• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جہنم میں کافر کی ڈاڑھ کی بڑائی کا بیان۔
1982: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی (یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے )۔

1983: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ان لوگوں کی تکلیف کا بیان جو لوگوں کو تکلیف دیتے تھے۔
1984: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کے کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے ) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دُور سے آ رہی ہو گی۔

1985: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ قریب ہے اگر تو دیر تک جیا تو ایسے لوگوں کو دیکھے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے غصے میں صبح کریں گے اور اللہ کے قہر میں شام کریں گے اور ان کے ہاتھوں میں بیل کی دُم کی طرح کے (کوڑے ) ہوں گے۔ (شاید پولیس والے مراد ہوں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دنیا کے سب سے زیادہ خوشحال کو جہنم میں اور دنیا کے سب سے زیادہ تنگی والے کو جنت کا غوطہ دینا۔
1986: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اہلِ دوزخ میں سے اس شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ آسودہ تر اور خوشحال تھا، پس دوزخ میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو نے دنیا میں کبھی آرام دیکھا تھا؟ کیا تجھ پر کبھی چین بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! اے میرے رب!کبھی نہیں اور اہل جنت میں سے ایک ایسا شخص لایا جائے گا جو دنیا میں سب لوگوں سے سخت تر تکلیف میں رہا تھا، جنت میں ایک بار غوطہ دیا جائے گا، پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! تو نے کبھی تکلیف بھی دیکھی ہے ؟ کیا تجھ پر شدت اور رنج بھی گزرا تھا؟ وہ کہے گا کہ اللہ کی قسم! مجھ پر تو کبھی تکلیف نہیں گزری اور میں نے تو کبھی شدت اور سختی نہیں دیکھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: فتنوں کا بیان

باب : فتنوں کے قریب ہونے اور ہلاکت کے بیان میں جب کہ برائی زیادہ ہو جائے۔
1987: اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نیند سے اس حال میں بیدار ہوئے کہ آپ فرما رہے تھے لا الٰہ الا اللہ، خرابی ہے عرب کی اس آفت سے جو نزدیک ہے آج یاجوج اور ماجوج کی آڑ اتنی کھل گئی اور (راوئ حدیث) سفیان نے دس کا ہندسہ بنایا (یعنی انگوٹھے اور کلمہ کی انگلی سے حلقہ بنایا) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا ہم اس حال میں بھی تبا ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں! جب بُرائی زیادہ ہو گی (یعنی فسق و فجور یا زنا یا اولاد زنا یا معاصی)۔

1988: سیدنا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: آج یاجوج اور ماجوج کی آڑ کی دیوار میں سے اتنا کھل گیا (یعنی اس میں اتنا سوراخ ہو گیا) اور (راوئ حدیث) وہیب نے اس کو انگلیوں سے نوے کا ہندسہ بنا کر بیان کیا (شاید یہ حدیث پہلے کی ہو اور اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے بعد کی اور شاید مقصود تمثیل ہو نہ کہ حد بیان کی گئی ہو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بارش کے قطروں کی طرح نازل ہونے والے فتنوں کے بیان میں۔
1989: سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ مدینہ کے محلوں میں سے ایک محل (یا قلعہ) پر چڑھے پھر فرمایا: کیا جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں، تم بھی دیکھ رہے ہو؟ بیشک میں تمہارے گھروں میں فتنوں کی جگہیں اس طرح دیکھتا ہوں جیسے بارش کے گرنے کی جگہوں کو (یعنی بوندوں کی طرح بہت ہوں گے مراد جمل اور صفین اور فتنہ عثمان اور شہادت حسین رضی اللہ عنہما اور ان کے سوا بہت سے فساد جو مسلمانوں میں ہوئے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دلوں پر فتنوں کا پیش کیا جانا اور فتنوں کا دلوں میں داغ پیدا کر دینا۔
1990: سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمرؓ کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے کہا: تم میں سے کس نے رسول اللہﷺ کو فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے ؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ہاں! ہم نے سنا ہے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ شاید تم فتنوں سے وہ فتنے سمجھے ہو جو آدمی کو اس کے گھر بار اور مال اور ہمسائے میں ہوتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ ان فتنوں کا کفارہ تو نماز، روزے اور زکوٰۃ سے ہو جاتا ہے ، لیکن تم میں سے ان فتنوں کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کس نے سنا ہے جو دریا کی موجوں کی طرح امنڈ کر آئیں گے ؟ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ لوگ خاموش ہو گئے میں نے کہا کہ میں نے سنا ہے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ تو نے سنا ہے تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ (یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جو عرب لوگ استعمال کرتے ہیں) سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ فرماتے تھے کہ فتنے دلوں پر ایک کے بعد ایک، ایک کے بعد ایک ایسے آئیں گے جیسے بورئیے کی تیلیاں ایک کے بعد ایک ہوتی ہیں۔ پھر جس دل میں فتنہ رچ جائے گا، اس میں ایک کالا داغ پیدا ہو گا اور جو دل اس کو نہ مانے گا تو اس میں ایک سفید نورانی دھبہ ہو گا، یہاں تک کہ اسی طرح کالے اور سفید دھبے ہوتے ہوتے دو قسم کے دل ہو جائیں گے۔ ایک تو خالص سفید دل چکنے پتھر کی طرح کہ آسمان و زمین کے قائم رہنے تک اُسے کوئی فتنہ نقصان نہ پہنچائے گا۔ دوسرے کالا سفیدی مائل یا الٹے کوزے کی طرح جو نہ کسی اچھی بات کو اچھی سمجھے گا نہ بُری بات کو بُری، مگر وہی جو اس کے دل میں بیٹھ جائے۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ پھر میں نے سیدنا عمرؓ سے حدیث بیان کی کہ تمہارے اور اس فتنے کے درمیان میں ایک بند دروازہ ہے ، مگر نزدیک ہے کہ وہ ٹوٹ جائے۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ تیرا باپ نہ ہو (یہ بھی ایک کلمہ ہے جسے عرب عام طور پر کسی کام پر متنبہ کرنے یا مستعد کرنے کو کہتے ہیں)، کیا وہ ٹوٹ جائے گا؟ کھل جاتا تو شاید پھر بند ہو جاتا۔ میں نے کہا کہ نہیں ٹوٹ جائے گا اور میں نے ان سے حدیث بیان کی کہ یہ دروازہ ایک شخص ہے ، جو مارا جائے گا یا مر جائے گا۔ پھر یہ حدیث کوئی غلط (دل سے بنائی ہوئی بات) نہ تھی۔ ابو خالد نے کہا کہ میں نے سعید بن طارق سے پوچھا کہ "اسود مربادا" سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ سیاہی میں سفیدی کی شدت۔ میں نے کہا کہ "کالکوز مجخیا" سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اوندھا کیا ہوا کوزا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : لوگوں کو فتنے میں ڈالنے کے لئے شیطان کا اپنے لشکروں کو بھیجنا۔
1991: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ، پھر اپنے لشکروں کو دنیا میں فساد کرنے کو بھیجتا ہے۔ پس سب سے بڑا فتنہ باز اس کا سب سے زیادہ قریبی ہوتا ہے۔ کوئی شیطان ان میں سے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی وغیرہ) تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر کوئی آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا، یہاں تک کہ اس میں اور اس کی بیوی میں جدائی کرا دی۔ تو اس کو اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیا ہے۔ اعمش نے کہا، میرا خیال ہے کہ اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : فتنے اور ان کی کیفیات کے متعلق۔
1992: ابو ادریس خولانی کہتے ہیں کہ سیدنا حذیفہ بن یمانؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں سب لوگوں سے زیادہ ہر فتنہ کو جانتا ہوں جو میرے درمیان اور قیامت کے درمیان ہونے والا ہے۔ اور یہ بات نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے چھپا کر کوئی بات خاص مجھ سے بیان کی ہو جو اَوروں سے نہ کی ہو، لیکن رسول اللہﷺ نے ایک مجلس میں فتنوں کا بیان کیا جس میں مَیں بھی تھا۔ تو آپﷺ نے ان فتنوں کا شمار کرتے ہوئے فرمایا: تین ان میں سے ایسے ہیں جو قریب قریب کچھ نہ چھوڑیں گے اور ان میں سے بعض گرمی کی آندھیوں کی طرح ہیں، بعض ان میں چھوٹے ہیں اور بعض بڑے ہیں۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ (اب) میرے سوا اس مجلس کے سب لوگ فوت ہو چکے ہیں۔ ایک میں باقی ہوں (اس وجہ سے اب مجھ سے زیادہ کوئی فتنوں کا جاننے والا باقی نہ رہا)۔

1993: سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہم میں (وعظ سنانے کو) کھڑے ہوئے تو کوئی بات نہ چھوڑی جو اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی تھی مگر اس کو بیان کر دیا۔ پھر یاد رکھا جس نے رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا۔ میرے ساتھی اس کو جانتے ہیں اور بعض بات ہوتی ہے جس کو میں بھول گیا تھا، پھر جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو یاد آ جاتی ہے جیسے آدمی دوسرے آدمی کی عدم موجودگی میں اس کا چہرہ یاد رکھتا ہے ، پھر جب اس کو دیکھے تو پہچان لیتا ہے۔

1994: سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہﷺ نے ہر ایک بات بتا دی جو قیامت تک ہونے والی تھی اور کوئی بات ایسی نہ رہی جس کو میں نے آپﷺ سے نہ پوچھا ہو، البتہ میں نے یہ نہ پوچھا کہ مدینہ والوں کو مدینہ سے کونسی چیز نکالے گی۔

1995: سیدنا ابو زید (یعنی عمرو بن اخطب)ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر چڑھ کر ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا۔ پھر آپﷺ اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا۔ پھر اترے اور نماز پڑھی۔ پھر منبر پر چڑھے اور ہمیں وعظ سنایا، یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔پس جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہونے والا تھا، سب کی ہمیں خبر دے دی۔ اور ہم میں سب سے زیادہ وہ عالم ہے جس نے سب سے زیادہ ان باتوں کو یاد رکھا ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : فتنوں کے بیان میں اور جو ان سے محفوظ رہے گا یا جوان فتنوں کو یاد رکھے گا۔
1996: محمد (ابن سیرین) کہتے ہیں کہ جندب نے کہا کہ میں نے یوم الجرعہ (یعنی جس دن جرعہ میں فساد ہونے والا تھا، (اور جرعہ کوفہ میں ایک مقام ہے جہاں کوفہ والے سعید بن عاص سے لڑنے کے لئے جمع ہوئے تھے جب سیدنا عثمانؓ نے ان کو کوفہ کا حاکم بنا کر بھیجا تھا) کو ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو کہا کہ آج تو یہاں کئی خون ہوں گے۔ وہ شخص بولا کہ ہر گز نہیں، اللہ کی قسم! خون نہ ہوں گے۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! خون ضرور ہوں گے وہ بولا کہ اللہ کی قسم! ہرگز خون نہ ہوں گے۔ میں نے کہا اللہ کی قسم! ضرور قتل ہوں گے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم! ہرگز قتل نہ ہوں گے ، اور میں نے اس بارے میں رسول اللہﷺ سے ایک حدیث سنی ہے جو آپﷺ نے مجھ سے فرمائی تھی۔ میں نے کہا کہ تو آج میرا بُرا ساتھی ہے ، اس لئے کہ تو سنتا ہے میں تیرا خلاف کر رہا ہوں اور تو نے رسول اللہﷺ سے ایک حدیث سنی ہے اور مجھے منع نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا کہ اس غصے سے کیا فائدہ؟ اور میں اس شخص کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ سیدنا حذیفہؓ صحابی رسولﷺ ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : فتنے مشرق کی طرف سے ہوں گے۔
1997: سیدنا سالم بن عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے وہ کہتے تھے کہ اے عراق والو! میں تم سے چھوٹے گناہ نہیں پوچھتا نہ اس کو پوچھتا ہوں جو کبیرہ گناہ کرتا ہو میں نے اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ فتنہ ادھر سے آئے گا اور آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا، جہاں شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں۔ اور تم ایک دوسرے کی گردن مارتے ہو (حالانکہ مومن کی گردن مارنا کتنا بڑا گناہ ہے ) اور موسیٰؑ فرعون کی قوم کا ایک شخص غلطی سے مار بیٹھے تھے (نہ بہ نیت قتل کیونکہ گھونسے سے آدمی نہیں مرتا)، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "تو نے ایک خون کیا، پھر ہم نے تجھے غم سے نجات دی اور تجھ کو آزمایا جیسا آزمایا تھا"۔(طہٰ: 40)۔
 
Top