• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرنے کے بعد روحوں کا مسکن

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حضرت براء بن عازبؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ سوال و جواب کے وقت روح جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے؛اس کا کیا جواب ہے آپ کے پاس؟؟حافظ ابن حزم کے علاوہ اس کا کس نے انکار کیا ہے سلف صالحین میں سے؟؟
کیا الله روح کو لوٹاتا ہے - یا نہیں -




 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
زمینی قبر میں عذاب کا ثبوت

الحمد لله الذي أخرجنا من ظلمات الجهل والوهم إلى أنوار المعرفة والعلم، والصلاةُ والسلام على معلمِ البشرية
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی یا یہودیہ کی زمینی قبر پر گزرے جسے قبر میں عذاب ہو رہاتھا ،
مسلم کے رواۃ نے اس متن کو مختصر بیان کیا ،جس آپ کو غلط فہمی یا مغالطہ ہوا ،
صحیح مسلم کے جس باب کی آپ نے یہ حدیث یہاں پیسٹ کی ہے ،وہاں اسی باب میں سیدہ عائشہ وابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث دوسری سند سے اس طرح موجود ہے
(حدثنا حماد بن زيد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء أهله عليه، فقالت: رحم الله أبا عبد الرحمن، سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: «أنتم تبكون، وإنه ليعذب»
اور سنن ابی داود میں یہی حدیث مکمل تفصیل کے ساتھ بسند صحیح موجود ہے
حدثنا هناد بن السري، ‏‏‏‏عن عبدة، ‏‏‏‏وأبي، ‏‏‏‏معاوية - المعنى - عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏عن أبيه، ‏‏‏‏عن ابن عمر، ‏‏‏‏قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "‏إن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه "‏‏.‏ فذكر ذلك لعائشة فقالت وهل - تعني ابن عمر - إنما مر النبي صلى الله عليه وسلم على قبر فقال "‏إن صاحب هذا ليعذب وأهله يبكون عليه "‏‏.‏ ثم قرأت ‏‏‏‏{ولا تزر وازرة وزر أخرى ‏}‏ قال عن أبي معاوية على قبر يهودي ‏.‏
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى»”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کی قبر کےپس سے گزرے تھے۔) قال الشيخ الألباني: صحيح،
لھذا یہ ایک ہی واقعہ ہے جسے راویوں کے اختصار نے آپ کےلئے معمہ بنادیا ،اور آپ اس اختصار پر خوابوں کامحل بنانے لگے ،
میرا مشورہ ہے کہ آپ حدیث کا علم سیکھنے کےلئے کسی سچے اہل حدیث عالم کی صحبت اختیار کریں​

5.jpg

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
قبر میں سوال کئے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان
حدیث نمبر: 4751
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ،‏‏‏‏ أخبرنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ أَبُو نَصْرٍ،‏‏‏‏ عَنْ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ قَتَادَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ نَخْلًا لِبَنِي النَّجَّارِ،‏‏‏‏ فَسَمِعَ صَوْتًا،‏‏‏‏ فَفَزِعَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَصْحَابُ هَذِهِ الْقُبُورِ ؟،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ نَاسٌ مَاتُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ،‏‏‏‏ وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ وَمِمَّ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ،‏‏‏‏ أَتَاهُ مَلَكٌ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ ؟ فَإِنِ اللَّهُ هَدَاهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَعْبُدُ اللَّهَ،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ،‏‏‏‏ فَمَا يُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ غَيْرِهَا فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَى بَيْتٍ كَانَ لَهُ فِي النَّارِ،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ هَذَا بَيْتُكَ كَانَ لَكَ فِي النَّارِ،‏‏‏‏ وَلَكِنَّ اللَّهَ عَصَمَكَ،‏‏‏‏ وَرَحِمَكَ،‏‏‏‏ فَأَبْدَلَكَ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ دَعُونِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأُبَشِّرَ أَهْلِي،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ اسْكُنْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ،‏‏‏‏ أَتَاهُ مَلَكٌ،‏‏‏‏ فَيَنْتَهِرُهُ،‏‏‏‏ فَيَقُولُ لَهُ:‏‏‏‏ مَا كُنْتَ تَعْبُدُ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ،‏‏‏‏ فَيُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ فَمَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ،‏‏‏‏ فَيَضْرِبُهُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِيدٍ بَيْنَ أُذُنَيْهِ،‏‏‏‏ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا الْخَلْقُ غَيْرُ الثَّقَلَيْنِ"،
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے کھجور کے ایک باغ میں داخل ہوئے، تو ایک آواز سنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا اٹھے، فرمایا: ”یہ قبریں کس کی ہیں؟“ لوگوں نے عرض کیا: زمانہ جاہلیت میں مرنے والوں کی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جہنم کے عذاب سے اور دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو“ لوگوں نے عرض کیا: ایسا کیوں؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے، اور اس سے کہتا ہے: تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ تو اگر اللہ اسے ہدایت دیئے ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: میں اللہ کی عبادت کرتا تھا؟ پھر اس سے کہا جاتا ہے، تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ ۱؎ تو وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، پھر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں پوچھا جاتا، پھر اسے ایک گھر کی طرف لے جایا جاتا ہے، جو اس کے لیے جہنم میں تھا اور اس سے کہا جاتا ہے: یہ تمہارا گھر ہے جو تمہارے لیے جہنم میں تھا، لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا، تم پر رحم کیا اور اس کے بدلے میں تمہیں جنت میں ایک گھر دیا، تو وہ کہتا ہے: مجھے چھوڑ دو کہ میں جا کر اپنے گھر والوں کو بشارت دے دوں، لیکن اس سے کہا جاتا ہے، ٹھہرا رہ، اور جب کافر قبر میں رکھا جاتا ہے، تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس سے ڈانٹ کر کہتا ہے: تو کس کی عبادت کرتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا، تو اس سے کہا جاتا ہے: نہ تو نے جانا اور نہ کتاب پڑھی (یعنی قرآن)، پھر اس سے کہا جاتا ہے: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ تو وہ کہتا ہے: وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، تو وہ اسے لوہے کے ایک گرز سے اس کے دونوں کانوں کے درمیان مارتا ہے، تو وہ اس طرح چلاتا ہے کہ اس کی آواز آدمی اور جن کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے“۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۲۳۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بعض لوگوں نے «في هذا الرجل» سے یہ خیال کیا ہے کہ میت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دکھائی جاتی ہے، یا پردہ ہٹا دیا جاتا ہے، مگر یہ محض خیال ہے، اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت میں وارد نہیں ، مردہ نور ایمانی سے ان سوالوں کے جواب دے گا نا کہ دیکھنے اور جاننے کی بنیاد پر، ابوجہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا منکر نکیر کے سوال پر وہ آپ کو نہیں پہچان سکتا ،اور آج کا مومن موحد باوجود یہ کہ اس نے آپ کو دیکھا نہیں مگر جواب درست دے گا کیونکہ اس کا نور ایمان اس کو جواب سمجھائے گا، اگرچہ لفظ «هذا» محسوس قریب کے لئے آتا ہے مگر «ذلك» جو بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے، اس کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے وبالعکس، «وقد ذكره البخاري عن معمر بن المثنى عن أبي عبيدة» پھر جواب میں «هو» کا لفظ موجود ہے جو ضمیر غائب ہے جو اس کے حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہے، «فافهم» ۔


میں @محمد عامر یونس بھائی سے بھی پوچھ چکا ہوں اور آپ اس کو ناپسند بھی چکے -ہیں لیکن میرے لیے آپ کی پسند اور ناپسند کی کوئی اہمیت نہیں - اہمیت الله کے قرآن اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان کی ہے -


میرے بھائی شاہد آپ غلط سمجھے - میں قبر کے عذاب کا منکر نہیں - آپ دھرا دھر پوسٹ لگاتے جا رہے ہیں - میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ عذاب کس قبر میں ہوتا ہے - دنیا میں جو بنتی ہے یا یہ برزخ والی قبر ہے -

اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ یہ برزخ والی قبر ہے تو پھر بحث یہاں پر ہے ختم کر دیں - لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ اس دنیا والی قبر میں ہی عذاب ہوتا ہے تو جن لوگوں کو دنیا کی قبر نصیب نہیں ہوتی - ان کا عذاب کہاں ہو گا -

اور اگر دنیا والی قبر میں عذاب ہوتا ہے تو کیا روح کو قبر میں موجود جسم میں لوٹایا جاتا ہے یا نہیں - اگر نہیں لوٹایا جاتا ہو عذاب کیسے ہوتا ہے - ذرا وضاحت کر دیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@حافظ طاہر اسلام عسکری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

rooh lotanay wali riwayat ki haqeeqat.jpg



بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فرقہ پرستوں نے قیامت سے پہلے مادی بدن میں روح لوٹائے جانے کا عقیدہ جو کے خلاف قرآن ہے

اللہ کی کتاب کا فیصلہ ہے

حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99۝ۙلَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ١٠٠؁

'' یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ''

( المومنون ۹۹۔۱۰۰ )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
@حافظ طاہر اسلام عسکری


بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فرقہ پرستوں نے قیامت سے پہلے مادی بدن میں روح لوٹائے جانے کا عقیدہ جو کے خلاف قرآن ہے
میں نےپہلے بھی لکھا ہے کہ آپ کسی بھی سائیٹ پر مطلب کا لفظ دیکھتے ہی ،اسکی عبارت گسیٹ کر اس فورم پر ڈال دیتے ہیں ؛
اس کی تحقیق کیئے بغیر کہ واقعی یہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں !
اب یہاں آپ نے المنہال بن عمرو کو ضعیف قرار دے دیا ،،، حالانکہ آپ سرے سے جانتے ہی نہیں کہ المنہال بن عمرو کون ہے ؛
غور سے سنئے :>>>
(۱)> المنہال بن عمرو صحیح بخاری کا راوی ہے ،
(۲) >اور جناب علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے جناب محمد بن الحنفیہ کا شاگرد ہے ،،
(۳) >بلکہ سیدنا علی اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،کے شاگردوں کا شاگرد ہے،
(۴)>
ابن حزم کا حوالہ تو آپ نے ایسے دیا ،گویا ان سے پہلے المنہال کو کوئی جانتا ہی نہیں اور کسی نے ان کا ترجمہ نقل ہی نہیں کیا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
خود ابن حزمؒ نے المحلی میں کئی جگہ ۔المنہال بن عمرو ۔ کی روایت سے استدلال کیا ہے ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
میں نے دیکھا ہےآپ اکثرشیخنا المحدث زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے حوالے اپنی پوسٹوں میں لگاتے رہتے ہیں ،اس لئے میں یہاں آپ کی خدمت میں انہی کی عبارت ان کے فتاوی سے پیش کرتا ہوں

منهال و زاذان.jpg
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
@حافظ طاہر اسلام عسکری



بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فرقہ پرستوں نے قیامت سے پہلے مادی بدن میں روح لوٹائے جانے کا عقیدہ جو کے خلاف قرآن ہے

اللہ کی کتاب کا فیصلہ ہے

حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99۝ۙلَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ١٠٠؁

'' یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ''

( المومنون ۹۹۔۱۰۰ )
میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ابن حزم کے علاوہ کس نے انکار کیا ہے؟؟آپ نے پھر موصوف ہی کا حوالہ دے دیا؛اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بالکل علم نہیں مسئلے کا،ادھر ادھر سے دیکھ کر نقل کر دیتے ہیں بلا سوچے سمجھے؛حافظ ابن حزم کا موقف بالکل غلط ہے اور امام ابن قیم نے ان کی تردید کی ہے؛اس حدیث کو محدثین نے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا اسے ماننا واجب اور اس کا انکار ضلالت ہے۔
جہاں تک قرآنی آیات کا تعلق ہے تو ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امام الانبیا جناب محمد رسول اللہ ﷺ جن پر قرآن شریف نازل ہوا تمام مخلوق میں سب سے زیادہ اس کے معانی سے باخبر تھے اس لیے ان کا ارشاد قرآن حکیم کے ہرگز مخالف نہیں ہو سکتا؛جو یہ سمجھتا ہے کہ بہ سند صحیح ثابت شدہ حدیث مخالف قرآن ہو سکتی اس کی اپنی سمجھ کا قصور ہے۔
آپ سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ بغیر علم شرعی مسائل میں کھینچ تان نہ کریں؛یہ شرعاً حرام ہے؛علماے حدیث و سنت سے رہ نمائی لیں اور بدعتی لوگوں سے بچیں؛جزاکم اللہ خیراً




 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میں نے دیکھا ہےآپ اکثرشیخنا المحدث زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے حوالے اپنی پوسٹوں میں لگاتے رہتے ہیں ،اس لئے میں یہاں آپ کی خدمت میں انہی کی عبارت ان کے فتاوی سے پیش کرتا ہوں

9469 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

اس کتاب کا لنک اورجو پیج آپ نے لگایا ہے اس کا اگلا اور پچھلا پیج بھی لگا دیں -

 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
کیا الله روح کو لوٹاتا ہے - یا نہیں -




حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ روح جسم کی طرف لوٹائی جاتی ہے؛اب یہ کیا سوال ہے کہ اللہ روح کو لوٹاتا ہے یا نہیں؟؟؟
اللہ کے روح کو لوٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حکم پر لوٹائی جاتی ہے اور یہ بالکل برحق ہے؛کیا آپ اسے تسلیم نہیں کرتے؟؟
 
Top