محترم!
میں نے آپ کے سامنے فرمان نبوی ﷺ نقل کیا ہے. اور یہ مرد و عورت کے لباس کے متعلق مذکورہ تفریق میری بیان کردہ نہیں ہے بلکہ یہ خود اللہ کے رسول ﷺ کی بیان کی ہوئی ہے. لہذا بحیثیت مسلمان میں اس پر آمنا و صدقنا کہتا ہوں. اس میں قیل و قال نہیں کرتا. اور نہ باطل قیاس کرکے آپ ﷺ کے فرمان کو بدلنے کی کوشش کرتا ہوں. میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ مردوں کے لئے ازار ٹخنے سے نیچے رکھنے کو تکبر کہنے اور عورتوں کے لئے ازار ٹخنے سے نیچے رکھنے کو مشروع و مستحب قرار دینے میں اللہ کے رسول ﷺ کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے. یہ الگ بات ہے کہ میری کم علمی اسکو سمجھنے یا اسکا احاطہ کرنے سے قاصر ہے.
اب آپ میرے سوال کا جواب دیں. شریعت نے مردوں کے لئے سونا اور ریشم حرام قرار دیا ہے جبکہ عورتوں کے لئے حلال؟ کیا کہیں گے جناب عالی؟ ایک ہی چیز ہے لیکن عورت کے لئے وہ حلال ہے جبکہ مردوں کے لئے حرام؟
آپ ﷺ نے تو ایک صحابی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھ کر فرمایا تھا کہ یہ آگ کا انگارہ ہے جبکہ عورتوں کے لئے سونا حلال ہے؟
معلوم یہ ہوا کہ مرد و عورت کے کچھ احکام باہم مختلف ہیں. لہذا جو قیاس آپ ٹخنے کے متعلق کر رہے ہیں ویسا ہی قیاس کر کے میں سونے کو مردوں کے لئے جائز قرار دوں یا اسے حلال سمجھوں تو آپ ہی بتائیے میرا ٹھکانا جہنم کے علاوہ اور کہاں ہو سکتا ہے؟؟؟؟
محترم عمر بھائی
آپ جو مثال دے رہے ہیں اس میں پہلے ہی وضاحت آگئی ہے ۔ کہ مردوں کے لئے حرام اور عورتوں حلال۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکبرانہ لباس کیلئے ایک وعید سناتے ہیں ۔ جس پر سب عمل کرتے ہیں ۔خواتین میں سے صرف ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس پر پردہ میں کمی کی شکایت کرتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خواتین کو اس سے مستثنٰی کر دیتے ہیں۔
اب یہاں میرا سوال ہے کہ اگر ام سلمہ رضی اللہ عنہ اس پر سوال نہیں کرتیں تو کیا دونوں کیلئے حکم باقی نہ رہتا۔
اب میرا نقطہ نظر نہیں سمجھ رہے ہیں یا میری کم علمی اور جہالت ہے کہ میں اپنا مؤقف سمجھا نہیں پارہا ہوں ۔ گناہ کی شدت پر وعید ہوتی ہے۔
جو تکبرانہ یہ عمل کرتا ہے وہ اللہ رب العزت کی اس صفت کو چیلنج کرتا ہوں ۔ اور میرے ناقص علم کے مطابق اس میں شرک کا شائبہ ہوتا ہے ۔
کیا صرف ٹخنوں سے نیچا لباس کرنا ہی تکبر ہے؟
تکبر تو کسی بھی عمل میں ظاہر ہو اس پر یہی وعید ہوگیا یا یہ وعید صرف اس پر مخصوص ہے کہ جو لباس کو نیچے رکھے ؟۔ دوسرے متکبرانہ اعمال پھر اس سے خارج ہوں گے۔ ؟
وہ رحمتہ العالمین نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو امت کیلئے سراپا رحمت تھے ۔ مسلسل تراویح صرف اس لئے ترک کردی کہ امت پر مشکل نہ ہوجائے ۔صرف لباس کے نیچے ہونے پر (بغیر تکبر) جہنم کی وعید دے رہیں ۔اور ایسی وعید کے اللہ رب العزت روز محشر اس کو رحمت کی نظر سے ہی نہیں دیکھیں گے۔ میرا ذہن اس کو قبول نہیں کررہا ہے۔