• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تحکیم اور تکفیریوں کی تلبیسات کا علمی محاکمہ

شمولیت
نومبر 07، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
0
لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
میں نے کہا تھا نا کہ میں آپ سے آپ کی قابلیت نہیں پوچھو گا، وہ خود سب پر عیاں ہوجائے گی۔
اور بحمد اللہ ویسا ہی ہوا۔
کیا کمال "سازش" تراشی ہے۔
جناب ، جو اللہ کے حلال کردہ کو حرام کرے اور حرام کردہ کو حلال کرے تو اسے تبدیل کہتے ہیں۔اور پھر وہ اسے اللہ کی جانب منسوب بھی کر دے ، جیسا تاتاریوں نے "الیاسق" کے معاملے میں کیا تو یہ کفر و ارتداد ہے۔

اگر آپ کے "فہم لاثانی" میں جبرا فٹ کیا گیاہی آیا ہے، تو معذرت کے ساتھ اس میں جو الشیخ اسلام رحمہ اللہ کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے وہ "تبدیل" ہے۔

خوب جان لیں۔​
آپ کی سیاہ تحریروں سے آپ کے گمراہ کن نظریات کا اندازہ تو پہلے ہی ہوگیا تھا مگر آپ کا انداز بیان تو آپ کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

گویا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام آپ کے تحریف کردہ "اللہ کی طرف منسوب بھی کرے" والے مکروہ قاعدے کے قائل نہیں ہیں!!!

اگر اللہ کی شریعت کو تبدیل کرکے اسے اللہ کی طرف منسوب بھی کرنے والی بات شیخ الاسلام کی طرف منسوب نہیں کی تو پھر اس اللہ کی طرف منسوب بھی کرنے والی ڈنڈی کی دلیل کیا ہے؟


خوب جان لیں۔​
آپ کے مکروہ عظائم اور بے علمی نما علمی خیانتوں کو ہم نے خوب جان بھی لیا ہے اور پہچان بھی لیا ہے۔
وللہ الحمد!
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
ابتسامہ:

آپ کی سیاہ تحریروں سے آپ کے گمراہ کن نظریات کا اندازہ تو پہلے ہی ہوگیا تھا مگر آپ کا انداز بیان تو آپ کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس لئے تو ہم نے آپ کو شروع میں ہی "مفتا" کا لقب عطا کر دیا تھا۔

گویا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام آپ کے تحریف کردہ "اللہ کی طرف منسوب بھی کرے" والے مکروہ قاعدے کے قائل نہیں ہیں!!!
جب اللہ کی حرام کو حلال قرار دینا اور حلال کو حرام قرار دینا ہی کفر اکبر ہے تو آگے منسوب کرنے یا نہ کرنے والی "سازش" کی ضرورت ہی نہیں۔
مگر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کا پتا عمل سے نہیں عقیدہ سے لگے گا ۔ شکریہ

اگر اللہ کی شریعت کو تبدیل کرکے اسے اللہ کی طرف منسوب بھی کرنے والی بات شیخ الاسلام کی طرف منسوب نہیں کی تو پھر اس اللہ کی طرف منسوب بھی کرنے والی ڈنڈی کی دلیل کیا ہے؟
جب ڈنڈی ماری نہیں تو دلیل کیسی مفتا صاحب؟

آپ کے مکروہ عظائم اور بے علمی نما علمی خیانتوں کو ہم نے خوب جان بھی لیا ہے اور پہچان بھی لیا ہے۔
آپکا رویہ تو اسی بات کا گماز ہے کہ آپ نے فور، جوائن ہی میرے لیا کیا ہے؟ ھھھھھ
جی جی ، میں کاروبار شر کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہوں اس لئے ، اس روڑے پھنکنے والے کو جاننا اور پہچاننا آپ کے لئے اشد ضروری ہے۔
 
شمولیت
نومبر 07، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
0
ابتسامہ:
جب اللہ کی حرام کو حلال قرار دینا اور حلال کو حرام قرار دینا ہی کفر اکبر ہے تو آگے منسوب کرنے یا نہ کرنے والی "سازش" کی ضرورت ہی نہیں۔
مگر حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے کا پتا عمل سے نہیں عقیدہ سے لگے گا ۔
اور چونکہ عقیدہ دل کا معاملہ ہے اور اس کا پتہ کبھی چل ہی نہیں سکتا لحاظہ تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند! اس طرح عبداللہ عبدل اور اس کے ساتھیوں کا منصوبہ کامیاب! ملوک بھی خوش، حکام بھی خوش اور عبداللہ عبدل بھی خوش۔ لگتا ہے آپ کا بھی کفریہ قوانین نافذ کرنے والوں سے دل کا معاملہ ہے۔

سچ کہا کسی نے دين المرجئة الدين الذى يفرح به الملوك یعنی مرجئیہ کا دین وہ دین ہے جس سے ملوک (حکام) خوش ہوتے ہیں۔
 

توحید

مبتدی
شمولیت
نومبر 25، 2012
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
13
اور چونکہ عقیدہ دل کا معاملہ ہے اور اس کا پتہ کبھی چل ہی نہیں سکتا لحاظہ تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند! اس طرح عبداللہ عبدل اور اس کے ساتھیوں کا منصوبہ کامیاب! ملوک بھی خوش، حکام بھی خوش اور عبداللہ عبدل بھی خوش۔ لگتا ہے آپ کا بھی کفریہ قوانین نافذ کرنے والوں سے دل کا معاملہ ہے۔
سچ کہا کسی نے دين المرجئة الدين الذى يفرح به الملوك یعنی مرجئیہ کا دین وہ دین ہے جس سے ملوک (حکام) خوش ہوتے ہیں۔
معذرت کے ساتھ! اور جب تکفیر کا دروازہ بند ہوجائے تو پھر اسلامی معاشرے میں ایسے لوگوں کا وجود بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے:آپ بھی اس حقیقت حال والی ویڈیوں سے محفوظ ہوں اور عبرت حاصل کریں جیسا کہ میں نے اس ویڈیو کو دیکھ کر سناٹے میں آگیا ہوں، یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے، یہ کیسا اسلام ہے،یہ شخص کیا کہہ رہا ہے۔ میں تو حیران ہوں:آپ بھی حیران ہو یہ دیڈیو کسی سعید گجر نامی کے بارے میں ہے ، اس ویڈیو کا عنوان ہے :
سعید گجر ایک نیا روپ اور وہ بھی حقیت !
ویڈیو دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کر ویڈیو دیکھیں
‫طاغوتی نظام سے فیصلہ کرنے والا سعید گجر | Facebook‬طاغوتی نظام سے فیصلہ کرنے والا سعید گجر​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جماعت الدعوۃ واقعی ایک فلاحی تنظیم ہے اور اس تنظیم میں جو مسلکا اہلحدیث ہے میں موجود علماء نے بہت اچھی کتابیں بھی لکھی ہیں، جیسے "شاہراہ بہشت" اور "آسمانی جنت اور درباری جہنم" وغیرہ
لیکن جب سے ان علماء اور اس تنظیم کے سربراہ نے چند ایسے کام کیے ہیں کہ میرا دل بھی بہت کٹھا ہو گیا ہے۔ جیسے:
امیر حمزہ صاحب کا "گدی نشینو کے جھرمٹ میں" کالم لکھنا
اپنی مجالس میں قبر پرست علماء کو دعوت دینا۔
میں نے کہیں ایک واقعہ پڑھا ہے کہ ایک بار جماعت الدعوۃ میں اپنی ایک تقریب میں "حافط صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ" کو دعوت دی اور اس تقریب میں قبر پرست اور مشرک علماء کو بھی مدعو کیا ہوا تھا،تو ایک قبر پرست مولوی نے اپنے شرکیہ انداز سے تقریر شروع کی، اور پھر جب حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی باری آئی تو انہوں نے اس تقریب کا صاف بائیکاٹ کر دیا جس پر بعد میں جماعت الدعوۃ کے علماء کو شرمندگی کے ساتھ معذرت کرنا پڑی۔
اور حافظ سعید صاحب کے اس قسم کے بیانات۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے آمین
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
کوئی بھی شخص تب تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ طاغوت سے کفر نہ کرے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَمَن يَكْفُرْ‌ بِٱلطَّـٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْ‌وَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٥٦﴾۔۔۔ البقرۃ
غور کیجئے کوئی بھی شخص مومن تب ہوا جب اس نے دو کام کیے۔ (1) طاغوت سے کفر (2) اللہ پر ایمان
پہلے طاغوت سے کفر ذکر کیا گیا ہے،کیونکہ اگر کوئی طاغوت سے کفر کیے بغیر اللہ پر ایمان رکھے تو اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں،اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،لہذا اسلام کے ماننے والوں کو ہرگز یہ زیبا نہیں کہ وہ اپنے روشن دین کو چھوڑ کر تاریک تر طاغوت سے فیصلے کروائیں اور طاغوت بھی ایسا جو مسلمانوں کا ازلی دشمن اور مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار ہے۔
 
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
0
توحید حضرت کی ملفوظات:
سعید گجر ایک نیا روپ اور وہ بھی حقیت !
ویڈیو دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کر ویڈیو دیکھیں
‫طاغوتی نظام سے فیصلہ کرنے والا سعید گجر | Facebook‬طاغوتی نظام سے فیصلہ کرنے والا سعید گجر
انا اللہ و انا الیہ راجعون
حافظ صاحب کے ان الفاظ پر نہ تو کسی عالم نے تکفیر کی ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے قابل تاویل الفاظ ہیں ۔ ذو دمعنی اور محتمل الفاظ پر سلف امت تکفیر نہیں کرتے ۔ جبکہ حافظ صاحب نے میں گزارش کر چکا ہوں خاص معنوں میں کہا ہے کہہ ان پر جو مقدمہ یا الزام لگایا گیا ہے اس بارے میں ان نے کہا ہے کہ عالمی قوانین اور پاکستانی قوانین کو میں تسلیم کرتا ہوں ۔مطلب یہی کہ وہ مجھے انصاف دیں گے ۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں شریعت اپنا حق لینے کی خاطر ان عدالتوں میں فیصلہ کروانے کی اجازت دیتی ہے ۔ یہ بہرحال فراسانی میڈیا کا ڈھونگ ہے۔ اور ان کو کسی کی مخالفت میں آ کر حق سے ہٹی ہوئی بات نہیں کرنی چاہیے ۔ تکفیر بڑا نازک مسئلہ ہے ۔
 

توحید

مبتدی
شمولیت
نومبر 25، 2012
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
13
شکاری بھیا متوجہ ہوں

توحید حضرت کی ملفوظات:
انا اللہ و انا الیہ راجعون
حافظ صاحب کے ان الفاظ پر نہ تو کسی عالم نے تکفیر کی ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے قابل تاویل الفاظ ہیں ۔ ذو دمعنی اور محتمل الفاظ پر سلف امت تکفیر نہیں کرتے ۔ جبکہ حافظ صاحب نے میں گزارش کر چکا ہوں خاص معنوں میں کہا ہے کہہ ان پر جو مقدمہ یا الزام لگایا گیا ہے اس بارے میں ان نے کہا ہے کہ عالمی قوانین اور پاکستانی قوانین کو میں تسلیم کرتا ہوں ۔مطلب یہی کہ وہ مجھے انصاف دیں گے ۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں شریعت اپنا حق لینے کی خاطر ان عدالتوں میں فیصلہ کروانے کی اجازت دیتی ہے ۔ یہ بہرحال فراسانی میڈیا کا ڈھونگ ہے۔ اور ان کو کسی کی مخالفت میں آ کر حق سے ہٹی ہوئی بات نہیں کرنی چاہیے ۔ تکفیر بڑا نازک مسئلہ ہے ۔
شکاری بھیا آپ تو ناراض ہوگئے ہم نے یہ پوسٹ جس پر آپ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اس کو فیس بک پر دیکھا تھا۔ تو ہم بہت حیران ہوئے اس ویڈیو کو دیکھ، تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس ویڈیو کے متعلق محدث فورم پر گفتگو کرکے دیکھتے ہیں وہاں سے کیا جواب آتا ہے ۔ بس یہ وجہ تھی اس کو پوسٹ کرنے کی۔ لیکن جب ہم نے ایک اور فورم کو وزٹ کیا تو ہمیں وہاں سے بھی کچھ معلومات کا حصول ہوا میں وہ یہاں شئیر کیے دیتا ہوں تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے اور اس میں کسی بھی قسم کا ابہام نہ رہے۔کیونکہ عبداللہ عبدل بھائی جو اس معاملے میں جواب دینے میں کافی مہارت رکھتے ہیں کافی عرصے سے غائب ہیں۔ تو اس لیے میں ان سے بھی معلوم نہ کرسکا۔
بھائیو! میں کافی عرصے کے بعد فورم پر آیا ہوں۔
جو بحث چل رہی ہے، اس کا مجھے علم نہیں۔لیکن جماعۃ الدعوۃ اور حافظ سعید کے بارے میں میرا ذاتی موقف یہ ہے۔

جماعۃ الدعوۃ تنظیم ایک قابل رحم تنظیم ہے، جس کا نہ سر ہے اور نہ پاؤں۔ اس تنظیم کا کوئی دین وایمان نہیں ہے۔
ایک ہی وقت میں امریکہ کے حامی ہونے، اس کے کفری نظام کو تسلیم کرنے کے بارے میں بیانات دیتی ہے اور دوسری طرف نجی محفلوں میں امریکہ مخالف بیانات دیکر مقامی حلقے واحباب کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم امریکہ کے خلاف ہیں۔ہم امریکہ کے خلاف جہاد کی حمایت کرتے ہیں۔

اس تنظیم کا کشمیر کے مسئلے پر بھی یہی حال ہے ۔ نجی محفلوں میں ہم مجاہدین کشمیر روانہ کرتے ہیں۔ بمبئی حملے ہم نے کیے ہیں۔ لیکن دنیا کے سامنے اور میڈیا کو یہ تنظیم یہ بیانات دیتی ہے ہم کشمیر کے مظلوموں کی حمایت کرتے ہیں۔کشمیر میں ہم جہاد نہیں کررہے اوروہاں جہاد کرنے والے مجاہدین سے ہمارا تعلق نہیں ہے ۔ ہم پاکستان میں صرف فلاح اور انسانیت کا کام کررہے ہیں۔

یہی حال پاکستانی حکومت کے بارے میں ہے۔ کبھی یہ بیانات دیتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کا نظام غیر اسلامی ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ پاکستانی حکمران منافق ہیں۔ کبھی کہتے ہیں پاکستانی حکمران کلمہ گو ہونے کی وجہ سے ہمارے بھائی ہیں۔ کبھی کہتے ہیں حکمرانوں کی کچھ مجبوریاں ہیں اور ان پر امریکہ کا دباؤ ہیں جس کی وجہ سے وہ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔

الغرض اس جماعت کا کوئی دین وایمان نہیں ہے۔ بس جیسا معاملہ آیا، ویسا ہی روپ دھار لیا۔

اس حالت میں اس تنظیم پر یہی حکم لگے گا کہ یہ تنظیم قرآن وحدیث کے بتائے ہوئے سیدھے راہ سے ہٹی ہوئی ہے۔ ہم اس تنظیم میں شامل کسی فرد پر کفر کا عمومی طور پر حکم نہیں لگاسکتے الا یہ کہ وہ شخص خود ہی ایسے جرم کا مرتکب ہو جو اسے اسلام سے خارج کردیتا ہوں۔ مثال کے طور پر کسی مجاہد کی مخبری کرنا یا کسی مسلمان کو ایجنسیوں اور امریکہ کو پکڑوانے میں مدد کرنا جیساکہ لشکر طیبہ کے افراد نے عرب مجاہدین کو فیصل آباد اور لاہور وکراچی سے پکڑوانے میں مدد کی۔ تو یہ افراد کفار کی مسلمانوں کیخلاف مدد کرنے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہوئے ہیں اور صرف ان جاسوسوں اور مخبروں کا کافر کہنے کی شریعت نے اجازت دی ہے اور ان کا خون حلال ہیں۔

اسی طرح جماعہ الدعوۃ کی مرکزی قیادت اور حافظ سعید کے ساتھ مجاہدین اور ان کے مددگاروں کیخلاف مدد کرنے والا شخص بھی اس حکم کے تحت کافر ہوجائے گا۔ وہ اس طرح کہ اس جماعت سے وابستہ وہ افراد جو آج کل اپنے محلوں میں موجود ان افراد کے بارے میں اپنی تنظیم کی مرکزی قیادت کو معلومات فراہم کرتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں فلاں شخص ہے جو القاعدہ وطالبان مجاہدین جیسا ذہن رکھتا ہے۔ اب جماعۃ الدعوۃ کا جو فرد یا مسئول بھی حافظ سعیدیا اس کے چیلوں کو یہ معلومات فراہم کریں گا تو حافظ سعید نے یہ نہیں کرنا کہ جاکر اس آدمی کو سمجھائے یا اس سے بات کریں بلکہ سیدھا ایجنسیوں کو معلومات فراہم کرنی ہے کہ فلاں علاقے میں فلاں شخص ہے جس کا القاعدہ وطالبان سے تعلق ہے، اسے گرفتار کرکے لیجاؤں۔

ایسے بیسیوں واقعات ہیں، جن میں چند مقامی مسلمانوں نے جماعۃ الدعوۃ کی مسجد یا محلے میں مخالفت کی تو انہیں جماعۃ الدعوۃ سے منسلک مقامی افراد نے اپنی قیادت کو ان کے بارے میں آگاہ کیا اور ان کی قیادت نے آگے ایجنسیوں کو کہہ کر انہیں اٹھوالیا جن کا کئی سال گزرجانے کے باوجود پتہ نہیں چلا۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے آئی ایس آئی کی مقامی ملیشیا جماعۃ الدعوۃ کی چند معاملات میں مخالفت کا اظہار کیا تھا۔
تو جماعۃ الدعوۃ کے مخالف موجود مقامی مسلمانوں کے بارے میں جو بھی جماعۃ الدعوۃ کی مرکزی قیادت کو آگاہ کرے گا تو وہ بھی مسلمانوں کیخلاف جاسوسی اور مخبری کرنے والے کے ضمن میں آئے گا اور اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو ایک جاسوس اور مخبر کا ہوتا ہے۔

اب آتے ہیں اس جماعت کی مرکزی قیادت پر حکم لگانے کی طرف تو اس تنظیم کا کوئی سر ہے، نہ پاؤں بلکہ اس تنظیم میں فرد واحد کا ہی سب کچھ کیا دھرا ہوتا ہے اور وہ فرد واحد حافظ سعید ہے۔
اب حافظ سعید پر حکم لگانے سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ اس تنظیم کو کس نے بنایا؟ کن مقاصد کے لیے بنایا؟ یہ تنظیم کن کیخلاف کام کررہی ہے؟ اس تنظیم کی سرگرمیاں سے اسلام کو فائدہ پہنچ رہا ہے یا کفر ؟
اس طرح کے تمام سوالات کے جوابات جماعۃ الدعوۃ کے خلاف ہی جاتے ہیں اور اس کے اتنے ثبوت ہیں کے کوئی اسے رد نہیں کرسکتا۔
اب علماء نے صرف ایک حالت میں کچھ گنجائش رکھی ہے کہ کفری نظام کو کافر مانتے ہوئے جبرا واکراہا اس کفری نظام کے قوانین کو تسلیم کرنے اور اس کی عدالتوں سے فیصلہ کرانے والا شخص کافر نہیں ہے ۔ البتہ گناہگار اور فاسق ہے۔
اس کے علاوہ کوئی صورت بچاؤ کی نہیں نکلتی ۔

میں اس مسئلے کو سمجھانے اور جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان کو اپنی بات کا قائل کرنے کے لیے سعودیہ کے سرکاری عالم دین علامہ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ کا فتوی نقل کرتا ہوں ،جو انہوں نے ’’کتاب التوحید‘‘ کی شرح میں لکھا ہے۔ اس فتوی کی رو سے حافظ سعید کافر ہوجاتا ہے۔
اقتباس:
فضيلة الشيخ العلامة صالح بن عبد العزيز آل الشيخ في شرحه على "كتاب التوحيد": في باب قول تعالى: الم تر إلى الذين يزعمون أنهم آمنوا بما أنزل اليك وما أنزل من قبلك يريدون أن يتحاكموا إلى الطاغوت الآيات

"هذه المسألة وهي مسألة التحاكم إلى غير شرع الله من المسائل التي يقع فيها خلط كثير خاصة عند الشباب؛ وذلك في هذه البلاد وفي غيرها، وهي من أسباب تفرّق المسلمين؛ لأن نظر الناس فيها لم يكن واحدا.
والواجب أن يتحرّ طالب العلم ما دلت عليه الأدلة وما بيَّن العلماء من معاني تلك الأدلة وما فقهوه من أصول الشرع والتوحيد وما بينوه في تلك المسائل.
ومن أوجه الخلط في ذلك أنهم جعلوا المسألة في مسألة الحكم والتحاكم واحدة؛ يعني جعلوها صورة واحدة، وهي متعددة الصور:
فمِن صورها أن يكون هناك تشريع لتقنين مستقل يضاهى به حكم الله جل وعلا؛ يعني قانون مستقل يشرَّع، هذا التقنين من حيث وَضْعُه كفر، والواضع له -يعني المشرِّع، والسَّان لذلك، وجاعل هذا التشريع منسوبا إليه- وهو الذي حكم بهذه الأحكام، هذا المشرِّع كافر، وكفره ظاهر؛ لأنه جعل نفسه طاغوتا فدعا الناس إلى عبادته وهو راض -عبادة الطاعة-.
وهناك من يحكم بهذا التقنين، هذه الحالة الثانية.
·فالمشرِّع حالة.
·ومن يحكم بذلك التشريع حالة.
·ومن يتحاكم إليه حالة.
·ومن يجعله في بلده -من جهة الدول- هذه حالة رابعة.
وصارت عندنا الأحوال أربعة.
المشرِّع ومن أطاعه في جعل الحلال حراما والحرام حلالا ومناقضة شرع الله هذا كافر، ومن أطاعه في ذلك فقد اتخذه ربا من دون الله.
والحاكم بذلك التشريع فيه تفصيل:
�فإن حكم مرة أو مرتين أو أكثر من ذلك، ولم يكن ذلك ديدنا له، وهو يعلم أنه عاص؛ يعني من جهة القاضي الذي حكم يعلم أنه عاص وحكم بغير شرع الله، فهذا له حكم أمثاله من أهل الذنوب، ولا يكفَّر حتى يستحل، ولهذا تجد أن بعض أهل العلم يقول: الحكم بغير شرع الله لا يكفر به إلا إذا استحل. فهذا صحيح؛ ولكن لا تنزل هذه الحالة على حالة التقنين والتشريع، فالحاكم كما قال ابن عباس: كفر دون كفر ليس الذي يذهبون إليه، هو كفر دون كفر؛ يعني من حكم في مسألة، أو في مسألتين بهواه بغير شرع الله، وهو يعلم أنه عاص ولم يستحل، هذا كفر دون كفر.
‚أما الحاكم الذي لا يحكم بشرع الله بتاتا، ويحكم دائما ويلزم الناس بغير شرع الله، فهذا:
µ من أهل العلم من قال يكفر مطلقا ككفر الذي سنّ القانون؛ لأن الله جل وعلا قال (يريدون أن يتحاكموا إلى الطاغوت) فجعل الذي يحكم بغير شرع الله مطلقا جعله طاغوتا، وقال (" وقد أمروا أن يكفروا به).
µومن أهل العلم من قال: حتى هذا النوع لا يكفر حتى يستحل؛ لأنه قد يعمل ذلك ويحكم وهو في نفسه عاصي، فله حكم أمثاله من المدمنين على المعصية الذين لم يتوبوا منها.
والقول الأول من أن الذي يحكم دائما بغير شرع الله ويُلزم الناس بغير شرع الله أنه كافر هو الصحيح عندي، وهو قول الجد الشيخ محمد بن إبراهيم رحمه الله في رسالة تحكيم القوانين؛ لأنه لا يصدر في الواقع من قلبٍ قد كفر بالطاغوت؛ بل لا يصدر إلا ممن عظّم القانون وعظم الحكم بالقانون.
الحال الثالثة حال المتحاكم, الحالة الأولى -ذكرنا- حال المشرِّع، الحال الثاني حال الحاكم.
ƒ الحال الثالثة حال المتحاكم؛ يعني الذي يذهب هو وخصمه ويتحاكمون إلى قانون، فهذا فيه تفصيل أيضا وهو:
µإن كان يريد التحاكم له رغبة في ذلك ويرى أن الحكم بذلك سائغ وهو يريد أن يتحاكم إلى الطاغوت ولا يكره ذلك، فهذا كافر أيضا؛ لأنه داخل في هذه الآية، ولا يجتمع ذلك كما قال العلماء إرادة التحاكم إلى الطاغوت مع الإيمان بالله؛ بل هذا ينفي هذا والله جل وعلا قال الم تر إلى الذين يزعمون ).
µالحالة الثانية أنه لا يريد التحاكم؛ ولكنه حاكم إما بإجباره على ذلك كما يحصل في البلاد الأخرى أنه يجبر أن يحضر مع خصمه إلى قاض يحكم بالقانون، أو أنه علم أن الحق له في الشرع، فرفع الأمر إلى القاضي في القانون لعلمه أنه يوافق حكم الشرع، فهذا الذي رفع أمره في الدعوة على خصمه إلى قاض قانوني لعلمه أن الشرع يعطيه حقه وأن القانون وافق الشرع في ذلك:
·فهذا الأصح أيضا عندي أنه جائز.
·وبعض أهل العلم يقول يشركه ولو كان الحق له.
والله جل وعلا وصف المنافقين بقوله ﴿وَإِن يَّكُنْ لَهُم الحَقّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ﴾[النور:49]، فالذي يرى أن الحق ثبت له في الشرع وما أجاز لنفسه أن يترافع إلى غير الشرع إلا لأنه يأتيه ما جعله الله جل وعلا له مشروعا، فهذا لا يدخل في إرادة التحاكم إلى الطاغوت، فهو كاره ولكنه حاكم إلى الشرع، فعلم أن الشرع يحكم له فجعل الحكم الذي عند القانوني جعله وسيلة لإيصال الحق الذي ثبت له شرعا إليه.
هذه ثلاث أحوال.
„ الحال الرابع حال الدولة التي تحكم بغير الشرع؛ تحكم بالقانون, الدول التي تحكم بالقانون أيضا بحسب كلام الشيخ محمد بن إبراهيم وتفصيل الكلام في هذه المسألة في فتاويه قال أو مقتضى كلامه وحاصله: أن الكفر بالقانون فرض، وأن تحكيم القانون في الدول:
·إن كان خفيا نادرا فالأرض أرض إسلام؛ يعني الدولة دولة إسلام، فيكون له حكم أمثاله من الشِّركيات التي تكون له في الأرض.
·قال: إن كان ظاهرا فاشيا فالدار دار كفر؛ يعني الدولة دولة كفر.
فيصبح الحكم على الدولة راجع إلى هذا التفصيل:
·إن كان تحكيم القانون قليلا وخفيا، فهذا لها حكم أمثاله من الدول الظالمة أو التي لها ذنوب وعصيان، وظهور أو وجود بعض الشركيات في دولتها.
·وإن كان ظاهرا فاشيا -الظهور يضاده الخفاء والفشو يضاده القلة- قال: فالدار دار كفر.
وهذا التفصيل هو الصحيح؛ لأننا نعلم أنه في دول الإسلام صار هناك تشريعات غير موافقة لشرع الله جل وعلا، والعلماء في الأزمنة الأولى ما حكموا على الدار بأنها دار كفر ولا على تلك الدول بأنها دول كفرية؛ ذلك لأن الشرك له أثر على الدار -إذا قلنا الدار يعني الدولة- فمتى كان ظاهرا فاشيا فالدولة دولة كفر، ومتى كان قليلا ظاهرا وينكر فالأرض أرض إسلام والدار دار إسلام، وبالتالي فالدولة دولة إسلام.
اس فتوی میں انہوں نے چار حالتیں بیان کیں ہیں، اس شخص کی جو غیر اسلامی قوانین اور نظام کو مانتا ہے اور ان سے فیصلہ کراتا ہے۔
پہلی تین حالتوں کے مرتکب کو کافر قرار دیا ہے۔ چوتھی حالت والے کو گنہگار قرار دیا ہے۔

اب حافظ سعید کی ان چار حالتوں میں رکھ کر جائزہ لیا جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ حافظ سعید تیسری حالت کے دائرے میں آتا ہے اور تیسری حالت والا شخص سعودی حکومت کے مفتی کے مطابق کافر ہے کیونکہ اس نے خود ہی کفری قوانین کو تسلیم کیا اور ان سے فیصلہ کرانے پر اپنی رغبت ورضامندی کا اظہار کیا۔
یہاں حافظ سعید کی حالت دیکھیں کہ وہ ان کفری قوانین اور نظام کو مانتے وقت الحمدللہ کہہ رہا ہے، جو اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ وہ مجبوری اور دل سے اس نظام کو کافر مانتے ہوئے ان عدالتوںسے فیصلہ کرانے کی بات نہیں کررہا بلکہ الحمدللہ کہہ کر اس بات پر مہر لگارہا ہے کہ وہ اپنے دل سے ان کفری قوانین کو تسلیم کرتا ہے اور ان سے ان کے فیصلے صحیح ہونے پر اس قدر اندھا دہند اعتماد ہیں کہ وہ ان عدالتوں اور قوانین کی روسے فیصلے کرانے کا چیلنج دیتے ہوئےان سے فیصلے کرانے کی اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔
یہ تو تھا حافظ سعید کا ظاہری کفر جس کا اعتراف وہ اپنی زبان سے کرتا ہے اور جس کے بارے میں خود سرکاری وغیر سرکاری عرب علماء کا فتوی ہے کہ وہ کافر ہوجاتا ہے۔
لیکن حافظ سعید کی دوسری سرگرمیاں: مجاہدین کیخلاف فکری جنگ لڑنا، اسلامی نظام کے نفاذکی بات کرنے والوں کو تکفیری اور خارجی قرار دیکر ان کی بیخ کنی کے لیے کوشاں رہنا، القاعدہ وطالبان مجاہدین کی محلے وعلاقوں کی سطح پر اپنے کارکنان سے جاسوسیاں کرانا، عر ب مجاہدین کو گرفتار کرانے میں مددکرنااور ان کے اموال کو لوٹنا، اسلام کے سب سے بڑے دشمن امریکہ اور اس کے اتحادی ناپاک فوج وحکومت کیخلاف اٹھنے والی ہر اسلامی تحریک اور عوامی جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں رہنا، امریکہ کی صلیبی جنگ میں معاونت کرنے والی ناپاک فوج کو ہر سطح پر مجاہدین کیخلاف تعاون فراہم کرنا اور کسی بھی معاملے میں ان کی حد الامکان مدد کرنا ، اسلامی عقیدے کی روح کو پاکستانی عوام سے ختم کرنا اور ان کے دلوں سے اسلامی غیرت وحمیت کا جنازہ نکا ل کر وطنیت پرستی کو کوٹ کوٹ کر بھرنا۔نیز جہاد ومجاہدین سے متنفر کرنے کے لیے ہر سطح پر جدوجہد کرنا اور جھوٹ کا سہارا لیکر جہاد ومجاہدین کیخلاف زبان درازی جیسے گھناؤنے جرائم کاارتکاب کرنا۔


حافظ سعید سے متعلق مجاہدین کا موقف
اب آتے ہیں اس آخری بحث کی طرف کہ حافظ سعید کے بارے میں مجاہدین کا کیا موقف ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حافظ سعید سے متعلق باقاعدہ مجاہدین کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔ البتہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ سمیت دیگر جہادی علماء وقائدین نے پاکستانی عوام کے نام اپنے پیغام میں کشمیری جہادی تنظیموں سے وابستہ افراد کو نصیحت کرتے ہوئے ایجنسیوں کے تلے جہاد چھوڑ کر اللہ کی شریعت تلے جہاد کی طرف بلاتے رہے ہیں اور پاکستان مین اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے جدوجہد کرنے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔
لیکن کبھی کسی مجاہدین نے یا کسی جہادی قائد وشیوخ نے انہیں کافر قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی کافر کہہ کر انہیں پکارا ہے۔ بلکہ ہمیشہ انتہائی پیار بھرے انداز میں ایک مسلمان بھائی کی طرح ان کو مخاطب کیا گیا ہے۔
لیکن ان تنظیموں نے مجاہدین کے نرم لہجے اور نصیحت کا غلط مطلب لیتے ہوئے ہمیشہ ہی ان کیخلاف اپنے بغض وعداوت کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی شہادت پر حافظ سعید نے اپنے منہ سے اعتراف کیا کہ وہ الحمدللہ القاعدہ کی سوچ کے خلاف پاکستان میں کام کررہے ہیں اور اس جہاد سوچ کو مٹانے کے لیے کوشاں ہے۔اسی طرح شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی نہ ہم نے کبھی حمایت کی ہے اور نہ کبھی کریں گے۔
حافظ سعید کے ان بیانات کے بعد القاعدہ مجاہدین کے ادارے السحاب نے اپنی ویڈیو ریلیز ’’بتاؤ تم کس کا ساتھ دوگے‘‘ میں حافظ سعید کے اس ویڈیو بیان کو شامل کیا اور اس کے ساتھ دیگر پاکستانی مذہبی سیاسی تنظیموں کے جہاد کیخلاف موجود بیانات کو شامل کرکے صرف یہ کہنے پر اکتفاء کیا کہ یہ شخصیات جہاد کی مخالفت کرتی رہی۔
مجاہدین اس ویڈیو میں ان پر کوئی فتوی یا کفر کا حکم نہیں لگایا ۔
پھر جماعۃ الدعوۃ اور حافظ سعید کی زبان درازیوں اور شکوک وشبہات کا جواب دینے کے لیے الموحدین نے ’’مرجئۃ العصر کی تلبیسات کا علمی محاکمہ‘‘ نامی کتاب جاری کرکے بڑے میٹھے اور نرم انداز میں جماعۃ الدعوۃ کی گمراہیوں اور غلطیوں کو بیان کیا۔
لیکن جماعۃ الدعوۃ نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے مجاہدین کیخلاف فکری جنگ مزید تیز کردی اور انٹرنیٹ پر مختلف ناموں سے ویب سائٹیں اور فورمز بناکر مجاہدین پر طعن وتشنیع کرنا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کے حامیوں نے بھی ان کا رد کرنے کے لیے سخت زبان استعمال کرنا شروع کردی اور مجاہدین کا دفاع کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی۔
لیکن مجاہدین کے چند حامی اس بات کو بھول گئے کہ برے القابات اور کافر یا خبیث یا مرتد جیسے الفاظ مجاہدین نے کبھی استعمال نہیں کیے ہیں اور ہم میں سے بھی کسی کو نہیں کرنے چاہئے۔
اسی طرح ہمیں اپنی ساری توجہ صرف مجاہدین کیخلاف جاری جماعۃ الدعوۃ کی فکری جنگ کا علمی جواب دینا چاہئے اور اسی اسلوب کو اختیار کرنا چاہئے ، جو مجاہدین نے کیا۔
آپ بھائیوں کو شاید علم نہیں کہ تحریک حماس نے القاعدہ وطالبان کی سوچ رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا ۔ لیکن اس کے باوجود کسی جہادی تنظیم یا عالم دین ورہنما نے اسے کافر قرار نہیں دیا بلکہ شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ سمیت دیگر علماء ان کو اپنے بیانات میں سمجھاتے رہے اور فلسطین کے مجاہدین کو حماس سے ٹکرانے کی بجائے اس سے بچ بچاؤ کرتے ہوئے اسرائیل کیخلاف ہی عسکری جہاد کی نصیحت کرتے رہے۔ فلسطینی جہادی تنظیموں نے حماس حکومت کے مظالم کو برداشت کیا اور یہودیوں کیخلاف جہاد جاری رکھا توآج فلسطینی عوام میں القاعدہ سے وابستہ جہادی تنظیموں کی عزت حماس حکومت سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ حماس کے کئی کارکنان القاعدہ سے محبت اور حماس حکومت سے نفرت کرنے لگے۔ بلکہ پچھلے دنوں تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ حماس کی عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے حماس حکومت کے احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسرائیل کے پکڑے ہوئے سات جاسوسوں کو سڑکوں پر لاکر ماردیا جبکہ اسرائیل کیخلاف راکٹ حملوں میں القاعدہ مجاہدین کا ساتھ دینا شروع کردیا اور اسرائیل کیخلاف ۱۵۰۰ سے زائد میزائل غزہ پر اسرائیلی جنگ کے دوران برسائے۔
تو خلاصہ کلام یہ کہ بھائیو! ہمیں جماعہ الدعوہ پر کفر کا فتوی لگانے اور انہیں برے القابات سے نوازنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ البتہ مجاہدین کیخلاف ان کی ہر زبان درازی اور شکوک وشبہات کا علمی جواب دینا چاہئے۔ نیز جماعۃ الدعوۃ کی گمراہیوں اور دین سے دوری کو ثابت کرنے والے حقائق کو منظر عام پر لانا چاہئے۔ جماعۃ الدعوۃ کی فکری جنگ کا بھرپور جواب دینا چاہئے اور اس کے لیے اسلامی دعوت کا ہی وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو جہادی علماء وشیوخ اور خود رسول اللہﷺ نے اپنے مخالفین کو اپنی بات سمجھانے یا ان کے حامیوں پر حق کو عیاں کرنے کے لیے ثابت کیا۔
اللہ تعالی اس اسلامی طریقے سے دعوت دینے سے شاید جماعۃ الدعوۃ کے جال میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو ہدایت دیدے یا خود جماعۃ الدعوۃ کے قائدین توبہ کرلے۔
لیکن اگر ہمارا انداز گالی گلوچ، تکفیریوں یا خارجیوں جیسا ہوا تو پھر ہم صرف لوگوں کو اپنے سے متنفر کریں گے اور نفرت کو فروغ دیکر دعوت دیں گے۔ جبکہ ہمارے نبیﷺ نے کہا ہےکہ خوشخبریاں دو ، نفرتیں مت پھیلاؤ۔
اللہ ہم سب کو القاعدہ کے قائدین اور مجاہدین جیسا اسلامی اسلوب وانداز اختیار کرنے کی توفیق دے۔آمین
اس ویڈیو کو دیکھ کر حافظ سعید کی تکفیر میں کسی مسلمان کو شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔اگر ہم نے حافظ سعید کےکفر میں اس ویڈیو کے نشر ہونے کے بعد اس کے کافر ہونے میں شک کیا تو اس شک کا فائدہ پھر پاکستان کے تمام طاغوتوں کو پہنچے گا۔کیونکہ اگر کوئی کہے کہ حافظ سعید ایجنسیوں کے دباؤ میں ہے اکراہ میں ہے ۔ تو زرداری ، گیلانی ، مشرف، نواز شریف اس سے زیادہ بڑے اکراہ میں مبتلا ہیں ۔ کیونکہ حافظ سعید کو تو پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے اکراہ ہوگالیکن ان طاغوتوں کا اکراہ امریکہ کی دہمکیاں ہیں ۔اور ایسا مشرف نے کہا بھی تھا کہ اگر ہم نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا تو امریکہ ہمیں پتھر کے دور میں پہنچادے گا۔لہٰذا حافظ سعید کے بارے میں اب دوٹوک مؤقف کا اظہار ہونا چاہیے کسی قسم کی حیلہ سازی کی اب گنجائش نہیں رہتی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ جماعۃ الدعوۃ پر کفر کا حکم لگانے کی نوبت ہی نہیں پہنچی ہے ۔ کیونکہ جماعۃ الدعوۃ کا عام کارکن خود حافظ سعید کے کفر اور زندقے کی وجہ سے پریشان ہے ۔ لہٰذا جماعۃ الدعوۃ کے عام کارکن کے بارے میں یہی رائے سب سے بہتر ہے کہ انہیں نرمی اور محبت سے حقائق سے مطلع کیا جائے تاکہ وہ اس ارجاء سے تائب ہوکر اہل السنۃ والجماعۃ میں شامل ہوجائیں۔اور سچے دل سے مجاہدین کا ساتھ دیں ، اور طاغوتوں سے نفرت کریں ۔
 
Top