حالیہ ’’ لڑی ‘‘ کے عنوان میں دعوی ہے کہ ’’ فقہ حنفی شریف کےمطابق مدینہ حرم نہیں ‘‘ ۔
اور چونکہ دعوی کی دلیل بزبان حنفی عالم دین بیان کردی گئی ۔ جس کی آپ کی طرف سے کسی قسم کی کوئی تردید نہیں ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں دعوی درست ہے ۔ واللہ اعلم ۔
علامہ عینی کے بیان ’’ ليس للمدينة حرم كما كان لمكة ‘‘ سے کا آپ نے یہ مفہوم لیاہے کہ مدینہ حرم ہے لیکن مکہ کی طرح نہیں ۔
جبکہ مجھے اس کو جو مفہوم سمجھ آیا ہے وہ یوں ہے : مدینہ حرم نہیں ہے بخلاف مکہ کہ وہ حرم ہے ۔
بہر صورت یہ دونوں احتمال ہیں آپ کے نزدیک پہلا قوی ہے مجھے دوسرا بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ چونکہ آپ حنفی ہیں اس لیے آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ فقہ حنفی کے دیگر مصادر سے اس مسئلہ میں حنفی موقف کی وضاحت فرمائیں ۔
میں نےجو احتمال درست سمجھا ہے اس سے ملتا جلتا آپ کو ایک تاریخی فیصلہ بھی مل جائے گا کہ 1378 ہجری میں جب مدینہ منورہ کی حدود کی تحدید کامعاملہ پیش آیا اور سعودی حکومت کی طرف سے مفتی المملکۃ محمد بن إبراہیم کی سرپرستی میں مختلف مسالک کے علماء کی مجلس تشکیل دی گئی تو اس میں حنفی علماء شامل نہیں تھے وجہ اس کی انہوں نے یہی بتائی کہ ’’ احناف کے نزدیک چونکہ مدینہ حرم ہے ہی نہیں لہذا ان کے نزدیک حدود مقرر کرنے کا کوئی معنی نہیں بنتا ‘‘
یہ دستاویز شیخ محمد بن إبراہیم کے مجموعہ ’’ فتاوی و رسائل الشیخ محمد بن إبراہیم ‘‘ کی جلد نمبر 5 ص 233 پر موجود ہے :
جرى دراسة ما جاء في المعاملة من أوامر، وما اشتملت عليه من بيانات، بما فيها الأوراق المتضمنة نقل الأحاديث ولآثار الواردة في حدود حرم المدينة، وكلام العلماء عليها من أهل المذاهب الثلاثة وغيرهم، ماعدا علماء الحنفية فليس في مذهبهم إثبات حرم للمدينة أصلاً
یہ تو تھی ایک تاریخی دستاویز
لیکن چونکہ یہاں بات اہل مذہب کی ہی معتبر ہوگی لہذا ہم اس سلسلےمیں حنفی موقف کے منتظر رہیں گے ۔
ایک بات کا اور اضافہ مفید رہے گا کہ :
آپ نے جتنی احادیث پیش کی ہیں ان سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہےکہ مدینہ مکہ مکرمہ کی طرح حرم نہیں ۔ لیکن ان میں اس بات کی صراحت نہیں کہ مدینہ سرے سے حرم ہے ہی نہیں ۔