• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مردوں پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام بھائی میں سمجھا نہیں - کھل کر بات کریں - شکریہ
جب اللہ تعالیٰ صاف انداز میں یہ فرما رہا کہ
اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے
یعنی اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومینن عمل کرنے والوں کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں تو پھر اس کے برخلاف اپنا عقیدہ ظاہر کرنا آپ کی نظر میں کیا کہلائے گا
یہ بات یاد رہے کہ اللہ نے اپنے ساتھ ان اعمال دیکھنے والے جن لوگوں کا ذکر کیا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومینن ہیں اب اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ یہ لوگ بھی اعمال کرنے والے کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں توبعد از وصال بھی رسول اور مومن ان سب باتوں کا مشاہدہ فرمارہے ہیں کیوں کہ وصال ہوجانے سے نہ رسول کی رسالت ساکت ہوتی ہی اور نہ مومن کا ایمان
کیونکہ ہم آج بھی جو کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں اس میں اللہ کے اکیلے معبود ہونے کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی جن الفاظ میں دیتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ
محمد اللہ کے رسول ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اس لئے میں نے یہ عرض کی تھی کیا قرآن کی آیت کے خلاف عقیدہ بنانا قرآن کا انکار نہیں ؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جب اللہ تعالیٰ صاف انداز میں یہ فرما رہا کہ
اور ان سے کہہ دو کہ عمل کئے جاؤ۔ خدا اور اس کا رسول اور مومن (سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے
یعنی اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومینن عمل کرنے والوں کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں تو پھر اس کے برخلاف اپنا عقیدہ ظاہر کرنا آپ کی نظر میں کیا کہلائے گا
یہ بات یاد رہے کہ اللہ نے اپنے ساتھ ان اعمال دیکھنے والے جن لوگوں کا ذکر کیا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومینن ہیں اب اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ یہ لوگ بھی اعمال کرنے والے کے اعمال کو دیکھ رہے ہیں توبعد از وصال بھی رسول اور مومن ان سب باتوں کا مشاہدہ فرمارہے ہیں کیوں کہ وصال ہوجانے سے نہ رسول کی رسالت ساکت ہوتی ہی اور نہ مومن کا ایمان
کیونکہ ہم آج بھی جو کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں اس میں اللہ کے اکیلے معبود ہونے کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی جن الفاظ میں دیتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ
محمد اللہ کے رسول ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اس لئے میں نے یہ عرض کی تھی کیا قرآن کی آیت کے خلاف عقیدہ بنانا قرآن کا انکار نہیں ؟؟
محترم - ذرا اس پر بھی نظر ثانی کرکے جواب عنایت فرمائیں -

کیا باقی امتوں کے اعمال بھی ان کے انبیاء و صالحین تک پہنچتے ہیں -

مَثَلاً کیا عیسائیوں کے اعمال حضرت عیسئ علیہ سلام تک پہنچتے ہیں؟؟؟ باوجود اس کے کہ وہ آسمان پر جسم و جان کے ساتھ زندہ ہیں -لیکن قرآن تو کہہ رہا ہے -

مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ سوره المائدہ ١١٧
(فرمایا عیسئ علیہ سلام نے) میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم ایک الله کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان کی خبر رکھتا رہا جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبردار ہے-

اوراس کی تائید میں خود یہی بات نبی کریم صل الله علیہ و آ له سے منقول ہے (کہ انبیاء و صالحین پر ان کی وفات کے بعد امّت کے اعمال پیش نہیں ہوتے) - آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد پاک ہے -

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً، ثُمَّ قَرَأَ ‏{‏كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ‏}‏ فَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ، ثُمَّ يُؤْخَذُ بِرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ‏{‏وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ‏}‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قیامت کے دن ) تم لوگ ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ” جس طرح ہم نے انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے ، یہ ہماری جانب سے وعدہ ہے اور بیشک ہم اسے کرنے والے ہیں ‘‘ پھر سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا ۔ پھر میرے اصحاب کو دائیں ( جنت کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ لیکن کچھ کو بائیں ( جہنم کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا ۔ میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے کہا تھا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان ہے اور تو ہر چیز پر نگہبان ہے ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
محترم - ذرا اس پر بھی نظر ثانی کرکے جواب عنایت فرمائیں -

کیا باقی امتوں کے اعمال بھی ان کے انبیاء و صالحین تک پہنچتے ہیں -

مَثَلاً کیا عیسائیوں کے اعمال حضرت عیسئ علیہ سلام تک پہنچتے ہیں؟؟؟ باوجود اس کے کہ وہ آسمان پر جسم و جان کے ساتھ زندہ ہیں -لیکن قرآن تو کہہ رہا ہے -

مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ سوره المائدہ ١١٧
(فرمایا عیسئ علیہ سلام نے) میں نے ان سے کچھ نہیں کہا بجز اس کے جس کا تو نے مجھے حکم دیا ہے وہ یہ کہ تم ایک الله کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے اور جب تک میں ان میں رہا ان کی خبر رکھتا رہا جب تو نے مجھے دنیا سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگران تھا اور تو ہر چیز سے خبر

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللّهِ وَاللّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا تَعْمَلُونَ

سورہ آل عمران : 98
ترجمہ جوناگڑھی
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس پر گواه ہے


وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ

سورہ بقر :143
ترجمہ :جوناگڑھی
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواه ہوجائیں، جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے (ان پر کوئی مشکل نہیں) اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان ضائع نہ کرے گا اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے واﻻ ہے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اوراس کی تائید میں خود یہی بات نبی کریم صل الله علیہ و آ له سے منقول ہے (کہ انبیاء و صالحین پر ان کی وفات کے بعد امّت کے اعمال پیش نہیں ہوتے) - آپ صل الله علیہ و آ له وسلم کا ارشاد پاک ہے -

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً، ثُمَّ قَرَأَ ‏{‏كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ‏}‏ فَأَوَّلُ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ، ثُمَّ يُؤْخَذُ بِرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ‏{‏وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ شَهِيدٌ‏}‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قیامت کے دن ) تم لوگ ننگے پاؤں ، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ” جس طرح ہم نے انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ لوٹائیں گے ، یہ ہماری جانب سے وعدہ ہے اور بیشک ہم اسے کرنے والے ہیں ‘‘ پھر سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا ۔ پھر میرے اصحاب کو دائیں ( جنت کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ لیکن کچھ کو بائیں ( جہنم کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا ۔ میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے کہا تھا کہ جب تک میں ان میں موجود تھا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبان ہے اور تو ہر چیز پر نگہبان ہے ۔
محترم ایک تو آپ خود ہی غور فرمالیں تو دوسروں کے معلوم کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے
غور فرمائیں کہ اگر آپ سے پوچھا جائے یہ سب باتیں آپ کس نے بتائی تو آپ یہ فرمائیں گے کہ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے اب جو پاک ہستی آپ کو یہ واقعہ رونما ہونے سے پہلے ہی آپ کو ارشاد فرمادے اور آپ اس ارشاد پاک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لاعلم ہونے کی دلیل دو بہت تعجب والی بات ہے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اللہ کے حضور یہ کلام عاجزی و انکساری کے طور پر تھا
جیسا کہ احادیث میں آیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ سے کسی امر کے بارے پوچھتے مثلا آج کون سادن ہے تو باوجود اس کے کہ صحابہ جانتے تھے کہ آج فلاں دن لیکن اللہ کے رسول کے سامنے عاجزی و انکساری ظاہر کرتے ہوئے کہتے کہ الله ورسوله اعلم یعنی اللہ اور اس رسول بہتر جانتے ہیں
قال النبي صلى الله عليه وسلم بمنى:‏‏‏‏"اتدرون اي يوم هذا؟"قالوا:‏‏‏‏ الله ورسوله اعلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع) کے موقع پر منیٰ میں فرمایا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ بولے اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے
صحیح بخاری : حدیث نمبر: 6043
ٓپ کی جانب سے کوٹ کی گئی حدیث میں یہ بھی بتادیا گیا کہ
ثُمَّ يُؤْخَذُ بِرِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِي فَيُقَالُ إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ،
پھر میرے اصحاب کو دائیں ( جنت کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ لیکن کچھ کو بائیں ( جہنم کی ) طرف لے جایا جائے گا ۔ میں کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں لیکن مجھے بتایا جائے گا کہ جب آپ ان سے جدا ہوئے تو اسی وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا ۔

آپ خود ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگرعرض کریں گے تو شکایت ہوگی
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
حضرت اسامہ رضي الله عنه سے ایک حدیث مروی ہے جسے امام ابن خزیمہ نے صحیح قراردیا ہے۔ اسامہ رضي الله عنه نے فرمایا: ’’میں نے عرض کی ، اے اللہ نے کے رسول! میں آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھتا جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
((َ ذَلِکَ شَہْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَہُوَ شَہْرٌ تُرْفَعُ فِیہِ الْأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِینَ فَأُحِبُّ أَنْ یُرْفَعَ عَمَلِی وَأَنَا صَائِمٌ ))

یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں ، حالانکہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ اس لیے میں پسند کرتا ہون کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں - مسند احمد ۵/۲۰۱، سنن مجتبیٰ نسائی ۴/۲۰۱، ابن ابی شیبہ ۳/۱۰۳، ابو یعلی ،
یعنی یہ دلیل ہوئی شب برات پر جو شعبان کی 15 ویں شب کو مسلمان مناتے ہیں کہ اس رات اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور مسلمان اس رات میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں
کیا خیال ہے کہ اب یہ روایت ضعیف نہیں ہوجائے گی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بئر معونہ کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کفّار نے اصحاب رسول کو گھیر لیا اور قتل کرنا شروع کیا صحابہ نے اللہ سے دعا کی کہ ہمارے قتل کی خبر نبی کو دے دے اگر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ ہوتا تو اس کی ضرورت ہی نہیں تھی. ایک ہی روز میں نبی صلی الله علیہ وسلم کو پتا چل جاتا . اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی

حدثنا احمد بن واقد حدثنا حماد بن زيد عن ايوب عن حميد بن هلال عن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم نعى زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل ان ياتيهم خبرهم ، فقال:‏‏‏‏"اخذ الراية زيد فاصيب ثم اخذ جعفر فاصيب ثم اخذ ابن رواحة فاصيب"وعيناه تذرفان حتى اخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم.

ترجمہ داؤد راز
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
صحیح بخاری :حدیث نمبر: 4262

اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی

إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

سورہ فتح : ۱۰
ترجمہ جوناگڑھی
جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وه یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو شخص عہد شکنی کرے وه اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا

اللہ اس بیعت کے بارے میں فرمارہا ہے کہ یہ تو اللہ سے بیعت کرتے ہیں
اگر بیعت لینے کی بناء پر نعوباللہ جو الزام آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دھر رہے ہیں اس الزام کی زدسے تو نعوذباللہ اللہ بھی نہیں بچتا نعوذباللہ من ذلک
اللہ تعالیٰ ھدایت عطاء فرمائے اور سب مسلمانوں کے دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد کی محبت ڈال دے آمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

حدثنا احمد بن واقد حدثنا حماد بن زيد عن ايوب عن حميد بن هلال عن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم نعى زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل ان ياتيهم خبرهم ، فقال:‏‏‏‏"اخذ الراية زيد فاصيب ثم اخذ جعفر فاصيب ثم اخذ ابن رواحة فاصيب"وعيناه تذرفان حتى اخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم.

ترجمہ داؤد راز
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
صحیح بخاری :حدیث نمبر: 4262



إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

سورہ فتح : ۱۰
ترجمہ جوناگڑھی
جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وه یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو شخص عہد شکنی کرے وه اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا

اللہ اس بیعت کے بارے میں فرمارہا ہے کہ یہ تو اللہ سے بیعت کرتے ہیں
اگر بیعت لینے کی بناء پر نعوباللہ جو الزام آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دھر رہے ہیں اس الزام کی زدسے تو نعوذباللہ اللہ بھی نہیں بچتا نعوذباللہ من ذلک
اللہ تعالیٰ ھدایت عطاء فرمائے اور سب مسلمانوں کے دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد کی محبت ڈال دے آمین


پتا نہیں آپ یہ حدیث پیش کر کے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں

http://forum.mohaddis.com/threads/حضرت-خالد-بن-ولید-رضی-اللہ-عنہ-کے-فضائل.9293/

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

حدثنا احمد بن واقد حدثنا حماد بن زيد عن ايوب عن حميد بن هلال عن انس رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم نعى زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل ان ياتيهم خبرهم ، فقال:‏‏‏‏"اخذ الراية زيد فاصيب ثم اخذ جعفر فاصيب ثم اخذ ابن رواحة فاصيب"وعيناه تذرفان حتى اخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم.

ترجمہ داؤد راز
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے ‘ ان سے حمید بن ہلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کو دے دی تھی جب ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے کہ اب زید جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں ‘ اب وہ شہید کر دیئے گئے ‘ اب جعفر نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ‘ وہ بھی شہید کر دیئے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی۔
صحیح بخاری :حدیث نمبر: 4262



إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا

سورہ فتح : ۱۰
ترجمہ جوناگڑھی
جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وه یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے، تو جو شخص عہد شکنی کرے وه اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا

اللہ اس بیعت کے بارے میں فرمارہا ہے کہ یہ تو اللہ سے بیعت کرتے ہیں
اگر بیعت لینے کی بناء پر نعوباللہ جو الزام آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دھر رہے ہیں اس الزام کی زدسے تو نعوذباللہ اللہ بھی نہیں بچتا نعوذباللہ من ذلک
اللہ تعالیٰ ھدایت عطاء فرمائے اور سب مسلمانوں کے دلوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد کی محبت ڈال دے آمین


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض دفعہ غیب کی خبر دی جاتی تھی اور بعض دفعہ نہیں یہ اللہ کی مرضی ہے جس کا ذکر سوره الجن میں ہے کہ

الله ہی عالم الغیب ہے اپنے غیب سے وہ کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے رسول کے جس کو وہ پسند کرے


پھر قرآن میں نبی سے کہا گیا کہ کہو

اگر میں محمد عالم الغیب ہوتا تو اپنے لئے خیر اکھٹا کر لیتا


اگر نبی علیہ السلام کو یہ خبر ہوتی کہ میرے صحابہ قتل ہوں گے تو ان کی تدبیر الگ ہوتی اسی طرح تبوک میں صحابی کو پہلے سے بتاتے کہ کافر کے فلاں فلاں وار سے ہو شیار رہنا

جنگیں شہید ہونے کے لئے نہیں لڑی جاتیں جیتنے کے لئے لڑی جاتی ہیں شاید آپ کے ذہین میں نہیں نبی صلی الله علیہ وسلم عالم الغیب ہوتے تو کسی بھی جنگ احد میں مسلمانوں کا انتا نقصان نہ ہوتا کہ اپنی ہی تلواروں سے زخم کھاتے - احد میں دانت شہید نہ ہوتے اس کے کثیر دلائل ہیں اور یہ اس بحث کو کہیں اور لے جائیں گے سر دست اتنا کافی ہے سمجھنے کے لئے

بیعت رضوان کا تذکرہ آپ نے کس حوالے سے کیا ہے واضح نہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
. اسی طرح عثمان رضی الله تعالی عنہ کی شہادت کی خبر پر نبی صلی الله علیہ وسلم نے بیعت رضوان لے لی
یہ آپ نے کمنٹ کئے تھے بیعت رضوان پر جس پر میں نے سورہ فتح کی آیت کوٹ کی
جبکہ میں نے آپ کی پوسٹ کا اقتباس لےکر یہ آیت کوٹ کی تھی لیکن آپ کو شاید نظر نہیں آئی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہ آپ نے کمنٹ کئے تھے بیعت رضوان پر جس پر میں نے سورہ فتح کی آیت کوٹ کی
جبکہ میں نے آپ کی پوسٹ کا اقتباس لےکر یہ آیت کوٹ کی تھی لیکن آپ کو شاید نظر نہیں آئی
آپ اصل موضوع پر بحث کریں -
 
Top