کفر اکبر کی چھ صورتیں ہیں جو بیان ہو چکی ہیں ان کی تفصیل یہ ہے ۔
۱۔استحلال
اگر کوئی
اپنے فیصلے کو، جو اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے خلاف ہے، جائز سمجھے( اسے استحلال کہتے ہیں)تو اس کے کفر اکبر کا مرتب ہونے پر اجماع ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
اور انسان جب کسی حرام چیز کو حلال کردے، جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو یاکسی حلال چیز کو حرام کر دے جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو یا اس شرع کو تبدیل کر دے جس پر اجماع ہو تو وہ کافر و مرتد ہو گا اورا س پر فقہاء کا اتفاق ہے ۔ اور ایسے شخص کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا (ایک قول کےمطابق) (وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)
(سورۃ المائدہ :آيت 44)
یعنی یہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف اپنے فیصلے کو جائز سمجھتا ہے۔
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر3صفحہ نمبر267)
شیخ بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
‘‘ اس شخص کے کافر ہونے پر علماء کا اجماع ہے ،جس نے کسی ایسی حرام چیز کو حلال سمجھا ،جسے اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے یا حلال کو حرام سمجھا، جسے اللہ تعالی نے حلال کردیا ہے۔’’
(فتاوی بن بازجلد نمبر 2صفحہ 330)
۲۔ تفضیل
اگر اپنے فیصلے کو، جو اللہ تعالی کےحکم کے خلاف ہے
،اللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر اور افضل سمجھے (اسے تفضیل کہتے ہیں) اس کی دلیل ارشاد باری تعالی ہے ۔
(وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ)
(سورۃ المائدہ :آیت نمبر50)
شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
‘‘جس نے اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کیا یہ سمجھتے ہوئے ،کہ اس کا فیصلہ اللہ تعالی کے فیصلے سے بہتر ہے تو وہ سب مسلمانوں کے ہاں کافر ہے ۔’’
(فتاوی بن بازجلد نمبر4صفحہ نمبر416)
اور کفر اکبر اس لئے ہے کہ اس نے قرآن مجید کی اس آیت کو جھٹلایا۔
۳ ۔مساوات
اگر
اپنے فیصلے کو ،جو اللہ تعالی کےحکم کے خلاف ہے ،
اللہ تعالی کے فیصلے کے برابر سمجھے (اسے مساوات کہتے ہیں)
کیونکہ اس نے قرآن مجید کی اس آیت کو جھٹلایا ،جو اوپر بیان ہو چکی ہے ۔
شیخ بن باز (رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
’’جس نے یہ یقین کیا کہ وہ قوانین اور فیصلے ،جنہیں لوگ بناتے ہیں، شریعت اسلام سےبہتر ہیں یا اس کے برابر ہیں یا ان کی طرف لوٹ کر فیصلہ کرنا جائز ہے ۔۔۔۔۔تووہ کافرہے۔
(فتاوی بن باز جلد نمبر1صفحہ نمبر132)
۴۔ جحود
اگر اللہ تعالی کے فیصلے کو جاننے اور یقین کرنے کے بعد جھٹلا دے (اسے جحودکہتے ہیں)۔اسکی دلیل ،اجماع ہے۔
شیخ بن باز(رحمۃ اللہ علیہ ) فرماتے ہیں:
‘‘اور اسی طرح اس کے حق میں جس نے کسی چیز کو جھٹلادیا ،جسے اللہ تعالی نے واجب کردیا ۔۔۔۔۔۔تو بیشک وہ کافر اور مرتد ہے اگرچہ وہ اسلام کا دعویٰ کرے ،اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔’’
(فتاوی بن باز جلد نمبر7صفحہ نمبر78)
۵۔ تکذیب
اگر
اللہ تعالی کے فیصلے کو جھٹلا دے (اسے تکذیب کہتے ہیں) یہ بھی کفر اکبر ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ہر جھٹلانے والا ،جس نے اس چیز کو جھٹلایا جو پیغمبر علیہ السلام لیکر آئے، تووہ کافر ہے۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر2صفحہ نمبر79)
اورعلامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
‘‘کفر تکذیب یہ ہے کہ یہ یقین کرنا کہ پیغمبر جھوٹے ہیں (نعوذباللہ)’’۔
(مدارج السالکین جلد نمبر1صفحہ نمبر346)
۶۔ تبدیل
اگر اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ کرے اور
یہ دعویٰ کرے کہ یہی اللہ تعالی کا فیصلہ ہے یعنی اسے شریعت کی طرف منسوب کرے(اسے تبدیل کہتے ہیں)۔ یہ بھی کفر اکبر ہے اگرچہ صرف ایک ہی مسئلہ میں تبدیلی کیوں نہ ہو۔اسکی دلیل ،اجماع ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ)فرماتے ہیں:
‘‘اور انسان جب کسی حرام چیز کو حلال کر دے جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو اور حلال چیز کو حرام کر دے جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو یا اس شریعت کو تبدیل کردے جس پر اجما ع ہو تو وہ کافر و مرتد ہوگا جس پر فقہا ءاسلام کا اتفاق ہے۔’’
(فتاوی بن ابن تیمیہ جلد نمبر 3صفحہ نمبر 267)
ان سب صورتوں میں دوچیزوں کاخاص خیال رکھا جائے:
1-
یہ سب امور اعتقادی امور ہیں جن کا تعلق دل سے ہے یعنی خوا ہ اس نے صرف یہ عقیدہ ہی رکھاجبکہ فیصلہ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہی کرتا ہے تو وہ کفر اکبر کا مرتکب اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
2- چونکہ ان امور کا تعلق دل سے ہے اور دل کا حال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے لہذا کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ ان امور سے کسی پر کفر اکبر کا فتویٰ لگائے جب تک کہ وہ اپنی زبان سے اس کا اقرار نہ کرے یا اس کی تصریح نہ کردے۔