جو مسئلہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا اس کو گڑھ کر اس میں فقاہت بازی کرنا سلف کے منہج کے خلاف ہے ۔
اگر ایسا مسئلہ مستقبل میں کبھی پیش آتا ہے تو علماء احوال و ظروف کے مطابق فیصلہ کریں گے ۔
محترم سرفراز فیضی صاحب
بعض اوقات اختلاف جو تعصب اور تشدد سے پاک ہو یعنی فروعی اختلاف اور ضرورت احساس تحقیق کے نئے دروازے کھولتا ہے اور یہ تحقیق علم کو وسعت د یتی ہے۔ لیکن ہاں یہ تحقیق و علم کا تعلق علوم فن کے ماہرین کی حد تک ہونا چاہئے۔
کوئی ایسا سوال کا ترتیب دینا جس کا تعلق شرعی رہنمائی کے تحت اجتہاد سے ہو تو ایسا سوال وقت سے پہلے باعث رحمت ہے، نہ کہ زحمت،
اسی مثال کو لے لیجئے، اگر اس سوال پر قرآن وسنت سے کوئی ٹھوس اور واضح رہنمائی نہیں مل رہی( مجھے امید ہے یقینا اس پر رہنمائی موجود ہوگی) تو اس پر اجتہاد وہ عالم دین کرسکتا ہے جو اجتہاد کی قابلیت رکھتا ہے اور علمائ دین کو اس پر اعتماد ہے، یا علماء کا پینل اجتہاد سے اس کا شرعی حل تلاش کر سکتے ہیں، یقینا کسی ایسے مسئلے میں جہاں اجتہاد کی ضرورت ہو گھنٹوں یا ایک دن کا کام نہیں، پھر اس لاش کا کیا ہوگا؟؟؟
کیا اسے ایدھی کے سرد خانہ میں رکھ دیا جائے؟؟؟؟
احساس ضرورت کے تحت ایسا مسئلہ کسی وقت بھی پیش آسکتا ہے اگر پہلے سے اس مسئلہ کا حل موجود ہوگا تو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔
ہاں اگر یہ خوف ہو کہ اس طرح سوالات کی ایک غلط روش چل نکلے گی تو ضروی نہیں کہ ہر سوال پر علماء متوجہ ہوں، بلکہ جہاں ضرورت محسوس ہو اسی پر تحقیق کی جائے۔
ایک اور مثال کو دیکھ لیجئے( مجھے نہیں علم کی قرآن سنت میں واضح رہنمائی موجود ہے کہ نہیں، اس کو اجتہادی سوال سمجھ کر پیش کررہا ہوں)
بکریوں کا ریوڑ ایک سڑک سے گذر رہا تھا کہ ایک بکری کا ایکسیڈنٹ ہوگیا، اب ایک شخص نماز کی تیاری کررہا تھا اور وقت نکلا جارہا تھا۔
اگر وہ بکری کو ذبح کرنے کی تیاری کرتا ہے تو نماز کا وقت نکلا جارہا ہے، اگر نماز پرھ لیتا ہے تو بکری کے مر جانے کا ڈر ہے۔ اب کیا کیا جائے؟؟؟
اگر پہلے سے اس مسئلہ میں رہنمائی موجود نہیں، اجتہاد کی ضرورت ہے تو کیا خیال ہے ، انتظار کیا جائے گا؟؟؟؟
اگر پہلے سے ایسا سوال اور اس پر رہنمائی موجود ہوگی تو کیا برائی ہے؟؟؟؟