• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدلس راوی کا عنعنہ اور صحیحین [انتظامیہ]

ابوطلحہ بابر

مشہور رکن
شمولیت
فروری 03، 2013
پیغامات
674
ری ایکشن اسکور
843
پوائنٹ
195
مجھے تو اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں اپنا وقت ضائع کررہا ہوں
جزاک اللہ خیرا
محترم کاشف بھائی یہ نہ سمجھیں کہ آپ صرف ایک بندے کو گائیڈ کر رہے ہیں، الحمدللہ آپ کے اور شاکر بھائی کے پیش کیے گئے ٹیکسٹ سے استفادہ حاصل کر لیا گیا ہے اور عنقریب ان شاء اللہ ہزاروں لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! پوری پوری کتاب کاپی پیسٹ کرنے کی بجائے تحریر کا لبِ لباب تحریر فرمادیا کریں اس سے قارئین کو بھی سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
آپ دونوں حضرات کی تحریروں سے اس بات کی وضاحت ابھی تک نہیں ہو سکی کہ؛
”مدلس“ جب ”عن فلاں“ سے روایت کرے تو قابلِ قبول نہیں یا کچھ شرائط کے ساتھ قابلِ قبول ہے اور اگر ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے تو وہ ”صحیح“ ہے۔ اس اشکال پر روشنی ڈالیں؟ شکریہ
اگر آپ نیک نیتی سے پوری تحریر کو پڑھتے تو آپکو یہ شرط نظر آجاتی مگر کیا کیا جائے کہ آپ کے دل و دماغ پر ہمارا(لا مذہب)ہونا چھایا ہوا ہے اس لئے آپ کو شایدیہ عبارات نظر نہیں آتیں یا شاید آپ پوری تحریر پڑھتے ہی نہیں!اور پڑھیں بھی کیوں کہ ہمیں (لا مذہب)اور اپنے آپکو عالم و فاضل جو سمجھتے ہیں!۔۔نیچے جو اقتباس دوبارہ کاپی پیسٹ کررہا ہوں اس کے آخر میں محدثین کا اصول ہائی لائٹ کیا ہے وہ پڑھ لیں جو کہ تیسرے درجے کے مدلس کے بارے میں ہے اور جس کی وجہ سے یہ بحث چھیڑی آپ نے میں نے رفع الیدین والی پوسٹ میں ثابت کیا تھا کہ قتادہ رحمہ اللہ کوتیسرے درجے میں شمار کیا ہے محدثین نے۔۔۔۔اور یہ کام آج کے علما نے نہیں قدیم محدثین نے کیا ہے
تیسرے درجے کے مدلس کے بارے میں محدثین نے کیا اصول مرتب کیا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں:
'' المرتبہ الثالثہ: من اکثر من التدلیس فلح یحتج من احادیثھم الا بما صراحوا فیہ بالسماع و منھم رد حدیثھم مطلقا ، منھم قبلھم کابی الزبیر المکی ''(تعریف اھل التقدلیس ص23 )
''جو اکثر تدلیس کرتے ہیں تو ان کی روایت حجت نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں سماع ثابت ہو جائے اور بعض نے ان کی روایت کا (سماع کے باوجود) مطلقا رد کر دیا اور بعض نے (سماع کے ساتھ) قبول بھی کیا جیسے ابو الزبیر المکی۔''
اب الاعمش دوسرے، تیسرے یا پانچوئے درجے کا مدلس ہو اس کی روایت کی تصریح جب تک ثابت نہیں ہوتی قابل قبول نہیں ہے
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
جزاک اللہ خیرا
محترم کاشف بھائی یہ نہ سمجھیں کہ آپ صرف ایک بندے کو گائیڈ کر رہے ہیں، الحمدللہ آپ کے اور شاکر بھائی کے پیش کیے گئے ٹیکسٹ سے استفادہ حاصل کر لیا گیا ہے اور عنقریب ان شاء اللہ ہزاروں لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔
بارک اللہ فیہ میرے بھائی آپ نے بالکل ٹھیک کہا دراصل یہ بات میں نے صرف ان بھائی کے لئے کہی ہے ورنہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ خاموش قارئین اپنی اصلاح کر لیتے ہیں یا بات کو سمجھ جاتے ہیں اگرچہ وہ اپنے آپکو ظاہر نہ کریں۔شکریہ بھائی۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
”صحاح ستہ“ کا اعتبار تو ”لا مذہبوں“ نے ختم کر ہی دیا (رہی سہی کسر مرحوم البانی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری کر دی) اور صرف ”صحیحین“ رہ گئیں۔ لگتا ہے آہستہ آہستہ ان کو بھی ”صحیح“ کے زمرے سے نکال باہر کرنے میں آپ لوگ ایک نہ ایک دن کامیاب ہو جاؤ گے اور ”اہلِ قرآن“ اور ”منکرینِ حدیث“ آپ کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے!!!!!!!!
پچھلی پوسٹ میں بھی آپ کا یہی انداز تھا بات کرنے کا تو میں نے سوال کیا تھا جس کا جواب نہ آیا جن محدثین نے یہ اصول بنائے کیا وہ ’’لا مذہب‘‘تھے؟کیا یہ اصول آج کے اہلحدیث علما کا ہے؟اگر آج کے علما ان اصولوں کے تحت ’’لا مذہب‘“ہیں تو اُن محدثین کے بارے کیا خیال ہے؟اب رہی صحاح ستہ کے اعتبار کی بات تو آپ نے پھر غیر متعلقہ بات شروع کر دی اس بات سے مدلس کی تعریف سے کیا تعلق ہے؟یہ بغض اہلحدیث سے نہیں محدثین سے ہے کہ جن کے اصولوں کو آپ اپنی بھونڈی دلیلوں سے رد کرنے میں لگے ہیں
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60

اگر آپ نیک نیتی سے پوری تحریر کو پڑھتے تو آپکو یہ شرط نظر آجاتی مگر کیا کیا جائے کہ آپ کے دل و دماغ پر ہمارا(لا مذہب)ہونا چھایا ہوا ہے اس لئے آپ کو شایدیہ عبارات نظر نہیں آتیں یا شاید آپ پوری تحریر پڑھتے ہی نہیں!اور پڑھیں بھی کیوں کہ ہمیں (لا مذہب)اور اپنے آپکو عالم و فاضل جو سمجھتے ہیں!۔۔نیچے جو اقتباس دوبارہ کاپی پیسٹ کررہا ہوں اس کے آخر میں محدثین کا اصول ہائی لائٹ کیا ہے وہ پڑھ لیں جو کہ تیسرے درجے کے مدلس کے بارے میں ہے اور جس کی وجہ سے یہ بحث چھیڑی آپ نے میں نے رفع الیدین والی پوسٹ میں ثابت کیا تھا کہ قتادہ رحمہ اللہ کوتیسرے درجے میں شمار کیا ہے محدثین نے۔۔۔۔اور یہ کام آج کے علما نے نہیں قدیم محدثین نے کیا ہے
تیسرے درجے کے مدلس کے بارے میں محدثین نے کیا اصول مرتب کیا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں:
'' المرتبہ الثالثہ: من اکثر من التدلیس فلح یحتج من احادیثھم الا بما صراحوا فیہ بالسماع و منھم رد حدیثھم مطلقا ، منھم قبلھم کابی الزبیر المکی ''(تعریف اھل التقدلیس ص23 )
''جو اکثر تدلیس کرتے ہیں تو ان کی روایت حجت نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں سماع ثابت ہو جائے اور بعض نے ان کی روایت کا (سماع کے باوجود) مطلقا رد کر دیا اور بعض نے (سماع کے ساتھ) قبول بھی کیا جیسے ابو الزبیر المکی۔''
اب الاعمش دوسرے، تیسرے یا پانچوئے درجے کا مدلس ہو اس کی روایت کی تصریح جب تک ثابت نہیں ہوتی قابل قبول نہیں ہے
”مدلس“ جب ”عن فلاں“ سے روایت کرے تو قابلِ قبول نہیں یا کچھ شرائط کے ساتھ قابلِ قبول ہے اور اگر ”حدثنا، اخبرنا“ جیسے الفاظ سے روایت کرے تو وہ ”صحیح“ ہے۔ اس اشکال پر روشنی ڈالیں؟ شکریہ

حدثنا اور اخبرنا سے جب بیان کرتا ہے تو اس میں سماعت ثابت ہوتی ہے سند میں کہیں بھی شکوک نہیں ہوتے اور عنعن سے جب روایت کرتا ہے تو اس میں سماعت مشکوک ہوتی ہے جس کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً ایک یہ ہے کہ جس سے روایت کررہا ہوتا ہے وہ اس سے بہت پہلے کا ہوتا ہے اور اسکی وفات پہلے ہو چکی ہوتی ہے یا اس راوی سے ملاقات ثابت نہیں ہوتی مدلس کی۔ااس وجہ سے روایت مشکوک ہوجاتی ہے تو قابل حجت نہیں رہتی خصوصاً جب اس کے خلاف صحیح حدیث بھی موجود ہو جس کی مثال سجدوں میں رفع الیدین والے تھریڈ میں میں دے چکا ہوں۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
جب کوئی انسان ایک بات ٹھان لے کہ مجھے ہر صورت دوسرے کی بات کو رد کرنا ہے تو اسکا علاج کسی کے پاس نہیں مدلس والا مسئلہ اتنا گھمبیر تو نہیں کہ سمجھ نہ سکے خصوصا جو بات آپ دہرا رہے ہیں مجھے تو اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں اپنا وقت ضائع کررہا ہوں میں نے اتنا تفصیل سے اسلئے پیسٹ کیا کہ مکمل پڑھ کر آپ کے اشکال ختم ہوجائیں گے مگر آپ کی تو مثال ڈھاک کے تین پات کی سی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اسی جگہ میں نے یہ بھی لکھا تھا۔۔۔۔۔۔
شرط تو یہاں موجود ہے مگر آپ سمجھ نہ سکیں تو اس میں سمجھانے والے کا کیا قصور؟اس کے علاوہ بھی شرط ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مدلس کے پاس اس راوی کی کوئی کتاب موجود تھی جس سے اس نے نقل کیا ہے تو بھی قابل قبول ہے۔۔۔۔۔کیونکہ اس طرح اس بات کا ثبوت مل جائے گا کہ اس نے یہ روایت کہاں سے لی ہے۔
تیسرے درجے کے مدلس کے بارے میں محدثین نے کیا اصول مرتب کیا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں:
'' المرتبہ الثالثہ: من اکثر من التدلیس فلح یحتج من احادیثھم الا بما صراحوا فیہ بالسماع و منھم رد حدیثھم مطلقا ، منھم قبلھم کابی الزبیر المکی ''(تعریف اھل التقدلیس ص23 )
پچھلی پوسٹ میں بھی آپ کا یہی انداز تھا بات کرنے کا تو میں نے سوال کیا تھا جس کا جواب نہ آیا جن محدثین نے یہ اصول بنائے کیا وہ ’’لا مذہب‘‘تھے؟کیا یہ اصول آج کے اہلحدیث علما کا ہے؟اگر آج کے علما ان اصولوں کے تحت ’’لا مذہب‘“ہیں تو اُن محدثین کے بارے کیا خیال ہے؟اب رہی صحاح ستہ کے اعتبار کی بات تو آپ نے پھر غیر متعلقہ بات شروع کر دی اس بات سے مدلس کی تعریف سے کیا تعلق ہے؟یہ بغض اہلحدیث سے نہیں محدثین سے ہے کہ جن کے اصولوں کو آپ اپنی بھونڈی دلیلوں سے رد کرنے میں لگے ہیں
حدثنا اور اخبرنا سے جب بیان کرتا ہے تو اس میں سماعت ثابت ہوتی ہے سند میں کہیں بھی شکوک نہیں ہوتے اور عنعن سے جب روایت کرتا ہے تو اس میں سماعت مشکوک ہوتی ہے جس کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً ایک یہ ہے کہ جس سے روایت کررہا ہوتا ہے وہ اس سے بہت پہلے کا ہوتا ہے اور اسکی وفات پہلے ہو چکی ہوتی ہے یا اس راوی سے ملاقات ثابت نہیں ہوتی مدلس کی۔ااس وجہ سے روایت مشکوک ہوجاتی ہے تو قابل حجت نہیں رہتی خصوصاً جب اس کے خلاف صحیح حدیث بھی موجود ہو جس کی مثال سجدوں میں رفع الیدین والے تھریڈ میں میں دے چکا ہوں۔
محترم! یا تو میں اپنے اشکال کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پا رہا یا پھر آپ سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنا علم جھاڑتے جارہے ہیں۔
جناب ”مدلس“ راوی شخصیت ایک ہی ہے دو الگ الگ شخصیتیں نہیں!!!!!
یہ ایک ہی شخصیت جب ”اخبرنا، حدثنا“ جیسے الفاظ استعمال کرکے ”حدیث“ بیان کرے تو قابلِ قبول اور اگر وہی راوی ”عن فلاں“ سے ”حدیث“ روایت کرے تو وہی راوی اب ناقابلِ اعتبار ہوگیا!!!!!!!
یاد رہے کہ ”حدیث“ کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
محترم! یا تو میں اپنے اشکال کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پا رہا یا پھر آپ سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنا علم جھاڑتے جارہے ہیں۔
جناب ”مدلس“ راوی شخصیت ایک ہی ہے دو الگ الگ شخصیتیں نہیں!!!!!
یہ ایک ہی شخصیت جب ”اخبرنا، حدثنا“ جیسے الفاظ استعمال کرکے ”حدیث“ بیان کرے تو قابلِ قبول اور اگر وہی راوی ”عن فلاں“ سے ”حدیث“ روایت کرے تو وہی راوی اب ناقابلِ اعتبار ہوگیا!!!!!!!
یاد رہے کہ ”حدیث“ کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا ہے۔
محترم راوی نا قابلِ اعتبار نہیں ہوتا بلکہ جو راوی سند سے گرایا گیا ہے وہ نامعلوم ومبہم ہوتا ہے اس لئے مکثر مدلس کی ایسی روایت جس میں صراحتا متصل سند سے روایت نہ کرے تو اس میں انقطاع کا شبہ ہوتا ہے اس لئے وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔
مثال کہ طور پر آپ نے آج صبح کا اخبار پڑھا اور اس میں کسی رپوٹر نے کسی سیاست دان کا بیان نقل کیا۔ تو آپ کسی دوسرے کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ بھائی دیکھو آج اس سیاستدان نے یہ کہا ہے، حالانکہ آپ نے خود اس سیاستدان سے نہیں سنا بلکہ آپ نے بات سمجھانے کے لئے رپوٹر کا ذکر نہیں کیا۔ تو آپ نے بھی تدلیس کی ہے۔
اب ہم آپ کو کذاب یا ناقابلِ اعتبار تو نیں کہیں گے کیونکہ آپ سچے انسان ہیں، اسی لئے تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ بیان میں نے خود اس سیاستدان سے سنا ہے۔
لہٰذا اگر آپ صراحتا کہہ دیتے کہ فلاں رپوٹر نے بتایا ہے کہ اس سیاستدان نے یہ کہا ہے تو ایسی صورت میں انقطاع کا شبہ نہیں رہا کیونکہ آپ نے صراحتا بتا دیا کہ آپ نے یہ نیوز خود نہیں بلکہ اس رپوٹر سے سنی ہے۔
یہی حال مدلس راوی کا ہوتا ہے۔ اگر مدلس راوی ثقہ صدوق ہو اور وہ کسی شیخ سے روایت کرتے وقت درمیان والا راوی گرا دے تو وہ یہی کہے گا نہ کہ فلاں شیخ نے کہا یا فلاں شیخ سے روایت ہے جسے ہم عربی میں عن فلاں کہتے ہیں۔ وہ یہ تو نہیں کہے گا نہ کہ میں نے فلاں سے یہ سنا کیونکہ پھر وہ جھوٹا قرار پائے گا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جب ثقہ مدلس ایسے محتمل الفاظ سے روایت کرے جس میں ہمیں شبہ ہو کہ اس نے یہ روایت خود اس شیخ سے نہیں سنی تو وہ روایت قابلِ قبول نہیں ہوتی جب تک وہ صراحتا یہ نہ کہے کہ میں نے اس شیخ سے سنا یا فلاں نے مجھے اس شیخ سے روایت کیا۔
امید ہے بات سمجھ آ گئی ہو گی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محترم! یا تو میں اپنے اشکال کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پا رہا یا پھر آپ سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنا علم جھاڑتے جارہے ہیں۔
جناب ”مدلس“ راوی شخصیت ایک ہی ہے دو الگ الگ شخصیتیں نہیں!!!!!
یہ ایک ہی شخصیت جب ”اخبرنا، حدثنا“ جیسے الفاظ استعمال کرکے ”حدیث“ بیان کرے تو قابلِ قبول اور اگر وہی راوی ”عن فلاں“ سے ”حدیث“ روایت کرے تو وہی راوی اب ناقابلِ اعتبار ہوگیا!!!!!!!
یاد رہے کہ ”حدیث“ کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا ہے۔
جی بالکل۔ یہ اصول حدیث کا اتفاقی ضابطہ ہے۔ اگر آپ کو محدثین کا بنایا ہوا یہ اصول قبول نہیں تو منکر حدیث بن جائیے۔

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: ''ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔'' [الرسالہ:ص٥٣]
اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں: ''حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔'' [علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص٩٩]
فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں: ''اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔'' [فتاویٰ رضویہ:٥/٢٤٥]
فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں: ''مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔'' [خزائن السنن:١/١]

اگر آپ نیک نیتی سے وجہ جاننا چاہتے ہیں کہ اییک ہی راوی عن کہے تو حدیث ضعیف اور سمعنا حدثنا کہے تو حدیث صحیح ، یہ کیونکر۔ تو اس کی وجہ پیچھے مضمون میں بیان ہو چکی۔ملاحظہ کر لیجئے۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
60
محترم! یا تو میں اپنے اشکال کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پا رہا یا پھر آپ سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنا علم جھاڑتے جارہے ہیں۔
جناب ”مدلس“ راوی شخصیت ایک ہی ہے دو الگ الگ شخصیتیں نہیں!!!!!
یہ ایک ہی شخصیت جب ”اخبرنا، حدثنا“ جیسے الفاظ استعمال کرکے ”حدیث“ بیان کرے تو قابلِ قبول اور اگر وہی راوی ”عن فلاں“ سے ”حدیث“ روایت کرے تو وہی راوی اب ناقابلِ اعتبار ہوگیا!!!!!!!
یاد رہے کہ ”حدیث“ کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا ہے۔
محترم! یا تو میں اپنے اشکال کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پا رہا یا پھر آپ سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنا علم جھاڑتے جارہے ہیں۔
جناب ”مدلس“ راوی شخصیت ایک ہی ہے دو الگ الگ شخصیتیں نہیں!!!!!
یہ ایک ہی شخصیت جب ”اخبرنا، حدثنا“ جیسے الفاظ استعمال کرکے ”حدیث“ بیان کرے تو قابلِ قبول اور اگر وہی راوی ”عن فلاں“ سے ”حدیث“ روایت کرے تو وہی راوی اب ناقابلِ اعتبار ہوگیا!!!!!!!
یاد رہے کہ ”حدیث“ کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا ہے۔
یعنی دلیل پیش کرنا اور اصول کا ثبوت دیناآپ کے نزدیک ’’علم جھاڑنا‘‘ہے!
مجھے لگتا ہے آپ سمجھ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتے!’’مدلس‘‘معصوم عن الخطا ہوتا ہے کیا؟کیا وہ ہر خامی اور کمی سے مبرا ہوتا ہے؟
یہ تو سادہ سی بات ہے کہ سچا انسان بھی جب ثبوت کے ساتھ بات کرے تو اسکی بات کو قبول کیا جاتا ہے مگر وہی شخص اگر مبہم بات کرے جس میں شک ہو تو اس کی بات لی بھی جاسکتی ہے چھوڑی بھی جا سکتی ہے یہی فرق سمجھایا تھا پہلے بھی کہ حدثنا یا اخبرنا جب کہتا ہے تو اسکی مکمل سندثابت ہوتی ہے جب کہ عنعن والی روایت مبہم ہوتی ہے اور اور اس کے خلاف صحیح اور ثابت شدہ حدیث مل جائے تو پھر اس مبہم روایت کو قابل حجت نہیں سمجھا جاتا۔آپ کے باربار کے کمنٹس تکرار اور بے دلیل بحث کے سوا کچھ نہیں۔یہ ایک متفقہ اور اجماعی مسئلہ ہے جمہور علما کے نزدیک بلکہ احناف بھی اسے مانتے ہیں انکی اقسام میں اور درجات میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر مدلس کی روایت کسی کے نزدیک بھی قابل حجت نہیں ہےالا یہ کہ وہ کس اور حدیث یا سند سے بھی ثابت ہو۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
محترم راوی نا قابلِ اعتبار نہیں ہوتا بلکہ جو راوی سند سے گرایا گیا ہے وہ نامعلوم ومبہم ہوتا ہے اس لئے مکثر مدلس کی ایسی روایت جس میں صراحتا متصل سند سے روایت نہ کرے تو اس میں انقطاع کا شبہ ہوتا ہے اس لئے وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔
کیا یہ دھوکہ نہیں؟
 
Top