- حدیث میں میت کے اٹھا کر بٹھانے کا جو ذکر ہے اسے ہم بے شک و شبہہ تسلیم کرتے ہیں لیکن بٹھانے سے دنیا کی طرح بٹھانا مراد نہیں جس کا ہم مشاہدہ کر سکیں البتہ یہ طے ہے جسم سے یہی دنیوی جسم مراد ہے؛اصل بات یہ ہے کہ ان معاملات کو دنیا کی مانند سمجھنے کی کوشش کرنا اور سمجھ نہ آنے پر انکار کر دینا ضلالت ،حماقت اور جہالت ہے۔
- یہ سب کچھ عالم برزخ میں ہوتا ہے اسے سب تسلیم کرتے ہیں؛ہم نے کب کہا ہے کہ یہ عالم دنیا میں ہوتا ہے لیکن آپ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ موجودہ دنیوی جسم اس سارے معاملے میں سرے سے شریک ہی نہیں،یہ بالکل غلط ہے؛جب احادیث میں اسی قبر اور جسم کا تذکرہ ہے اور کسی علاحدہ برزخی قبر یا جسم کی تصریح نہیں تو اس کا نکار کیوں؟؟مسئلہ پھر وہی کہ آپ مشاہدہ کو دلیل بناتے ہیں جب کہ اخبار غیب کو مشاہدہ کی بنا پر رد یا ان کی تاویل نہیں کی جاسکتی؛اتنی واضح بات آپ سمجھ نہیں رہے۔
- ایک قبر میں اگر دس افراد بھی ہوں تو بھی یہی قبر مراد ہے اور یہیں سوال و جواب ہوتے ہیں؛اس میں کیا مسئلہ ہے؟
- یہاں آپ پھر اسے دنیا پر قیاس کر رہے ہیں حالاں کہ جسم دنیوی ہونے کے باوجود معاملہ بالکل دنیوی نہیں۔
- آپ نے ابن حجر کی عبارت کو سمجھنے میں فاش غلطی کی ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ خود علم نہیں رکھتے عربی کا بل کہ کہیں اور سے نقل کرتے ہیں لیکن ڈٹے ہوئے ہیں ایک غلط بات پر؛ابن حجر کی عبارت میں ضمیر فرشتوں کی طرف کیسے ہو سکتی ہے جب کہ اس سے پہلے فرشتوں کا ذکر ہی نہیں بل کہ ذھب اصحابہ کے الفاظ ہیں کہ اس کے ساتھی پلٹتے ہیں جن کے جوتوں کی آواز وہ سنتا ہے فرشتے تو آتے ہی بعد میں ہیں اور وہ بھی دو:ملکان ،ان کے لیے جمع کی ضمیر کیسے آسکتی ہے؟؟آپ نے تو لٹیا ہی ڈبو دی میرے دوست،خدا جانے کس جاہل نے آپ کو یہ سبق پڑھایا ہے۔
- اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے بے علم لوگ گم رہی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں
- ورنہ اس مسئلے میں سرے سے کوئی اشکال ہی نہیں؛اہل سنت تمام متفق ہیں اس بات پر کہ قبر زمینی ہے ،جسم دنیوی ہے اور عذاب و ثواب دونوں کو ہوتا ہے۔
السلام علیکم و رحمت الله -
محترم - ذرا اس حدیث نبوی کو بھی پڑھ لیں -
بَابٌ : كَلاَمُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَتْلَى بَدْرٍ بَعْدَ مَوْتِهِمْ
جنگ بدر کے مردار کافروں سے ان کے مرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے متعلق
(1160) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلاَثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ ،يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا فَسَمِعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! كَيْفَ يَسْمَعُوا وَ أَنَّى يُجِيبُوا وَ قَدْ جَيَّفُوا قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَ لَكِنَّهُمْ لاَ يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:’’ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ ابن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔‘‘سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کی کہ
یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ مردود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔
اپر دی گئی حدیث نبوی سے یہ واضح ہے کہ مقتولین بدر کا سننا
ایک معجزہ نبی تھا - اور اس پر پر تمام اہل سنّت اس بات پر متفق ہیں کہ مقتولین بدر کا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا خطاب سننا ایک معجزہ تھا اور معجزہ ایک حرق عادت فعل ہوتا ہے -
اب اگر مردہ کا سننے کو ہم عمومی تسلیم کر لیں تو پھر نبی کریم صل الله علیه`علیہ و آ له وسلم کا بدر کے مقتولین سے خطاب معجزہ تسلیم نہیں کیا سکتا - بلکہ یہ ایک عام فعل تصور کیا جائے گا ؟؟؟
اور اگر اپر دی گئی `صحیح حدیث کے مطابق نبی کریم صل الله علیہ و آلہ وسلم کا مقتولین بدر سے خطاب ایک معجزہ تھا (جس کو تمام امّت مسلمہ تسیلم کرتی ہے ممکن ہے آپ سمیت) تو پھر یہ صاف ظاہر ہے کہ
مردہ کا سننا عمومی نہیں -
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہاں مردہ سے مراد انسانی مردہ جسم ہے جس سے آپ زبردستی روح کا تعلق جوڑ رہے ہیں - ظاہر ہے کہ یہ جسم بے حس حرکت قبر میں ہوتے ہیں- تبھی تو صحابہ کرام نے حیرت سے نبی کریم سے پوچھا تھا کہ "
یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔"
اگر یہ معامله عمومی ہوتا تو صحابہ کرام بشمول حضرت عمر رضی الله عنہ کو اس قسم کا سوال نبی کریم سے کرنے کی کیوں ضرورت پیش آتی؟؟ -
آپ کے جواب کا منتظر ہوں -