• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مردوں پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم ایک تو آپ خود ہی غور فرمالیں تو دوسروں کے معلوم کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے
غور فرمائیں کہ اگر آپ سے پوچھا جائے یہ سب باتیں آپ کس نے بتائی تو آپ یہ فرمائیں گے کہ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے اب جو پاک ہستی آپ کو یہ واقعہ رونما ہونے سے پہلے ہی آپ کو ارشاد فرمادے اور آپ اس ارشاد پاک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لاعلم ہونے کی دلیل دو بہت تعجب والی بات ہے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اللہ کے حضور یہ کلام عاجزی و انکساری کے طور پر تھا
جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے کسی امر کے بارے پوچھتے مثلا آج کون سادن ہے تو باوجود اس کے کہ صحابہ جانتے تھے کہ آج فلاں دن لیکن اللہ کے رسول کے سامنے عاجزی و انکساری ظاہر کرتے ہوئے کہتے کہ الله ورسوله اعلم یعنی اللہ اور اس رسول بہتر جانتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم بمنى:‏‏‏‏"اتدرون اي يوم هذا؟"قالوا:‏‏‏‏ الله ورسوله اعلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع) کے موقع پر منیٰ میں فرمایا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے
صحیح بخاری : حدیث نمبر: 6043
ٓپ کی جانب سے کوٹ کی گئی حدیث میں یہ بھی بتادیا گیا کہ
ثُمَّ يُؤْخَذُ بِرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ،
پھر میرے اصحاب کو دائیں ( جنت کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ لیکن کچھ کو بائیں ( جہنم کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا ۔

آپ خود ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہوگی

محترم -

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الله کے انبیاء عالم الغیب نہیں اور نہ مرنے کے بعد ان پر امّت کے اعمال وغیرہ پیش ہوتے ہیں- بروز محشر اپنی امّت کے منافقین کے اعمال سے بے خبر وہ فرشتوں سے درخواست کریں گے کہ انھیں حوض کوثر پر آنے دیا جائے لیکن الله (جو ان کے اعمال سے ہر لمحہ واقف ہے) کے فرمان کے مطابق انھیں وہیں روک لیا جائے گا- یہاں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم یا حضرت عیسی علیہ سلام کے بیان میں عاجزی و انکساری کا کوئی عنصر یا شائبہ ہی نہیں -بلکہ یہاں وہ اپنی امّت کے اعمال سے بے خبری ظاہر کررہے ہیں-

دوسرا جو آپ نے اصحاب رسول رضی الله عنہ سے متعلق طنز کیا ہے -
آپ خود ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہوگی-


تو مجھے آپ کی طرف سے اس کی پہلے سے ہی امید تھی کہ حدیث کے اس حصّے سے متعلق جس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له کو یہ بتایا گیا کہ جب آپ اپنے اصحاب سے جدا ہوے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا ۔ کہ آپ اس بارے میں کوئی نہ کوئی گلفشانی ضرور کریں گے -

محترم اگر آپ نے اسلامی تاریخ کو غور سے پڑھا ہوتا تو ایسی بونگی نہ مارتے- نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے بسا اوقات کلمہ "اصحابه" سے وہ تمام لوگ مراد لیے ہیں جو قبول اسلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی یعنی امتی بنے۔ ان ارتاد اختیار کرنے والوں سے مراد وہ قبائل ہیں جنہوں نے نبی کریم کے ہاتھ پر اسلام تو قبول کرلیا تھا لیکن اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوسکا تھا -

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے :
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ لاَ تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْاور ( التوبة:9 - آيت:101 )
آپ کے گرد وپیش اعرابیوں میں سے منافقین بھی ہیں اور اہل مدینہ میں سے بھی چند لوگ نفاق تک پہنچ چکے ہیں ، تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔

اور انہی میں سے اکثر قبائل نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں مرتد ہوگئے تھے-

مزید یہ کہ بخاری کی ہی ایک حدیث میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کی گردن مار دینے کی اجازت جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ :
دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه - یعنی یوں نہ کہا جانے لگے کہ محمد اپنے صحابه کو قتل کرتا ہے۔ صحیح بخاری ، کتاب التفسیر-

اب بتائیں کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کیا آج تک کسی مسلمان نے "صحابی" کا درجہ دیا ہے؟؟

لہٰذا بخاری کی اس روایت جس میں "اصحابي" سے مراد اصطلاحی صحابی نہیں بلکہ عرفاً صحابی مراد ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک نبی جو اپنے صحابہ کو برا نہ کہنے کی نصیحتیں کرتا ہے ، وہ خود اپنے صحابہ کو منافق کہے؟؟ اور یہ کہے کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گے؟؟

یہ ان لوگوں کے لئے ایک صریح دلیل ہے جن کے نزدیک صرف اہل بیت کو ہی اصحاب رسول شمار کیا جاتا ہے اور جن کے نزدیک نبی کریم کے صرف گنتی کے چند اصحاب ہی متقی اور پاک ہیں-
 
Top