کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
یہ بات تسلیم کرنے کی صورت میں یہ کتنی عجیب بات ہوگی کہ چودہ سوسال تک ایک نص دنیا کے اکثر لوگوں کے لئے صحیح طور سے ناقابل عمل تھی !یوم عرفہ کے الفاظ میں یوم کی نسبت کسی تاریخ کی بجائے عرفہ کی طرف ہے یعنی عرفات کے قیام والا دن یہ اس کا صحیح ترجمہ بنے گا۔ اس اعتبار سے درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ یوم عرفہ سے مراد وہ دن ہے کہ جس دن حجاج عرفات میں قیام کرتے ہیں۔ ۹ ذی الحجہ کی فضیلت میں مناسبت موجود نہیں ہے اور مناسب ملائم ہونا کسی علت کے لیے لازم شرط ہے۔ واللہ اعلم
یہ کیسے ممکن ہے کہ پوری دنیا کے لئے جس حکم کاصدور چودہ سوسال پہلے ہوا وہ چودہ سو سال بعد قابل عمل ہوا؟
رہی بات عرفہ کی عرفات کے قیام سے نسبت تو نحروقربانی کی بھی منی کے نحر وقربانی سے نسبت ہے۔
پھر کیا پوری دنیا کے لئے لوگ اسی دن نحرو وقربانی کریں جس دن منی میں قربانی ہوتی ہے؟
اگرکہاجائے کہ حجاج کی قربانی کا مسئلہ الگ ہے اور عام لوگوں کی قربانی کا مسئلہ الگ ہے ۔
تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حجاج کے وقوف عرفات کا مسئلہ الگ ہے اور عام لوگوں کے لئے صوم عرفہ الگ مسئلہ ہے۔
یہ بات بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی کہ یوم عرفہ کے الفاظ میں یوم کی نسبت کسی تاریخ کی طرف نہیں ہے۔
کیونکہ اول تو یوم النحر میں بھی یہی مسئلہ پیدا ہوگا۔
اوردوسرے یہ کہ عرفہ کی ایک تاریخ متعین ہے جو نو ذی الحجہ ہے لہٰذا عرفہ کی نسبت تاریخ ہی کی طرف نسبت ہے۔
مزید یہ کہ قرآن میں یوم عرفہ کو وتر یعنی طاق کہا گیا ہے۔لہٰذا جفت تاریخ میں عرفہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اپنے اپنے علاقے کے حساب سے ساری دنیا کے لوگ عرفہ کا روزہ رکھیں واللہ اعلم۔