'' ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جماعت كذب پر جمع نہیں ہو سکتی؟ملاحظہ: متواتر کی شرط یہ ہے کہ ایسی جماعت ہو جس کا کذب پر جمع ہونا محال ہو۔ یہ صفت جماعت کی ہے یعنی ایسی "کثیر" جماعت ہو۔ باقی وہ جماعت ایک ہی علاقے کیا اگر ایک گھر سے بھی تعلق رکھے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
اور اس کا فیصلہ کہ یہ ایسی جماعت ہے علماء کرام کریں گے ان کی خبر کو اور حالت کو دیکھ کر۔
ایک گھر کے چار اشخاص کا كذب پر جمع ہونا تو عقلاً اور عادتاً محال نہیں!
متواتر و آحاد میں احادیث کی تقسیم میں کچھ لحاظ سے تفریق کا مطلب یہ ہے کہ سماع و بصر پر مبنی احادیث میں کثرت تعداد کے فرق کے لحاظ سے تقسیم، جبکہ یہ طرق اپنے آپ میں ایسے قرآئن پیش کریں کہ حدیث کا كذب ہونا محال ہو! اس تقسیم کا اگر کوئی فائدہ ہے تو اتنا کہ جب کثرت طرق اور ان طرق میں موجود قرآئین اس بات کو ثابت کردیں کہ کسی حدیث کا كذب ہونا محال ہے، تو ایسی حدیث کے رواة پر بحث کی حاجت نہیں رہتی!یہ بھی وضاحت فرما دیجیے گا کہ یہ تفریق کچھ لحاظ سے ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی کس لحاظ سے تفریق ہو سکتی ہے اور اس تفریق کا فائدہ کہاں کہاں ہوگا۔
اشماریہ بھائی! ہمارے درمیان دو نکات پر گفتگو ہے:
01: تواتر کے اعتباری معاملہ ہونے پر !
02: کثرت طرق میں وہ کون سے امور تکمیل کو پہنچ جائیں کہ کسی حدیث کے لئے وہ کثرت اس بات کو ثابت کرے کہ اس کثرت طرق کا كذب پر جمع ہونا محال ہے! یاد رہے کہ یہ معاملہ ہر حدیث کے طرق کے لحاظ سے کثرت طرق کا یکساں ہونا لازم نہیں!