عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
یہ حکم میرا نہیں بلکہ آخری نبی ﷺ کا حکم جن کے بارے میں اللہ کا فرمان عالی شان ہے ”وما ینطق عن الھوی“، جن کی مخالفت دنیا و آخرت میں ناکامی کا سبب ہے. اور مخالفت کی صورت میں رسواکن عذاب کی خوشخبری تو خود اللہ عزوجل نے ”فلیحذر اللذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ او یصیبہم عذاب الیم“ کے الفاظ میں سنا دیحکم کی سختی اور نرمی کا اختلاف ہے. اگر کسی کو دھیان نہ رہے اور وہ خنزیر کھا لے تو کیا یہ جائز ہوگا؟
دھیان نہ رہنا یا اسی طرح کوئی اور شرعی عذر پیش آنا یہ سب ثانوی باتیں اور وقتی جواز کی صورتیں ہیں. حالات کے بدلنے سے (وقتی طور پر) حکم بھی بدل جاتا ہے. کبھی کبھار ایک واجب چیز کو ترک کر دینا بھی واجب ہو جاتا ہے. لہذا وقتی اور عارضی چیزوں کو جواز کے طور پر بیان نہیں کیا جائے گا.
وہ ایسی صورت میں معذور ٹھہرا. ”ربنا لا تؤاخذنا ان نسینا او اخطانا“ اور ”ان اللہ تجاوز عن امتی الخطا والنسیان وما استکرہوا علیہ“ (او کما قال علیہ الصلوۃ والسلام) جیسے فرامین اس پر دال ہیں. اور یہ سب باتیں آپ مجھ سے کئ گناہ بہتر جانتے ہیں.اگر کسی کو دھیان نہ رہے اور وہ خنزیر کھا لے تو کیا یہ جائز ہوگا؟
گنجائش کو اصل نہیں بنایا جائے گا. اصل حکم یہی رہے گا کہ ٹخنے سے نیچے ازار جائز نہیں. البتہ مجبوری اور ضرورت میں حکم تبدیل ہو سکتا ہے (لیکن پھر کہوں گا کہ اسکو اصل نہیں کہیں گے).لیکن ٹخنوں سے نیچے لباس کے معاملے میں اس میں گنجائش ہوگی
میرے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش آئے گا تو میں ٹراؤزر کو موڑ (فولڈ) لوں گا. اور صحیح معنوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قول ”إِنِّي لَأَتَعَاهَدُ ذَلِكَ مِنْهُ“ کے مصداق بننے کی سعی کروں گا. پھر بھی کسی وجہ سے نہ بچ سکا تو یہ ایک شرعی عذر ہوگا. متکبر تو نہیں کہلاؤں گا لیکن اسکو اصل بھی نہیں بناؤں گا.ہم بسا اوقات جب سوئمنگ کے لیے جاتے ہیں اور اپنا لباس موجود نہیں ہوتا تو کسی سے مستعار لے لیتے ہیں. یہ ٹراؤزر ہوتا ہے اور عموما سائز میں زیادہ ہوتا ہے تو ڈھلک کر ٹخنوں سے نیچے آ جاتا ہے. کیا آپ اسے تکبر کہیں گے یا یہاں گنجائش دیں گے؟
میں نے خود کہا تھا کہ گنجائش ہے لیکن گنجائش کو گنجائش تک محدود رکھیں. اسکو اصل کے ساتھ نہ ملائیں.اس طرح کے کئی مواقع پیش آتے ہیں. لوگوں کو احرام باندھنے کا عموما تجربہ نہیں ہوتا. ایسے میں اگر احرام ذرا بڑا ہو تو ٹخنوں سے اوپر رکھنا مشکل ہوتا ہے. ایسے میں انسان رمی اور دیگر افعال کرے یا احرام پکڑا رہے؟ یہاں بھی تکبر نہیں ہوتا.
اس طرح کے مسائل میں گنجائش ہوگی.
میں نے کوئی سختی نہیں اپنائی. میں نے تو خود کہا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی صورتحال کسی کے ساتھ پیش آئے تو بہرحال وہ متکبر نہیں گردانا جائے گا.تو ہمارا اختلاف سختی اور نرمی کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں حرمت کی علت تکبر کو سمجھتا ہوں اور اسبال کو تکبر کی علامت سمجھتا ہوں. آپ نفس اسبال کو ہی غالبا حرمت کی علت سمجھتے ہیں.
جی ہاں احادیث کی روشنی میں نفس اسبال ازار ہی حرام ہے اور میرا موقف وہی ہے. لہذا بنا کسی شرعی عذر کہ کوئی اس اسبال ازار کرتا ہے تو وہ حرام کام کا مرتکب ہوتا ہے.