• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تحکیم / کیا تشریع عام کفر اکبر ہے؟؟؟

شمولیت
نومبر 07، 2012
پیغامات
11
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
0
اسلام علیکم
عبدالرحمن بھائی کے سوال کے ساتھ ایک چھوٹا سا سوال میرا بھی ہے جو یقینا میری کم علمی کا غماز ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو نہ صرف یہ کہ شریعت سازی کرتے ہیں بلکہ شریعت کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ شرعی قوانین کو ظالمانہ قوانین کہتے ہیں یا انکے ناقابل عمل ہونے کا فتوٰی دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جزاّک اللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
ہمیں تو ایسے لوگوں کے کافر و مرتد ہونے میں کوئی شک نہیں البتہ "اعتقاد" کا حیلہ بناکر "تکفیر صحیح" کا دروازہ بند کرنے والوں کے بارے کچھ کہا نہیں جاسکتا عین ممکن ہے وہ یہاں بھی اعتقاد کی شرط لگا دیں۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
جناب ، اعتقاد کی شرط کہاں لگتی اور کہاں نہیں یہ خوب واضح کیا ہے سلف صالحین نے۔
عبداللہ سلفی صاحب لگتا ہے آپ کو اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا؟؟؟
اگر آپ نے گزشتہ صفحات دیکھنے کی زحمت کی ہوگی۔

عبدالودو بھائی آپ کے سوال کا تفصیلی با حوالہ جواب اس لنک میں موجود ہے ۔

جزاک اللہ خیرا ۔

میں مفتی عبداللہ سلفی کی طرح بغیر دلیل و حوالہ سے بات نہیں کرتا ۔

شکریہ
 
شمولیت
اپریل 21، 2011
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
71
عبداللہ عبدل

عبدالودو بھائی آپ کے سوال کا تفصیلی با حوالہ جواب اس لنک میں موجود ہے ۔

عبداللہ عبدل بھائی مجھے بات تو سمجھ آ رہی ہے سوائے اس بات کے کے اعتقاد کا تعلق دل سے ہے۔ یہ بات اس وقت تک تو درست ہے جب تک کوئی اپنے اعتقاد کی وضاحت نہیں کرتا۔ لیکن میرا سوال ان لوگوں سے متعلق ہے جو با قاعدہ اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ آللہ کے قانون کو ظالمانہ قانون کہتے ہیں۔ وہ میڈیا پر بیٹھ کر شرعی قوانیں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ سودی نظام کی نہ صرف کھل کر حمائت کرتے ہیں بلکہ آسلامی نظام معیشت کو نا قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ کیا اس کھلے اقرار کے بعد بھی ان سے اس بات اقرار کروانا ضروری ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوے قوانین کو آللہ کے قوانین سے بہتر سمجھتے ہیں؟ جزاک اللہ
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
حیرت ہے صرف نام دیکھ کر ہی کتاب ساری پڑھ لیتے ہیں ، یہ فن مجھے بھی سکھا دیں؟؟؟

کیونکہ جو سوال آپ نے کیا ہے وہ اس کتاب میں بالکل واضح اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔
آپ نے پوچھا:
لیکن میرا سوال ان لوگوں سے متعلق ہے جو با قاعدہ اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ آللہ کے قانون کو ظالمانہ قانون کہتے ہیں۔ وہ میڈیا پر بیٹھ کر شرعی قوانیں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ سودی نظام کی نہ صرف کھل کر حمائت کرتے ہیں بلکہ آسلامی نظام معیشت کو نا قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ کیا اس کھلے اقرار کے بعد بھی ان سے اس بات اقرار کروانا ضروری ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوے قوانین کو آللہ کے قوانین سے بہتر سمجھتے ہیں؟ جزاک اللہ
جناب ایک نظر اس پر :
اقتباس:
کفر اکبر کی چھ صورتیں ہیں جو بیان ہو چکی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے ۔
۱۔استحلال
اگر کوئی اپنے فیصلے کو، جو اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے خلاف ہے، جائز سمجھے( اسے استحلال کہتے ہیں)تو اس کے کفر اکبر کا مرتب ہونے پر اجماع ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
اور انسان جب کسی حرام چیز کو حلال کردے، جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو یاکسی حلال چیز کو حرام کر دے جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو یا اس شرع کو تبدیل کر دے جس پر اجماع ہو تو وہ کافر و مرتد ہو گا اورا س پر فقہاء کا اتفاق ہے ۔ اور ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا (ایک قول کےمطابق) (وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)
(سورۃ المائدہ :آيت 44)
یعنی یہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف اپنے فیصلے کو جائز سمجھتا ہے۔
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر3صفحہ نمبر267)
شیخ بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
‘‘ اس شخص کے کافر ہونے پر علماء کا اجماع ہے ،جس نے کسی ایسی حرام چیز کو حلال سمجھا ،جسے اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے یا حلال کو حرام سمجھا، جسے اللہ تعالی نے حلال کردیا ہے۔’’
(فتاوی بن بازجلد نمبر 2صفحہ 330)
۲۔ تفضیل
اگر اپنے فیصلے کو، جو اللہ تعالی کےحکم کے خلاف ہے ،اللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر اور افضل سمجھے (اسے تفضیل کہتے ہیں) اس کی دلیل ارشاد باری تعالی ہے ۔
(وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ)
(سورۃ المائدہ :آیت نمبر50)
شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
‘‘جس نے اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کیا یہ سمجھتے ہوئے ،کہ اس کا فیصلہ اللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر ہے تو وہ سب مسلمانوں کے ہاں کافر ہے ۔’’
(فتاوی بن بازجلد نمبر4صفحہ نمبر416)
اور کفر اکبر اس لئے ہے کہ اس نے قرآن مجید کی اس آیت کو جھٹلایا۔
۳ ۔مساوات
اگر اپنے فیصلے کو ،جو اللہ تعالی کےحکم کے خلاف ہے ، اللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے (اسے مساوات کہتے ہیں)
کیونکہ اس نے قرآن مجید کی اس آیت کو جھٹلایا ،جو اوپر بیان ہو چکی ہے ۔
شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
’’جس نے یہ یقین کیا کہ وہ قوانین اور فیصلے ،جنہیں لوگ بناتے ہیں، شریعت اسلام سےبہتر ہیں یا اس کے برابر ہیں یا ان کی طرف لوٹ کر فیصلہ کرنا جائز ہے ۔۔۔۔۔تووہ کافرہے۔
(فتاوی بن باز جلد نمبر1صفحہ نمبر132)
۴۔ جحود
اگر اللہ تعالی کے فیصلے کو جاننے اور یقین کرنے کے بعد جھٹلا دے (اسے جحودکہتے ہیں)۔اسکی دلیل ،اجماع ہے۔
شیخ بن باز(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
‘‘اور اسی طرح اس کے حق میں جس نے کسی چیز کو جھٹلادیا ،جسے اللہ تعالی نے واجب کردیا ۔۔۔۔۔۔تو بیشک وہ کافر اور مرتد ہے اگرچہ وہ اسلام کا دعویٰ کرے ،اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔’’
(فتاوی بن باز جلد نمبر7صفحہ نمبر78)
۵۔ تکذیب
اگر اللہ تعالی کے فیصلے کو جھٹلا دے (اسے تکذیب کہتے ہیں) یہ بھی کفر اکبر ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ہر جھٹلانے والا ،جس نے اس چیز کو جھٹلایا جو پیغمبر علیہ السلام لیکر آئے، تووہ کافر ہے۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر2صفحہ نمبر79)
اورعلامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
‘‘کفر تکذیب یہ ہے کہ یہ یقین کرنا کہ پیغمبر جھوٹے ہیں (نعوذباللہ)’’۔
(مدارج السالکین جلد نمبر1صفحہ نمبر346)
۶۔ تبدیل
اگر اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ یہی اللہ تعالی کا فیصلہ ہے یعنی اسے شریعت کی طرف منسوب کرے(اسے تبدیل کہتے ہیں)۔ یہ بھی کفر اکبر ہے اگرچہ صرف ایک ہی مسئلہ میں تبدیلی کیوں نہ ہو۔اسکی دلیل ،اجماع ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ)فرماتے ہیں:
‘‘اور انسان جب کسی حرام چیز کو حلال کر دے جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو اور حلال چیز کو حرام کر دے جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو یا اس شریعت کو تبدیل کردے جس پر اجما ع ہو تو وہ کافر و مرتد ہوگا جس پر فقہا ءاسلام کا اتفاق ہے۔’’
(فتاوی بن ابن تیمیہ جلد نمبر 3صفحہ نمبر 267)
ان سب صورتوں میں دوچیزوں کاخاص خیال رکھا جائے:
1- یہ سب امور اعتقادی امور ہیں جن کا تعلق دل سے ہے یعنی خوا ہ اس نے صرف یہ عقیدہ ہی رکھاجبکہ فیصلہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہی کرتا ہے تو وہ کفر اکبر کا مرتکب اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
2- چونکہ ان امور کا تعلق دل سے ہے اور دل کا حال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے لہذا کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان امور سے کسی پر کفر اکبر کا فتویٰ لگائے جب تک کہ وہ اپنی زبان سے اس کا اقرار نہ کرے یا اس کی تصریح نہ کردے۔
یہ تو آپ کی ایک بات کا جواب:
محترم ایک بات پہلے ذہن نشین اور واضح سمجھ لیں کہ تحکیم کے مسئلے میں اعتقاد کی شرط میں نہیں لگا رہا بلکہ قرآن کے سیاق سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے اور تمام سلف صالحین نے بھی اسی بنیاد پر تحکیم بغیر ما انزل اللہ پر جحود و اعتقاد کی شرط لگائی ہے۔

جناب جہاں تک تعلق ہے اسلامی قوانین و اسلامی شعار کا مذاق اڑانا تو اس بارے کاش آپ کتاب پڑھ لیتے:
آپ نے سوال لکھا:
عبداللہ عبدل بھائی مجھے بات تو سمجھ آ رہی ہے سوائے اس بات کے کے اعتقاد کا تعلق دل سے ہے۔ یہ بات اس وقت تک تو درست ہے جب تک کوئی اپنے اعتقاد کی وضاحت نہیں کرتا۔ لیکن میرا سوال ان لوگوں سے متعلق ہے جو با قاعدہ اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ آللہ کے قانون کو ظالمانہ قانون کہتے ہیں۔ وہ میڈیا پر بیٹھ کر شرعی قوانیں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ سودی نظام کی نہ صرف کھل کر حمائت کرتے ہیں بلکہ آسلامی نظام معیشت کو نا قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ کیا اس کھلے اقرار کے بعد بھی ان سے اس بات اقرار کروانا ضروری ہے کہ وہ اپنے بنائے ہوے قوانین کو آللہ کے قوانین سے بہتر سمجھتے ہیں؟ جزاک اللہ
آپ کے اس اشکال بنیاد شاید یہ قول ہے ،
بعض علماء شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ )فرماتے ہیں:
’’ایسے حکمران کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی شخص اللہ تعالی یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یا قرآن کی تعظیم تو دل سے کرتا ہے لیکن اللہ تعالی کو یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے (نعوذباللہ) تو ایسے شخص کیلئے ضروری نہیں کہ وہ زبان سے تصریح کرے بلکہ اس کایہ عمل ہی کافی ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
تو محترم بھائی ، اب اس قول بارے خود شیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت موجود ہے جس سے آپ کا یہ اعتقاد والا اشکال انشاء اللہ رفع ہو جائے گا۔

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے وہ کافر ہی ہے اس پر اجماع ہے ۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) ہر حکمران پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں جس نے تشریع عام کونافذ کیا؟

نہیں۔!

مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:

۱۔خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اور انسان جب بھی حرام چیز کو ،جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو ،حلال کر دے یا حلال چیز جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو، اسے حرام کر دے یا اس شریعت کو تبدیل کر دے جس پر اجماع ہو، تو وہ کافر اور مرتد ہے اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر267)​
حلال کو حرام یا حرام کو حلال پر کفر بواح کا حکم تب ہی لگے گا تب اعتقاد ہو ، مثلا ایک شخص نے زنا کیا تو کیا ہم یہ کہیں گے اس نے زنا کو حلال کر لیا ہے اور یہ کفر بواح کا مرتکب ہے؟ نہیں، اس میں ہم اس کے اعتقاد بارے جانیں گے۔ اگر تو اس کا اعتقاد اس فعل کے حرام ہونے کا ہی تھا مگر وہ یہ حرام کام نفسانی خواہش پر ، فائدہ پر کر گزرا تو اس کو مرتد نہیں کہیں گے۔ کیونکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب صرف اس گناہ کے حلال ہونے کے عقیدہ کی وجہ سے ہی کفر بواح کا مرتکب ہوگا۔اور کیوں کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کرنا مسلمان کے لئے حرام ہے تو اس مسئلے پر بھی سلف صالحین کا یہی رویہ ہے

اور شریعت کو تبدیل کرنے سے کیا مراد ہے ، خود شیخ اس کی مزید وضاحت فرما دیتے ہیں
آگے فرماتے ہیں:
’’اور شرع مبدل (یعنی تبدیل شدہ شریعت) وہ ہے جس میں اللہ تعالی پر اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر جھوٹ باندھا جائے یا لوگو ں پر جھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھا جائے اور یہ کھلا ظلم ہےپس جس نے یہ کہا کہ یہ اللہ تعالی کی شریعت میں سے ہے تو وہ بلا نزاع کے کافر ہے ۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر268)​
تو اس سے ثابت ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) صرف اس حکمران کے کافر ہونے کے قائل ہیں جو تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال سمجھتا ہو اور تشریع عام کو اللہ تعالی کے دین کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے تبدیل کہتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ کفر اکبر ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور ایک حکمران تشریح عام کا مرتکب ہے مگر وہ اسے اللہ کی طرف منسوب بھی نہیں کرتا اور تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال بھی نہیں سمجھتا تو ایسا حکمران کفر بواح کا مرتکب ہر گز نہیں ، ہاں فسق و ظلم کا مرتکب ہے۔

۲۔ جن چیزوں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) نے استدلال کیا ہے یعنی اللہ تعالی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کو یا دین اسلام کو گالی دینا ،کہ یہ کفر اکبر ہے ایسے شخص کے کافر ہونے پر اجماع ہے تو اس صورت میں ایسے حکمران کے کافر ہونے پر کیسے مشابہ ہوسکتی ہے جس کے کفر پراجماع ہی نہیں ہے بلکہ قوی اختلاف ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں بھی آپ ذرا غور کریں جب اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو بیان کیا تو تین مختلف احکام کے ساتھ بیان کیا۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ]
یہ کفر ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ]
یہ کفر نہیں بلکہ فسق ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ]
یہ بھی کفر نہیں بلکہ ظلم ہے۔
اوراگر ان آیات کریمہ سے ظاہر بھی لیا جائے تو پہلا کفر اکبر ہوگیا اور باقی دو کفر اصغر ہیں۔
توجب یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں تو ان کاحکم بھی مختلف ہے۔ تو اس سے ثابت ہوا شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ ) کا اشارہ اس حکمران کی طرف ہے جس کے کفر پرعلماء کا اجماع ہے اور ان چھ صورتوں میں تشریع عام شامل نہیں ہے۔

اور اگر آپ اس آیت (وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)‘‘ کا سیاق پڑھ لیں تو اس کے واضح طور پر جحود و انکار کا اعتقاد کا وجود نظر آئے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل کہتے تھے

يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ مِنۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِهِۦ‌ۖ يَقُولُونَ إِنۡ أُوتِيتُمۡ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمۡ تُؤۡتَوۡهُ فَٱحۡذَرُواْ‌ۚ المائدہ: ۴۱
ات کو اس کےٹھکانے سے بدل دیتے ہیں کہتے ہیں کہ تمہیں یہ حکم ملے تو قبول کر لینا اور اگر یہ نہ ملے تو چھوڑ(انکار کر) دینا "۔

یعنی ایک تو اللہ کے حکم میں تبدیل کے مرتکب اور پھر تشریح عام کے اور پھر اس تبدیل کی بجائے صحیح حکم الہی کی بات آئی تو جحود و انکار کے قائل۔

یہی بات ہے ، کہ اگر کوئی ،مسلمان جب تحکیم بغیر ما انزل اللہ یا تشریح عام کا مرتکب ہوتا ہو تو دیکھا جائے گا کہ وہ تبدیل یعنی اللہ کے حکم میں تبدیلی کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرتا ہے یا وہ حکم ما انزل اللہ کے انکار و جحود کا اعتقاد رکھتا ہے۔ اگر تو وہ تبدیل اور جحود و انکار کا اعتقاد رکھ کر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کرے یا تشریح عام تو کفر بواح کا مرتکب اور اگر وہ تبدیل اور جحود و انکار کے اعتقاد کے بغیر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کرے یا تشریح عام تو فاسق و ظالم۔


مجھے امید ہے آپ کا اعتقاد اور گستاخی بارے اشکال رفع ہو چکا ہو گا۔
اگر نہیں تو میں مزید وضاحت کے لئے حاضر انشاء اللہ​
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ
عبداللہ بھائی معذرت چاہتا ہوں امتحانات کی تیاری کی وجہ سے زیادہ پوسٹ نہیں کررہا لیکن میں فارغ ہوکر آپ سے گفتگو جاری رکھونگا انشاءاللہ۔۔۔۔۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ
عبداللہ بھائی معذرت چاہتا ہوں امتحانات کی تیاری کی وجہ سے زیادہ پوسٹ نہیں کررہا لیکن میں فارغ ہوکر آپ سے گفتگو جاری رکھونگا انشاءاللہ۔۔۔۔۔
اللہ آپ کے لئے آسانی فرمائے ، مجھے خوشی ہوگی۔
وعلیکم سلام
 
Top