• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تحکیم اور تکفیریوں کی تلبیسات کا علمی محاکمہ

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
کیا طاغوت سے مدد لی جا سکتی ہے کہ نہیں اسی پر میرے خیال میں غالبا ابراھیم سلفی جن کو شہید کر دیا گیا تھا کی کتاب طاغوت کے تعاون سے ہے
بھائی کیا یہ کتاب آپ کے پاس ہے، اور کیا آپ یہ کتاب میرے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے علمی موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ میں طرفین کے موقف کو سننے کا قائل ہوں، محض جذبات میں آ کر ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ کرنا درست نہیں۔ اسی لیے مجھے جس سے بھی اختلاف ہو جائے وہ میں بیان کرتا ہوں۔

بھائی امیر حمزہ صاحب کا کام اہل بدعت اور قبوریوں کے متعلق بہت زبردست تھا، میں ان کی کتابیں بہت شوق سے پڑھی ہیں اور ان سے اقتباس بھی ٹائپ کیے ہیں، الحمدللہ، لیکن یہ ماننے کی بات ہے کہ انہوں نے اب جب سے اتحاد مسلمین کے تحت اپنی دعوت کا طریقہ کار بدلہ ہے، اب ان کی باتیں دل کو نہیں لگتیں، اور دین کی دعوت کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا بلکہ نقصان پہنچا ہے۔

باقی اوپر جو باتیں ہیں ،میں نے یہ باتیں پہلے کیں تھی جب میرا مطالعہ کچھ کمزور تھا، اب مزید مطالعہ کرنے سے کئی باتوں کا پتہ چلا ہے۔ الحمدللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے کفر پر ٹھوس دلائل کے پس منظر میں
(اگرچہ تکفیر نہ کرنے والے علماء بھی ٹھیک ہیں)


الشیخ ڈاکٹر مرتضی الہی بخش حفظہ اللہ نظر ثانی و تصحیح
محترم الشیخ ابو عمیر السلفی حفظہ اللہ

اللہ تعالی کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ کرنا دین ،ایمان اور توحید ہے دین اس لئے ہے کہ سارا دین اسلام ،اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے ہی تو ہیں اورایمان اس لئے ہے کہ اس کے بغیر ایمان نا مکمل ہے کیونکہ ایمان صرف زبان کا قول نہیں ہے کہ میں مومن ہوں بلکہ زبان کے قول و عمل اورقلب و بدن کے عمل کا مجموعہ ہے اور اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلہ کے مطابق زندگی گزارنا ہی ایمان کامل کی علامت ہے ۔اور توحید اس لئے ہے کہ توحید کی تینوں قسموں میں اس کا شمار ہوتا ہے
حکمران کے معاملے میں، جب وہ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے ،اہل قبلہ (مسلمان) تین گروہوں میں بٹ گئے :
۱۔ خوارج:
یہ وہ گروہ ہیں جو کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مسلمانوں پر کفر اکبر کا فتوی لگاتے ہیں۔ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے ۔ انکا عقیدہ ہے کہ ایسا حکمران کفر اکبر کا مرتکب ہے یعنی وہ دائرہ اسلام سے خارج اورایسے حکمران کا ایمان ہے ہی نہیں اور یہ باطل ہے ۔
محترم عبدل بھائی انتہائی معذرت کے ساتھ اپنے امیر محترم کے ایک بھائی حامد کمال الدین (جو پہلے کچھ زیادہ متشدد ہو گئے تھے اب ٹھیک ہو گئے ہیں) کی کتاب سے ایک بات لکھتا ہوں
سبحان اللہ بغیر ما انزل اللہ کو عباد اور بلاد پر (بطور شرع اور قانون) نافذ کر دینے والے کو کافر جاننا ہی تکفیری ہونا ہے تو پھر ہم دیکھیں گے کہ بڑے بڑے ائمہ سنت صاف تکفیری نکلتے ہیں

محترم بھائیو محترم ڈاکٹر مرتضی بھائی نے شروع میں تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو شرک لکھا ہے مگر نیچے خوارج کی تعریف میں اسی کو گناہ کبیرہ لکھا ہے
اصل میں وہ اوپر جس کو شرک کہنا چاہ رہے ہیں وہ دل کا عقیدہ ہے جسکی وضاحت انھوں نے نیچے جا کر کی ہے میں نے یہ وضاحت اس لئے لکھی ہے تاکہ پڑھنے والوں کو غلط فہمی نہ ہو


میرا پہلا اعتراض

محترم ڈاکٹر صاحب نے نیچے وضاحت میں تشریع عام کے مرتکب کو کافر سمجھنے والے علماء کے ایک گروہ کا ذکر کچھ ایسے کیاہے


پہلا گروہ
تشریع عام کفر اکبر ہے اس قول کی طرف شیخ محمد ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ اور شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ گئے ہیں۔



مگر اوپر خوارج کی تعریف میں لکھا ہے


حکمران کے معاملے میں، جب وہ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے ،اہل قبلہ (مسلمان) تین گروہوں میں بٹ گئے :
۱۔ خوارج:
یہ وہ گروہ ہیں جو کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مسلمانوں پر کفر اکبر کا فتوی لگاتے ہیں۔ ان کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے ۔ انکا عقیدہ ہے کہ ایسا حکمران کفر اکبر کا مرتکب ہے یعنی وہ دائرہ اسلام سے خارج اورایسے حکمران کا ایمان ہے ہی نہیں اور یہ باطل ہے ۔


اب آپ اللہ کو گواہ بنا کر بتائیں محترم ڈاکٹر صاحب ہمارے امیرِ محترم کے بھائی کے الفاظ میں دوبارہ نقل کرتا ہوں اور انصاف کی اپیل کرتا ہوں


سبحان اللہ بغیر ما انزل اللہ کو عباد اور بلاد پر (بطور شرع اور قانون) نافذ کر دینے والے کو کافر جاننا ہی تکفیری ہونا ہے تو پھر ہم دیکھیں گے کہ بڑے بڑے ائمہ سنت صاف تکفیری نکلتے ہیں
یوسف ثانی
محمد علی جواد
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بھائی کیا یہ کتاب آپ کے پاس ہے، اور کیا آپ یہ کتاب میرے ساتھ شئیر کر سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے علمی موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ میں طرفین کے موقف کو سننے کا قائل ہوں، محض جذبات میں آ کر ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ کرنا درست نہیں۔ اسی لیے مجھے جس سے بھی اختلاف ہو جائے وہ میں بیان کرتا ہوں۔
محترم بھائی کتابی صورت میں تو ہو گی مگر شئیر کرنے والی سافٹ کاپی نہیں شاہد نیٹ پر مل جائے
آپ کی دوسری بات پر عرض ہے کہ محترم بھائی ایک سچے مسلمان کو واقعی آپ جیسا ہونا چاہئے جیسا اللہ نے فرمایا کہ
الذین یستمعون القول فیتبعون احسن اولئک الذین ھداھم اللہ واولئک ھم اولو الالباب (یعنی عقل والے بات ہر ایک کی سن لیتے ہیں مگر اتباع حق بات کی کرتے ہیں)
اللہ ہم سب کو ایسا ہی بنائے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دوسرا اعتراض




۔یہ لازم مشہور شرعی قاعدہ کے خلاف ہے
''جس کا اسلام یقین سے ثابت ہو جائے اسےمحض شک کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جا سکتا'' (فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر12صفحہ نمبر466)



الشیخ ڈاکٹر مرتضی الہی بخش حفظہ اللہ
نظر ثانی و تصحیح محترم الشیخ ابو عمیر السلفی حفظہ اللہ

جب بھی کوئی حکمران فیصلہ کرتا یا قانون پاس کرتا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:
۱۔اللہ تعالی کے فیصلے کے مطابق ہوتا ہے یہی حق ہے اور یہی مقصود ہے ۔ ایسا حکمران اجر و ثواب کا مستحق ہے۔
۲۔ اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف ہو۔
اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے کے خلاف
اس کی مزید دو مختلف صورتیں ہیں:
الف ۔
اس فیصلے کو جواس (حکمران )نے نافذ کیا اور وہ فیصلہ اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف ثابت ہوا اور اس (حکمران)کا یقین و عقیدہ ہے کہ یہ فیصلہ جائز ہے (استحلال) یا اللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر وافضل ہے (تفضیل) یا اس کے برابر ہے (مساوات) یا اللہ تعالی کے نازل کردہ شریعت کو ہٹا کر اپنا فیصلہ اس کی جگہ پر ثابت کر دے اور اسے شریعت کی طرف منسوب کر دے (تبدیل) ،یہ سب صورتیں کفر اکبر کی صورتیں ہیں ۔ان کی وجہ سے فیصلہ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
ان سب صورتوں میں دوچیزوں کاخاص خیال رکھا جائے:
1- یہ سب امور اعتقادی امور ہیں جن کا تعلق دل سے ہے یعنی خوا ہ اس نے صرف یہ عقیدہ ہی رکھاجبکہ فیصلہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہی کرتا ہے تو وہ کفر اکبر کا مرتکب اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
2- چونکہ ان امور کا تعلق دل سے ہے اور دل کا حال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے لہذا کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان امور سے کسی پر کفر اکبر کا فتویٰ لگائے جب تک کہ وہ اپنی زبان سے اس کا اقرار نہ کرے یا اس کی تصریح نہ کردے۔
۵۔ عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتا ہے یعنی کسی شخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے فلاں چیز کو فلاں سے بہتر سمجھا ہے تو اسکا دل سے تعلق ہے اور دل کے احوال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے جب تک کہ وہ شخص اپنی زبان سے اقرار نہیں کرتا کہ اس نے غیر اللہ کے فیصلہ کو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے افضل سمجھا ہے اس پر کفر اکبر کا فتوی لگانا درست نہیں۔ اور اس مسئلہ کی دلیل حضرت اسامہ بن زید(رضی اللہ عنہ) کا مشہور قصہ صحیح بخاری اور مسلم میں ضروری ہے ۔جب انہوں نے ایک کافر کو کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا :
کیا تو نے اس کا سینہ کھول کے دیکھا تھا کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا؟۔۔۔۔۔۔
(بخاری،ح6872، 4269،مسلم،273)
۶۔اس لازم کے طریقے سے ایسے حکمران پر کفر اکبر کا فتوی لگانے سے دوسری لازم بات نکلتی ہے جس کے کفراکبر نہ ہونے کا اهل السنة والجماعة کااجماع ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص ،جو گھر کا سربراہ ہے اپنے گھر میں شراب خانہ کھول لیتا ہے اور اپنے ماتحت گھر والوں کو یہ کاروبار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور یہ شخص کسی کی نصیحت سننے کے لئے تیار بھی نہیں ہے تو ایسا شخص کافر (کفر اکبر) نہیں ہے بلکہ کافر (کفراصغر) اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے۔
میرا اعتراض
محترم بھائی اوپر والی باتیں اس وقت ٹھیک ہیں جب آپ کا ان سے معاملہ نہ پڑے مگر معاملہ پڑنے پر اوپر ساری باتیں غیر متعلق ٹہرتی ہیں
مثلا میں نے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے اور ایک مرد کا رشتہ آیا ہے جو بظاہر دیانتدار، غریبوں کا خیال رکھنے والا دیندار، نمازی ہے البتہ بریلوی ہے اب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق تو مجھے فورا ہاں کر دینی چاہئے کیونکہ شک تو میں کر نہیں سکتا تو میں کیا کروں گا- لازمی بات ہے کہ میں اس سے عقیدہ پوچھوں گا اب اگر وہ ٹال مٹول سے کام لے اور جواب نہ دے تو پھر آپ کا کیا حکم ہے کہ میں شک نہ کروں- اصل میں تو اس کا اقرار لازمی چاہئے
اسی طرح کفر بواح کے مرتکب حکمران کی اطاعت لازمی نہیں مگر ظالم فاسق کی اطاعت لازمی ہے تو پھر ہمیں اس کے فیصلے کے لئے اس سے کفر بواح کا انکار کروانا لازمی ہے
مثلا مجھے شک ہے کہ ایک قصائی مردار کا گوشت بیچتا ہے میں اسکے پاس جب جا کر پوچھتا ہوں کہ تم مردار کا گوشت بیچتے ہو تو وہ انکار کی بجائے ٹال جاتا ہے اور جواب ہی نہیں دیتا تو پھر مھی میں کیا لوگوں کو کہوں گا کہ اس سے گوشت خریدو یہ صرف شک ہے
محترم بھائی انتہائی معذرت کہ میرا دل کسی دوسرے کو ایسی غلط دلیل سے قائل نہیں کرنا چاہتا کہ جس میں میں آگے لا جواب ہو جاؤں پس اسامہ رضی اللہ عنہ کے معاملے میں تکفیریوں نے ہمیں غالبا مرجیءۃ العصر کتاب میں لاجواب کیا ہوا ہے-لیکن محترم بھائی الحمد للہ میں نے یہ دیکھا ہے کہ دوسرے میرے بھائی جن تکفیریوں سے پاکستان میں جہاد جائز نہ ہونا نہیں منوا سکے وہ میں نے دلائل سے منوا لیا ہے کیونکہ میں انکی جائز دلیل رد نہیں کرتا تو وہ بھی میری جائز دلیل رد نہیں کرتے پس اسامہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ قیاس مع الفارق کا ہے کیونکہ اس میں ایسا تعامل نہیں تھا جس پر ٹال مٹول کرتا تو جب اس کا کوئی عمل ابھی خلاف قول سامنے ہی نہیں آیا تھا تو پھر تو لازمی ہمیں اسکے وقل پر ہی اعتبار کرنا تھا اگر آپ اسامہ کے واقعے پر اسکو قیاس کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسامہ رضی اللہ عنہ کے واقعے کو تھوڑا سا تبدیل کریں کہ مقتول منہ سے اسلام کا اقرار کر رہا تھا اور عملی طور پر باقی صحابہ کو شہید بھی ساتھ ساتھ کیے جا رہا تھا تو پھر اسامہ رضی اللہ عنہ کا رد عمل کیا ہوتا کیا اس وقت اسامہ رضی اللہ عنہ اسکے قول پر یقین کرتے-
محترم بھائی پس اسلام میں اوپر کے پس منظر میں قول یا عمل کو دیکھنے کے لئے مندرجہ ذیل صورتیں ہیں
1-اگلے انسان کا صرف قول موجود ہو اور عمل نہ ہو مگر ہمیں کوئی اس سے معاملہ نہ پڑا ہو جس سے اقرار بھی لازمی آتا ہو جیسے اسامہ رضی اللہ عنہ والا واقعہ
2-اگلے انسان کا صرف قول موجود ہو اور عمل نہ ہو مگر ہمیں کوئی معاملہ پڑ گیا ہو جس سے قول یا عمل کو دیکھنا لازمی آتا ہو جیسے اسامہ رضی اللہ عنہ کا دوسرا فرضی واقعہ یا قصایہ والا واقعہ
اصلاح کی درخواست ہے
خضر حیات
محمد علی جواد
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425

الشیخ ڈاکٹر مرتضی الہی بخش حفظہ اللہ
نظر ثانی و تصحیح
محترم الشیخ ابو عمیر السلفی حفظہ اللہ

۷۔ یہ لازم بات درست نہیں ہے اسی لیے علامہ محمد بن صالح العثیمین (رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
ان کا پہلا قول ،وہ فرماتے ہیں :
’’کیونکہ جس نے ایسا قانون نافذ کیا ،جو اسلامی شریعت کے خلاف ہے تو اس شخص نے صرف اس لئے ایسا کیا کہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قانون جو اس نے نافذ کیا ،اسلام سے بہتر ہے اور لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے‘‘
(فتاوی ابن العثیمین جلد نمبر 2صفحہ نمبر143)
ان کا دوسرا قول کہ جس میں انہوں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کیا ،وہ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی حکمران قانون نافذ کرے اور اسے دستور بنا دے جس پر لوگ چلتے رہیں اور اس کایہ عقیدہ ہے کہ وہ اس میں ظالم ہے اور حق تو قرآن وسنت میں ہے تو ہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہہ سکتے کافر تو صرف وہ ہے جو غیر اللہ کے فیصلے کو بہتر سمجھے یا اللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے۔‘‘
یہ فتوی( التحذیر فی مسئلہ التکفیر) کیسٹ میں موجود ہے اور اس فتوی کی تاریخ 22/03/1420ھ ہے جیسا کہ اس کیسٹ کےشروع میں بیان کیا گیاہے اورکتابی شکل میں بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔
تیسرا اعتراض

محترم بھائی اوپر رجوع والے قول میں لکھا ہے
حکمران قانون نافذ کرے اور اسے دستور بنا دے مگر اسکا یہ عقیدہ ہو کہ وہ اس دستور نافذ کرنے میں ظالم ہے تو وہ کافر نہیں ہو گا
اب محترم بھائی آپ دیکھیں کہ کچھ شیوخ مثلا امین اللہ حفظہ اللہ نے جن کو تحکیم کی وجہ سے کافر کہا ہے وہ قانون نافذ کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسا کرنے میں ظالم ہیں
پس محترم بھائی میں آپ سے زبردستی حکمرانوں کی تکفیر نہیں کروانا چاہتا کیوں کہ یہ خارجی سوچ ہے اور میں اس کے سخت خلاف ہوں اسی لئے میں ایسے حکمرانوں کا معاملہ اصلی کافروں والا قطعی نہیں سمجھتا جیسا کہ اصلی کافر مثلا ہندو یا مرزئی وغیرہ ہیں
مگر میری جماعت کے جن شیوخ کے پاس انکی تکفیر کے ٹھوس دلائل ہیں انکو تکفیر سے منع کرنے کو بھی شاہد خارجی سوچ کہ سکتے ہیں
اللہ ہمیں حق پر چلنے کی توفیق دے امین
 
Top