محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بھائی "ناپسند" کی ریٹ پوسٹ میں موجود آپ کی بات کے لئے تھی، ناکہ آپ سے کسی ذاتی دشمنی کی خاطر۔ارسلان بھائی اگر نا پسند کیے بغیر یہ پوچھ لیتے تب بھی بتا ہی دیتا میرے بھائی۔
مدینہ شکار اور درخت کاٹنے کے سلسلے میں حرم مکی کی طرح نہیں ہے۔
مسلم کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی ابو عمیر کے پاس ایک نغیر (ایک پرندہ) تھا جس سے وہ کھیلتے تھے۔ وہ مرگیا تو نبی ﷺ نے ان سے اس کا پوچھا۔ اس واقعہ کو طحاوی اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے۔
امام طحاوی کہتے ہیں کہ اگر حرم مدینہ مکہ کی طرح ہوتا تو نبی ﷺ اس نغیر کو پکڑنے اور اس سے کھیلنے کی اجازت نہ دیتے جیسے مکہ میں اجازت نہیں۔
دوسری روایت طحاویؒ نے کی ہے کہ آل رسول ﷺ کا ایک وحشی جانور تھا (جو انسان کے پالتو نہیں ہو سکتے وہ وحشی کہلاتے ہیں) جو خوب کھیلتا کودتا تھا اور جب نبی ﷺ کی آہٹ پاتا تو خاموش ہو جاتا تھا۔ اگر مدینہ حرم ہوتا مکہ کی طرح تو نبی ﷺ اس کی اجازت نہیں دیتے۔
اسی طرح حضرت سلمہ بن اکوع رض سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے انہیں شکار کی جگہ بتائی۔ حالاں کہ حرم میں یہ جائز نہیں ہے۔
اس حدیث کا کیا مطلب ہے پھر جو یہاں مروی ہے جس میں شکار اور درخت اکھاڑنا منع ہے؟ تو اس حدیث میں مدینہ کی زینت کو ختم کرنے سے بچانے کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے جیسا کہ مدینہ کی بلند عمارتوں اور قلعوں کو توڑنے سے منع کیا گیا ہے اسی وجہ سے۔ اسی لئے ابن نافع نے مالکؒ سے اس نہی کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ مدینہ کی بوٹیاں کاٹنے سے اس لیے منع کیا ہے تاکہ مدینہ وحشت ناک نہ ہو جائے اور درخت کاٹنے سے اس لیے تاکہ ان سے یہ اچھا لگے اور ہجرت کرنے والے ان کے سائے میں بیٹھ سکیں۔
یہ ساری بحث اسی حوالے کے آگے اور پیچھے خود علامہ عینیؒ نے ذکر کی ہے لیکن برا ہو اس اندھی تقلید کا کہ جس نے میرے لولی بھائی کو اپنے عالم سے پوچھنے اور اصلی جگہ دکھا کر ترجمہ کروانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ بس احناف کے خلاف اعتراض مل گیا۔ جاؤ کر دو۔ آخر کیوں؟ کیا یہ تقلید نہیں ہے؟
ارسلان بھائی ایک اصول آپ کو بتاتا چلوں کہ احادیث میں تطبیق کی جاتی ہے اگر ان کا معنی باہم معارض محسوس ہو رہا ہو۔ احناف کا طرز اس سلسلے میں اکثر یہ رہتا ہے کہ ایک پر عمل کیا جائے اور دوسری کو چھوڑنے کے بجائے اس کا مناسب مطلب بیان کیا جائے۔ دیگر ائمہ بھی یہ کرتے ہیں اور بسا اوقات ایک کو چھوڑ بھی دیا جاتا ہے۔
ایک بات ذہن نشین کر لیجیے کہ احناف کا دماغ نہیں چلا تھا کہ تیرہ سو سال سے مسلم دنیا کا اکثر حصہ رہے اور پھر بھی احادیث کے خلاف چلتے رہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں کیا فائدہ تھا؟ اس لیے انہوں نے بھی تمام چیزوں پر غور و فکر اور سوچ و بچار کے بعد مسئلہ اخذ کیا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ فقہ جس کا حکومت میں کافی دخل رہا ہے چند سالوں میں ہی ختم ہو جاتا۔ حکومت کوئی کمزور چیز تو نہیں کر سکتی تھی اس دور میں۔
آپ نے علمی نکتہ بیان کیا، اس پر میں خضر حیات بھائی کر ٹیگ کر رہا ہوں۔