• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذمت حسد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ بَدْلَائَ اُمَّتِیْ لَمْ یَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِکَثْرَۃِ صَلوٰۃٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَۃٍ وَلٰکِنْ دَخَلُوْہَا بِرَحْمَۃِ اللہِ وَسَخَاوَۃِ الْاَنْفُسِ وَسَلَامَۃِ الصُّدُوْرِ۔ (ترغیب، ابن ابی الدنیا)
میری امت کے ابدال زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سخاوت اور نفس اور سینہ کی صفائی کی وجہ سے داخل ہوں گے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:-
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَخْلَصَ قَلْبَہٗ لِلْاِیْمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَہٗ سَلِیْمًا وَلِسَانَہٗ صَادِقًا وَنَفْسَہٗ مُطْمَئِنَّۃً وَّخَلِیْقَۃً مُّسْتَقِیْمَۃً۔ (احمد، البیہقی، ترغیب)
وہ شخص فلاح کو پہنچ گیا جس نے ایمان کے لیے اپنے دل کو خالص کرلیا اور اپنے دل کو صاف کرلیا اور زبان سچی بنالی اور نفس کو اطمینان بخش بنالیا اور اپنی طبیعت کو حسن خلق کے سانچے میں ڈھال لیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سیدنا انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: ابھی ایک جنتی آدمی تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ چناںچہ تھوڑی دیر کے بعد ایک انصاری صاحب جن کا نام سعد بن مالک ہے، تشریف لائے، جن کی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا اور بائیں ہاتھ میں دونوں جوتیاں لیے تھے۔ دوسرے دن پھر اسی طرح فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی صاحب آنے والے ہیں۔ چناںچہ وہی صاحب پھر آئے۔ تیسرے دن آپ نے فرمایا ایک جنتی آنے والے ہیں۔ چناںچہ تیسرے روز بھی وہی صاحب آئے۔ جب نبی کریم ﷺ وہاں سے گھر تشریف لے گئے تو عبداللہ بن عمر پیچھے پیچھے گئے اور کہا کہ میرا میرے باپ سے جھگڑا ہوگیا ہے، میں نے قسم کھائی ہے کہ باپ کے پاس تین روز نہیں رہوں گا۔ اگر آپ اپنے پاس ٹھہرنے کی جگہ دیں تاکہ تین دن گزر جائیں تو آپ کی مہربانی ہوگی، تو سعد بن مالکؓ نے کہا کہ ہاں ٹھہر جائیے۔ چناںچہ عبداللہ بن عمرؓ تین روز تک ان کے مکان پر ٹھہرے رہے۔ ان کے حالات پر اور صوم و صلوٰۃ پر غور کرتے رہے کہ یہ کیا عبادت کرتے ہیں اور کتنی نماز رات میں پڑھتے ہیں تو زیادہ کچھ عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ نیند کھلتی اور کروٹ بدلتے تو سبحان اللہ، الحمد للہ ، اللہ اکبر کہتے اور آخر شب میں مسجد میں داخل ہوکر بارہ رکعتیں نماز پڑھتے جس میں مفصل کی بارہ سورتیں پڑھتے، نہ لمبی رکعتیں ہوتیں نہ چھوٹی، دو رکعت پڑھ کر تشہد کے بعد یہ تین دعائیں پڑھتے، اَللہُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اَللہُمَّ اکْفِنَا ہَمَّنَا مِنْ اَمْرِ اٰخِرَتِنَا وَدُنْیَانَا۔ اَللہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنَ الْخَیْرِ کُلِّہٖ وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ الشَّرِّ کُلِّہٖ۔
جب تین راتیں گزر گئیں تو میں نے سعد بن مالک سے کہا کہ میرے اور میرے باپ میں کوئی جھگڑا نہیں تھا اور نہ کوئی تکرار تھی۔ صرف آپ کے عمل کو دیکھنا تھا کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنتی فرمایا: کہ پہلے روز آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی سامنے آئے۔ دوسرے روز آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ پھر تیسرے دن آپ نے فرمایا: کہ ابھی ایک جنتی آدمی آنے والا ہے تو آپ ہی آئے۔ غرض یہ ہے کہ تین دن تک مسلسل آپ نے یہی فرمایا اور آپ ہی سامنے آتے رہے۔
فَاَرَدْتُّ اَنْ اٰوِیَ اِلَیْکَ فَاَنْظُرَ مَا عَلَیْکَ فَاَقْتَدِیَ بِکَ فَلَمْ اَرَکَ عَمِلْتَ کَبِیْرَ عَمَلٍ فَمَا الَّذِیْ بَلَغَ بِکَ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا ہُوَ اِلَّا مَا رَاَیْتَ فَلَمَّا وَلَّیْتُ دَعَانِیْ فَقَالَ مَا ہُوَ اِلَّا مَا رَاَیْتَ غَیْرَ اِنِّیْ لَا اَجِدُ فِیْ نَفْسِیْ لِاَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِشًّا وَلَا اَحْسُدُ اَحَدًا عَلٰی خَیْرٍ اَعْطَاہُ اللہُ اِیَّاہُ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ ہٰذِہِ الَّتِیْ بَلَغَتْ بِکَ۔ (احمد)
اور میں نے یہ چاہا کہ آپ کے پاس ٹھہر کر آپ کے عملوں کو دیکھوں اور آپ کی اقتدا کروں لیکن ان تین دنوں میں کوئی زیادہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو آپ ایسا کیا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو جنتی کہا ہے، انہوں نے کہا کہ میرے عمل یہی ہیں جو آپ نے دیکھے ہیں۔ جب میں وہاں سے رخصت ہونے لگا تو مجھے بلا کر یہ فرمایا: کہ میرے عمل یہی ہیں جن کو آپ نے دیکھا لیکن اس کے ساتھ دو باتیں اور بھی ہیں کہ میں کسی مسلمان سے کینہ کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی کی بھلائی پر جو اللہ نے اسے دے رکھی ہے حسد کرتا ہوں۔ میرا دل کینہ کپٹ اور حسد سے پاک و صاف ہے تو عبداللہؓ نے کہا کہ اسی چیز نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے۔
اس واقعہ سے دل کی صفائی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ہرقسم کے کینہ کپٹ سے پاک و صاف رکھے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اس واقعہ سے دل کی صفائی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ہرقسم کے کینہ کپٹ سے پاک و صاف رکھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ دعا بتائی ہے:
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰ۧ (حشر:۱۰)
اے ہمارے رب! تو ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان والے گزرے ہیں اور ایمان والوں کی بابت ہمارے دلوں میں کینہ کپٹ نہ ڈال۔ اے ہمارے رب! تو بڑا شفیق اور مہربان ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جناب موسیٰ ؑ جب اللہ تبارک و تعالیٰ سے باتیں کرنے لگے تو ایک شخص کو عرش الٰہی کے سایہ میں دیکھا تو ان کے دل میں اس شخص کے مرتبہ کو دیکھ کر رشک پیدا ہوا کہ ایسا مرتبہ مجھے ملتا تو اچھا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے پروردگار اس شخص کا کیا نام ہے جو تیرے عرش کے سایہ میں نہایت آرام سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ اس کے نام سے کیا کام اور کیا غرض ہے، میں اس کے کام کو بتائے دیتا ہوں جس کی وجہ سے وہ عرش تلے ہے۔
وَقَالَ اُحَدِّثُکَ عَنْ عَمَلِہٖ بِثَلَاثٍ کَانَ لَا یَحْسُدُ النَّاسَ عَلٰی مَا اٰتَاہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَکَانَ لَا یَعُقُّ وَالِدَیْہِ وَلَا یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ۔ (احیاء العلوم)
یہ شخص تین کام کیا کرتا تھا ایک یہ کہ لوگوں پر انعام الہی کو دیکھ کر حسد نہیں کرتا تھا دوسرے یہ کہ اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہیں کرتا تھا تیسرے یہ کہ لوگوں کی چغلی ایک دوسرے سے نہیں کرتا تھا۔ (تو ان تینوں برائیوں سے بچنے اور اچھے اوصاف کی وجہ سے یہ شخص عرش الٰہی کے سایہ کا مستحق ہوا۔)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جو لوگ بلاوجہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے اپنے دل میں بغض و عناد اور کینہ کپٹ جما لیتے ہیں تو ایسے لوگوں کی بخشش نہیں ہوتی، یہاں تک کہ وہ اس کمینہ حرکت کو چھوڑ دیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تُعْرَضُ الْاَعْمَالُ فِیْ کُلِّ اثْنَیْنِ وَخَمِیْسٍ فَیَغْفِرُاللہُ عَزَّوَجَلَّ فِیْ ذٰلِکَ الْیُوْمِ لِکُلِّ امْرِئٍ لَا یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا اِلَّا امْرُأٌ کَانَتْ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اَخِیْہِ شَحْنَآئُ فَیَقُوْلُ اَنْظِرُوْا ھٰذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا۔ (مالک، مسلم)
ہر سوموار اور جمعرات کو انسانوں کے اعمال اللہ تعالی کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان دنوں میں سوائے مشرک کے ہر ایک کی مغفرت فرما دیتا ہے لیکن جن دو آدمیوں کے درمیان کینہ کپٹ ہوتا ہے ان کی مغفرت نہیں فرماتا۔ (فرشتوں کو حکم) فرماتا ہے کہ ان دونوں کو ابھی مغفرت سے چھوڑے رکھو، یہاں تک کہ دونوں ملاپ کرلیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک اور کینہ گناہ کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں، جس طرح مشرک کی بخشش نہیں ہے، اسی طرح کینہ ور آدمی کی بھی مغفرت نہیں ہے، اسی لیے پاک و صاف دل والا کینے سے پاک رہنے کی دعا مانگتا ہے جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جنت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں جو لوگ ہوں گے آپس میں بھائی بھائی ہوں گے، وہاں بغض و کینہ کا گزر نہ ہوگا، ارشاد فرمایا:
وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقَابِلِیْنَ۔ (حجر:۴۷)
اور ہم نے ان کے سینوں سے جو کینہ تھا نکال لیا اب وہ بھائی بھائی ہوکر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔
وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھَارُ۔ (اعراف:۴۳)
اور ہم نے ان کے سینوں سے جو کینہ تھانکال کیا، نہریں ان کے نیچے بہتی ہوں گی۔
ان آیتوں کے اشارے سے معلوم ہوا کہ جب تک بھائیوں میں کینہ رہے گا، جنت کا ٹکٹ ہاتھ نہ آئے گا۔
ٍ رسول اکرم ﷺ نے جو ہم کو تعلیم دی ہے، اس کا منشا یہ ہے کہ ہم کو دنیا ہی میں جنت کی زندگی بسر کرنی چاہیے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَقَاطَعُوْا وَلَا تَدَابَرُوْا وَلَا تَبَاغَضُوْا وَلَا تَحَاسَدُوْا وَکُوْنُوْا عِبَادَاللہِ اِخْوَانًا وَّلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ اَنْ یَّھْجُرَ اَخَاہُ فَوْقَ ثَلٰثٍ۔ (مشکوۃ)
آپس میں مقاطعہ نہ کرو اور نہ ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے منہ موڑو اور نہ کینہ بغض رکھو اور نہ حسد رکھو، اللہ کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے دو مسلمان بھائیوں میں کینہ کپٹ پیدا ہوگیا ہے، اور کسی وجہ سے وہ بات چیت چھوڑ دیں تو تین دن کے اندر اندر انہیں ملاپ کرلینا چاہیے، تین دن سے زیادہ چھوڑے نہیں رکھنا چاہیے، ورنہ ان کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حسد، بغض عناد اور کینہ کپٹ جیسی مہلک برائیوں سے بچائے اور میل و محبت کے ساتھ ہمیشہ صراط مستقیم پر قائم رکھے۔ آمین۔
الحمد للہ مضمون مکمل ہوا۔

بشکریہ محمد آصف مغل بھائی
 
Top