• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس راوی کا عنعنہ اور صحیحین [انتظامیہ]

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
"منقطع حدیث" کی تعریف

لغوی اعتبار سے یہ انقطاع کا اسم فاعل ہے جو کہ اتصال کا متضاد ہے یعنی کاٹنے والی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں منقطع ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند کسی بھی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہو۔

تعریف کی وضاحت

حدیث کسی سند کے شروع، درمیان، آخر کسی بھی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہو تو اس حدیث کو منقطع کہا جاتا ہے۔ اس تعریف کے اعتبار سے منقطع میں مرسل، معلق، معضل ہر قسم کی حدیث شامل ہو جاتی ہے۔ لیکن بعد کے دور کے حدیث کے ماہرین (متاخرین) نے منقطع حدیث کو اس صورت کے ساتھ مخصوص کر لیا ہے جس پر مرسل، معلق اور معضل کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ یہی استعمال قدیم دور کے بعض ماہرین (متقدمین) کے ہاں بھی عام رہا ہے۔

امام نووی کہتے ہیں: "اکثر اوقات منقطع اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی صحابی سے روایت کرنے والے تابعی کو حذف کر دیا جائے جیسے امام مالک (درمیانی تابعین کو چھوڑ کر) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے لگیں۔" (واضح رہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی وفات 74H میں ہو گئی تھی جبکہ امام مالک کی پیدائش 90H میں ہوئی ہے۔ لازمی طور پر ان کے درمیان ایک یا دو تابعین موجود ہوں گے۔) (التقریب مع التدریب ج 1 ص 208)

متاخرین کے نزدیک "منقطع حدیث" کی تعریف

منقطع ایسی حدیث ہوتی ہے جس کی سند ٹوٹی ہوئی ہو لیکن یہ معلق، مرسل اور معضل کے علاوہ ہو۔ منقطع ہر اس ٹوٹی سند کی حدیث کو کہا جائے گا جس کے شروع کی سند ٹوٹی ہوئی نہ ہو، جس میں سے صحابی کو حذف نہ کیا گیا ہو اور جس میں دو لگاتار راویوں کو حذف نہ کیا گیا ہو۔ ابن حجر نے نخبۃ میں یہی تعریف کی ہے۔ (النخبۃ و شرح لہ ص 44)

اگر انقطاع (یعنی سند کا ٹوٹا ہوا ہونا) ایک جگہ ہو یا ایک سے زائد جگہ ہو، اسے منقطع حدیث ہی کہا جائے گا۔

"منقطع حدیث" کی مثال

عبدالرزاق ثوری سے، وہ ابو اسحاق سے، وہ زید بن یثیع سے، اور وہ حذیفہ سے (واسطہ بیان کئے بغیر) روایت کرتے ہیں کہ "اگر تم ابوبکر کو اپنا حاکم بنا لو تو وہ قوت والے اور دیانت دار شخص ہیں۔" (معرفۃ علوم الحدیث ص 36)

اس حدیث کی سند میں ثوری اور ابو اسحاق کے درمیان ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے جن کا نام "شریک" ہے۔ ثوری نے براہ راست ابو اسحاق سے روایت نہیں کی ہے۔ انہوں نے شریک سے اور شریک نے ابو اسحاق سے احادیث روایت کی ہیں۔

"منقطع حدیث" کا حکم

اہل علم کا اس پر اتفاق رائے ہے کہ منقطع حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ محذوف شدہ راوی کے حالات کیا تھے؟
مرسل خفی کی تعریف

مرسل، لفظ ارسال کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ خفی، ظاہر کا متضاد ہے۔ اس کا مطلب ہے چھپی ہوئی چیز جسے تفصیلی تحقیق کے بغیر معلوم نہ کیا جا سکے۔

اصطلاحی مفہوم میں مرسل خفی ایسی حدیث ہوتی ہے جس کا راوی اسے کسی ایسے شیخ سے روایت کرتا ہے جس سے اس راوی کی ملاقات ہوئی ہوتی ہے یا کم از کم جو اس کے زمانے میں موجود ہوتا ہے لیکن اس راوی نے شیخ سے کوئی بھی حدیث سنی نہیں ہوتی۔ وہ راوی حدیث کو ذو معنی الفاظ میں روایت کرتا ہے جیسے ("میں نے اس شخص سے یہ حدیث سنی" کی بجائے یہ کہنا کہ) "اس نے کہا"۔

مرسل خفی کی مثال

ابن ماجہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عقبۃ بن عامر سے مرفوع روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اللہ تعالی پہرہ دینے والے پر رحمت فرمائے۔" (ابن ماجه – كتاب الجهاد – جـ 2 ص 925 رقم الحديث / 2769) امام مِّزِی اپنی کتاب اطراف میں لکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کی ملاقات کبھی عقبہ بن عامر سے نہیں ہوئی۔

نوٹ: سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر عالم اور خلیفہ تھے۔ انہوں نے راوی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ ایسا بعد کے کسی راوی نے کیا ہو گا۔

کسی کو مدلس قرار دینے سے پہلے اس کا عمومی کردار دیکھا جانا ضروری ہے۔ ایسا شخص جس کی بہت سی احادیث میں تدلیس یا ارسال خفی پایا جائے، اسے تو مشکوک قرار دیا جا سکتا ہے مگر جس شخص کی کسی ایک آدھ حدیث میں تدلیس یا ارسال خفی پایا جائے تو اس کے بارے میں حسن ظن سے ہی کام لینا ضروری ہے کہ بھول چوک سب سے ہی ہو سکتی ہے۔

مرسل خفی کیسے پہچانی جاتی ہے؟

مرسل خفی کی پہچان تین ذرائع سے ہوتی ہے:

·(فن رجال کے) بعض ماہرین واضح طور پر بیان کر دیتے ہیں کہ وہ راوی جس شیخ سے حدیث بیان کر رہا ہے، اس کی کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی یا اس نے کبھی ان سے حدیث نہیں سنی۔

·وہ راوی خود کسی موقع پر بیان کر دے کہ اس کی شیخ سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی یا اس نے کبھی ان سے حدیث نہیں سنی۔

·حدیث کسی اور مقام پر بھی موجود ہو جس میں اس راوی اور شیخ کے درمیان کچھ افراد کا اضافہ پایا جاتا ہو۔

اس تیسرے امر کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کیونکہ ایک متصل سند مل جانے کے بعد یہ حدیث مرسل نہیں رہے گی بلکہ متصل ہو جائے گی۔

مرسل خفی کا حکم

یہ ضعیف حدیث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ منقطع ہے۔ جب اس کا منقطع ہونا ظاہر ہو جائے گا تو اس پر وہی حکم لگے گا جو منقطع حدیث کا حکم ہے۔

مرسل خفی سے متعلق مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب التفصیل لمبہم المراسیل
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
مرسل خفی کی تعریف

مرسل، لفظ ارسال کا اسم مفعول ہے جس کا معنی ہے ڈھیلی ڈھالی چیز۔ خفی، ظاہر کا متضاد ہے۔ اس کا مطلب ہے چھپی ہوئی چیز جسے تفصیلی تحقیق کے بغیر معلوم نہ کیا جا سکے۔

اصطلاحی مفہوم میں مرسل خفی ایسی حدیث ہوتی ہے جس کا راوی اسے کسی ایسے شیخ سے روایت کرتا ہے جس سے اس راوی کی ملاقات ہوئی ہوتی ہے یا کم از کم جو اس کے زمانے میں موجود ہوتا ہے لیکن اس راوی نے شیخ سے کوئی بھی حدیث سنی نہیں ہوتی۔ وہ راوی حدیث کو ذو معنی الفاظ میں روایت کرتا ہے جیسے ("میں نے اس شخص سے یہ حدیث سنی" کی بجائے یہ کہنا کہ) "اس نے کہا"۔

مرسل خفی کی مثال

ابن ماجہ روایت کرتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے عقبۃ بن عامر سے مرفوع روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اللہ تعالی پہرہ دینے والے پر رحمت فرمائے۔" (ابن ماجه – كتاب الجهاد – جـ 2 ص 925 رقم الحديث / 2769) امام مِّزِی اپنی کتاب اطراف میں لکھتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز کی ملاقات کبھی عقبہ بن عامر سے نہیں ہوئی۔

نوٹ: سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر عالم اور خلیفہ تھے۔ انہوں نے راوی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ہو گی۔ ایسا بعد کے کسی راوی نے کیا ہو گا۔

کسی کو مدلس قرار دینے سے پہلے اس کا عمومی کردار دیکھا جانا ضروری ہے۔ ایسا شخص جس کی بہت سی احادیث میں تدلیس یا ارسال خفی پایا جائے، اسے تو مشکوک قرار دیا جا سکتا ہے مگر جس شخص کی کسی ایک آدھ حدیث میں تدلیس یا ارسال خفی پایا جائے تو اس کے بارے میں حسن ظن سے ہی کام لینا ضروری ہے کہ بھول چوک سب سے ہی ہو سکتی ہے۔

مرسل خفی کیسے پہچانی جاتی ہے؟

مرسل خفی کی پہچان تین ذرائع سے ہوتی ہے:

·(فن رجال کے) بعض ماہرین واضح طور پر بیان کر دیتے ہیں کہ وہ راوی جس شیخ سے حدیث بیان کر رہا ہے، اس کی کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی یا اس نے کبھی ان سے حدیث نہیں سنی۔

·وہ راوی خود کسی موقع پر بیان کر دے کہ اس کی شیخ سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی یا اس نے کبھی ان سے حدیث نہیں سنی۔

·حدیث کسی اور مقام پر بھی موجود ہو جس میں اس راوی اور شیخ کے درمیان کچھ افراد کا اضافہ پایا جاتا ہو۔

اس تیسرے امر کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کیونکہ ایک متصل سند مل جانے کے بعد یہ حدیث مرسل نہیں رہے گی بلکہ متصل ہو جائے گی۔

مرسل خفی کا حکم

یہ ضعیف حدیث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ منقطع ہے۔ جب اس کا منقطع ہونا ظاہر ہو جائے گا تو اس پر وہی حکم لگے گا جو منقطع حدیث کا حکم ہے۔

مرسل خفی سے متعلق مشہور تصانیف

خطیب بغدادی کی کتاب التفصیل لمبہم المراسیل
مُعََنعَن اور مُؤَنَن احادیث

تمہید

خبر مردود کی وہ چھ اقسام ہم بیان کر چکے ہیں جو کہ سند کے منقطع ہونے کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ معنعن اور مؤنن احادیث کا معاملہ ان سے کچھ مختلف ہے۔ ان کا شمار منقطع احادیث میں کیا جائے یا متصل احادیث میں؟ اسناد میں سقوط کے باعث ہم ان کی بحث کو یہاں درج کر رہے ہیں۔

معنعن کی تعریف

لغوی مفہوم میں "عنعن" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ "عن، عن" کہہ کر بتائی جانے والی بات۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جو "عن، عن" کہہ کر روایت کی گئی ہوتی ہے جیسے "فلاں عن فلاں"۔

نوٹ: حدیث کی روایت مختلف الفاظ میں کی جاتی ہے۔ مثلاً حدثنا یعنی فلاں شخص نے ہم سے حدیث بیان کی، سمعتُ یعنی میں نے اس حدیث کو فلاں شخص سے سنا ہے، اخبرنا یعنی فلاں شخص نے ہمیں یہ خبر سنائی ہے۔

روایت کا ایک طریقہ "عن، عن" بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ "فلاں نے فلاں سے روایت کی۔" چونکہ اس لفظ کے ذریعے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں نے فلاں سے یہ حدیث خود سنی ہے یا نہیں، اس وجہ سے معنعن حدیث کی سند میں کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جس کی بحث یہاں درج کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محدثین حدیث کو قبول کرنے میں کتنی احتیاط برتتے تھے۔

معنعن کی مثال

ابن ماجہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

حدثنا عثمان بن ابی شیبہ ثنا معاویہ بن ہشام ثنا سفیان عن اسامہ بن زید عن عثمان بن عروۃ عنعروۃ عن عائشہ۔ قالت، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم: ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف۔ (ابن ماجه ـ كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها جـ1 ـ ص 321 رقم الحديث / 1005 /)

عثمان بن ابی شیبہ ہم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، ان سے معاویہ بن ہشام نے حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے حدیث بیان کی، سفیان نے اسامہ بن زید سے روایت کی، انہوں نے عثمان بن عروہ سے روایت کی، انہوں نے عروہ سے روایت کی اور انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔ آپ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے صف کے دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والوں کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔"

معنعن متصل ہے یا منقطع؟

اس معاملے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ معنعن کو منقطع حدیث قرار (دے کر ضعیف قرار) دیا جائے گا جب تک کہ اس کی سند کا اتصال ثابت نہ ہو جائے۔ دوسرا نقطہ نظر، جو کہ حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا نقطہ نظر ہے، یہ ہے کہ اسے چند شرائط کے ساتھ متصل حدیث مان لیا جائے گا۔ ان میں سے دو شرائط پر سب اہل علم کا اتفاق رائے ہے۔ امام مسلم نے بھی انہی دو شرائط کو کافی سمجھا ہے، وہ یہ ہیں:

·معنعن حدیث کی سند میں کوئی راوی تدلیس کرنے والا نہ ہو۔ (کیونکہ تدلیس کرنے والے واضح الفاظ کی بجائے ذو معنی الفاظ بول کر تدلیس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔)

·معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں کی ملاقات ہونا ممکن ہو۔ (یعنی دونوں ایک ہی زمانے کے ہوں اور ایک نے دوسرے کے شہر میں کچھ وقت گزارا ہو۔)

ان دو شرائط پر اہل علم کے دوسرے گروہ نے کچھ اضافہ کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:

·معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں کی ملاقات ایک ثابت شدہ امر ہو۔ یہ امام بخاری، ابن المدینی اور دیگر محققین کا نقطہ نظر ہے۔

·معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں میں طویل عرصے کی رفاقت پائی جاتی ہو۔ یہ ابن المظفر السمعانی کا نقطہ نظر ہے۔

·یہ بات معلوم و متعین ہو کہ معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں میں سے ایک دوسرے سے حدیث کو براہ راست روایت کرتا ہے۔ یہ ابو عمرو الدانی کا نقطہ نظر ہے۔

مؤنن حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے مؤنن اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے "اَنّ، اَنّ" کہنا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جسے اس طرح روایت کیا گیا ہو کہ "حدثنا فلاں انّ فلاں انّ فلاں۔۔۔۔" یعنی "ہم نے فلاں نے حدیث بیان کی، پھر فلاں سے، پھر فلاں سے۔۔۔۔"

مؤنن حدیث کا حکم

امام احمد اور ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مؤنن حدیث کو منقطع قرار (دے کر اسے ضعیف قرار) دیا جائے گا۔ اہل علم کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ لفظ "اَنَّ" بالکل "عن" کی طرح ہے اور مؤنن حدیث کو معنعن حدیث سے متعلق شرائط کی موجودگی میں قبول کر لیا جائے گا۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
مُعََنعَن اور مُؤَنَن احادیث

تمہید

خبر مردود کی وہ چھ اقسام ہم بیان کر چکے ہیں جو کہ سند کے منقطع ہونے کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ معنعن اور مؤنن احادیث کا معاملہ ان سے کچھ مختلف ہے۔ ان کا شمار منقطع احادیث میں کیا جائے یا متصل احادیث میں؟ اسناد میں سقوط کے باعث ہم ان کی بحث کو یہاں درج کر رہے ہیں۔

معنعن کی تعریف

لغوی مفہوم میں "عنعن" کا اسم مفعول ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ "عن، عن" کہہ کر بتائی جانے والی بات۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جو "عن، عن" کہہ کر روایت کی گئی ہوتی ہے جیسے "فلاں عن فلاں"۔

نوٹ: حدیث کی روایت مختلف الفاظ میں کی جاتی ہے۔ مثلاً حدثنا یعنی فلاں شخص نے ہم سے حدیث بیان کی، سمعتُ یعنی میں نے اس حدیث کو فلاں شخص سے سنا ہے، اخبرنا یعنی فلاں شخص نے ہمیں یہ خبر سنائی ہے۔

روایت کا ایک طریقہ "عن، عن" بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ "فلاں نے فلاں سے روایت کی۔" چونکہ اس لفظ کے ذریعے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فلاں نے فلاں سے یہ حدیث خود سنی ہے یا نہیں، اس وجہ سے معنعن حدیث کی سند میں کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جس کی بحث یہاں درج کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محدثین حدیث کو قبول کرنے میں کتنی احتیاط برتتے تھے۔

معنعن کی مثال

ابن ماجہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

حدثنا عثمان بن ابی شیبہ ثنا معاویہ بن ہشام ثنا سفیان عن اسامہ بن زید عن عثمان بن عروۃ عنعروۃ عن عائشہ۔ قالت، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم: ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف۔ (ابن ماجه ـ كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها جـ1 ـ ص 321 رقم الحديث / 1005 /)

عثمان بن ابی شیبہ ہم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں، ان سے معاویہ بن ہشام نے حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے حدیث بیان کی، سفیان نے اسامہ بن زید سے روایت کی، انہوں نے عثمان بن عروہ سے روایت کی، انہوں نے عروہ سے روایت کی اور انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔ آپ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے صف کے دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والوں کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔"

معنعن متصل ہے یا منقطع؟

اس معاملے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ معنعن کو منقطع حدیث قرار (دے کر ضعیف قرار) دیا جائے گا جب تک کہ اس کی سند کا اتصال ثابت نہ ہو جائے۔ دوسرا نقطہ نظر، جو کہ حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کی اکثریت کا نقطہ نظر ہے، یہ ہے کہ اسے چند شرائط کے ساتھ متصل حدیث مان لیا جائے گا۔ ان میں سے دو شرائط پر سب اہل علم کا اتفاق رائے ہے۔ امام مسلم نے بھی انہی دو شرائط کو کافی سمجھا ہے، وہ یہ ہیں:

·معنعن حدیث کی سند میں کوئی راوی تدلیس کرنے والا نہ ہو۔ (کیونکہ تدلیس کرنے والے واضح الفاظ کی بجائے ذو معنی الفاظ بول کر تدلیس کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔)

·معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں کی ملاقات ہونا ممکن ہو۔ (یعنی دونوں ایک ہی زمانے کے ہوں اور ایک نے دوسرے کے شہر میں کچھ وقت گزارا ہو۔)

ان دو شرائط پر اہل علم کے دوسرے گروہ نے کچھ اضافہ کیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے:

·معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں کی ملاقات ایک ثابت شدہ امر ہو۔ یہ امام بخاری، ابن المدینی اور دیگر محققین کا نقطہ نظر ہے۔

·معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں میں طویل عرصے کی رفاقت پائی جاتی ہو۔ یہ ابن المظفر السمعانی کا نقطہ نظر ہے۔

·یہ بات معلوم و متعین ہو کہ معنعن حدیث کے دو مسلسل راویوں میں سے ایک دوسرے سے حدیث کو براہ راست روایت کرتا ہے۔ یہ ابو عمرو الدانی کا نقطہ نظر ہے۔

مؤنن حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے مؤنن اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے "اَنّ، اَنّ" کہنا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جسے اس طرح روایت کیا گیا ہو کہ "حدثنا فلاں انّ فلاں انّ فلاں۔۔۔۔" یعنی "ہم نے فلاں نے حدیث بیان کی، پھر فلاں سے، پھر فلاں سے۔۔۔۔"

مؤنن حدیث کا حکم

امام احمد اور ایک گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مؤنن حدیث کو منقطع قرار (دے کر اسے ضعیف قرار) دیا جائے گا۔ اہل علم کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ لفظ "اَنَّ" بالکل "عن" کی طرح ہے اور مؤنن حدیث کو معنعن حدیث سے متعلق شرائط کی موجودگی میں قبول کر لیا جائے گا۔
راوی پر الزام کا مطلب

راوی پر الزام کر معنی ہے کہ اس پر کھلے الفاظ میں الزام لگایا گیا ہو۔ اس کے کردار اور دین کے بارے میں اعتراضات کیے گئے ہوں۔ حدیث کے بارے میں اس کے رویے پر گفتگو کی گئی ہو یعنی وہ حدیث کو کس طرح محفوظ رکھتا تھا؟ انہیں کس حد تک یاد رکھتا تھا؟ اس معاملے میں وہ کس حد تک محتاط تھا؟ وغیرہ وغیرہ

نوٹ: اس موقع پر ایک دلچسپ سوال پیدا ہو گیا ہے۔ قرآن مجید میں کسی شخص کی عیب جوئی اور کردار کشی سے منع کیا گیا ہے۔ کیا یہ حکم حدیث بیان کرنے والے راویوں کے بارے میں بھی ہے؟ حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جس عیب جوئی اور کردار کشی سے قرآن مجید میں منع کیا گیا ہے، اس کا تعلق کسی شریف انسان کے ذاتی معاملات سے ہے۔

اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کسی سے لین دین یا رشتے داری کرنا مقصود ہو تو اس شخص کے کردار کی چھان بین ضروری ہے۔ اگر کوئی دھوکے باز شخص ہے اور وہ دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کے کردار سے دوسروں کو آگاہ کرنا تاکہ وہ اس کے دھوکے سے محفوظ رہیں بالکل درست ہے۔

عام زندگی میں شریف لوگ کسی کی کردار کشی نہیں کرتے لیکن جب کسی کے ساتھ رشتے ناتے قائم کرنے یا اس سے لین دین کا معاملہ پیش آتا ہے تو کردار کی چھان بین سے اخلاقیات منع نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے بارے میں تو عیب جوئی نہیں کی جاتی لیکن حکومت کے لیڈروں کے بارے میں ہر شخص چھان بین کا حق رکھتا ہے۔

جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کسی بات کو بیان کرتا ہے تو بالکل اسی اصول پر وہ خود کو لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے کہ وہ اس کے کردار کی چھان بین کر سکیں۔ اگر کوئی شخص ایسا نہیں چاہتا تو اسے چاہیے کہ وہ احادیث بیان کرنے کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہے۔

راوی پر الزام کے اسباب

راوی پر الزام کے بنیادی طور پر دس اسباب ہیں۔ ان میں سے پانچ تو اس کے کردار سے متعلق ہیں اور پانچ کا تعلق حدیث کی حفاظت کے امور سے ہے۔ کردار سے متعلق الزامات ان بنیادوں پر لگائے جاتے ہیں:

·جھوٹ۔ (حدیث بیان کرنے والا شخص کہیں جھوٹ بولنے کا عادی تو نہیں؟ جھوٹے شخص کی حدیث قبول نہیں کی جاتی۔)

·جھوٹ بولنے کا الزام۔ (یہ الزام اگرچہ غلط بھی ہو لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخص کی حدیث کو قبول نہ کیا جائے۔)

·فسق و فجور۔ (وہ شخص اعلانیہ طور پر گناہوں کا ارتکاب تو نہیں کرتا۔ چھپے ہوئے گناہوں کو تو سوائے اللہ تعالی اور اس شخص کے اور کوئی نہیں جانتا۔)

·بدعت۔ (وہ شخص کہیں کسی نئے مذہب، مسلک، فرقے، رسم کا حامی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ اپنے مذہب کے حق میں تعصب کا شکار ہو گا اور اس کی بیان کردہ احادیث اس کے تعصب سے متاثر ہوں گی۔)

·جہالت۔ (اگر وہ شخص دین کو نہیں جانتا تو بات کچھ کی کچھ ہو سکتی ہے۔)

·حدیث کی حفاظت سے متعلق راوی کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

·بہت زیادہ غلطیاں کرنا۔ (تھوڑی بہت غلطی تو سبھی سے ہو سکتی ہے لیکن بہت زیادہ غلطیاں کرنے والے شخص کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر محتاط طبیعت کا مالک تھا۔)

·حافظے کی کمزوری۔ (کمزور حافظے والا شخص کے لئے حدیث کو یاد رکھنے میں غلطیوں کا امکان زیادہ ہے۔)

·غفلت و لاپرواہی۔ (ایک لاپرواہ شخص سے غلطی صادر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔)

·بہت زیادہ وہمی ہونا۔ (وہمی شخص بھی بات کو آگے منتقل کرنے میں غلطیاں کر سکتا ہے۔ وہ بعض باتوں پر زیادہ زور دے گا اور بعض کو نظر انداز کر دے گا۔)

·ثقہ راویوں کی احادیث کے خلاف احادیث روایت کرنا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ آپ کی محکم احادیث کے خلاف کثرت سے روایت کرنے والا یا تو بات سمجھنے میں غلطی کر رہا ہو گا اور یا پھر جان بوجھ کر کوئی غلط بات پھیلانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔)

اب ہم مسترد شدہ احادیث کی ان اقسام کا جائزہ لیں گے جو کہ راوی پر الزام کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ہم سخت ترین اقسام سے آغاز کریں گے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
راوی پر الزام کا مطلب

راوی پر الزام کر معنی ہے کہ اس پر کھلے الفاظ میں الزام لگایا گیا ہو۔ اس کے کردار اور دین کے بارے میں اعتراضات کیے گئے ہوں۔ حدیث کے بارے میں اس کے رویے پر گفتگو کی گئی ہو یعنی وہ حدیث کو کس طرح محفوظ رکھتا تھا؟ انہیں کس حد تک یاد رکھتا تھا؟ اس معاملے میں وہ کس حد تک محتاط تھا؟ وغیرہ وغیرہ

نوٹ: اس موقع پر ایک دلچسپ سوال پیدا ہو گیا ہے۔ قرآن مجید میں کسی شخص کی عیب جوئی اور کردار کشی سے منع کیا گیا ہے۔ کیا یہ حکم حدیث بیان کرنے والے راویوں کے بارے میں بھی ہے؟ حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جس عیب جوئی اور کردار کشی سے قرآن مجید میں منع کیا گیا ہے، اس کا تعلق کسی شریف انسان کے ذاتی معاملات سے ہے۔

اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کسی سے لین دین یا رشتے داری کرنا مقصود ہو تو اس شخص کے کردار کی چھان بین ضروری ہے۔ اگر کوئی دھوکے باز شخص ہے اور وہ دوسرے کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کے کردار سے دوسروں کو آگاہ کرنا تاکہ وہ اس کے دھوکے سے محفوظ رہیں بالکل درست ہے۔

عام زندگی میں شریف لوگ کسی کی کردار کشی نہیں کرتے لیکن جب کسی کے ساتھ رشتے ناتے قائم کرنے یا اس سے لین دین کا معاملہ پیش آتا ہے تو کردار کی چھان بین سے اخلاقیات منع نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے بارے میں تو عیب جوئی نہیں کی جاتی لیکن حکومت کے لیڈروں کے بارے میں ہر شخص چھان بین کا حق رکھتا ہے۔

جب کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کسی بات کو بیان کرتا ہے تو بالکل اسی اصول پر وہ خود کو لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے کہ وہ اس کے کردار کی چھان بین کر سکیں۔ اگر کوئی شخص ایسا نہیں چاہتا تو اسے چاہیے کہ وہ احادیث بیان کرنے کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہے۔

راوی پر الزام کے اسباب

راوی پر الزام کے بنیادی طور پر دس اسباب ہیں۔ ان میں سے پانچ تو اس کے کردار سے متعلق ہیں اور پانچ کا تعلق حدیث کی حفاظت کے امور سے ہے۔ کردار سے متعلق الزامات ان بنیادوں پر لگائے جاتے ہیں:

·جھوٹ۔ (حدیث بیان کرنے والا شخص کہیں جھوٹ بولنے کا عادی تو نہیں؟ جھوٹے شخص کی حدیث قبول نہیں کی جاتی۔)

·جھوٹ بولنے کا الزام۔ (یہ الزام اگرچہ غلط بھی ہو لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخص کی حدیث کو قبول نہ کیا جائے۔)

·فسق و فجور۔ (وہ شخص اعلانیہ طور پر گناہوں کا ارتکاب تو نہیں کرتا۔ چھپے ہوئے گناہوں کو تو سوائے اللہ تعالی اور اس شخص کے اور کوئی نہیں جانتا۔)

·بدعت۔ (وہ شخص کہیں کسی نئے مذہب، مسلک، فرقے، رسم کا حامی تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو وہ اپنے مذہب کے حق میں تعصب کا شکار ہو گا اور اس کی بیان کردہ احادیث اس کے تعصب سے متاثر ہوں گی۔)

·جہالت۔ (اگر وہ شخص دین کو نہیں جانتا تو بات کچھ کی کچھ ہو سکتی ہے۔)

·حدیث کی حفاظت سے متعلق راوی کی شخصیت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

·بہت زیادہ غلطیاں کرنا۔ (تھوڑی بہت غلطی تو سبھی سے ہو سکتی ہے لیکن بہت زیادہ غلطیاں کرنے والے شخص کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غیر محتاط طبیعت کا مالک تھا۔)

·حافظے کی کمزوری۔ (کمزور حافظے والا شخص کے لئے حدیث کو یاد رکھنے میں غلطیوں کا امکان زیادہ ہے۔)

·غفلت و لاپرواہی۔ (ایک لاپرواہ شخص سے غلطی صادر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔)

·بہت زیادہ وہمی ہونا۔ (وہمی شخص بھی بات کو آگے منتقل کرنے میں غلطیاں کر سکتا ہے۔ وہ بعض باتوں پر زیادہ زور دے گا اور بعض کو نظر انداز کر دے گا۔)

·ثقہ راویوں کی احادیث کے خلاف احادیث روایت کرنا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ آپ کی محکم احادیث کے خلاف کثرت سے روایت کرنے والا یا تو بات سمجھنے میں غلطی کر رہا ہو گا اور یا پھر جان بوجھ کر کوئی غلط بات پھیلانے کی کوشش کر رہا ہو گا۔)

اب ہم مسترد شدہ احادیث کی ان اقسام کا جائزہ لیں گے جو کہ راوی پر الزام کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ہم سخت ترین اقسام سے آغاز کریں گے۔
موضوع حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "موضوع" وضع کرنے کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے گھڑی ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں موضوع حدیث اس جھوٹی حدیث کو کہتے ہیں جسے گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا گیا ہو۔

موضوع حدیث کا درجہ

یہ ضعیف احادیث میں سے سب سے بدترین درجے کی حامل ہے۔ بعض اہل علم تو اسے ضعیف حدیث میں بھی شمار نہیں کرتے بلکہ ایک الگ درجے پر رکھتے ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے گھڑ کر جھوٹی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ضعیف حدیث میں تو پھر بھی یہ شک ہوتا ہے کہ شاید یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمائی ہو گی جبکہ موضوع حدیث تو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے۔)

موضوع حدیث کی روایت کرنے کا حکم

اہل علم کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ موضوع حدیث کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ یہ جعلی حدیث ہے، اسے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اس بات کی اجازت ہے کہ اسے روایت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بتا دیا جائے کہ یہ موضوع حدیث ہے۔ مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے جان بوجھ کر مجھ سے منسوب جھوٹی بات بیان کی تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔" (مقدمة مسلم بشرح النووي جـ 1 ـ ص 62)

جعلی احادیث ایجاد کرنے کا طریقہ

جعلی احادیث ایجاد کرنے والا شخص بسا اوقات اپنی طرف سے کوئی بات گھڑتا ہے اور اس کے بعد اس کی اسناد اور روایت کو ایجاد کر لیتا ہے۔ بعض اوقات وہ کچھ دانشوروں وغیرہ کے اقوال حاصل کرتا ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنے کے لئے جھوٹی اسناد ایجاد کر لیتا ہے۔

موضوع حدیث کو کیسے پہچانا جائے؟

موضوع حدیث کو ان طریقوں سے پہچانا جا سکتا ہے:

·احادیث ایجاد کرنے والا خود اقرار کر لے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ابو عصمہ نوح بن ابی مریم نے اس بات کا خود اقرار کیا کہ اس نے قرآن مجید کی ہر سورت کے فضائل سے متعلق احادیث گھڑیں اور انہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا۔

·احادیث ایجاد کرنے والا الٹی سیدھی بات کر کے اپنا درجہ خود کم کر لے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا ہی شخص کسی شیخ سے حدیث روایت کر رہا تھا۔ جب اس شخص سے اس کی تاریخ پیدائش پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے شیخ اس شخص کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکے تھے۔ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کا علم سوائے اس کے کسی اور کو نہ تھا۔ (اس جھوٹ کی وجہ سے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ شخص حدیث کو خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر رہا ہے۔)

·احادیث وضع کرنے کے شواہد راوی کی ذات میں پائے جائیں۔ مثلاً راوی کسی خاص مسلک کے بارے میں شدت پسندانہ رویہ رکھتا ہو اور وہ اس مسلک کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے لگے۔

·خود حدیث میں وضع کرنے کے شواہد پائے جائیں۔ مثلاً حدیث کے الفاظ گھٹیا درجے کے ہوں، یا حسی شواہد کے خلاف ہوں یا قرآن مجید کے صریح الفاظ کے خلاف ہوں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے آخری یونٹ، درایت کے اصول)

جعلی احادیث ایجاد کرنے کی وجوہات اور احادیث گھڑنے والوں کی خصوصیات

جعلی احادیث وضع کرنے کی کئی وجوہات ہیں:

قرب الہی کا حصول

بعض لوگوں نے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے احادیث وضع کیں۔ انہوں نے لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کرنے اور گناہوں سے روکنے کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ جعلی احادیث کے ان موجدوں نے اپنی طرف سے لوگوں کو زھد و تقوی کی طرف لانے کے لئے احادیث گھڑیں لیکن یہ بدترین لوگ تھے کیونکہ انہیں ثقہ سمجھتے ہوئے لوگوں نے ان کی احادیث پر یقین کر لیا۔

ایسے لوگوں کی ایک مثال میسرہ بن عبد رب تھا۔ ابن حبان اپنی کتاب "الضعفاء" میں ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص سے پوچھا، "تم یہ احادیث کہاں سے لائے ہو، تم نے کس شخص کو یہ احادیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔" وہ کہنے لگا، "میں نے ان احادیث کو خود ایجاد کیا ہے تا کہ لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کر سکوں۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 283)

مسلک اور فرقے کی تائید

بعض لوگوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی تائید میں احادیث ایجاد کیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں جو سیاسی نوعیت کے فرقے پیدا ہوئے انہوں نے اپنے فرقے کی تائید میں احادیث وضع کرنے کا کام شروع کیا۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ، "علی سب سے بہترین انسان ہیں۔ جس نے اس کا انکار کیا، اس نے کفر کیا۔"

اسلام پر اعتراضات

بعض ایسے ملحد لوگ تھے جنہوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے اور اس سے متعلق لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے یہ کام شروع کیا۔ وہ کھلم کھلا تو اسلام پر اعتراضات کر نہیں سکتے تھے چنانچہ انہوں نے اس طریقے سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے اور اس پر اعتراضات کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ ان کی ایک مثال محمد بن سعید شامی تھا۔ اس نے حمید اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت منسوب کی، "میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284) اللہ تعالی کا بڑا شکر ہے کہ اس نے حدیث کے ایسے ماہرین پیدا کیے جنہوں نے ایسی احادیث کو الگ کر دیا۔

حکمرانوں کا قرب

بعض حضرات نے محض حکمرانوں کی قربت حاصل کرنے (اور ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے) احادیث گھڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ لوگ اس طریقے کے حکمرانوں کے ناجائز کاموں کو بھی جائز قرار دے دیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ غیاث بن ابراہیم النخعی الکوفی خلیفہ مہدی کے پاس آیا تو وہ کبوتر کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس موقع پر اس نے فوراً ہی اپنی سند سے حدیث بیان کی، "تیر اندازی، گھڑ دوڑ، خچر کی دوڑ اور کبوتر بازی کے علاوہ کسی چیز میں مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔" اس شخص نے حدیث میں "کبوتر بازی" کا اپنی طرف سے اضافہ کر دیا۔ مہدی اس حدیث سے واقف تھا۔ اس نے فوراً ہی کبوتر کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور کہنے لگا، "میں اس بات سے واقف ہوں۔"

روزگار کا حصول

کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو لوگوں کو قصے کہانیاں سنا کر اپنے روزگار کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو عجیب و غریب اور طلسماتی قصے سنا کر ان سے رقم وصول کرتے۔ ابو سعید المدائنی اسی قسم کا ایک قصہ گو ہے۔

نوٹ: عام لوگ قصے کہانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ ناول، ڈرامہ، افسانہ وغیرہ کی اصناف سخن سب انسان کے اسی شوق کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔ دنیا کے دوسرے معاشروں میں قدیم دور سے ہی کہانیوں اور ڈراموں کا رواج رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں چونکہ ڈرامے کو اچھا نہیں سمجھا گیا اس وجہ سے اس کی جگہ قصہ خوانی نے لے لی۔ قرون وسطی میں قصہ گو بڑے بڑے میدانوں یا چوراہوں پر باقاعدہ قصہ گوئی کی محفلیں جماتے اور لوگوں سے رقم لے کر انہیں قصے سناتے۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا اسی قسم کی داستانیں تھیں۔ اس قسم کے بعض قصہ گو حضرات نے بعض قصوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا۔

شہرت کا حصول

ایسی عجیب و غریب احادیث کو، جو حدیث کے کسی ماہر کے پاس موجود نہیں تھیں، محض سستی شہرت کے حصول لئے ایجاد کیا گیا۔ ابن ابی دحیۃ اور حماد النصیبی جیسے لوگ احادیث کی سند کو عجیب و غریب بنانے کے لئے اس میں تبدیلیاں کر دیتے تاکہ لوگ انہیں سننے کے لئے ان کے پاس آئیں۔ (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284)

وضع حدیث کے بارے میں فرقہ کرامیہ کا نقطہ نظر

دور قدیم میں ایک بدعتی فرقہ کرامیہ پیدا ہوا۔ ان کے نزدیک ترغیب و ترہیب (یعنی لوگوں کو نیکیوں کی طرف رغبت دلانے اور برائیوں سے روکنے) کے لئے احادیث ایجاد کرنا جائز تھا۔ ان حضرات نے متواتر حدیث "جس نے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" کے بعض طرق میں موجود اس اضافے سے استدلال کیا کہ "جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" یہ اضافہ حدیث کے ماہرین اور حفاظ کے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔

ان میں سے بعض افراد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ، "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جھوٹ منسوب نہیں کرتے بلکہ آپ (کے مقصد کے حصول) کے لئے جھوٹ بولتے ہیں۔" یہ ایک نہایت ہی احمقانہ استدلال تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے دین کو پھیلانے کے لئے کسی جھوٹے پروپیگنڈا کے محتاج ہرگز نہ تھے۔

فرقہ کرامیہ کا یہ نقطہ نظر مسلمانوں کے اجماع کے خلاف تھا۔ اس کے بعد شیخ ابو محمد الجوینی کا دور آیا۔ انہوں نے احادیث ایجاد کرنے والے فرد کی تکفیر کا فتوی جاری کیا۔

موضوع حدیث بیان کرنے کے بارے میں بعض مفسرین کی غلطی

قرآن مجید کے بعض مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں موضوع احادیث کو بیان کرنے کی غلطی کی ہے۔ انہوں نے ان احادیث کا موضوع ہونا بیان نہیں کیا ہے۔ ان میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب وہ احادیث شامل ہیں جن میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی تلاوت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں ثعلبی، واحدی، زمخشری، بیضاوی اور شوکانی جیسے مفسرین شامل ہیں۔

موضوع حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف

·ابن جوزی کی کتاب الموضوعات۔ یہ اس فن میں قدیم ترین تصنیف ہے۔ ابن جوزی حدیث کو موضوع قرار دینے میں نرمی سے کام لیتے تھے اس وجہ سے اہل علم نے ان پر تنقید کی ہے۔

·سیوطی کی اللائی المصنوعۃ فی الحادیث الموضوعۃ۔ یہ ابن جوزی کی کتاب کا خلاصہ ہے۔ اس میں ان پر تنقید بھی کی گئی ہے اور ایسی مزید موضوع احادیث بھی بیان کی گئی ہیں جن کا ابن جوزی نے ذکر نہیں کیا۔

·ابن عراق الکنانی کی تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ۔ یہ پہلی کتاب کی مزید تلخیص ہے اور اس کی ترتیب نہایت ہی مناسب ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
موضوع حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "موضوع" وضع کرنے کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے گھڑی ہوئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں موضوع حدیث اس جھوٹی حدیث کو کہتے ہیں جسے گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا گیا ہو۔

موضوع حدیث کا درجہ

یہ ضعیف احادیث میں سے سب سے بدترین درجے کی حامل ہے۔ بعض اہل علم تو اسے ضعیف حدیث میں بھی شمار نہیں کرتے بلکہ ایک الگ درجے پر رکھتے ہیں۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے گھڑ کر جھوٹی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ضعیف حدیث میں تو پھر بھی یہ شک ہوتا ہے کہ شاید یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمائی ہو گی جبکہ موضوع حدیث تو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے۔)

موضوع حدیث کی روایت کرنے کا حکم

اہل علم کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ موضوع حدیث کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ یہ جعلی حدیث ہے، اسے روایت کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اس بات کی اجازت ہے کہ اسے روایت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بتا دیا جائے کہ یہ موضوع حدیث ہے۔ مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے جان بوجھ کر مجھ سے منسوب جھوٹی بات بیان کی تو وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے۔" (مقدمة مسلم بشرح النووي جـ 1 ـ ص 62)

جعلی احادیث ایجاد کرنے کا طریقہ

جعلی احادیث ایجاد کرنے والا شخص بسا اوقات اپنی طرف سے کوئی بات گھڑتا ہے اور اس کے بعد اس کی اسناد اور روایت کو ایجاد کر لیتا ہے۔ بعض اوقات وہ کچھ دانشوروں وغیرہ کے اقوال حاصل کرتا ہے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کرنے کے لئے جھوٹی اسناد ایجاد کر لیتا ہے۔

موضوع حدیث کو کیسے پہچانا جائے؟

موضوع حدیث کو ان طریقوں سے پہچانا جا سکتا ہے:

·احادیث ایجاد کرنے والا خود اقرار کر لے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ابو عصمہ نوح بن ابی مریم نے اس بات کا خود اقرار کیا کہ اس نے قرآن مجید کی ہر سورت کے فضائل سے متعلق احادیث گھڑیں اور انہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا۔

·احادیث ایجاد کرنے والا الٹی سیدھی بات کر کے اپنا درجہ خود کم کر لے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا ہی شخص کسی شیخ سے حدیث روایت کر رہا تھا۔ جب اس شخص سے اس کی تاریخ پیدائش پوچھی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کے شیخ اس شخص کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکے تھے۔ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کا علم سوائے اس کے کسی اور کو نہ تھا۔ (اس جھوٹ کی وجہ سے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ شخص حدیث کو خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر رہا ہے۔)

·احادیث وضع کرنے کے شواہد راوی کی ذات میں پائے جائیں۔ مثلاً راوی کسی خاص مسلک کے بارے میں شدت پسندانہ رویہ رکھتا ہو اور وہ اس مسلک کو ثابت کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے لگے۔

·خود حدیث میں وضع کرنے کے شواہد پائے جائیں۔ مثلاً حدیث کے الفاظ گھٹیا درجے کے ہوں، یا حسی شواہد کے خلاف ہوں یا قرآن مجید کے صریح الفاظ کے خلاف ہوں۔ (تفصیل کے لئے دیکھیے آخری یونٹ، درایت کے اصول)

جعلی احادیث ایجاد کرنے کی وجوہات اور احادیث گھڑنے والوں کی خصوصیات

جعلی احادیث وضع کرنے کی کئی وجوہات ہیں:

قرب الہی کا حصول

بعض لوگوں نے اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے احادیث وضع کیں۔ انہوں نے لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کرنے اور گناہوں سے روکنے کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ جعلی احادیث کے ان موجدوں نے اپنی طرف سے لوگوں کو زھد و تقوی کی طرف لانے کے لئے احادیث گھڑیں لیکن یہ بدترین لوگ تھے کیونکہ انہیں ثقہ سمجھتے ہوئے لوگوں نے ان کی احادیث پر یقین کر لیا۔

ایسے لوگوں کی ایک مثال میسرہ بن عبد رب تھا۔ ابن حبان اپنی کتاب "الضعفاء" میں ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص سے پوچھا، "تم یہ احادیث کہاں سے لائے ہو، تم نے کس شخص کو یہ احادیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔" وہ کہنے لگا، "میں نے ان احادیث کو خود ایجاد کیا ہے تا کہ لوگوں کو نیکیوں کی طرف راغب کر سکوں۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 283)

مسلک اور فرقے کی تائید

بعض لوگوں نے اپنے مسلک اور فرقے کی تائید میں احادیث ایجاد کیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں جو سیاسی نوعیت کے فرقے پیدا ہوئے انہوں نے اپنے فرقے کی تائید میں احادیث وضع کرنے کا کام شروع کیا۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے کہ، "علی سب سے بہترین انسان ہیں۔ جس نے اس کا انکار کیا، اس نے کفر کیا۔"

اسلام پر اعتراضات

بعض ایسے ملحد لوگ تھے جنہوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے اور اس سے متعلق لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے یہ کام شروع کیا۔ وہ کھلم کھلا تو اسلام پر اعتراضات کر نہیں سکتے تھے چنانچہ انہوں نے اس طریقے سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کا حلیہ بگاڑنے اور اس پر اعتراضات کرنے کے لئے احادیث وضع کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ ان کی ایک مثال محمد بن سعید شامی تھا۔ اس نے حمید اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت منسوب کی، "میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے کہ جسے اللہ چاہے۔" (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284) اللہ تعالی کا بڑا شکر ہے کہ اس نے حدیث کے ایسے ماہرین پیدا کیے جنہوں نے ایسی احادیث کو الگ کر دیا۔

حکمرانوں کا قرب

بعض حضرات نے محض حکمرانوں کی قربت حاصل کرنے (اور ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے) احادیث گھڑنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ لوگ اس طریقے کے حکمرانوں کے ناجائز کاموں کو بھی جائز قرار دے دیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ایک مرتبہ غیاث بن ابراہیم النخعی الکوفی خلیفہ مہدی کے پاس آیا تو وہ کبوتر کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس موقع پر اس نے فوراً ہی اپنی سند سے حدیث بیان کی، "تیر اندازی، گھڑ دوڑ، خچر کی دوڑ اور کبوتر بازی کے علاوہ کسی چیز میں مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔" اس شخص نے حدیث میں "کبوتر بازی" کا اپنی طرف سے اضافہ کر دیا۔ مہدی اس حدیث سے واقف تھا۔ اس نے فوراً ہی کبوتر کو ذبح کرنے کا حکم دیا اور کہنے لگا، "میں اس بات سے واقف ہوں۔"

روزگار کا حصول

کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو لوگوں کو قصے کہانیاں سنا کر اپنے روزگار کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو عجیب و غریب اور طلسماتی قصے سنا کر ان سے رقم وصول کرتے۔ ابو سعید المدائنی اسی قسم کا ایک قصہ گو ہے۔

نوٹ: عام لوگ قصے کہانیوں کو پسند کرتے ہیں۔ ناول، ڈرامہ، افسانہ وغیرہ کی اصناف سخن سب انسان کے اسی شوق کے باعث پیدا ہوئی ہیں۔ دنیا کے دوسرے معاشروں میں قدیم دور سے ہی کہانیوں اور ڈراموں کا رواج رہا ہے۔ مسلم معاشروں میں چونکہ ڈرامے کو اچھا نہیں سمجھا گیا اس وجہ سے اس کی جگہ قصہ خوانی نے لے لی۔ قرون وسطی میں قصہ گو بڑے بڑے میدانوں یا چوراہوں پر باقاعدہ قصہ گوئی کی محفلیں جماتے اور لوگوں سے رقم لے کر انہیں قصے سناتے۔ داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا اسی قسم کی داستانیں تھیں۔ اس قسم کے بعض قصہ گو حضرات نے بعض قصوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر دیا۔

شہرت کا حصول

ایسی عجیب و غریب احادیث کو، جو حدیث کے کسی ماہر کے پاس موجود نہیں تھیں، محض سستی شہرت کے حصول لئے ایجاد کیا گیا۔ ابن ابی دحیۃ اور حماد النصیبی جیسے لوگ احادیث کی سند کو عجیب و غریب بنانے کے لئے اس میں تبدیلیاں کر دیتے تاکہ لوگ انہیں سننے کے لئے ان کے پاس آئیں۔ (تدريب الراوي جـ1 ـ ص 284)

وضع حدیث کے بارے میں فرقہ کرامیہ کا نقطہ نظر

دور قدیم میں ایک بدعتی فرقہ کرامیہ پیدا ہوا۔ ان کے نزدیک ترغیب و ترہیب (یعنی لوگوں کو نیکیوں کی طرف رغبت دلانے اور برائیوں سے روکنے) کے لئے احادیث ایجاد کرنا جائز تھا۔ ان حضرات نے متواتر حدیث "جس نے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" کے بعض طرق میں موجود اس اضافے سے استدلال کیا کہ "جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مجھ سے جھوٹ منسوب کیا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔" یہ اضافہ حدیث کے ماہرین اور حفاظ کے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔

ان میں سے بعض افراد کا نقطہ نظر یہ تھا کہ، "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جھوٹ منسوب نہیں کرتے بلکہ آپ (کے مقصد کے حصول) کے لئے جھوٹ بولتے ہیں۔" یہ ایک نہایت ہی احمقانہ استدلال تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے دین کو پھیلانے کے لئے کسی جھوٹے پروپیگنڈا کے محتاج ہرگز نہ تھے۔

فرقہ کرامیہ کا یہ نقطہ نظر مسلمانوں کے اجماع کے خلاف تھا۔ اس کے بعد شیخ ابو محمد الجوینی کا دور آیا۔ انہوں نے احادیث ایجاد کرنے والے فرد کی تکفیر کا فتوی جاری کیا۔

موضوع حدیث بیان کرنے کے بارے میں بعض مفسرین کی غلطی

قرآن مجید کے بعض مفسرین نے بھی اپنی تفسیروں میں موضوع احادیث کو بیان کرنے کی غلطی کی ہے۔ انہوں نے ان احادیث کا موضوع ہونا بیان نہیں کیا ہے۔ ان میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب وہ احادیث شامل ہیں جن میں قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی تلاوت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں ثعلبی، واحدی، زمخشری، بیضاوی اور شوکانی جیسے مفسرین شامل ہیں۔

موضوع حدیث کے بارے میں مشہور تصانیف

·ابن جوزی کی کتاب الموضوعات۔ یہ اس فن میں قدیم ترین تصنیف ہے۔ ابن جوزی حدیث کو موضوع قرار دینے میں نرمی سے کام لیتے تھے اس وجہ سے اہل علم نے ان پر تنقید کی ہے۔

·سیوطی کی اللائی المصنوعۃ فی الحادیث الموضوعۃ۔ یہ ابن جوزی کی کتاب کا خلاصہ ہے۔ اس میں ان پر تنقید بھی کی گئی ہے اور ایسی مزید موضوع احادیث بھی بیان کی گئی ہیں جن کا ابن جوزی نے ذکر نہیں کیا۔

·ابن عراق الکنانی کی تنزیۃ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃ الموضوعۃ۔ یہ پہلی کتاب کی مزید تلخیص ہے اور اس کی ترتیب نہایت ہی مناسب ہے۔
متروک حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے متروک، ترک کا اسم مفعول ہے یعنی ترک کی گئی چیز۔ جب انڈے میں سے چوزہ نکل آئے تو باقی بچ جانے والے چھلکے کو اہل عرب "التریکۃ" یعنی بے فائدہ چیز کہتے ہیں۔

اصطلاحی مفہوم میں ایسی حدیث کو متروک کہا جاتا ہے جس کی سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہو جس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا ہو۔

راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگائے جانے کے اسباب

راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگائے جانے کی دو صورتیں ہیں:

·راوی کوئی ایسی حدیث بیان کر رہا ہو، جو حدیث قبول کرنے کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہو اور اس حدیث کو اس شخص کے علاوہ کوئی اور بیان نہ کرتا ہو۔

·راوی اپنی عام زندگی میں جھوٹ بولنے کی عادت کے لئے مشہور ہو لیکن حدیث کے معاملے میں اس سے جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو۔

متروک حدیث کی مثال

عمرو بن شمر الجعفی الکوفی، جابر بن ابو طفیل سے، اور وہ سیدنا علی و عمار رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فجر کی نماز میں قنوت (دعا) پڑھتے، اور یوم عرفۃ (9 ذو الحجۃ) کو صبح کی نماز سے تکبیر پڑھنا شروع کرتے اور ایام تشریق (10-13 ذوالحجۃ) کے آخری دن عصر تک یہ پڑھتے رہتے۔

نسائی، دارقطنی اور دیگر ائمہ حدیث عمرو بن شمر کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے (یعنی اس کی بیان کردہ احادیث متروک ہیں۔) (ميزان الاعتدال جـ3 ـ ص 268)

متروک حدیث کا درجہ

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ضعیف احادیث میں سب سے نچلے درجے کی حدیث موضوع ہے۔ اس کے بعد متروک، پھر منکر، پھر معلل، پھر مدرج، پھر مقلوب، پھر مضطرب۔ یہ ترتیب حافظ ابن حجر کی دی ہوئی ہے۔ (التدريب جـ1 ـ ص 295 والنخبة وشرحها ص 46)
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
متروک حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے متروک، ترک کا اسم مفعول ہے یعنی ترک کی گئی چیز۔ جب انڈے میں سے چوزہ نکل آئے تو باقی بچ جانے والے چھلکے کو اہل عرب "التریکۃ" یعنی بے فائدہ چیز کہتے ہیں۔

اصطلاحی مفہوم میں ایسی حدیث کو متروک کہا جاتا ہے جس کی سند میں کوئی ایسا راوی موجود ہو جس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا گیا ہو۔

راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگائے جانے کے اسباب

راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگائے جانے کی دو صورتیں ہیں:

·راوی کوئی ایسی حدیث بیان کر رہا ہو، جو حدیث قبول کرنے کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہو اور اس حدیث کو اس شخص کے علاوہ کوئی اور بیان نہ کرتا ہو۔

·راوی اپنی عام زندگی میں جھوٹ بولنے کی عادت کے لئے مشہور ہو لیکن حدیث کے معاملے میں اس سے جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو۔

متروک حدیث کی مثال

عمرو بن شمر الجعفی الکوفی، جابر بن ابو طفیل سے، اور وہ سیدنا علی و عمار رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم فجر کی نماز میں قنوت (دعا) پڑھتے، اور یوم عرفۃ (9 ذو الحجۃ) کو صبح کی نماز سے تکبیر پڑھنا شروع کرتے اور ایام تشریق (10-13 ذوالحجۃ) کے آخری دن عصر تک یہ پڑھتے رہتے۔

نسائی، دارقطنی اور دیگر ائمہ حدیث عمرو بن شمر کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے (یعنی اس کی بیان کردہ احادیث متروک ہیں۔) (ميزان الاعتدال جـ3 ـ ص 268)

متروک حدیث کا درجہ

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ضعیف احادیث میں سب سے نچلے درجے کی حدیث موضوع ہے۔ اس کے بعد متروک، پھر منکر، پھر معلل، پھر مدرج، پھر مقلوب، پھر مضطرب۔ یہ ترتیب حافظ ابن حجر کی دی ہوئی ہے۔ (التدريب جـ1 ـ ص 295 والنخبة وشرحها ص 46)
"مُنکَر" حدیث

"منکر" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے منکر، انکار کا اسم مفعول ہے جو کہ اقرار کا متضاد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں حدیث کے ماہرین نے اس کی متعدد تعریفیں کی ہیں جن میں سے مشہور ترین یہ ہیں:

ایک تعریف تو وہ ہے جو حافظ ابن حجر نے بیان کر کے اسے کسی اور سے منسوب کیا ہے۔ اس کے مطابق، "منکر وہ حدیث ہے جس کی اسناد میں کوئی ایسا راوی ہو جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہو، یا عام طور پر لاپرواہی برتتا ہو یا پھر اس کا گناہوں میں مشغول ہونا مشہور ہو۔" (النخبة وشرحها ص 47)

دوسری تعریف بیقونی نے اپنی نظم میں کی ہے۔ اس کے مطابق "منکر وہ حدیث ہے جس کی سند میں موجود راوی ضعیف ہو اور یہ روایت ثقہ راوی کی روایت کے مخالف ہو۔" اصل شعر یہ ہے:

و منکر انفرد به راو غدا تعديله لا يحمل التفردا

منکر وہ حدیث ہے جس کا راوی منفرد بات کرے۔ اور قابل اعتماد راوی کی حدیث اس کے خلاف ہو۔

یہ تعریف حافظ ابن حجر نے بیان کر کے اسی پر اعتماد کیا ہے۔ اس میں پہلی تعریف کی نسبت یہ اضافہ موجود ہے ضعیف راوی، ثقہ راوی کی روایت کے مخالف حدیث بیان کرے۔

منکر اور شاذ میں فرق

شاذ وہ حدیث ہوتی ہے جسے کوئی قابل اعتماد راوی بیان کر رہا ہو لیکن وہ اس راوی سے بھی زیادہ کسی قابل اعتماد راوی کی بیان کردہ حدیث کے خلاف مفہوم پیش کر رہی ہو۔ اس کے برعکس منکر وہ حدیث ہوتی ہے جسے ناقابل اعتماد ضعیف راوی بیان کر رہا ہوتا ہے اور وہ ثقہ راویوں کی حدیث کے خلاف ہوتی ہے۔ اس سے یہ جان لینا چاہیے کہ منکر اور شاذ احادیث میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ صحیح احادیث کے خلاف ہوتی ہیں لیکن ان میں فرق یہ ہے کہ شاذ کا راوی ثقہ ہوتا ہے اور منکر کا ضعیف۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ان دونوں کو ایک ہی سمجھنا لاپرواہی ہے۔

نوٹ: "منکر" حدیث اور "منکر حدیث" میں فرق ہے۔ یہاں پر اس حدیث کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے جو محدثین کی اصطلاح میں منکر ہے۔ "منکر حدیث" سے مراد وہ شخص ہے جو حدیث کے پورے ذخیرے پر اعتماد نہیں کرتا۔

"منکر" حدیث کی مثال

پہلی تعریف کی مثال یہ ہے۔

نسائی اور ابن ماجہ ابی زکیر یحیی بن محمد بن قیس سے، وہ ہشام بن عروۃ سے، وہ اپنے والد سے، وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کچی کھجوریں کھایا کرو کیونکہ جب ابن آدم انہیں کھاتا ہے تو شیطان کو غصہ آتا ہے۔"

امام نسائی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث، منکر کے درجے کی ہے۔ اس کے بیان کرنے والے صرف اور صرف ابو زکیر ہیں۔ اگرچہ وہ نیک انسان تھے (مگر ثقہ نہیں تھے۔) مسلم نے اس حدیث کو محض اضافی طور پر روایت کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں کوئی اور روایت ملی ہو جس سے اس روایت کی انفرادیت ختم ہو گئی ہو۔ (التدريب جـ1 ـ ص 240)

دوسری تعریف کی مثال یہ ہے:

ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے حبیب بن حبیب الزیات سے، انہوں نے ابو اسحاق سے، انہوں نے عیزار بن حریث سے اور انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، حج بیت اللہ کیا، روزے رکھے، اور مہمان کی خاطر مدارت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا۔"

ابن ابی حاتم اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ ابو اسحاق سے اس سے متضاد مفہوم میں ثقہ راویوں نے حدیث روایت کی ہے اور وہ حدیث "معروف" ہے۔

"منکر" حدیث کا درجہ

منکر کی ان دونوں تعریفوں سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ بہت ہی ضعیف حدیث ہوتی ہے۔ روایت کا منکر ہونا خواہ راوی کی کثیر اور بڑی بڑی غلطیوں کی وجہ سے ہو، یا لاپرواہی کی وجہ سے، یا فسق و فجور کی وجہ سے یا صحیح احادیث کی مخالفت کی وجہ سے، ان میں ہر وجہ کی بنیاد پر منکر حدیث میں شدید کمزوری پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم "متروک حدیث" کی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ منکر حدیث کی کمزوری کا درجہ (موضوع اور) متروک کے بعد (تیسرے نمبر پر) ہے۔

معروف حدیث

لغوی اعتبار سے "عرف" کا اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے جانی پہچانی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ثقہ راویوں کی اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو ضعیف راوی کی حدیث کے مخالف ہو۔ یعنی معروف حدیث، منکر حدیث کا متضاد ہے۔ بہتر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منکر حدیث کی جس تعریف کو حافظ ابن حجر نے ترجیح دی ہے، اس کے مطابق یہ وہ حدیث ہے جس کی مخالفت کے باعث ضعیف راوی کی حدیث کو "منکر" حدیث قرار دیا جاتا ہے۔

اس کی مثال، منکر کی دوسری میں گزر چکی ہے۔ ثقہ راویوں نے موقوف طریقے پر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے جو کہ اس منکر حدیث کے خلاف ہے۔ اسی بنیاد پر ابن اسحاق کہتے ہیں کہ " یہ حدیث منکر ہے کیونکہ ابو اسحاق سے اس سے متضاد مفہوم میں ثقہ راویوں نے حدیث روایت کی ہے اور وہ حدیث 'معروف' ہے۔"
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
"مُنکَر" حدیث

"منکر" حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے منکر، انکار کا اسم مفعول ہے جو کہ اقرار کا متضاد ہے۔ اصطلاحی مفہوم میں حدیث کے ماہرین نے اس کی متعدد تعریفیں کی ہیں جن میں سے مشہور ترین یہ ہیں:

ایک تعریف تو وہ ہے جو حافظ ابن حجر نے بیان کر کے اسے کسی اور سے منسوب کیا ہے۔ اس کے مطابق، "منکر وہ حدیث ہے جس کی اسناد میں کوئی ایسا راوی ہو جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہو، یا عام طور پر لاپرواہی برتتا ہو یا پھر اس کا گناہوں میں مشغول ہونا مشہور ہو۔" (النخبة وشرحها ص 47)

دوسری تعریف بیقونی نے اپنی نظم میں کی ہے۔ اس کے مطابق "منکر وہ حدیث ہے جس کی سند میں موجود راوی ضعیف ہو اور یہ روایت ثقہ راوی کی روایت کے مخالف ہو۔" اصل شعر یہ ہے:

و منکر انفرد به راو غدا تعديله لا يحمل التفردا

منکر وہ حدیث ہے جس کا راوی منفرد بات کرے۔ اور قابل اعتماد راوی کی حدیث اس کے خلاف ہو۔

یہ تعریف حافظ ابن حجر نے بیان کر کے اسی پر اعتماد کیا ہے۔ اس میں پہلی تعریف کی نسبت یہ اضافہ موجود ہے ضعیف راوی، ثقہ راوی کی روایت کے مخالف حدیث بیان کرے۔

منکر اور شاذ میں فرق

شاذ وہ حدیث ہوتی ہے جسے کوئی قابل اعتماد راوی بیان کر رہا ہو لیکن وہ اس راوی سے بھی زیادہ کسی قابل اعتماد راوی کی بیان کردہ حدیث کے خلاف مفہوم پیش کر رہی ہو۔ اس کے برعکس منکر وہ حدیث ہوتی ہے جسے ناقابل اعتماد ضعیف راوی بیان کر رہا ہوتا ہے اور وہ ثقہ راویوں کی حدیث کے خلاف ہوتی ہے۔ اس سے یہ جان لینا چاہیے کہ منکر اور شاذ احادیث میں یہ بات مشترک ہے کہ یہ صحیح احادیث کے خلاف ہوتی ہیں لیکن ان میں فرق یہ ہے کہ شاذ کا راوی ثقہ ہوتا ہے اور منکر کا ضعیف۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ ان دونوں کو ایک ہی سمجھنا لاپرواہی ہے۔

نوٹ: "منکر" حدیث اور "منکر حدیث" میں فرق ہے۔ یہاں پر اس حدیث کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے جو محدثین کی اصطلاح میں منکر ہے۔ "منکر حدیث" سے مراد وہ شخص ہے جو حدیث کے پورے ذخیرے پر اعتماد نہیں کرتا۔

"منکر" حدیث کی مثال

پہلی تعریف کی مثال یہ ہے۔

نسائی اور ابن ماجہ ابی زکیر یحیی بن محمد بن قیس سے، وہ ہشام بن عروۃ سے، وہ اپنے والد سے، وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کچی کھجوریں کھایا کرو کیونکہ جب ابن آدم انہیں کھاتا ہے تو شیطان کو غصہ آتا ہے۔"

امام نسائی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث، منکر کے درجے کی ہے۔ اس کے بیان کرنے والے صرف اور صرف ابو زکیر ہیں۔ اگرچہ وہ نیک انسان تھے (مگر ثقہ نہیں تھے۔) مسلم نے اس حدیث کو محض اضافی طور پر روایت کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں کوئی اور روایت ملی ہو جس سے اس روایت کی انفرادیت ختم ہو گئی ہو۔ (التدريب جـ1 ـ ص 240)

دوسری تعریف کی مثال یہ ہے:

ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے حبیب بن حبیب الزیات سے، انہوں نے ابو اسحاق سے، انہوں نے عیزار بن حریث سے اور انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، حج بیت اللہ کیا، روزے رکھے، اور مہمان کی خاطر مدارت کی، وہ جنت میں داخل ہو گا۔"

ابن ابی حاتم اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے کیونکہ ابو اسحاق سے اس سے متضاد مفہوم میں ثقہ راویوں نے حدیث روایت کی ہے اور وہ حدیث "معروف" ہے۔

"منکر" حدیث کا درجہ

منکر کی ان دونوں تعریفوں سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ بہت ہی ضعیف حدیث ہوتی ہے۔ روایت کا منکر ہونا خواہ راوی کی کثیر اور بڑی بڑی غلطیوں کی وجہ سے ہو، یا لاپرواہی کی وجہ سے، یا فسق و فجور کی وجہ سے یا صحیح احادیث کی مخالفت کی وجہ سے، ان میں ہر وجہ کی بنیاد پر منکر حدیث میں شدید کمزوری پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم "متروک حدیث" کی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ منکر حدیث کی کمزوری کا درجہ (موضوع اور) متروک کے بعد (تیسرے نمبر پر) ہے۔

معروف حدیث

لغوی اعتبار سے "عرف" کا اسم مفعول ہے اور اس کا مطلب ہے جانی پہچانی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ ثقہ راویوں کی اس حدیث کو کہا جاتا ہے جو ضعیف راوی کی حدیث کے مخالف ہو۔ یعنی معروف حدیث، منکر حدیث کا متضاد ہے۔ بہتر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ منکر حدیث کی جس تعریف کو حافظ ابن حجر نے ترجیح دی ہے، اس کے مطابق یہ وہ حدیث ہے جس کی مخالفت کے باعث ضعیف راوی کی حدیث کو "منکر" حدیث قرار دیا جاتا ہے۔

اس کی مثال، منکر کی دوسری میں گزر چکی ہے۔ ثقہ راویوں نے موقوف طریقے پر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے جو کہ اس منکر حدیث کے خلاف ہے۔ اسی بنیاد پر ابن اسحاق کہتے ہیں کہ " یہ حدیث منکر ہے کیونکہ ابو اسحاق سے اس سے متضاد مفہوم میں ثقہ راویوں نے حدیث روایت کی ہے اور وہ حدیث 'معروف' ہے۔"
مُعَلَّل حدیث

معلل حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "معلل"، اعلّ کا اسم مفعول ہے۔ حدیث کے ماہرین کی نزدیک لفظ معلل کا استعمال غیر مشہور معنی میں ہے اور وہ ہے کمزور اور مسترد کیا ہوا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی پوشیدہ خامی کی وجہ سے اس کا صحیح ہونا مشکوک ہو گیا ہو اگرچہ بظاہر وہ حدیث صحیح لگ رہی ہو۔ اگر کسی حدیث کے راوی پر "وہمی" ہونے کا الزام ہو تو اس کی حدیث معلل ہو جاتی ہے۔

"علّت" کی تعریف

علت کسی پوشیدہ خامی کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں حدیث کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا جا سکے۔ حدیث کے ماہرین کے نزدیک "علت" کی دو لازمی خصوصیات ہیں: ایک تو اس کا پوشیدہ ہونا اور دوسرے اس کے نتیجے میں حدیث کی صحت کا مشکوک ہو جانا۔

اگر ان دونوں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو حدیث کے ماہرین کی اصطلاح میں اسے علت نہ کہا جائے گا۔ مثلاً اگر حدیث میں کوئی خامی ہے لیکن وہ ظاہر ہے، پوشیدہ نہیں ہے یا خامی تو پوشیدہ ہے لیکن اس سے حدیث کی صحت مشکوک نہیں ہوتی تو اس صورت میں اس خامی کو علت نہیں کہا جائے گا۔

لفظ "علت" کا غیر اصطلاحی معنی میں استعمال

ہم نے اوپر علت کی جو تعریف بیان کی ہے، وہ محدثین کے نزدیک علت کی اصطلاحی تعریف ہے۔ غیر اصطلاحی مفہوم میں بھی لفظ "علت" کو حدیث سے متعلق کسی بھی قسم کے الزام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

·راوی کے جھوٹ بولنے، لا پرواہ ہونے، اس کے حافظے کے کمزور ہونے، وغیرہ کو بھی علت کہا جاتا ہے۔ امام ترمذی نے اسے اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔

·ایسی خامی کو بھی علت کہا جاتا ہے جس سے حدیث کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ کسی ثقہ راوی کا مرسل حدیث روایت کرنا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث صحیح تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معلل بھی ہے۔

"علل حدیث" کے فن کی اہمیت اور اس کے ماہرین

علل حدیث کو جاننے کا علم، علوم حدیث میں مشکل ترین ہے اور اس کا درجہ دیگر علوم سے بلند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ذریعے احادیث میں پوشیدہ خامیوں کو تلاش کیا جاتا ہے جو کہ سوائے علوم حدیث کے اسپیشلسٹ ماہرین کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس علم کے ماہرین کے لئے اعلی درجے کا حافظہ، معلومات اور دقت نظر درکار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس میدان میں سوائے چند قلیل ماہرین جیسے ابن مدینی، احمد، بخاری، ابو حاتم اور دارقطنی کے علاوہ کسی نے قدم نہیں رکھا۔

کس قسم کی اسناد میں علل تلاش کی جاتی ہیں؟

علت انہی اسناد میں تلاش کی جاتی ہیں جن میں بظاہر صحیح ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث میں تو علتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہی نہیں کیونکہ اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

علت کو معلوم کرنے کے لئے کس چیز سے مدد لی جاتی ہے؟

علت کو پہچاننے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی حدیث کو بیان کرنے میں راوی بالکل اکیلا ہی تو نہیں، اس کی روایت دیگر راویوں کی روایت سے مختلف تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ دیگر شواہد بھی تلاش کیے جاتے ہیں۔

اس فن کا ماہر تفصیلی چھان بین کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ راوی کو اس حدیث کے بارے میں وہم لاحق ہوا تھا یا نہیں۔ اس نے کہیں ایک متصل سند والی حدیث کو مرسل (جس کی سند میں سے صحابی کا نام غائب ہو) تو نہیں بنا دیا؟ کہیں اس نے موقوف حدیث (صحابی تک پہنچنے والی حدیث) کو مرفوع (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچنے والی) تو نہیں کر دیا؟ کہیں اس نے حدیث میں کوئی اور حدیث تو نہیں ملا دی یا اپنے وہمی پن کی وجہ سے کچھ اور تو اس حدیث میں داخل نہیں کر دیا؟ ان تمام تفصیلات کی بنیاد پر حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

معلل حدیث کو جاننے کا طریق کار کیا ہے؟

معلل حدیث کو جاننے کا طریق کار یہ ہے کہ کسی حدیث کے تمام طرق (اسناد) کو جمع کیا جائے۔ اس کی مختلف روایتوں اور راویوں کے باہمی اختلاف پر غور کیا جائے۔ مختلف راویوں کی مہارت اور احادیث کو محفوظ رکھنے (ضبط) کا موازنہ کیا جائے اور اس کے بعد حدیث کی علت سے متعلق حکم لگایا جائے۔

علت کہاں موجود ہوتی ہے؟

علت زیادہ تر حدیث کی اسناد میں ہوا کرتی ہے جیسا کہ حدیث کے مرسل یا موقوف ہونے کی علت۔ کبھی کبھار علت حدیث کے متن میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں نماز میں بسم اللہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

کیا سند کی علتوں سے متن بھی متاثر ہوتا ہے؟

بعض اوقات سند میں علت ہونے کی وجہ سے متن بھی متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حدیث مرسل ہو تو اس علت کے باعث متن بھی متاثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات علت سے صرف سند ہی متاثر ہوتی ہے اور حدیث کا متن صحیح رہتا ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے۔

یعلی بن عبید ثوری سے، وہ عمرو بن دینار سے، اور وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ "(جب تک خرید و فروخت کرنے والے اپنی جگہ سے الگ نہ ہوں تو انہیں) تجارت میں (سودا منسوخ کرنے کے) اختیار کی اجازت ہے۔"

اس حدیث میں متن درست ہے البتہ سند میں یہ غلطی موجود ہے کہ اس میں غلطی سے عمرو بن دینار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اصل راوی عبداللہ بن دینار ہیں۔ چونکہ عمرو اور عبداللہ دونوں ہی ثقہ راوی ہیں اس وجہ سے راوی کا نام غلط بیان کر دینے سے حدیث کے متن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
مُعَلَّل حدیث

معلل حدیث کی تعریف

لغوی اعتبار سے "معلل"، اعلّ کا اسم مفعول ہے۔ حدیث کے ماہرین کی نزدیک لفظ معلل کا استعمال غیر مشہور معنی میں ہے اور وہ ہے کمزور اور مسترد کیا ہوا۔ اصطلاحی مفہوم میں یہ اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی پوشیدہ خامی کی وجہ سے اس کا صحیح ہونا مشکوک ہو گیا ہو اگرچہ بظاہر وہ حدیث صحیح لگ رہی ہو۔ اگر کسی حدیث کے راوی پر "وہمی" ہونے کا الزام ہو تو اس کی حدیث معلل ہو جاتی ہے۔

"علّت" کی تعریف

علت کسی پوشیدہ خامی کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں حدیث کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا جا سکے۔ حدیث کے ماہرین کے نزدیک "علت" کی دو لازمی خصوصیات ہیں: ایک تو اس کا پوشیدہ ہونا اور دوسرے اس کے نتیجے میں حدیث کی صحت کا مشکوک ہو جانا۔

اگر ان دونوں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو حدیث کے ماہرین کی اصطلاح میں اسے علت نہ کہا جائے گا۔ مثلاً اگر حدیث میں کوئی خامی ہے لیکن وہ ظاہر ہے، پوشیدہ نہیں ہے یا خامی تو پوشیدہ ہے لیکن اس سے حدیث کی صحت مشکوک نہیں ہوتی تو اس صورت میں اس خامی کو علت نہیں کہا جائے گا۔

لفظ "علت" کا غیر اصطلاحی معنی میں استعمال

ہم نے اوپر علت کی جو تعریف بیان کی ہے، وہ محدثین کے نزدیک علت کی اصطلاحی تعریف ہے۔ غیر اصطلاحی مفہوم میں بھی لفظ "علت" کو حدیث سے متعلق کسی بھی قسم کے الزام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

·راوی کے جھوٹ بولنے، لا پرواہ ہونے، اس کے حافظے کے کمزور ہونے، وغیرہ کو بھی علت کہا جاتا ہے۔ امام ترمذی نے اسے اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔

·ایسی خامی کو بھی علت کہا جاتا ہے جس سے حدیث کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ کسی ثقہ راوی کا مرسل حدیث روایت کرنا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث صحیح تو ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معلل بھی ہے۔

"علل حدیث" کے فن کی اہمیت اور اس کے ماہرین

علل حدیث کو جاننے کا علم، علوم حدیث میں مشکل ترین ہے اور اس کا درجہ دیگر علوم سے بلند ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ذریعے احادیث میں پوشیدہ خامیوں کو تلاش کیا جاتا ہے جو کہ سوائے علوم حدیث کے اسپیشلسٹ ماہرین کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس علم کے ماہرین کے لئے اعلی درجے کا حافظہ، معلومات اور دقت نظر درکار ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس میدان میں سوائے چند قلیل ماہرین جیسے ابن مدینی، احمد، بخاری، ابو حاتم اور دارقطنی کے علاوہ کسی نے قدم نہیں رکھا۔

کس قسم کی اسناد میں علل تلاش کی جاتی ہیں؟

علت انہی اسناد میں تلاش کی جاتی ہیں جن میں بظاہر صحیح ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث میں تو علتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہی نہیں کیونکہ اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

علت کو معلوم کرنے کے لئے کس چیز سے مدد لی جاتی ہے؟

علت کو پہچاننے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی حدیث کو بیان کرنے میں راوی بالکل اکیلا ہی تو نہیں، اس کی روایت دیگر راویوں کی روایت سے مختلف تو نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ دیگر شواہد بھی تلاش کیے جاتے ہیں۔

اس فن کا ماہر تفصیلی چھان بین کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ راوی کو اس حدیث کے بارے میں وہم لاحق ہوا تھا یا نہیں۔ اس نے کہیں ایک متصل سند والی حدیث کو مرسل (جس کی سند میں سے صحابی کا نام غائب ہو) تو نہیں بنا دیا؟ کہیں اس نے موقوف حدیث (صحابی تک پہنچنے والی حدیث) کو مرفوع (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تک پہنچنے والی) تو نہیں کر دیا؟ کہیں اس نے حدیث میں کوئی اور حدیث تو نہیں ملا دی یا اپنے وہمی پن کی وجہ سے کچھ اور تو اس حدیث میں داخل نہیں کر دیا؟ ان تمام تفصیلات کی بنیاد پر حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

معلل حدیث کو جاننے کا طریق کار کیا ہے؟

معلل حدیث کو جاننے کا طریق کار یہ ہے کہ کسی حدیث کے تمام طرق (اسناد) کو جمع کیا جائے۔ اس کی مختلف روایتوں اور راویوں کے باہمی اختلاف پر غور کیا جائے۔ مختلف راویوں کی مہارت اور احادیث کو محفوظ رکھنے (ضبط) کا موازنہ کیا جائے اور اس کے بعد حدیث کی علت سے متعلق حکم لگایا جائے۔

علت کہاں موجود ہوتی ہے؟

علت زیادہ تر حدیث کی اسناد میں ہوا کرتی ہے جیسا کہ حدیث کے مرسل یا موقوف ہونے کی علت۔ کبھی کبھار علت حدیث کے متن میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں نماز میں بسم اللہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔

کیا سند کی علتوں سے متن بھی متاثر ہوتا ہے؟

بعض اوقات سند میں علت ہونے کی وجہ سے متن بھی متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حدیث مرسل ہو تو اس علت کے باعث متن بھی متاثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات علت سے صرف سند ہی متاثر ہوتی ہے اور حدیث کا متن صحیح رہتا ہے۔ اس کی مثال یہ حدیث ہے۔

یعلی بن عبید ثوری سے، وہ عمرو بن دینار سے، اور وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ "(جب تک خرید و فروخت کرنے والے اپنی جگہ سے الگ نہ ہوں تو انہیں) تجارت میں (سودا منسوخ کرنے کے) اختیار کی اجازت ہے۔"

اس حدیث میں متن درست ہے البتہ سند میں یہ غلطی موجود ہے کہ اس میں غلطی سے عمرو بن دینار کا ذکر کیا گیا ہے۔ اصل راوی عبداللہ بن دینار ہیں۔ چونکہ عمرو اور عبداللہ دونوں ہی ثقہ راوی ہیں اس وجہ سے راوی کا نام غلط بیان کر دینے سے حدیث کے متن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
معلل حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

·ابن المدینی کی کتاب العلل

·ابن ابی حاتم کی علل الحدیث

·احمد بن حنبل کی العلل و معرفۃ الرجال

·ترمذی کی العلل الصغیر اور العلل الکبیر

·دارقطنی کی العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ۔ یہ کتاب سب سے جامع ترین ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
معلل حدیث سے متعلق مشہور تصانیف

·ابن المدینی کی کتاب العلل

·ابن ابی حاتم کی علل الحدیث

·احمد بن حنبل کی العلل و معرفۃ الرجال

·ترمذی کی العلل الصغیر اور العلل الکبیر

·دارقطنی کی العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ۔ یہ کتاب سب سے جامع ترین ہے۔
نامعلوم راوی کی بیان کردہ حدیث

تعریف

لغوی اعتبار سے "جہالت"، علم کا متضاد ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کا نامعلوم ہونا۔ اصطلاحی مفہوم میں "الجھالۃ الراوی" کا مطلب ہے کہ ہمیں کسی حدیث کے راوی کی شخصیت یا اس کے حالات کا تفصیلی علم نہ ہو۔

عدم واقفیت کے اسباب

راوی سے عدم واقفیت کی تین بڑی وجوہات ہیں:

·راوی کے کثیر نام: بعض اوقات کوئی راوی اپنے نام یا کنیت یا لقب یا صفت یا پیشے یا نسب میں سے کسی ایک سے مشہور ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے اس کا مشہور نام لینے کی بجائے دوسرا نام لے دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دو اشخاص ہیں۔ اس طرح سے غیر مشہور نام کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا ہے کہ یہ کون شخص ہے۔

·قلت روایت: کسی شخص نے کثیر تعداد میں لوگ حدیث روایت نہیں کرتے۔ صرف ایک آدھ ہی ایسا شخص ہوتا ہے جو اس سے حدیث کو روایت کر رہا ہو۔

·واضح طور پر نام کی نشاندہی نہ ہونا: بعض اوقات اختصار یا کسی اور وجہ سے ایک راوی کا نام نہیں لیا جاتا۔ ایسی احادیث کو "مبہم" کہا جاتا ہے۔

مثالیں

·کثیر ناموں کی مثال: اس کی مثال محمد بن سائب بن بشر الکلبی ہیں۔ بعض لوگ انہیں دادا سے نسبت دیتے ہوئے محمد بن بشر کہتے ہیں، بعض لوگ انہیں حماد بن سائب کے نام سے جانتے ہیں، بعض انہیں ان کی کنیت "ابو نضر" سے، بعض "ابو سعید" سے، بعض "ابو ہشام" سے جانتے ہیں۔ یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سب بہت سے لوگ ہیں حالانکہ یہ ایک ہی شخص ہیں۔

·قلت روایت کی مثال: ابو العشرا الدارمی ایک تابعی ہیں۔ ان سے سوائے حماد بن سلمۃ کے کسی اور نے حدیث روایت نہیں کی۔

·نام کی نشاندہی نہ کرنے کی مثال: جیسے راوی کہے، یہ حدیث مجھ سے 'فلاں' نے بیان کی، یا 'ایک شخص' نے بیان کی، یا 'شیخ' نے بیان کی وغیرہ وغیرہ۔

مجہول کی تعریف

مجہول اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شخصیت یا صفات مشہور نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا راوی ہو جس کی شخصیت یا صفات جانی پہچانی نہ ہوں۔ یا اس کا نام تو لوگوں کو معلوم ہو لیکن اس کی صفات جیسے کردار یا حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کا لوگوں کو علم نہ ہو۔

مجہول کی اقسام

مجہول افراد کی تین اقسام ہیں:

·مجہول العین: یہ وہ شخص ہے جس کا نام تو بیان کر دیا گیا ہو لیکن اس سے سوائے ایک راوی کے اور کوئی حدیث روایت نہ کرتا ہو۔ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہ کیا جائے گا، ہاں اگر اس شخص (کے حالات کی چھان بین کے بعد اس) کو ثقہ قرار دے دیا جائے تب اس حدیث کو قبول کر لیا جائے گا۔ اس شخص کو ثقہ قرار دینے کے دو طریقے ہیں۔ یا تو اس مجہول شخص سے روایت کرنے والے راوی کے علاوہ کوئی اور راوی بھی اس مجہول شخص کو ثقہ قرار دے یا پھر اس مجہول شخص کو "جرح و تعدیل" کے فن کا کوئی ماہر ثقہ قرار دے۔ مجہول العین شخص کی بیان کردہ حدیث کا الگ سے کوئی نام نہیں رکھا گیا۔ اس کی بیان کردہ حدیث "ضعیف" ہی میں شمار ہوتی ہے۔

·مجہول الحال: یہ وہ شخص ہے جس سے دو یا دو سے زائد افراد نے حدیث روایت کی ہو لیکن انہوں نے اس کے ثقہ ہونے کو واضح طور پر بیان نہ کیا ہو۔ اہل علم کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق ایسے شخص کی حدیث کو بھی مسترد کر دیا جائے گا۔ ایسی حدیث کا بھی کوئی خاص نام نہیں ہے۔ اسے بھی "ضعیف" حدیث ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔

·مبہم: یہ وہ شخص ہے جس کا نام سند میں نہ لیا گیا ہو (بلکہ 'ایک شخص' یا 'شیخ' کہہ دیا گیا ہو۔) ایسے شخص کی روایت کو بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ ہاں اگر کسی دوسری سند میں اس کا نام واضح طور پر بیان کیا گیا ہو تب اس روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ ایسے شخص کی روایت کو مسترد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ مبہم شخص اچھے کردار کا ہے یا نہیں؟ اگر یہ کہہ کر روایت کی گئی ہو کہ "مجھ سے ایک ثقہ شخص نے حدیث بیان کی" تب بھی اس روایت کو قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ ایک شخص، ایک ماہر کے نزدیک ثقہ ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ دوسرے کے نزدیک وہ ثقہ نہ ہو۔ ایسی حدیث کا ایک الگ نام "مبہم" رکھا گیا ہے لیکن ہم نے اسے مجہول کے تحت ہی بیان کر دیا ہے۔ بیقونی اپنی نظم میں کہتے ہیں، "مبہم وہ حدیث ہے جس کی سند میں ایسا راوی ہو جس کا نام بیان نہ کیا گیا ہو۔"

عدم واقفیت کے اسباب سے متعلق مشہور تصانیف

·خطیب بغدادی کی کتاب "موضع اوھام الجمع و التفریق" ایک ہی راوی کے کثیر ناموں سے متعلق ہے۔

·قلیل روایت والے راویوں سے متعلق لکھی گئی کتب کو "کتب الوحدان" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ وہ کتب ہیں جن میں ان راویوں کے حالات مذکور ہیں جن سے صرف کوئی ایک شخص ہی حدیث روایت کرتا ہے۔ اس میں امام مسلم کی "الوحدان" شامل ہے۔

·مبہم راویوں سے متعلق کتب کو "المبہمات" کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال خطیب بغدادی کی کتاب "الاسماء المبہمۃ فی الانباء المحکمۃ" اور ولی الدین العراقی کی کتاب "المستفاد من مبہمات المتن والاسناد" ہے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
نامعلوم راوی کی بیان کردہ حدیث

تعریف

لغوی اعتبار سے "جہالت"، علم کا متضاد ہے اور اس کا معنی ہے کسی چیز کا نامعلوم ہونا۔ اصطلاحی مفہوم میں "الجھالۃ الراوی" کا مطلب ہے کہ ہمیں کسی حدیث کے راوی کی شخصیت یا اس کے حالات کا تفصیلی علم نہ ہو۔

عدم واقفیت کے اسباب

راوی سے عدم واقفیت کی تین بڑی وجوہات ہیں:

·راوی کے کثیر نام: بعض اوقات کوئی راوی اپنے نام یا کنیت یا لقب یا صفت یا پیشے یا نسب میں سے کسی ایک سے مشہور ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی وجہ سے اس کا مشہور نام لینے کی بجائے دوسرا نام لے دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دو اشخاص ہیں۔ اس طرح سے غیر مشہور نام کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا ہے کہ یہ کون شخص ہے۔

·قلت روایت: کسی شخص نے کثیر تعداد میں لوگ حدیث روایت نہیں کرتے۔ صرف ایک آدھ ہی ایسا شخص ہوتا ہے جو اس سے حدیث کو روایت کر رہا ہو۔

·واضح طور پر نام کی نشاندہی نہ ہونا: بعض اوقات اختصار یا کسی اور وجہ سے ایک راوی کا نام نہیں لیا جاتا۔ ایسی احادیث کو "مبہم" کہا جاتا ہے۔

مثالیں

·کثیر ناموں کی مثال: اس کی مثال محمد بن سائب بن بشر الکلبی ہیں۔ بعض لوگ انہیں دادا سے نسبت دیتے ہوئے محمد بن بشر کہتے ہیں، بعض لوگ انہیں حماد بن سائب کے نام سے جانتے ہیں، بعض انہیں ان کی کنیت "ابو نضر" سے، بعض "ابو سعید" سے، بعض "ابو ہشام" سے جانتے ہیں۔ یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ سب بہت سے لوگ ہیں حالانکہ یہ ایک ہی شخص ہیں۔

·قلت روایت کی مثال: ابو العشرا الدارمی ایک تابعی ہیں۔ ان سے سوائے حماد بن سلمۃ کے کسی اور نے حدیث روایت نہیں کی۔

·نام کی نشاندہی نہ کرنے کی مثال: جیسے راوی کہے، یہ حدیث مجھ سے 'فلاں' نے بیان کی، یا 'ایک شخص' نے بیان کی، یا 'شیخ' نے بیان کی وغیرہ وغیرہ۔

مجہول کی تعریف

مجہول اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شخصیت یا صفات مشہور نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایسا راوی ہو جس کی شخصیت یا صفات جانی پہچانی نہ ہوں۔ یا اس کا نام تو لوگوں کو معلوم ہو لیکن اس کی صفات جیسے کردار یا حدیث کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کا لوگوں کو علم نہ ہو۔

مجہول کی اقسام

مجہول افراد کی تین اقسام ہیں:

·مجہول العین: یہ وہ شخص ہے جس کا نام تو بیان کر دیا گیا ہو لیکن اس سے سوائے ایک راوی کے اور کوئی حدیث روایت نہ کرتا ہو۔ اس شخص کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہ کیا جائے گا، ہاں اگر اس شخص (کے حالات کی چھان بین کے بعد اس) کو ثقہ قرار دے دیا جائے تب اس حدیث کو قبول کر لیا جائے گا۔ اس شخص کو ثقہ قرار دینے کے دو طریقے ہیں۔ یا تو اس مجہول شخص سے روایت کرنے والے راوی کے علاوہ کوئی اور راوی بھی اس مجہول شخص کو ثقہ قرار دے یا پھر اس مجہول شخص کو "جرح و تعدیل" کے فن کا کوئی ماہر ثقہ قرار دے۔ مجہول العین شخص کی بیان کردہ حدیث کا الگ سے کوئی نام نہیں رکھا گیا۔ اس کی بیان کردہ حدیث "ضعیف" ہی میں شمار ہوتی ہے۔

·مجہول الحال: یہ وہ شخص ہے جس سے دو یا دو سے زائد افراد نے حدیث روایت کی ہو لیکن انہوں نے اس کے ثقہ ہونے کو واضح طور پر بیان نہ کیا ہو۔ اہل علم کی اکثریت کے نقطہ نظر کے مطابق ایسے شخص کی حدیث کو بھی مسترد کر دیا جائے گا۔ ایسی حدیث کا بھی کوئی خاص نام نہیں ہے۔ اسے بھی "ضعیف" حدیث ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔

·مبہم: یہ وہ شخص ہے جس کا نام سند میں نہ لیا گیا ہو (بلکہ 'ایک شخص' یا 'شیخ' کہہ دیا گیا ہو۔) ایسے شخص کی روایت کو بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ ہاں اگر کسی دوسری سند میں اس کا نام واضح طور پر بیان کیا گیا ہو تب اس روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ ایسے شخص کی روایت کو مسترد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ یہ مبہم شخص اچھے کردار کا ہے یا نہیں؟ اگر یہ کہہ کر روایت کی گئی ہو کہ "مجھ سے ایک ثقہ شخص نے حدیث بیان کی" تب بھی اس روایت کو قبول نہ کیا جائے گا کیونکہ ایک شخص، ایک ماہر کے نزدیک ثقہ ہو سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ دوسرے کے نزدیک وہ ثقہ نہ ہو۔ ایسی حدیث کا ایک الگ نام "مبہم" رکھا گیا ہے لیکن ہم نے اسے مجہول کے تحت ہی بیان کر دیا ہے۔ بیقونی اپنی نظم میں کہتے ہیں، "مبہم وہ حدیث ہے جس کی سند میں ایسا راوی ہو جس کا نام بیان نہ کیا گیا ہو۔"

عدم واقفیت کے اسباب سے متعلق مشہور تصانیف

·خطیب بغدادی کی کتاب "موضع اوھام الجمع و التفریق" ایک ہی راوی کے کثیر ناموں سے متعلق ہے۔

·قلیل روایت والے راویوں سے متعلق لکھی گئی کتب کو "کتب الوحدان" کا نام دیا گیا ہے۔ یہ وہ کتب ہیں جن میں ان راویوں کے حالات مذکور ہیں جن سے صرف کوئی ایک شخص ہی حدیث روایت کرتا ہے۔ اس میں امام مسلم کی "الوحدان" شامل ہے۔

·مبہم راویوں سے متعلق کتب کو "المبہمات" کہا جاتا ہے۔ اس کی مثال خطیب بغدادی کی کتاب "الاسماء المبہمۃ فی الانباء المحکمۃ" اور ولی الدین العراقی کی کتاب "المستفاد من مبہمات المتن والاسناد" ہے۔
بدعتی راوی کی بیان کردہ حدیث

تعریف

لغوی اعتبار سے بدعت کا معنی ہے نئی چیز۔ اصطلاحی مفہوم میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے دین کے مکمل ہو جانے کے بعد اس میں نئے عقائد و اعمال کے اضافے کو بدعت کہا جاتا ہے۔

بدعت کی اقسام

بدعت کی دو اقسام ہیں:

·کفر تک پہنچانے والی بدعت: ایسی بدعت جس کے باعث اس کو اختیار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے۔ جو شخص دین کے متواتر اور معلوم احکام کا انکار کرے یا دین کے بنیادی عقائد سے مختلف عقیدہ رکھے، اس کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ (مثلاً کوئی خدا کے وجود، آخرت، نماز، زکوۃ وغیرہ کا منکر ہو۔) (النخبة وشرحها ص 52)

·فسق و فجور کی حد تک پہنچانے والی بدعت: اس بدعت کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا البتہ گناہگار ضرور ہوتا ہے۔ (مثلاً کوئی شخص دین میں نت نئی عبادات یا وظائف ایجاد کر لے۔)

بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا حکم

اگر بدعتی کی بدعت حد کفر تک پہنچتی ہو تو اس کی روایت کو رد کر دیا جائے گا۔ اگر اس کی بدعت حد کفر تک نہ پہنچتی ہو بلکہ ایسا بدعتی فسق و فجور کی حد تک ہی محدود ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک اس کی روایت کو دو شرائط کی بنیاد پر قبول کیا جائے گا:

·وہ شخص اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہ ہو۔

·وہ ایسی حدیث روایت نہ کرے جو اس کی بدعت کو فروغ دینے والی ہو۔

بدعتی کی حدیث کا کیا کوئی خاص نام ہے؟

بدعتی کی بیان کردہ حدیث کا کوئی خاص نام نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ مردود احادیث کی ایک قسم ہے۔ ایسی حدیث کو سوائے اوپر بیان کردہ شرائط کے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

نوٹ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جو دین دیا، وہ کامل ہے۔ جو شخص اس دین سے ہٹ کر کوئی نیا عقیدہ، نئی عبادت یا نیا حکم ایجاد کرتا ہے، وہ شاید یہ سمجھتا ہے کہ آپ کا دین کامل نہیں اس لئے اس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا جرم ہے جس کے بعد ایسے شخص کی بیان کردہ حدیث کو قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔

مسلمانوں کی تاریخ میں ایک المیہ یہ رہا ہے کہ عہد رسالت کے بعد پیدا ہو جانے والے نئے نئے فرقوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے احادیث گھڑ کر پھیلانا شروع کیں۔ بعض فرقے تو اس ضمن میں خاصے بدنام ہیں کہ انہوں نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لئے جعلی احادیث کا ہی سہارا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے ایسے افراد کی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی بدعت کے بارے میں متعصب نہ ہو اور اس کی دعوت پھیلانے کے لئے ایسا نہ کرے تب اس کی حدیث قبول کی جا سکتی ہے۔

اس سے محدثین کی وسعت نظری اور ان کے غیر متعصب ہونے کا علم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی بیان کردہ حدیث کو بھی کچھ ضروری شرائط کے ساتھ قبول کر لیا کرتے تھے۔
 
Top