بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ وَ فَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ
تمتع ، قران اور حج مفرد کا بیان اور جس کے پاس قربانی نہ ہو اسے حج فسخ کرکے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے
(791) وَ عَنْهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي رِوَايَةٍ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ وَ لاَ نُرَى إِلاَّ أَنَّهُ الْحَجُّ فَلَمَّا قَدِمْنَا تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ فَأَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ وَ نِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ فَأَحْلَلْنَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ قَالَتْ يَارَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَ حَجَّةٍ وَ أَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ قَالَ وَ مَا طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ قُلْتُ لاَ قَالَ فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ ثُمَّ مَوْعِدُكِ كَذَا وَ كَذَا قَالَتْ صَفِيَّةُ مَا أُرَانِي إِلاَّ حَابِسَتَهُمْ قَالَ عَقْرَى حَلْقَى أَوَ مَا طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَتْ قُلْتُ بَلَى قَالَ لاَ بَأْسَ انْفِرِي*
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے ایک روایت میں ہے کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ مدینہ سے چلے اور ہمیں صرف حج کا خیال تھا (یعنی حج کا احرام باندھا تھا) پھر جب ہم مکہ پہنچے اور کعبہ کا طواف کر چکے تو نبی ﷺ نے حکم دیا کہ جس کے ساتھ قربانی نہیں وہ (حج کے) احرام سے باہر ہو جائے پس جن لوگوں کے پاس قربانی نہیں تھی وہ احرام سے باہر ہو گئے اور آپ ﷺ کی ازواج کے پاسبھی قربانی نہیں تھی لہٰذا وہ احرام سے باہر ہو گئیں۔ ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں کہ میں حائضہ ہو جانے کی وجہ سے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی جب محصب کی رات آئی تو میں نے کہا یا رسول اللہ! لوگ تو عمرہ اور حج دونوں کرکے لوٹیں گے اور میں صرف حج کرکے۔آپ ﷺ نے فرمایا :”تو جب مکہ آئی تھی تو طواف نہیں کیا تھا؟ “میں نے کہا نہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:”تو اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم تک جا ،وہاں سے عمرے کا احرام باندھ لے پھر عمرے سے فارغ ہو کر فلاں جگہ پر ہمیں ملنا ۔” ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ میں اپنے آپ کو تم سب کا روکنے والاسمجھتی ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا :”بانجھ،کیا تم نے قربانی والے دن طواف نہیں کیا؟” صفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے عرض کی ہاں کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر کچھ حرج نہیں چلو ۔
(792) وَ عَنْهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي رِوَايَةٍ أُخْرٰى قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَ مِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَ عُمْرَةٍ وَ مِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَ أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لَمْ يَحِلُّوا حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ *
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حجۃ الوداع کے سال (مکہ کی طرف) چلے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا اور بعض لوگوں نے صرف حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے حج کا احرام باندھا تھا پس جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا احرام باندھا وہ احرام سے باہر نہیں ہوا ،یہاں تک کہ قربانی کا دن آگیا۔
(793) عَن عُثْمَان رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أنَّهُ نَهَى عَنِ الْمُتْعَةِ وَ أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَهُمَا فَلَمَّا رَأَى عَلِيٌّ أَهَلَّ بِهِمَا لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَ حَجَّةٍ قَالَ مَا كُنْتُ لِأَدَعَ سُنَّةَ النَّبِيِّ ﷺ لِقَوْلِ أَحَدٍ *
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ (اپنی خلافت میں) تمتع اور قران (حج اور عمرہ اکٹھا)کرنے سے منع کرتے تھے چنانچہ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو حج و عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھا اور کہا
لَبَیْکَ بعُمْرَۃٍ وَحَجَۃٍ (یعنی قران کیا) اور کہا کہ میں نبی ﷺ کی سنت کسی کے کہنے سے ترک نہیں کر سکتا ۔
(794) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الأَرْضِ وَ يَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا وَ يَقُولُونَ إِذَا بَرَا الدَّبَرْ وَ عَفَا الأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ وَ أَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْحِلِّ قَالَ حِلٌّ كُلُّهُ *
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (دور جاہلیت میں) لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حج کے دنوں میں عمرہ کرنا تمام دنیا کی برائیوں سے بڑھ کر ہے اور وہ لوگ ماہ محرم کو ماہ صفر قرار دے لیتے تھے اور کہتے تھے کہ جب اونٹ کی پیٹھ کا زخم (جو سفر حج میں اس پر کجاوا باندھنے سے اکثر آجاتا ہے) اچھا ہو جائے اور نشان بالکل مٹ جائے اور صفر گزر جائے تو اس وقت عمرہ حلال ہے اس شخص کے لیے جو عمرہ کرنا چاہے۔ پس جب نبی ﷺ اور صحابہ ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اس احرام کو (توڑکر اس کی بجائے) عمرہ (کا احرام) کر لیں پس یہ بات ان لوگوں کو بری معلوم ہوئی اور وہ لوگ کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کونسی بات احرام سے باہر ہونے کی کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:”سب باتیں ۔ “
(795) عَنْ حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا شَأْنُ النَّاسِ حَلُّوا بِعُمْرَةٍ وَ لَمْ تَحْلِلْ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِكَ قَالَ إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي وَ قَلَّدْتُ هَدْيِي فَلاَ أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ *
ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا زوجہ ٔ نبی ﷺ نے عرض کی کہ یارسول اللہ! لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ عمرہ کرکے احرام سے باہر ہو گئے اورآپ ﷺ عمرہ کرکے احرام سے باہر نہیں ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا:”میں نے اپنے سر کے بال جمائے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈال دیا، لہٰذا میں جب تک قربانی نہ کر لوں احرام سے باہر نہیں آ سکتا ۔”
(796) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَأَلهُ رَجُلٌ عَنِ التَّمَتُّعِ وَ قَالَ نَهَانِي نَاسٌ عَنْهُ فَأَمَرَهُ بِهِ قَالَ الرَّجُلُ فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ رَجُلاً يَقُولُ لِي حَجٌّ مَبْرُورٌ وَ عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ سُنَّةَ النَّبِيِّ ﷺ *
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان سے تمتع کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ لوگوں نے مجھے اس سے منع کیا پس سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے حکم دیا کہ تم اطمینان سے تمتع کرو ۔ اس آدمی نے کہا کہ پس میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا کوئی شخص مجھ سے کہہ رہا ہے کہ “حج بھی عمدہ ہے اور عمرہ بھی مقبول ہے” پس میں نے یہ خواب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا توانہوں نے کہا کہ یہ نبی ﷺ کی سنت ہے (شوق سے کرو)۔
(779) عَن جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ يَوْمَ سَاقَ الْبُدْنَ مَعَهُ وَ قَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا فَقَالَ لَهُمْ أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ بِطَوَافِ الْبَيْتِ وَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَ قَصِّرُوا ثُمَّ أَقِيمُوا حَلاَلاً حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً فَقَالُوا كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَ قَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ فَقَالَ افْعَلُوا مَا أَمَرْتُكُمْ فَلَوْلاَ أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ وَ لَكِنْ لاَ يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَفَعَلُوا *
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کے ہمراہ حج کیا جب کہ آپ ﷺ اپنے ہمراہ قربانی لے گئے تھے اور سب صحابہ نے حج مفرد کااحرام باندھا تھا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:”تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کر کے احرام سے باہر آ جاؤ اور بال کتروا ڈالو پھر احرام سے باہر ہو کر ٹھہرے رہو یہاں تک کہ جب آٹھویں تاریخ ہوتو تم لوگ حج کا احرام باندھ لینا اور یہ احرام جس کے ساتھ تم آئے ہو اس کو تمتع کردو۔” تو صحابہ نے عرض کی کہ ہم اس کو تمتع کر دیں حالانکہ ہم حج کا نام لے چکے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :”جو کچھ میں تم کو حکم دیتا ہوں وہی کرو اگر میں قربانی نہ لایا ہوتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جس طرح تم کو حکم دیتا ہوں لیکن اب مجھ سے احرام علیحدہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ قربانی اپنی اپنی قربان گاہ پر نہ پہنچ جائے ۔ “