• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذاہب اربعہ کا دنیا میں تناسب

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
معذرت کے ساتھ میں اچنبے میں ہوں کہ میں جب بھی کوئی صحیح حدیث لکھتا ہوں ابن داؤد صاحب تلملا جاتے ہیں۔ وجہ میری سمجھ سے بالا ہے۔ کوئی ہے جو بتا سکے؟
میاں جی! جب آپ جیسے لوگ حدیث میں ایسا کلام کرتے ہیں جیسے لعن الله المحلل والمحلل له مین لعنت سے مراد رحمت بیان کرتے ہیں تو واقعی مسلمان کو تکلیف ہوتی ہے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یہ علم الکلام سے عقائد اخذ کرنے والوں کی خود ساختہ تعریف ہے!
علم الکلام کے رد میں لکھی گئی کچھ کتابوں کے نام بتلاتا ہوں!
أحاديث في ذم الكلام وأهله انتخبها الإمام أبو الفضل المقرئ من رد أبي عبد الرحمن السلمي على أهل الكلام - أبو الفضل عبد الرحمن بن أحمد بن الحسن الرازي المقرىء (المتوفى: 454هـ)
ذم الكلام وأهله - أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي الأنصاري الهروي (المتوفى: 481هـ)
تحريم النظر في كتب الكلام - أبو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامة الجماعيلي المقدسي ثم الدمشقي الحنبلي، الشهير بابن قدامة المقدسي (المتوفى: 620هـ)

کیا کہئے گا کہ یہ علم العقائد یعنی دینیات اور عقائد کے علم کے رد میں لکھی گئ کتب ہیں؟ فتدبر!
قال أبو الخير في (الموضوعات) :
هو: علم يقتدر به على إثبات العقائد الدينية، بإيراد الحجج عليها، ودفع الشبه عنها.
کشف الظنون 2۔1503 ط مکتبۃ المثنی
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
أحاديث في ذم الكلام - أبو الفضل عبد الرحمن بن أحمد بن الحسن الرازي المقرىء (المتوفى: 454هـ)
ذم الكلام وأهله - أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي الأنصاري الهروي (المتوفى: 481هـ)
تحريم النظر في كتب الكلام - ابن قدامة المقدسي الحنبلي (المتوفى: 620هـ)

ان کتابوں کا حوالہ دے کر ہم نے عرض کیا کہ اگر علم الکلام کو علم العقائد تسلیم کیا جائے، تو کیا یہ کتب علم العقائد کے رد میں لکھی گئیں ہیں؟
اس نکتہ پر غور کرنے کے بجائے، ہمیں مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي المشهورحاجي خليفة الحنفي الماتریدي(المتوفى: 1067هـ) کی کتاب سے علم الکلام کی تعریف پیش کی گئی؛ جبکہ ہم یہ بات پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ:
یہ علم الکلام سے عقائد اخذ کرنے والوں کی خود ساختہ تعریف ہے!
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!




ان کتابوں کا حوالہ دے کر ہم نے عرض کیا کہ اگر علم الکلام کو علم العقائد تسلیم کیا جائے، تو کیا یہ کتب علم العقائد کے رد میں لکھی گئیں ہیں؟
اس نکتہ پر غور کرنے کے بجائے، ہمیں مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي المشهورحاجي خليفة الحنفي الماتریدي(المتوفى: 1067هـ) کی کتاب سے علم الکلام کی تعریف پیش کی گئی؛ جبکہ ہم یہ بات پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ:


اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
معذرت چاہتا ہوں۔ کسی بھی خاص فن یا علم کی تعریفات اس علم یا اس علم کے جاننے والوں کی کتب سے ہی لی جاتی ہے اور حاجی خلیفہ بھی انہی کی کتب سے دیتے ہیں جیسا کہ حوالہ سے ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو اس کے بارے میں شرح العقائد النسفیہ للتفتازانی میں بھی مل جائے گا۔ کیا آپ اس کا حوالہ کتب محدثین میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں؟
نیز کشف الظنون اسامی الکتب و الفنون میں معتبر کتاب ہے اور اس کا حوالہ بھی بکثرت دیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس بارے میں دو مقالے ہیں جن کو آپ دیکھ سکتے ہیں اور ایک اردو میں ہے۔
http://www.habous.gov.ma/daouat-alhaq/item/3988
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=18901
اگر آپ اس کو معتبر نہ سمجھیں تو میں کیا کر سکتا ہوں؟

ایک اور حوالہ عرض ہے:
وهو علم يقتدر معه على إثبات العقائد الدينية على الغير بإيراد الحجج ودفع الشبه
کشاف 1۔29 ط مکتبہ لبنان

باقی جو آپ نے اشکال کیا ہے تو علم الکلام پر جن حضرات نے رد کیا ہے انہوں نے اصلاً علم الکلام کے انداز پر رد کیا ہے۔ کیوں کہ اس میں عقائد کا اثبات فلسفیانہ اور عقلی دلائل سے کیا جاتا ہے۔ ورنہ بیان تو اس کے اندر عقائد ہی ہوتے ہیں چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔ جس کا دل چاہے وہ شرح العقائد النسفیہ یا اس کی شرح النبراس کھول کر دیکھ سکتا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر آپ کی اجازت سے اس موضوع کو علیحدہ زمرے میں منتقل کر دیا جائے، تو کیا خیال ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر آپ کی اجازت سے اس موضوع کو علیحدہ زمرے میں منتقل کر دیا جائے، تو کیا خیال ہے؟
اس پر مزید بحث کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے میرے خیال میں۔۔۔۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,552
پوائنٹ
304
تقلید صرف ”مدون“ فقہ کی ممکن ہوتی ہے اور فقہ تقریباً 100 ہجری کے بعدمدون ہونا شروع ہوئیں۔
لیکن آپ کے علماء غیر مدون فقہ کی پیروی کو بھی تقلید گردانتے ہیں -

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرو" (ترمذی:207/2) سرفرازصفدر حنفی اس حدیث کے بارے میں "الکلام المفید" ص91 میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے -

آپ کہہ رہے ہیں کہ فقہ 100 ہجری کے بعد مدون ہونا شروع ہوئیں اور تقلید صرف ”مدون“ فقہ کی ممکن ہوتی ہے مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور میں یہ فقہ مدون نہیں تھیں - لیکن سرفراز صفدر حنفی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کو تقلید سے تعبیر کر رہے ہیں - اب یا تو وہ غلط ہیں یا آپ ؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
معذرت چاہتا ہوں۔ کسی بھی خاص فن یا علم کی تعریفات اس علم یا اس علم کے جاننے والوں کی کتب سے ہی لی جاتی ہے اور حاجی خلیفہ بھی انہی کی کتب سے دیتے ہیں جیسا کہ حوالہ سے ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو اس کے بارے میں شرح العقائد النسفیہ للتفتازانی میں بھی مل جائے گا۔ کیا آپ اس کا حوالہ کتب محدثین میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں؟
میرے بھائی! یہ بات مجھے معلوم ہے، اور یہ میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ:
یہ علم الکلام سے عقائد اخذ کرنے والوں کی خود ساختہ تعریف ہے!
اب آپ تفتازانی سے بیان کرو، یا ماتریدی سے، یہ تمام کہ تمام اہل الکلام ہیں، اور یہ علم الکلام کے ذریعہ عقائد کا اثبات کرتے ہیں، اور بزعم خویش اسے اسلامی عقائد باور کرواتے ہیں۔
نیز کشف الظنون اسامی الکتب و الفنون میں معتبر کتاب ہے اور اس کا حوالہ بھی بکثرت دیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس بارے میں دو مقالے ہیں جن کو آپ دیکھ سکتے ہیں اور ایک اردو میں ہے۔
http://www.habous.gov.ma/daouat-alhaq/item/3988
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=18901
میں اس کتاب سے واقف ہوں، یہ دیگر کے اقوال کے حوالہ سے بیان کر رہے ہیں، مجھے اس کا علم بھی ہے۔ لیکن معاملہ آپ کو شاید سمجھ نہیں آیا۔ ہم نے علم الکلام کو اسلامی عقائد کا علم ہونے کا انکار ہے۔ یہ بات اب کوئی بھی اہل الکلام کہے گا مقبول نہ ہو گی، خواہ وہ کاتب چلپی، یعنی حاجی خلیفہ ہو، نسفی ہو، تفتازانی ہو یا ابو منصور ماتریدی ہو۔
اگر آپ اس کو معتبر نہ سمجھیں تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
میرے بھائی! میں اس بات کا کب انکار کرتا ہوں کہ اہل الکلام کے نزدیک یہ تعریف نہیں، کہ وہ علم الکلام کو عقائد اسلامی کے اثبات کا علم گردانتے ہیں۔ یہ بات کہنے میں حاجی خلیفہ بلکل درست ہیں۔ لیکن یہ مؤقف اہل الکلام کا ہے۔ یہ مؤقف اہل سنت والجماعت کا نہیں!
اور اس بات پر آپ کو تین کتب کے نام بطور دلیل پیش کئے! کہ جس میں علم الکلام کو رد کیا گیا۔ اگر اہل سنت کے نزدیک علم الکلام اسلامی عقائد کا علم ہوتا، تو اس علم کو رد کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ایک اور حوالہ عرض ہے:
وهو علم يقتدر معه على إثبات العقائد الدينية على الغير بإيراد الحجج ودفع الشبه
کشاف 1۔29 ط مکتبہ لبنان
بالکل وہی بات کہ یہ اہل الکلام کا مؤقف ہے۔ جبکہ اہل سنت اہل الکلام کے اس مؤقف کی تردید کرتے ہیں؟
باقی جو آپ نے اشکال کیا ہے تو علم الکلام پر جن حضرات نے رد کیا ہے انہوں نے اصلاً علم الکلام کے انداز پر رد کیا ہے۔ کیوں کہ اس میں عقائد کا اثبات فلسفیانہ اور عقلی دلائل سے کیا جاتا ہے۔ ورنہ بیان تو اس کے اندر عقائد ہی ہوتے ہیں چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔ جس کا دل چاہے وہ شرح العقائد النسفیہ یا اس کی شرح النبراس کھول کر دیکھ سکتا ہے۔
بالکل درست فرمایا، اسی وجہ سے اہل سنت والجماعت نے اہل الکلام کے اس علم الکلام کو مردود قرار دیا ہے۔ اہل الکلام فلسفیانہ اور عقلی دلائل و معیار پر اسلامی عقائد کو ثابت اور قبول کرتے ہیں، جو کہ اہل سنت کا اصول نہیں!
یہ بات بالکل درست ہے، کہ علم الکلام کا موضوع عقائد ہی ہیں، اور اہل سنت اہل الکلام کے علم الکلام میں فلسفیانہ اور عقلی دلائل و معیار کی بنیاد پر اسلامی عقائد کے اثبات اور قبول کرنے کو گمراہی و ضلالت قرار قرار دیا ہے۔

اس بات کے ثبوت میں ہم نے تین کتابوں کے نام پیش کئے تھے۔ اہل سنت کے ہاں علم الکلام مردود ہے۔
اب ہم اہل سنت والجماعت کے علماء سے علم الکلام کے مردود ہونے پر کچھ اقوال پیش کرتے ہیں:


1786 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيَّ يَقُولُ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَقُولُ: «الْكَلَامُ فِي الدِّينِ أَكْرَهُهُ وَكَانَ أَهْلُ بَلَدِنَا يَكْرَهُونَهُ وَيَنْهَوْنَ عَنْهُ نَحْوَ الْكَلَامِ فِي رَأْيِ جَهْمٍ وَالْقَدَرِ وَكُلِّ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، وَلَا أُحِبُّ الْكَلَامَ إِلَّا فِيمَا تَحْتَهُ عَمَلٌ فَأَمَّا الْكَلَامُ فِي الدِّينِ وَفِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَالسُّكُوتُ أَحَبُّ إِلَيَّ؛ لِأَنِّي رَأَيْتُ أَهْلَ بَلَدِنَا يَنْهَوْنَ عَنِ الْكَلَامِ فِي الدِّينِ إِلَّا مَا تَحْتَهُ عَمَلٌ» قَالَ أَبُو عُمَرَ: " قَدْ بَيَّنَ مَالِكٌ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّ الْكَلَامَ فِيمَا تَحْتَهُ عَمَلٌ هُوَ الْمُبَاحُ عِنْدَهُ وَعِنْدَ أَهْلِ بَلَدِهِ يَعْنِي الْعُلَمَاءَ مِنْهُمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَأَخْبَرَ أَنَّ الْكَلَامَ فِي الدِّينِ نَحْوَ الْقَوْلِ فِي صِفَاتِ اللَّهِ وَأَسْمَائِهِ وَضَرَبَ مَثَلًا فَقَالَ: نَحْوَ رَأْيِ جَهْمٍ، وَالْقَدَرِ وَالَّذِي قَالَهُ مَالِكٌ عَلَيْهِ جَمَاعَةُ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَالْفَتْوَى، وَإِنَّمَا خَالَفَ ذَلِكَ أَهْلُ الْبِدَعِ الْمُعْتَزِلَةُ وَسَائِرُ الْفِرَقِ، وَأَمَّا الْجَمَاعَةُ عَلَى مَا قَالَ مَالِكٌ إِلَّا أَنْ يُضْطَرَّ أَحَدٌ إِلَى الْكَلَامِ فَلَا يَسَعُهُ السُّكُوتُ إِذَا طَمِعَ بِرَدِّ الْبَاطِلِ وَصَرْفِ صَاحِبِهِ عَنْ مَذْهَبِهِ أَوْ خَشِيَ ضَلَالَ عَامَّةٍ أَوْ نَحْوَ هَذَا،

مصعب بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ امام مالک نے فرمایا ''دین کے اندر''کلام'' مجھے پسند نہیں، ہمارے شہر کے لوگ اسے ناپسند کرتے تھےاور اس سے منع کرتے تھے، جیسے جہم کی رائے اور قضاء وقدر اور اس طرح کی دیگر ، مسائل میں بحث میں وہی کلام پسند کرتا ہوں، جس کا نتیجہ عمل ہو۔ دین الہی میں مجھے کلام نہیں سکوت پسند ہے، کیونکہ میں نے اپنے شہر کے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ دین الہٰی میں کلام سے روکتے تھے اور وہی گفتگو پسند کرتے تھے، جو عمل کی رغبت دہتی ہے۔ٖٖ''
ابو عمر(امام ابن عبد البر) کہتے ہیں '' امام مالک کے اس قول سے واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک اور علمائے مدینہ کے نزدیک وہی گفتگو مباح ہے، جس کا نتیجہ عمل ہو، اور خبردار کیا کہ اور یہ دین الہٰی میں''کلام'' جیسے اسماء و صفات الہٰی میں کلام کرنا ایسے ہے جیسے جہم کی رائے ہے۔ امام مالک نے جو کچھ فرمایا ہے، ہر زمانے کے فقہاء وعلماء اہل حدیث حق کا وہی مسلک رہا ہے اور معتزلہ وغیرہ بدعتی فرقوں کے علاوہ اہل سنت میں کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ بیشک کوئی ایسی ہی مجبوری آپڑے، لوگوں کے عام گمراہی میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو، تو بقدر ضرورت اس طرح کی گفتگو مباح ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 938 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1789 - حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ قَاسِمٍ نا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ نا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَامَةَ نا يُونُسُ بْنُ عُبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: ذَكَرَ لِيَ الشَّافِعِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ، كَثِيرًا مِمَّا جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ حَفْصٍ الْفَرْدِ يَوْمَ كَلَّمَهُ ثُمَّ قَالَ لِيَ «اعْلَمْ أَنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ أَهْلِ الْكَلَامِ عَلَى شَيْءٍ مَا ظَنَنْتُهُ قَطُّ، وَلَئِنْ يُبْتَلَى الْمَرْءُ بِكُلِّ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ مَا عَدَا الشِّرْكِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَنْظُرَ فِي الْكَلَامِ»

یونس بن عبد الاعلیٰ کہتے ہیں جب امام شافعی اور حفص الفرد میں مناظرہ ہوا تو امام شافعی نے مجھ سے فرمایا '' جان لو کہ میں اہل الکلام کی ان باتوں سے مطلع ہو اہوں ، جس کا مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا، شرک کے علاوہ اور بندہ جس گناہ سے بھی آلودہ ہو ، وہ بہتر ہے اس سے کہ کوئی ''کلام'' میں مبتلا ہو!''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 939 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1792 - حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ قَاسِمٍ نا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْفَارِسِيُّ نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «لَوْ عَلِمَ النَّاسُ مَا فِي الْكَلَامِ فِي الْأَهْوَاءِ لَفَرُّوا مِنْهُ كَمَا يُفَرُّ مِنَ الْأَسَدِ»

محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم نے کہا کہ انہوں نے امام شافعی کو یہ کہتے سنا کہ: ''اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ علم الکلام میں کیسی گمراہیاں ہیں، تو ضرور اس سے اسی طرح بھاگنے لگیں، جس طرض شیر سے بھاگا جاتا ہے''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 941 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1794 - حَدَّثَنَا خَلَفُ نا الْحَسَنُ نا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَمْرِيُّ قَالَا: نا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «حُكْمِي فِي أَهْلِ الْكَلَامِ أَنْ يُضْرَبُوا بِالْجَرِيدِ وَيُطَافُ بِهِمْ فِي الْعَشَائِرَ وَالْقَبَائِلَ، هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَأَخَذَ فِي الْكَلَامِ»

حسن بن محمد الزعفرانی نے کہا کہ انہوں نے امام شافعی کو کہتے سنا کہ: '' اہل کلام کے بارے میں میرا فتویٰ یہ ہے کہ کھجور کی قمچیوں سے پیٹے جائیں اور قبائیل میں انہیں گشت کرایا جائے! یہی سزا ان لوگوں کی ہے، جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر کلام کلام کی طرف مائل ہوئے!''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 941 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي



قَالَ أَبُو عُمَرَ: «أَجْمَعَ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْآثَارِ مِنْ جَمِيعِ الْأَمْصَارِ أَنَّ أَهْلَ الْكَلَامِ أَهْلُ بِدَعٍ وَزَيْغٍ وَلَا يُعَدُّونَ عِنْدَ الْجَمِيعِ فِي طَبَقَاتِ الْفُقَهَاءِ، وَإِنَّمَا الْعُلَمَاءُ أَهْلُ الْأَثَرِ وَالتَّفَقُّهِ فِيهِ وَيَتَفَاضَلُونَ فِيهِ بِالْإِتْقَانِ وَالْمَيْزِ وَالْفَهْمِ»

ابو عمر (امام ابن عبد البر) کہتے ہیں: اہل فقہ و اثر تمام ممالک میں متفق ہیں کہ علم کلام والے، اہل بدعت و زیغ ہیں اور زمرہ علماء میں محسوب نہیں۔ علماء سرف اہل اثر و أصحاب حدیث و رتفقہ رکھنے والے لوگے ہیں، جن کے مرتبے فہم و تمیز کے اعتبار سے مختلف ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 942 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1800 - حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خُوَازٍ مِنْدَادٌ الْمِصْرِيُّ الْمَالِكِيُّ فِي كِتَابِ الْإِجَارَاتِ مِنْ كِتَابِهِ فِي الْخِلَافِ قَالَ مَالِكٌ: " لَا تَجُوزُ الْإِجَارَةُ فِي شَيْءٍ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ وَالتَّنْجِيمِ، وَذَكَرَ كُتُبًا ثُمَّ قَالَ: وَكُتُبُ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا هِيَ كُتُبُ أَصْحَابِ الْكَلَامِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ وَغَيْرِهِمْ، وَتُفْسَخُ الْإِجَارَةُ فِي ذَلِكَ، وَكَذَلِكَ كُتُبُ الْقَضَاءِ بِالنُّجُومِ وَعَزَائِمِ الْجِنِّ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ " وَقَالَ فِي كِتَابِ الشَّهَادَاتِ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ مَالِكٍ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ أَهْلِ الْبِدَعِ وَأَهْلِ الْأَهْوَاءِ قَالَ: أَهْلُ الْأَهْوَاءِ عِنْدَ مَالِكٍ وَسَائِرِ أَصْحَابِنَا هُمْ أَهْلُ الْكَلَامِ فَكُلُّ مُتَكَلِّمٍ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ أَشْعَرِيًّا كَانَ أَوْ غَيْرَ أَشْعَرِيٍّ وَلَا تُقْبَلُ لَهُ شَهَادَةٌ فِي الْإِسْلَامِ وَيُهْجَرُ وَيُؤَدَّبُ عَلَى بِدْعَتِهِ، فَإِنْ تَمَادَى عَلَيْهَا اسْتُتِيبَ مِنْهَا " قَالَ أَبُو عُمَرَ: «لَيْسَ فِي الِاعْتِقَادِ كُلِّهِ فِي صِفَاتِ اللَّهِ وَأَسْمَائِهِ إِلَّا مَا جَاءَ مَنْصُوصًا فِي كِتَابِ اللَّهِ أَوْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ وَمَا جَاءَ مِنْ أَخْبَارِ الْآحَادِ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ أَوْ نَحْوِهِ يَسْلَمُ لَهُ وَلَا يُنَاظَرُ فِيهِ»

ابو عبد اللہ محمد بن احمد اسحاق مصری نے اپنی کتاب ''الاجارات'' میں بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا: اہل ھواء ، اہل البدع اور نجومیوں کی کتب کی تجارت جائز نہیں، اور (ان کی) کتابوں کا ذکر کیا پھر کہا: ہمارےاصحاب و اساتذہ کے نزدیک اہل ھواء و البدع کی کتب ، اہل الکلم کی کتب ہیں ، جو معتزلہ اور دیگر ہیں۔ اور ان کی تجارت کو فسخ کر دو۔ اور اسی طرح قضاء بالنجوم اور عزائم الجن اور اس طرح کی دوسری کتب بھی۔
اور کتاب الشہادات میں امام مالک کے قول'' اہل بدع اور اہل ھواء کی شہادت مقبول نہیں'' ، کی شرح میں فرمایا: کہ امام مالک اور جملہ علمائے مالکیہ کے نزدیک اہل الکلام اہل بدعت ہیں، ہر ''متکلم'' اہل بدعت و اہل ھواء میں سے ہے، خواہ وہ اشعری ہو یا غیر اشعری، اسلام میں ان کی گواہی مقبول نہیں
وَيُهْجَرُ وَيُؤَدَّبُ عَلَى بِدْعَتِهِ، فَإِنْ تَمَادَى عَلَيْهَا اسْتُتِيبَ مِنْهَا "
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 942 - 943 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ہم نے علم الکلام کو اسلامی عقائد کا علم ہونے کا انکار ہے۔ یہ بات اب کوئی بھی اہل الکلام کہے گا مقبول نہ ہو گی،
مجبوری ہے بھائی جان۔ آپ کو اس سے انکار ہوگا لیکن کیا کیا جائے کہ مذکور ایسا ہی ہے کتب میں۔ اب آپ فرما رہے ہیں کہ کوئی بھی اہل الکلام یہ بات کہے تو مقبول نہیں ہوگی تو سوال یہ ہے کہ پھر آپ کے نزدیک کس کے کہنے پر قبول کیا جائے گا؟

اب ہم اہل سنت والجماعت کے علماء سے علم الکلام کے مردود ہونے پر کچھ اقوال پیش کرتے ہیں:

1786 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيَّ يَقُولُ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَقُولُ: «الْكَلَامُ فِي الدِّينِ أَكْرَهُهُ وَكَانَ أَهْلُ بَلَدِنَا يَكْرَهُونَهُ وَيَنْهَوْنَ عَنْهُ نَحْوَ الْكَلَامِ فِي رَأْيِ جَهْمٍ وَالْقَدَرِ وَكُلِّ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، وَلَا أُحِبُّ الْكَلَامَ إِلَّا فِيمَا تَحْتَهُ عَمَلٌ فَأَمَّا الْكَلَامُ فِي الدِّينِ وَفِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَالسُّكُوتُ أَحَبُّ إِلَيَّ؛ لِأَنِّي رَأَيْتُ أَهْلَ بَلَدِنَا يَنْهَوْنَ عَنِ الْكَلَامِ فِي الدِّينِ إِلَّا مَا تَحْتَهُ عَمَلٌ» قَالَ أَبُو عُمَرَ: " قَدْ بَيَّنَ مَالِكٌ رَحِمَهُ اللَّهُ أَنَّ الْكَلَامَ فِيمَا تَحْتَهُ عَمَلٌ هُوَ الْمُبَاحُ عِنْدَهُ وَعِنْدَ أَهْلِ بَلَدِهِ يَعْنِي الْعُلَمَاءَ مِنْهُمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَأَخْبَرَ أَنَّ الْكَلَامَ فِي الدِّينِ نَحْوَ الْقَوْلِ فِي صِفَاتِ اللَّهِ وَأَسْمَائِهِ وَضَرَبَ مَثَلًا فَقَالَ: نَحْوَ رَأْيِ جَهْمٍ، وَالْقَدَرِ وَالَّذِي قَالَهُ مَالِكٌ عَلَيْهِ جَمَاعَةُ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ قَدِيمًا وَحَدِيثًا مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَالْفَتْوَى، وَإِنَّمَا خَالَفَ ذَلِكَ أَهْلُ الْبِدَعِ الْمُعْتَزِلَةُ وَسَائِرُ الْفِرَقِ، وَأَمَّا الْجَمَاعَةُ عَلَى مَا قَالَ مَالِكٌ إِلَّا أَنْ يُضْطَرَّ أَحَدٌ إِلَى الْكَلَامِ فَلَا يَسَعُهُ السُّكُوتُ إِذَا طَمِعَ بِرَدِّ الْبَاطِلِ وَصَرْفِ صَاحِبِهِ عَنْ مَذْهَبِهِ أَوْ خَشِيَ ضَلَالَ عَامَّةٍ أَوْ نَحْوَ هَذَا،

مصعب بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ امام مالک نے فرمایا ''دین کے اندر''کلام'' مجھے پسند نہیں، ہمارے شہر کے لوگ اسے ناپسند کرتے تھےاور اس سے منع کرتے تھے، جیسے جہم کی رائے اور قضاء وقدر اور اس طرح کی دیگر ، مسائل میں بحث میں وہی کلام پسند کرتا ہوں، جس کا نتیجہ عمل ہو۔ دین الہی میں مجھے کلام نہیں سکوت پسند ہے، کیونکہ میں نے اپنے شہر کے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ دین الہٰی میں کلام سے روکتے تھے اور وہی گفتگو پسند کرتے تھے، جو عمل کی رغبت دہتی ہے۔ٖٖ''
ابو عمر(امام ابن عبد البر) کہتے ہیں '' امام مالک کے اس قول سے واضح ہوگیا کہ ان کے نزدیک اور علمائے مدینہ کے نزدیک وہی گفتگو مباح ہے، جس کا نتیجہ عمل ہو، اور خبردار کیا کہ اور یہ دین الہٰی میں''کلام'' جیسے اسماء و صفات الہٰی میں کلام کرنا ایسے ہے جیسے جہم کی رائے ہے۔ امام مالک نے جو کچھ فرمایا ہے، ہر زمانے کے فقہاء وعلماء اہل حدیث حق کا وہی مسلک رہا ہے اور معتزلہ وغیرہ بدعتی فرقوں کے علاوہ اہل سنت میں کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ بیشک کوئی ایسی ہی مجبوری آپڑے، لوگوں کے عام گمراہی میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو، تو بقدر ضرورت اس طرح کی گفتگو مباح ہے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 938 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1789 - حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ قَاسِمٍ نا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ نا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَامَةَ نا يُونُسُ بْنُ عُبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: ذَكَرَ لِيَ الشَّافِعِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ، كَثِيرًا مِمَّا جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ حَفْصٍ الْفَرْدِ يَوْمَ كَلَّمَهُ ثُمَّ قَالَ لِيَ «اعْلَمْ أَنِّي اطَّلَعْتُ مِنْ أَهْلِ الْكَلَامِ عَلَى شَيْءٍ مَا ظَنَنْتُهُ قَطُّ، وَلَئِنْ يُبْتَلَى الْمَرْءُ بِكُلِّ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ مَا عَدَا الشِّرْكِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَنْظُرَ فِي الْكَلَامِ»

یونس بن عبد الاعلیٰ کہتے ہیں جب امام شافعی اور حفص الفرد میں مناظرہ ہوا تو امام شافعی نے مجھ سے فرمایا '' جان لو کہ میں اہل الکلام کی ان باتوں سے مطلع ہو اہوں ، جس کا مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا، شرک کے علاوہ اور بندہ جس گناہ سے بھی آلودہ ہو ، وہ بہتر ہے اس سے کہ کوئی ''کلام'' میں مبتلا ہو!''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 939 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1792 - حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ قَاسِمٍ نا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْفَارِسِيُّ نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «لَوْ عَلِمَ النَّاسُ مَا فِي الْكَلَامِ فِي الْأَهْوَاءِ لَفَرُّوا مِنْهُ كَمَا يُفَرُّ مِنَ الْأَسَدِ»

محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم نے کہا کہ انہوں نے امام شافعی کو یہ کہتے سنا کہ: ''اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ علم الکلام میں کیسی گمراہیاں ہیں، تو ضرور اس سے اسی طرح بھاگنے لگیں، جس طرض شیر سے بھاگا جاتا ہے''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 941 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1794 - حَدَّثَنَا خَلَفُ نا الْحَسَنُ نا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْغَمْرِيُّ قَالَا: نا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «حُكْمِي فِي أَهْلِ الْكَلَامِ أَنْ يُضْرَبُوا بِالْجَرِيدِ وَيُطَافُ بِهِمْ فِي الْعَشَائِرَ وَالْقَبَائِلَ، هَذَا جَزَاءُ مَنْ تَرَكَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَأَخَذَ فِي الْكَلَامِ»

حسن بن محمد الزعفرانی نے کہا کہ انہوں نے امام شافعی کو کہتے سنا کہ: '' اہل کلام کے بارے میں میرا فتویٰ یہ ہے کہ کھجور کی قمچیوں سے پیٹے جائیں اور قبائیل میں انہیں گشت کرایا جائے! یہی سزا ان لوگوں کی ہے، جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر کلام کلام کی طرف مائل ہوئے!''
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 941 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي



قَالَ أَبُو عُمَرَ: «أَجْمَعَ أَهْلُ الْفِقْهِ وَالْآثَارِ مِنْ جَمِيعِ الْأَمْصَارِ أَنَّ أَهْلَ الْكَلَامِ أَهْلُ بِدَعٍ وَزَيْغٍ وَلَا يُعَدُّونَ عِنْدَ الْجَمِيعِ فِي طَبَقَاتِ الْفُقَهَاءِ، وَإِنَّمَا الْعُلَمَاءُ أَهْلُ الْأَثَرِ وَالتَّفَقُّهِ فِيهِ وَيَتَفَاضَلُونَ فِيهِ بِالْإِتْقَانِ وَالْمَيْزِ وَالْفَهْمِ»

ابو عمر (امام ابن عبد البر) کہتے ہیں: اہل فقہ و اثر تمام ممالک میں متفق ہیں کہ علم کلام والے، اہل بدعت و زیغ ہیں اور زمرہ علماء میں محسوب نہیں۔ علماء سرف اہل اثر و أصحاب حدیث و رتفقہ رکھنے والے لوگے ہیں، جن کے مرتبے فہم و تمیز کے اعتبار سے مختلف ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 942 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي


1800 - حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خُوَازٍ مِنْدَادٌ الْمِصْرِيُّ الْمَالِكِيُّ فِي كِتَابِ الْإِجَارَاتِ مِنْ كِتَابِهِ فِي الْخِلَافِ قَالَ مَالِكٌ: " لَا تَجُوزُ الْإِجَارَةُ فِي شَيْءٍ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ وَالتَّنْجِيمِ، وَذَكَرَ كُتُبًا ثُمَّ قَالَ: وَكُتُبُ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا هِيَ كُتُبُ أَصْحَابِ الْكَلَامِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ وَغَيْرِهِمْ، وَتُفْسَخُ الْإِجَارَةُ فِي ذَلِكَ، وَكَذَلِكَ كُتُبُ الْقَضَاءِ بِالنُّجُومِ وَعَزَائِمِ الْجِنِّ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ " وَقَالَ فِي كِتَابِ الشَّهَادَاتِ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ مَالِكٍ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ أَهْلِ الْبِدَعِ وَأَهْلِ الْأَهْوَاءِ قَالَ: أَهْلُ الْأَهْوَاءِ عِنْدَ مَالِكٍ وَسَائِرِ أَصْحَابِنَا هُمْ أَهْلُ الْكَلَامِ فَكُلُّ مُتَكَلِّمٍ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ أَشْعَرِيًّا كَانَ أَوْ غَيْرَ أَشْعَرِيٍّ وَلَا تُقْبَلُ لَهُ شَهَادَةٌ فِي الْإِسْلَامِ وَيُهْجَرُ وَيُؤَدَّبُ عَلَى بِدْعَتِهِ، فَإِنْ تَمَادَى عَلَيْهَا اسْتُتِيبَ مِنْهَا " قَالَ أَبُو عُمَرَ: «لَيْسَ فِي الِاعْتِقَادِ كُلِّهِ فِي صِفَاتِ اللَّهِ وَأَسْمَائِهِ إِلَّا مَا جَاءَ مَنْصُوصًا فِي كِتَابِ اللَّهِ أَوْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ وَمَا جَاءَ مِنْ أَخْبَارِ الْآحَادِ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ أَوْ نَحْوِهِ يَسْلَمُ لَهُ وَلَا يُنَاظَرُ فِيهِ»

ابو عبد اللہ محمد بن احمد اسحاق مصری نے اپنی کتاب ''الاجارات'' میں بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا: اہل ھواء ، اہل البدع اور نجومیوں کی کتب کی تجارت جائز نہیں، اور (ان کی) کتابوں کا ذکر کیا پھر کہا: ہمارےاصحاب و اساتذہ کے نزدیک اہل ھواء و البدع کی کتب ، اہل الکلم کی کتب ہیں ، جو معتزلہ اور دیگر ہیں۔ اور ان کی تجارت کو فسخ کر دو۔ اور اسی طرح قضاء بالنجوم اور عزائم الجن اور اس طرح کی دوسری کتب بھی۔
اور کتاب الشہادات میں امام مالک کے قول'' اہل بدع اور اہل ھواء کی شہادت مقبول نہیں'' ، کی شرح میں فرمایا: کہ امام مالک اور جملہ علمائے مالکیہ کے نزدیک اہل الکلام اہل بدعت ہیں، ہر ''متکلم'' اہل بدعت و اہل ھواء میں سے ہے، خواہ وہ اشعری ہو یا غیر اشعری، اسلام میں ان کی گواہی مقبول نہیں وَيُهْجَرُ وَيُؤَدَّبُ عَلَى بِدْعَتِهِ، فَإِنْ تَمَادَى عَلَيْهَا اسْتُتِيبَ مِنْهَا "
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 942 - 943 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي

اس کے مقابلے میں میں بیہقی، ابن حجر، ابن جوزی، نووی رحمہم اللہ وغیرہ کے اقوال پیش کروں تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ یہ حضرات اشعری تھے جیسا کہ معروف ہے اور ہم انہیں اہل سنت میں داخل مانتے ہیں۔
یہاں ایک چھوٹے سے نکتے کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ امام ابو الحسن اشعری کی وفات 324 ھ میں ابو منصور ماتریدی کی 333 ھ میں ہے۔ اس سے پہلے اہل کلام صرف معتزلہ، جہمیہ وغیرہ ہوتے تھے اور ان کی گمراہی تو ظاہر ہے۔ تو ان کی وفات سے پہلے کے جو ردود ہیں وہ ان حضرات پر وارد نہیں ہوتے جیسے امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ وغیرہ کے اقوال۔ اور ان کے بعد کے جو علماء ہیں ان میں جہاں علم الکلام کے رد کرنے والے موجود ہیں وہیں اسے قبول کرنے والے بھی کبار علماء ہیں۔ تو صرف اس لیے اسے بدعت اور گمراہی نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں یہ طرز سمجھ نہیں آتا۔
باقی جو آپ نے فرمایا:
اہل الکلام فلسفیانہ اور عقلی دلائل و معیار پر اسلامی عقائد کو ثابت اور قبول کرتے ہیں، جو کہ اہل سنت کا اصول نہیں!
اس کے بارے میں فورم پر ایک جگہ عرض کر چکا ہوں:
شرعیات وہ عقائد ہیں جو بنیادی مآخذ (یعنی قرآن، سنت، اجماع) سے ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن علم الکلام میں ان کے اثبات پر اشاعرہ اور ماتریدیہ عقلی دلائل دیتے ہیں اور انہیں عقلی دلائل سے ثابت کرتے ہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ "عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے" یہ درست معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اگر آپ اشاعرہ کی کتب پڑھیں تو وہ عقیدہ لیتے مآخذ سے ہیں اور اس پر درحقیقت یہ بحث نہیں کرتے کہ یہ عقیدہ عقلا درست ہے یا نہیں بلکہ وہ اسے عقلا درست ثابت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں بسا اوقات بعید عقلی تاویلات بھی کر جاتے ہیں۔ یعنی وہ نقل اور عقل کے درمیان تعارض نہیں پیدا کرتے بلکہ ہمیشہ موافقت ہی پیدا کرتے ہیں۔
اسی کو استاد سعید فودہ نے یوں کہا ہے:
ولا يجوز القول بأننا -علماء الكلام- نقدم العقل على النقل، ولا بأننا نقدم النقل على العقل، لأن كلا من القولين إنما يبنى على تسليم أمر ممنوع، وهو: وجود تعارض بين العقل والنقل، وهذا باطل قطعا كما يفهمه النبيه. وإذ لا تعارض فلا تقديم
بحوث فی علم الکلام۔ 26

یعنی آپ کی بات کا پہلا حصہ تو درست ہے کہ "فلسفیانہ اور عقلی دلائل و معیارات پر عقائد کو ثابت کرتے ہیں" لیکن دوسرا حصہ "اور قبول کرتے ہیں" اس سے اختلاف ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی عقیدہ قطعی طور پر ثابت ہو اور اشاعرہ یا ماتریدیہ صرف عقل کی بنیاد پر اسے رد کر دیں۔ کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

ایک اور بات کہ:
اگر اہل سنت کے نزدیک علم الکلام اسلامی عقائد کا علم ہوتا، تو اس علم کو رد کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
تو اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں:
باقی جو آپ نے اشکال کیا ہے تو علم الکلام پر جن حضرات نے رد کیا ہے انہوں نے اصلاً علم الکلام کے انداز پر رد کیا ہے۔ کیوں کہ اس میں عقائد کا اثبات فلسفیانہ اور عقلی دلائل سے کیا جاتا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس پر مزید بحث کی کوئی ضرورت تو نہیں ہے میرے خیال میں۔۔۔۔
آپ کا یہ خیال اس وجہ سے ہے کہ آپ کو شاید اختلاف کی نوعیت کا اندازہ نہیں!
ابھی تو آپ کو حیرت تھی :

علم الکلام علم العقائد کو کہتے ہیں۔ یعنی دینیات اور عقائد کا علم۔
مجھے یہاں علم الکلام کا اطلاق دوسری چیزوں پر دیکھ کر بہت حیرت ہوتی ہے۔
شکر ہے کہ آپ کی حیرت ختم ہوئی! اور آگے آپ نے اہل الکلام اور علم الکلام میں تفریق کی ہے ۔ اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اہل کلام اور علم الکلام کو ایک طبقہ علماء نے رد کیا ہے!
شرعیات وہ عقائد ہیں جو بنیادی مآخذ (یعنی قرآن، سنت، اجماع) سے ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن علم الکلام میں ان کے اثبات پر اشاعرہ اور ماتریدیہ عقلی دلائل دیتے ہیں اور انہیں عقلی دلائل سے ثابت کرتے ہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ "عقل کے ذریعے نفی یا اثبات میں قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے" یہ درست معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اگر آپ اشاعرہ کی کتب پڑھیں تو وہ عقیدہ لیتے مآخذ سے ہیں اور اس پر درحقیقت یہ بحث نہیں کرتے کہ یہ عقیدہ عقلا درست ہے یا نہیں بلکہ وہ اسے عقلا درست ثابت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں بسا اوقات بعید عقلی تاویلات بھی کر جاتے ہیں۔ یعنی وہ نقل اور عقل کے درمیان تعارض نہیں پیدا کرتے بلکہ ہمیشہ موافقت ہی پیدا کرتے ہیں۔
اسی کو استاد سعید فودہ نے یوں کہا ہے:
ولا يجوز القول بأننا -علماء الكلام- نقدم العقل على النقل، ولا بأننا نقدم النقل على العقل، لأن كلا من القولين إنما يبنى على تسليم أمر ممنوع، وهو: وجود تعارض بين العقل والنقل، وهذا باطل قطعا كما يفهمه النبيه. وإذ لا تعارض فلا تقديم
بحوث فی علم الکلام۔ 26
جی بلکل! اور اہل الکلام علم الکلام کے ذریعہ کسی عقیدہ کے کو عقلی طور ثابت کرنے سے عاجز آجاتے ہیں، تو وہ اس عقیدہ کو رد کر دیتے ہیں۔ گو کہ وہ صحابہ وسلف الصالحین سے ثابت بھی ہو! اس کا ثبوت آگے پیش کرتا ہوں:
مجبوری ہے بھائی جان۔ آپ کو اس سے انکار ہوگا لیکن کیا کیا جائے کہ مذکور ایسا ہی ہے کتب میں۔
جی میرے بھائی! ایسا کتب میں مذکور ہے اور اہل الکلام کی کتب میں! جب کہ ہم انہیں سے اختلاف کر رہے ہیں! یہ تو وہی مثال ہوئی کہ آپ کسی شعیہ سے اس کے عقیدہ امامت کا ثبوت مانگو، تو وہ آپ کو خمینی کلینی کی کتب سے بتلانے لگے کہ خمینی نے یہ کہا ہے کلینی نے یہ کہا ہے!
اب آپ فرما رہے ہیں کہ کوئی بھی اہل الکلام یہ بات کہے تو مقبول نہیں ہوگی تو سوال یہ ہے کہ پھر آپ کے نزدیک کس کے کہنے پر قبول کیا جائے گا؟
اہل سنت والجماعت اہل الحدیث کی بات سلف الصالحین کے منہج پر!
میں نے آ پ کو اس پر تین کتابیں بتلائیں ہیں اور مزید امام ابن عبد البر کی کتاب سے سے امام شافعی سے اور خود امام ابن عبد البر سے علم الکلام کے مردود ہونے کا ثبوت دیا ہے، اور امام ابن عبدالبر نے اس پر علماء اہل سنت کا اجماع بیان کیا ہے!

اس کے مقابلے میں میں بیہقی، ابن حجر، ابن جوزی، نووی رحمہم اللہ وغیرہ کے اقوال پیش کروں تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔
جب آپ کو معلوم ہے کہ مناسب نہ ہو گا تو یہ ذکر کرنے کا کیا مطلب!
یہ حضرات اشعری تھے جیسا کہ معروف ہے اور ہم انہیں اہل سنت میں داخل مانتے ہیں۔
بالکل یہ اہل سنت کے سر کا تاج ہیں، مگر جہاں ان کی خطا ہے وہ خطا ہی رہے گی! دوم کہ یہ ''اشعریت'' سے کچھ متاثر ضرور تھے، انہیں یوں '' اشعری '' قرار دینا مناسب نہیں!
یہاں ایک چھوٹے سے نکتے کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ امام ابو الحسن اشعری کی وفات 324 ھ میں ابو منصور ماتریدی کی 333 ھ میں ہے۔ اس سے پہلے اہل کلام صرف معتزلہ، جہمیہ وغیرہ ہوتے تھے اور ان کی گمراہی تو ظاہر ہے۔ تو ان کی وفات سے پہلے کے جو ردود ہیں وہ ان حضرات پر وارد نہیں ہوتے جیسے امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ وغیرہ کے اقوال۔
شکر ہے کہ آپ کی حیرت تو ختم ہوئی! اتنا تو اب آپ کو بھی تسلیم ہے کہ امام شافعی وامام مالک وغیرہ نے اہل کلام اور علم الکلام کی سخت تردید کی ہے! لیکن آپ کا مدعا یہ ہے کہ چونکہ ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی بعد میں پیدا ہوئے ہیں اس لئے امام مالک وامام شافعی رحمہما اللہ کے اقوال کا اطلاق ان پر نہیں ہوگا! اور آپ کا یہ مدعا غلط ہے۔
یہ آپ کی غلط فہمی ہے، امام مالک اور امام شافعی وغیرہ نے علم الکلام کی تردید کی ہے، جو بھی اسے اختیار کرے گا اس پر اس کا اطلاق ہوگا! ہم نے آپ کو امام ابن عبدالبر کی کتاب سے ایک عبارت نقل کی تھی دوبارہ پیش کرتا ہوں:

1800 - حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خُوَازٍ مِنْدَادٌ الْمِصْرِيُّ الْمَالِكِيُّ فِي كِتَابِ الْإِجَارَاتِ مِنْ كِتَابِهِ فِي الْخِلَافِ قَالَ مَالِكٌ: " لَا تَجُوزُ الْإِجَارَةُ فِي شَيْءٍ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ وَالتَّنْجِيمِ، وَذَكَرَ كُتُبًا ثُمَّ قَالَ: وَكُتُبُ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا هِيَ كُتُبُ أَصْحَابِ الْكَلَامِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ وَغَيْرِهِمْ، وَتُفْسَخُ الْإِجَارَةُ فِي ذَلِكَ، وَكَذَلِكَ كُتُبُ الْقَضَاءِ بِالنُّجُومِ وَعَزَائِمِ الْجِنِّ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ " وَقَالَ فِي كِتَابِ الشَّهَادَاتِ فِي تَأْوِيلِ قَوْلِ مَالِكٍ: لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ أَهْلِ الْبِدَعِ وَأَهْلِ الْأَهْوَاءِ قَالَ: أَهْلُ الْأَهْوَاءِ عِنْدَ مَالِكٍ وَسَائِرِ أَصْحَابِنَا هُمْ أَهْلُ الْكَلَامِ فَكُلُّ مُتَكَلِّمٍ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ وَالْبِدَعِ أَشْعَرِيًّا كَانَ أَوْ غَيْرَ أَشْعَرِيٍّ وَلَا تُقْبَلُ لَهُ شَهَادَةٌ فِي الْإِسْلَامِ وَيُهْجَرُ وَيُؤَدَّبُ عَلَى بِدْعَتِهِ، فَإِنْ تَمَادَى عَلَيْهَا اسْتُتِيبَ مِنْهَا " قَالَ أَبُو عُمَرَ: «لَيْسَ فِي الِاعْتِقَادِ كُلِّهِ فِي صِفَاتِ اللَّهِ وَأَسْمَائِهِ إِلَّا مَا جَاءَ مَنْصُوصًا فِي كِتَابِ اللَّهِ أَوْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ وَمَا جَاءَ مِنْ أَخْبَارِ الْآحَادِ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ أَوْ نَحْوِهِ يَسْلَمُ لَهُ وَلَا يُنَاظَرُ فِيهِ»
ابو عبد اللہ محمد بن احمد اسحاق مصری نے اپنی کتاب ''الاجارات'' میں بیان کیا کہ امام مالک نے فرمایا: اہل ھواء ، اہل البدع اور نجومیوں کی کتب کی تجارت جائز نہیں، اور (ان کی) کتابوں کا ذکر کیا پھر کہا: ہمارےاصحاب و اساتذہ کے نزدیک اہل ھواء و البدع کی کتب ، اہل الکلم کی کتب ہیں ، جو معتزلہ اور دیگر ہیں۔ اور ان کی تجارت کو فسخ کر دو۔ اور اسی طرح قضاء بالنجوم اور عزائم الجن اور اس طرح کی دوسری کتب بھی۔
اور کتاب الشہادات میں امام مالک کے قول'' اہل بدع اور اہل ھواء کی شہادت مقبول نہیں'' ، کی شرح میں فرمایا: کہ امام مالک اور جملہ علمائے مالکیہ کے نزدیک اہل الکلام اہل بدعت ہیں، ہر ''متکلم'' اہل بدعت و اہل ھواء میں سے ہے، خواہ وہ اشعری ہو یا غیر اشعری، اسلام میں ان کی گواہی مقبول نہیں
وَيُهْجَرُ وَيُؤَدَّبُ عَلَى بِدْعَتِهِ، فَإِنْ تَمَادَى عَلَيْهَا اسْتُتِيبَ مِنْهَا "
ابو عمر (ابن عبد البر) کہتے ہیں: اسماء وصفات الہٰی کے جملہ اعتقادات کی بنیاد سراسر کتاب اللہ، صحیح حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور اجماع امت پر ہے، اور اس میں احادیث آحاد کو بھی تسلم کیا جائے اور ان میں بحث نہ کی جائے۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 942 - 943 جلد 02 جامع بيان العلم وفضله - أبو عمر يوسف بن عبد الله بالمعروف ابن عبد البر (المتوفى: 463هـ) - دار ابن الجوزي
ابھی آگے اس کا ثبوت بھی بیان کرتا ہوں کہ کس طرح اہل الکلام نے معتزلہ وجہمیہ کے عقیدہ کو اختیار کیاہے!
اور ان کے بعد کے جو علماء ہیں ان میں جہاں علم الکلام کے رد کرنے والے موجود ہیں وہیں اسے قبول کرنے والے بھی کبار علماء ہیں۔ تو صرف اس لیے اسے بدعت اور گمراہی نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں یہ طرز سمجھ نہیں آتا۔
الحمد للہ! آپ کی حیرت اب بلکل ختم ہو گئی! میرے بھائی، جن علماء نے اسے رد کیا ہے اسے بدعت وگمراہی سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں رد کیا ہے!
معاملہ ہے اس بات پر کہ اہل الکلام علم الکلام سے عقیدہ کا نہ صرف اثبات کرتے ہیں بلکہ اسے رد یا قبول بھی کرتے ہیں! یہ صریح گمراہی وضلالت ہے۔ اس کا ثبوت آگے پیش کیا جائے گا۔

یعنی آپ کی بات کا پہلا حصہ تو درست ہے کہ "فلسفیانہ اور عقلی دلائل و معیارات پر عقائد کو ثابت کرتے ہیں"
چلیں !اس نکتہ پر تو ہم متفق ہو گئے! اور بات اگر صرف اتنی ہوتی تو کیا ہی بات تھی! پھر امام شافعی وغیرہ کو ان اہل الکلام سے مناظرہ کرنے کی کیا حاجت تھی، گر وہ اسی عقیدہ کو عقلاً بھی ثابت کرتے ہوتے!
مگر معاملہ کچھ اور ہے، وہ ہماری جملہ کا دوسرا حصہ ہے!

لیکن دوسرا حصہ "اور قبول کرتے ہیں" اس سے اختلاف ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی عقیدہ قطعی طور پر ثابت ہو اور اشاعرہ یا ماتریدیہ صرف عقل کی بنیاد پر اسے رد کر دیں۔ کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
بالکل جناب! ہم آپ کو دکھلا دیتے ہیں! ویسے ایک عرض اور ہے کہ یہ قطعی ہونے کا پیمانہ بھی ان اہل الکلام نے علم الکلام سے ہی اخذ کیا ہے!
باقی جو آپ نے اشکال کیا ہے تو علم الکلام پر جن حضرات نے رد کیا ہے انہوں نے اصلاً علم الکلام کے انداز پر رد کیا ہے۔ کیوں کہ اس میں عقائد کا اثبات فلسفیانہ اور عقلی دلائل سے کیا جاتا ہے۔ ورنہ بیان تو اس کے اندر عقائد ہی ہوتے ہیں چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔
امام ابن عبد البر کی کتاب سے میں نے پیش کردیا ہے کہ انہوں نے کیا رد کیا ہے!

(جاری ہے)
 
Last edited:
Top