محترم! یا تو میں اپنے اشکال کو صحیح طور پر پیش نہیں کر پا رہا یا پھر آپ سمجھنا نہیں چاہتے اور اپنا علم جھاڑتے جارہے ہیں۔
جناب ”مدلس“ راوی شخصیت ایک ہی ہے دو الگ الگ شخصیتیں نہیں!!!!!
یہ ایک ہی شخصیت جب ”اخبرنا، حدثنا“ جیسے الفاظ استعمال کرکے ”حدیث“ بیان کرے تو قابلِ قبول اور اگر وہی راوی ”عن فلاں“ سے ”حدیث“ روایت کرے تو وہی راوی اب ناقابلِ اعتبار ہوگیا!!!!!!!
یاد رہے کہ ”حدیث“ کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کرنا ہے۔
محترم راوی نا قابلِ اعتبار نہیں ہوتا بلکہ جو راوی سند سے گرایا گیا ہے وہ نامعلوم ومبہم ہوتا ہے اس لئے مکثر مدلس کی ایسی روایت جس میں صراحتا متصل سند سے روایت نہ کرے تو اس میں انقطاع کا شبہ ہوتا ہے اس لئے وہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔
مثال کہ طور پر آپ نے آج صبح کا اخبار پڑھا اور اس میں کسی رپوٹر نے کسی سیاست دان کا بیان نقل کیا۔ تو آپ کسی دوسرے کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ بھائی دیکھو آج اس سیاستدان نے یہ کہا ہے، حالانکہ آپ نے خود اس سیاستدان سے نہیں سنا بلکہ آپ نے بات سمجھانے کے لئے رپوٹر کا ذکر نہیں کیا۔ تو آپ نے بھی تدلیس کی ہے۔
اب ہم آپ کو کذاب یا ناقابلِ اعتبار تو نیں کہیں گے کیونکہ آپ سچے انسان ہیں، اسی لئے تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ بیان میں نے خود اس سیاستدان سے سنا ہے۔
لہٰذا اگر آپ صراحتا کہہ دیتے کہ فلاں رپوٹر نے بتایا ہے کہ اس سیاستدان نے یہ کہا ہے تو ایسی صورت میں انقطاع کا شبہ نہیں رہا کیونکہ آپ نے صراحتا بتا دیا کہ آپ نے یہ نیوز خود نہیں بلکہ اس رپوٹر سے سنی ہے۔
یہی حال مدلس راوی کا ہوتا ہے۔ اگر مدلس راوی ثقہ صدوق ہو اور وہ کسی شیخ سے روایت کرتے وقت درمیان والا راوی گرا دے تو وہ یہی کہے گا نہ کہ فلاں شیخ نے کہا یا فلاں شیخ سے روایت ہے جسے ہم عربی میں عن فلاں کہتے ہیں۔ وہ یہ تو نہیں کہے گا نہ کہ میں نے فلاں سے یہ سنا کیونکہ پھر وہ جھوٹا قرار پائے گا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جب ثقہ مدلس ایسے محتمل الفاظ سے روایت کرے جس میں ہمیں شبہ ہو کہ اس نے یہ روایت خود اس شیخ سے نہیں سنی تو وہ روایت قابلِ قبول نہیں ہوتی جب تک وہ صراحتا یہ نہ کہے کہ میں نے اس شیخ سے سنا یا فلاں نے مجھے اس شیخ سے روایت کیا۔
امید ہے بات سمجھ آ گئی ہو گی۔