• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ تحکیم / کیا تشریع عام کفر اکبر ہے؟؟؟

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

محترم بھائی میں اس مسئلے پر مزید دو رسائل آپ کی خدمت پیش کرو گا۔ جو قرآن و سنت اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں مرتب کردہ ہیں۔
جس سے مجھے امید ہے کہ تحکیم کے مسئلے اور تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے معاملے تشریح عام کے عقدہ کو حل کرنے میں معاون ہوگے۔۔۔۔
مطالعہ ضرور کیجئے گا۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا۔

میرا موقف بحمداللہ واضح ہے۔
کہ تحکیم کے مسئلے میں چاہے تحکیم بغیر ما انزل اللہ یا اسکی تشریح عام ۔ ۔۔ اعتقاد ۔۔۔۔۔شرط ہے۔
اور اس پر بہت کچھ یہاں کاپی پیسٹ کیا جاسکتا ہے مگر اس سے پوسٹ بہت لمبی اور غیر واضح ہو جاتی اور ویسے بھی مجھے کاپی پیسٹ انتہائی ضرورت میں استعمال کرنا اچھا لگتا ہے۔
نیچے دو کتابچے پیش خدمت ہیں جو کہ میرے موقف کی تائید میں دلائل ہیں پیش کر رہا ہوں۔

مسئلہ تحکیم ،تکفیریوں کے گمراہی کے اسباب

مسلہء تحکیم سلف صالحین کی عدالت میں !

اگر اب آپ ان دونوں میں سے بھی "اعتقاد" کی شرط نہ تلاش کر سکے تو مجھے پھر مجبورا یہاں کاپی پیسٹ کا سہارا لینا پڑے گا۔کیونکہ میں کوئی باقاعدہ کمپوزر ہوں نہیں بھائی۔

باقی بھائی مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کوئی مجھے کیا کہتا ہے۔ یہ انکا مسئلہ ہے۔ اگر وہ اس میں درست ہیں تو دلیل سے ثابت کریں۔
باقی میں ان حضرات تکفیری اپنی منشاء کی وجہ سے نہیں فہم سلف اور علماء سلف کی وضاحتوں کے بعد کہتا ہوں ، اور یہ بھی یاد رہے میں کسی کو معین کر کے نہیں کہتا بلکہ یوں ۔ ۔ کہ جس جس کے بھی یہ نظریات و افکار ہیں وہ تکفیری ہے۔

جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جولائی 06، 2011
پیغامات
126
ری ایکشن اسکور
462
پوائنٹ
81
بھائی میں نے پہلی کتاب کا مطالعہ کرلیا ہے لیکن میرے ذہن میں ایک نہائیت اہم سوال ہے جو اگر حل ہو جائے تو میرے لئے مسئلہ واضح ہوجائے گا۔ سوال پر غور کیجئے گا اور مزید کوئی کتاب دینے کی بجائے میرے سوال کا آپ خود ہی جواب دی جئے گا۔ شکریہ

اشکال یہ ہے کہ اگر آپ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے کفر اکبر ہونے کیلئے اعتقاد کو شرط مانتے ہیں تو پھر ساحر، کاہن، جادوگر کی تکفیر کرنے میں اعتقاد کی شرط کیوں نہیں لگاتے اس کی تکفیر پر تو تمام علماء متفق ہیں اسی طرح گستاخ رسول کی تکفیر کرتے وقت کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ "تم نے جو نبی علیہ السلام کی گستاخی کی ہے کیا تم اس کو جائز بھی سمجھتے ہو یا نہیں" بلکہ اعتقاد کے ثبوت کے بغیر ہی جادوگر اور گستاخ رسول کی تکفیر کردی جاتی ہے۔ اگر آپ نے چند امور میں تکفیر کیلئے اعتقاد کی شرط نہیں لگائی اور باقی امور میں لگائی ہے تو یہ تقسیم آپ نے کس دلیل کی بنا پر کی ہے؟

محترم بھائی! میرے ذہن میں ایک یہ اشکال بھی ہے کہ آپ کہتے ہیں تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے سلسلے میں حاکم اس وقت کافر حقیقی ہوگا جب وہ یہ کام اس اعتقاد سے کرے کہ یہ جائز ہے، یا یہ شریعت سے افضل یا مساوی ہے، یا یہ کہ شریعت تو اب قابل عمل ہی نہیں وغیرہ وغیرہ تو سوال یہ ہے کہ علماء فتوی لگاتے وقت یہ کیسے معلوم کریں گے کہ یہ حاکم جو غیر اللہ کا حکم چلا رہا ہے آیا یہ اس کو جائز سمجھتا بھی ہے یا نہیں؟ یعنی اعتقاد رکھتا بھی ہے یا نہیں؟

یہ سوالات میں نے پہلے بھی کیئے تھے لیکن ڈائریکٹ جواب نہیں ملا تھا۔ امید ہے اب کی بار صریح اور واضح جواب مل جائے گا انشاء اللہ۔
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم۔
تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو تمام کائنات کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے اور کروڑوں درود سلام ہوں رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آور آپکی آل پر۔

عبدالرحمن بھائی ، مجھے امید آپ خیریت سے ہوں گے۔ بھائی جو پہلی کتاب کا لنک آپ کو پیش کیا تھا ، اور جس کے پڑھنے کا آپ دعوی بھی کر رہیں ہیں ، مگر مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ آپ کے دونوں سوالوں کا مفصل جواب اسی کتاب میں ہی موجود تھا۔
میں اب ان دونوں سوالات کا جواب دوبارہ پیش کرتا ہوں ، تاکہ تازگی ہوجائے گا۔ اور امید ہے اس کے بعد کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا۔
اور اگر پھر اشکال ہو ، میں انشاء اللہ حاضر ہوں۔


اشکال نمبر ۱:
اشکال یہ ہے کہ اگر آپ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے کفر اکبر ہونے کیلئے اعتقاد کو شرط مانتے ہیں تو پھر ساحر، کاہن، جادوگر کی تکفیر کرنے میں اعتقاد کی شرط کیوں نہیں لگاتے اس کی تکفیر پر تو تمام علماء متفق ہیں اسی طرح گستاخ رسول کی تکفیر کرتے وقت کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ "تم نے جو نبی علیہ السلام کی گستاخی کی ہے کیا تم اس کو جائز بھی سمجھتے ہو یا نہیں" بلکہ اعتقاد کے ثبوت کے بغیر ہی جادوگر اور گستاخ رسول کی تکفیر کردی جاتی ہے۔ اگر آپ نے چند امور میں تکفیر کیلئے اعتقاد کی شرط نہیں لگائی اور باقی امور میں لگائی ہے تو یہ تقسیم آپ نے کس دلیل کی بنا پر کی ہے؟

محترم ایک بات پہلے ذہن نشین اور واضح سمجھ لیں کہ تحکیم کے مسئلے میں اعتقاد کی شرط میں نہیں لگا رہا بلکہ قرآن کے سیاق سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے اور تمام سلف صالحین نے بھی اسی بنیاد پر تحکیم بغیر ما انزل اللہ پر جحود و اعتقاد کی شرط لگائی ہے۔

آپ کے اس اشکال بنیاد شاید یہ قول ہے ،
بعض علماء شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ )فرماتے ہیں:
’’ایسے حکمران کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی شخص اللہ تعالی یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) یا قرآن کی تعظیم تو دل سے کرتا ہے لیکن اللہ تعالی کو یا نبی کریم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے (نعوذباللہ) تو ایسے شخص کیلئے ضروری نہیں کہ وہ زبان سے تصریح کرے بلکہ اس کایہ عمل ہی کافی ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
تو محترم بھائی ، اب اس قول بارے خود شیخ اسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی وضاحت موجود ہے جس سے آپ کا یہ اعتقاد والا اشکال انشاء اللہ رفع ہو جائے گا۔

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تعالی کو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے وہ کافر ہی ہے اس پر اجماع ہے ۔

لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) ہر حکمران پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں جس نے تشریع عام کونافذ کیا؟

نہیں۔!

مندرجہ ذیل وجوہات ملاحظہ فرمائیں:

۱۔خود شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:
’’اور انسان جب بھی حرام چیز کو ،جس کے حرام ہونے پر اجماع ہو ،حلال کر دے یا حلال چیز جس کے حلال ہونے پر اجماع ہو، اسے حرام کر دے یا اس شریعت کو تبدیل کر دے جس پر اجماع ہو، تو وہ کافر اور مرتد ہے اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر267)​
حلال کو حرام یا حرام کو حلال پر کفر بواح کا حکم تب ہی لگے گا تب اعتقاد ہو ، مثلا ایک شخص نے زنا کیا تو کیا ہم یہ کہیں گے اس نے زنا کو حلال کر لیا ہے اور یہ کفر بواح کا مرتکب ہے؟ نہیں، اس میں ہم اس کے اعتقاد بارے جانیں گے۔ اگر تو اس کا اعتقاد اس فعل کے حرام ہونے کا ہی تھا مگر وہ یہ حرام کام نفسانی خواہش پر ، فائدہ پر کر گزرا تو اس کو مرتد نہیں کہیں گے۔ کیونکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب صرف اس گناہ کے حلال ہونے کے عقیدہ کی وجہ سے ہی کفر بواح کا مرتکب ہوگا۔اور کیوں کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر فیصلہ کرنا مسلمان کے لئے حرام ہے تو اس مسئلے پر بھی سلف صالحین کا یہی رویہ ہے

اور شریعت کو تبدیل کرنے سے کیا مراد ہے ، خود شیخ اس کی مزید وضاحت فرما دیتے ہیں
آگے فرماتے ہیں:
’’اور شرع مبدل (یعنی تبدیل شدہ شریعت) وہ ہے جس میں اللہ تعالی پر اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر جھوٹ باندھا جائے یا لوگو ں پر جھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھا جائے اور یہ کھلا ظلم ہےپس جس نے یہ کہا کہ یہ اللہ تعالی کی شریعت میں سے ہے تو وہ بلا نزاع کے کافر ہے ۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر268)​
تو اس سے ثابت ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) صرف اس حکمران کے کافر ہونے کے قائل ہیں جو تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال سمجھتا ہو اور تشریع عام کو اللہ تعالی کے دین کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے تبدیل کہتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ کفر اکبر ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور ایک حکمران تشریح عام کا مرتکب ہے مگر وہ اسے اللہ کی طرف منسوب بھی نہیں کرتا اور تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال بھی نہیں سمجھتا تو ایسا حکمران کفر بواح کا مرتکب ہر گز نہیں ، ہاں فسق و ظلم کا مرتکب ہے۔

۲۔ جن چیزوں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ) نے استدلال کیا ہے یعنی اللہ تعالی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کو یا دین اسلام کو گالی دینا ،کہ یہ کفر اکبر ہے ایسے شخص کے کافر ہونے پر اجماع ہے تو اس صورت میں ایسے حکمران کے کافر ہونے پر کیسے مشابہ ہوسکتی ہے جس کے کفر پراجماع ہی نہیں ہے بلکہ قوی اختلاف ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں بھی آپ ذرا غور کریں جب اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو بیان کیا تو تین مختلف احکام کے ساتھ بیان کیا۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ]
یہ کفر ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ]
یہ کفر نہیں بلکہ فسق ہے۔
[فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ]
یہ بھی کفر نہیں بلکہ ظلم ہے۔
اوراگر ان آیات کریمہ سے ظاہر بھی لیا جائے تو پہلا کفر اکبر ہوگیا اور باقی دو کفر اصغر ہیں۔
توجب یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں تو ان کاحکم بھی مختلف ہے۔ تو اس سے ثابت ہوا شیخ الاسلام ابن تیمیہ(رحمۃ اللہ علیہ ) کا اشارہ اس حکمران کی طرف ہے جس کے کفر پرعلماء کا اجماع ہے اور ان چھ صورتوں میں تشریع عام شامل نہیں ہے۔

اور اگر آپ اس آیت (وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ)(سورۃ مائدہ آیت نمبر44)‘‘ کا سیاق پڑھ لیں تو اس کے واضح طور پر جحود و انکار کا اعتقاد کا وجود نظر آئے گا، جیسا کہ بنی اسرائیل کہتے تھے

يُحَرِّفُونَ ٱلۡكَلِمَ مِنۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِهِۦ‌ۖ يَقُولُونَ إِنۡ أُوتِيتُمۡ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمۡ تُؤۡتَوۡهُ فَٱحۡذَرُواْ‌ۚ المائدہ: ۴۱
ات کو اس کےٹھکانے سے بدل دیتے ہیں کہتے ہیں کہ تمہیں یہ حکم ملے تو قبول کر لینا اور اگر یہ نہ ملے تو چھوڑ(انکار کر) دینا "۔

یعنی ایک تو اللہ کے حکم میں تبدیل کے مرتکب اور پھر تشریح عام کے اور پھر اس تبدیل کی بجائے صحیح حکم الہی کی بات آئی تو جحود و انکار کے قائل۔

یہی بات ہے ، کہ اگر کوئی ،مسلمان جب تحکیم بغیر ما انزل اللہ یا تشریح عام کا مرتکب ہوتا ہو تو دیکھا جائے گا کہ وہ تبدیل یعنی اللہ کے حکم میں تبدیلی کو اللہ ہی کی طرف منسوب کرتا ہے یا وہ حکم ما انزل اللہ کے انکار و جحود کا اعتقاد رکھتا ہے۔ اگر تو وہ تبدیل اور جحود و انکار کا اعتقاد رکھ کر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کرے یا تشریح عام تو کفر بواح کا مرتکب اور اگر وہ تبدیل اور جحود و انکار کے اعتقاد کے بغیر تحکیم بغیر ما انزل اللہ کرے یا تشریح عام تو فاسق و ظالم۔


مجھے امید ہے آپ کا اعتقاد بارے اشکال رفع ہو چکا ہو گا۔
اگر نہیں تو میں مزید وضاحت کے لئے حاضر انشاء اللہ​
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
اشکال نمبر ۲:

محترم بھائی! میرے ذہن میں ایک یہ اشکال بھی ہے کہ آپ کہتے ہیں تحکیم بغیر ما انزل اللہ کے سلسلے میں حاکم اس وقت کافر حقیقی ہوگا جب وہ یہ کام اس اعتقاد سے کرے کہ یہ جائز ہے، یا یہ شریعت سے افضل یا مساوی ہے، یا یہ کہ شریعت تو اب قابل عمل ہی نہیں وغیرہ وغیرہ تو سوال یہ ہے کہ علماء فتوی لگاتے وقت یہ کیسے معلوم کریں گے کہ یہ حاکم جو غیر اللہ کا حکم چلا رہا ہے آیا یہ اس کو جائز سمجھتا بھی ہے یا نہیں؟ یعنی اعتقاد رکھتا بھی ہے یا نہیں؟

جی بھائی یہ تو سادہ سی بات ہے کہ کسی پر حکم لگاتے وقت صرف گمان و شک کا سہارا نہیں لیا جائے گا بلکہ اس متعلقہ شخص سے اس کے اعتقاد بارے استسفار کیا جائے گا۔

جیسا کہ شیخ اسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس کا اسلام یقین سے ثابت ہو جائے اسےمحض شک کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جا سکتا‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر12صفحہ نمبر466)​
عقیدہ کا تعلق دل سے ہوتا ہے یعنی کسی شخص کا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے فلاں چیز کو فلاں سے بہتر سمجھا ہے تو اسکا دل سے تعلق ہے اور دل کے احوال تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے جب تک کہ وہ شخص اپنی زبان سے اقرار نہیں کرتا کہ اس نے غیر اللہ کے فیصلہ کو اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے افضل سمجھا ہے اس پر کفر اکبر کا فتوی لگانا درست نہیں۔ اور اس مسئلہ کی دلیل حضرت اسامہ بن زید(رضی اللہ عنہ) کا مشہور قصہ صحیح بخاری اور مسلم میں ضروری ہے ۔جب انہوں نے ایک کافر کو کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور فرمایا :
کیا تو نے اس کا سینہ کھول کے دیکھا تھا کہ اس نے صرف زبان سے کلمہ پڑھا تھا؟۔۔۔۔۔۔
(بخاری،ح6872، 4269،مسلم،273)​
اب اگر استسفار پر وہ اس بات کا اظہار کرے کہ اس کا اعتقاد اس حرام کا کو حلال یا حلال کو حرام کرنے کا نہیں تو وہ کافر نہیں بلکہ گناہ گار ہوگا۔
اور اگر وہ اس بات کا اظہار کرے کہ ،ہاں اس کا یہ عقیدہ ہے تو پھر پہلے اس پر تکفیر کی شروط پوری کی جائیں گی اور موانع ختم کیا جائیں۔پھر حکم لگایا جائے گا۔

مجھَے امید ہے میں نے اس اشکال بارے بھی وضاحت کر دی۔
اور اللہ سے امید قوی رکھتا ہوں کہ وہ اس کو آپ کے لئے اور دوسرے اراکین کے لئے مفید بنا دے۔ آمین۔​
 

عاکف

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 20، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
0
خود شیخ اس کی مزید وضاحت فرما دیتے ہیں
آگے فرماتے ہیں:
’’اور شرع مبدل (یعنی تبدیل شدہ شریعت) وہ ہے جس میں اللہ تعالی پر اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر جھوٹ باندھا جائے یا لوگو ں پر جھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھا جائے اور یہ کھلا ظلم ہےپس جس نے یہ کہا کہ یہ اللہ تعالی کی شریعت میں سے ہے تو وہ بلا نزاع کے کافر ہے ۔‘‘
(فتاوی ابن تیمیہ جلدنمبر3صفحہ نمبر268)



تو اس سے ثابت ہوا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) صرف اس حکمران کے کافر ہونے کے قائل ہیں جو تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال سمجھتا ہو اور تشریع عام کو اللہ تعالی کے دین کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے تبدیل کہتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے یہ کفر اکبر ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور ایک حکمران تشریح عام کا مرتکب ہے مگر وہ اسے اللہ کی طرف منسوب بھی نہیں کرتا اور تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو اپنے لئے حلال بھی نہیں سمجھتا تو ایسا حکمران کفر بواح کا مرتکب ہر گز نہیں ، ہاں فسق و ظلم کا مرتکب ہے۔
تو پاکستانی حکمران ، پاکستان کے دستور کو اسلامی دستور اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ نہیں کہتے ؟
 

عاکف

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 20، 2012
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
0
اور اس پر بہت کچھ یہاں کاپی پیسٹ کیا جاسکتا ہے مگر اس سے پوسٹ بہت لمبی اور غیر واضح ہو جاتی اور ویسے بھی مجھے کاپی پیسٹ انتہائی ضرورت میں استعمال کرنا اچھا لگتا ہے۔
نیچے دو کتابچے پیش خدمت ہیں جو کہ میرے موقف کی تائید میں دلائل ہیں پیش کر رہا ہوں۔

مسئلہ تحکیم ،تکفیریوں کے گمراہی کے اسباب

مسلہء تحکیم سلف صالحین کی عدالت میں !
عبدالرحمان لاھوری بھائی عبداللہ عبدل کی دی گئی کتابوں کا مطالعہ کر رہے ہیں تو مندرجہ ذیل کتابوں کا بھی مطالعہ کر لیں
مرجئۃ العصر کی تلبیسات کاعلمی محاکمہ

شرکیہ قوانین کی حمایت کرنے والوں کے شبہات کا ازالہ

ردّبنام اہل حق کو فتنہ سمجھنے والوں کاردقرآن وسنت اورفہم سلف صالحین کےمنہج کی روشنی میں اہل عقل کی خدمت میں

مرجئة العصرکے شبہات پر ایک نظر قرآن وسنت اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں


کفر من یحکم بغیر ما انزل اللہ ([url]http://www.islamqa.com)سے ماخوذ فتویٰ کا اردو ترجمہ غیر اللہ کا حکم نافذ کرنے والے کا کفر[/URL]
 
شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
السلام علیکم۔
محترم عاکف صاحب ، معاملہ ان کتابوں سے ہوتا ہوا، اب آگے رواں دواں ہیں۔
آپ لنک کاپی پیسٹ کی بجائے ، اپنا علم و موقف یہاں پیش کیجئے۔
خوب معلوم ہو جائے گا کہ حق کیا اور حق کے نام پر دھوکہ کیا۔
میں تو ترس رہا ہوں کہ کوئی تو ایسا شخص ہے جو خالی لنک پھینک کر بھاگنے کی بجائے مجھ سے کسی موضوع پر گفتگو کرے۔
جزاک اللہ خیرا

محترم لاہوری بھائی ، آپ محترم عاکف صاحب کے لنک ضرور بہ ضرور پڑھیئے گا۔ تاکہ مزید اشکالات اور سوالات جنم لیں اور میں اللہ کے فضل و کرم سے انکا رد منہج سلف صالحین سے پیش کر سکوں۔

آپ ہم سب کو حق بات تسلیم کرنے والا بنائے۔ آمین
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
ایک بار پھر کوشش کر کے دیکھتا ہوں .شاید کوئی بات بن جائے !

ترتیب وار سب سے پہلے تھریڈ کا آغاز برادر عبداللہ عبدل نے کیا اور تشریع عام کے حؤالے سے شیخ الفوزان اور محمد بن ابراہیم کے بارے میں دعوی کیا کہ ::

انکی دلیل :
قرآن و سنت میں ایسے حکمران کے کافر (کفر اکبر) ہونے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے اور ان علماء نے بھی صرف تعلیل بیان کی ہے دلیل نہیں ۔ اسے لئے جب شیخ صالح الفوزان نے کتاب التوحید میں شیخ محمد بن ابراہیم کا قول نقل کیا اس کے ساتھ دلیل بیان نہیں کی ۔ نہ شیخ محمد ابراہیم ؒنے اور نہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے دلیل بیان کی ۔

(اور جن عام آیات سےآپ نے استدلال کیا ہے ان کا جواب اس کے بعد ملاحظہ فرمائیں)
شیخ محمد ابراہیم اورشیخ صالح الفوزان کی تعلیل یہ ہے کہ ایسا حکمران جو پوری شریعت کے قوانین کو چھوڑ کر اپنے یا کسی اور کے قوانین کو نافذ کرتا ہے اور اپنے ما تحت سب پرلاگو کر دیتا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس نے ان قوانین کو اللہ تعالی کے فیصلے سے افضل اور بہتر سمجھا ہے یا اس کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قوانین اللہ تعالی کے نازل کردہ فیصلے سے اچھے ہیں ۔
اس کے بعد میری ان سے بات چلی اور ہوتے ہوتے یہاں تک آئی کہ برادر علوی صاحب نے بھی تشریع عام کے بارے میں ایسی ہی بات کی ، جس پر انہیں بتایا گیا کہ::

QUOTE=باربروسا;58496]السلام علیکم ! علوی صاحب کی لب کشائی کے بعد میں اہل سنت کا موقف پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں.

ایک بار پہلے بھی کہیں میں نے اس بابت اشارہ کیا تھا کہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ ان کی اپنی سوچ کا غماز نہیں ہے بلکہ انہوں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے استشہاد کیا ہے اور ان کا قول نقل کیا ہے .

اور شیخ الاسلام سے لیکر مولون عبد الرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ تک، جو عالم بی قانون سازی کی اس روح کو اچھی طرح دیکھ پرکھتا رہا ہے اس نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ :

اول::اتباع اہوائ کے نتیجے میں قضیہ معینہ میں تحکیم بما انزل اللہ سے عدولی کفر اصغر ہے .

دوم::اس کو قانون کی صورت دینا ، کفر اکبر ہے .

شیخ الاسلام واضح طور پر ان دونوں صورتوں میں فرق کرتے ہیں ،ان کی عبارت یہ ہے ::

(فإن الحاكم إذا كان ديناً لكنه حكم بغير علم كان من أهل النار، وإن كان عالماً لكنه حكم بخلاف الحق الذي يعلمه كان من أهل النار، وإذا حكم بلا عدل ولا علم كان أولى أن يكون من أهل النار، وهذا إذا حكم في قضية معينة لشخص، وأما إذا حكم حكماً عاماً في دين المسلمين، فجعل الحق باطلاً، والباطل حقاً، والسنة بدعة، والبدعة سنة، والمعروف منكراً، والمنكر معروفاً، ونهى عما أمر الله به ورسوله، وأمر بما نهى الله عنه ورسوله فهذا لون آخر يحكم فيه رب العالمين وإله المرسلين مالك يوم الدين) {الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا}، والحمد لله رب العالمين، وصلى الله على محمد وآله وصحبه وسلم).

مجموع الفتاوی
[35/388] اهـ.

ہائی لائٹ کردہ جملوں کا ترجمہ :
"" .......یہ تو قضیہ معینہ کی بات تھی ، ہاں اگر وہ اسے مسلمانوں کے لیے عام قانون بنا دے اور حق کو باطل اور باطل کو حق ،سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت اور معروف کو منکر اور منکر کو معروف ٹھہرا دے اور اللہ رسول کے روکے کا حکم دے اور حکم دیے ست روک دے تو یہ دوسری صورت ہے جس کے بارے میں اللہ رب العالمین الہ المرسلین فیصلہ فرماتا ہے جو مالک یوم الدین ہے ......""


اب جو بات علوی صاحب کر رہے ہیں وہ ایک ادنی درجے کی چیز ہے ، یعنی ایک شخص اہواء کے غلبے کے باعث ایک سے زیادہ مرتبہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو کسی نے بھی کفر اکبر نہیں کہا ہے ، کفر اکبر تو اس صورت کو کہا گیا ہے کہ شخص مزکور اپنا مرجع ہی غیر الٰہی قانون کو قرار دے لے اور یہ طے کر لے کہ میں نے شریعت الٰہی سے فیصلہ دینا ہی نہیں ہے !!! آج کل درپیش بھی یہی صورت ہے کہ قانون الٰہی سے روگردانی اسی بنیاد پر ہو رہی ہے نہ کہ اہواء کے غلبے کی بنیادپر !!! فافہم وتدبر.


ان دو باتوں کو مکس اپ کیا جاتا ہے اور یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں .

علوی صاحب ! میرے پہلے کیے گئے سوال کی طرف بھی توجہ کیجے گا. تشریع لغیر اللہ کی بابت آُ نجناب کے موقف کے انتظار میں ہوں .

والسلام
[/QUOTE]

اب تک نگران علمی فورم ہذا علوی صاحب نے شیخ الاسلام کے اس قول فیصٌل کی طرف توجہ نہیں فرمائی .واللہ اعلم.

برادر عبداللہ کو کم از کم اب شیخ الفوزان کے بارے میں اس غلط بیانی سے رجوع کرنا چاہیے اور آئندہ بھی اس "موقف" کو بیان کرنے ، وسیع پیمانے پر کاپی پیسٹ کرنے سے پہلے شیخ الاسلام کا فیصلہ بھی بیان کرنا چاہیے، جو کہ ترجمان سلف ابن تیمیۃ کا موقف اور اس سلسلے میں سلف کے مسلک کی ترجمانی کرتا ہے ..... !!

اور ائندہ محض کاپی پیسٹ پر اکتفا کرنے کی بجائے حوالہ جات کے اصل متن کو دیکھ لینا چاہیے.... اردو تراجم پر انحصار کر کے "تحقیقی ذوق" پروان چڑھانے کا ایسا ہی نتیجہ ہوا کرتا ہے.


قارئین کرام کے لیے واضح ہو کہ کتاب التوحید از شیخ الفوزان حفظہ اللہ کے اردو ترجمے میں مترجم نے اپنی "اجتہادی بصیرت" کا استعمال کرتے ہوئے شیخ صالح الفوزان کی صفحہ بھر عبارت ہضم فرما لی ہے جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا وہ قول بیان ہوا ہے جو میں نے اوپر نقل کیا ہے !!

اور برادر عبداللہ یا جن کا بھی مضمون ہے انہوں نے وثوق عمل اور صدق نیت کے ساتھ اس تھریڈ کے شروع میں پیش فرمایا ہے ، انہوں نے محض اردو ترجمے کے بل بوتے پر "تحقیق" کا حق ادا کر دیا !!

کتاب ہذا اردو ترجمہ از حافظ یوسف سراج ، مطبوعہ دارالاندلس :٤ لیک روڈ چوبرجی ہے ، دستیاب برائے ہر خاص و عام ہے !!

والسلام
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
دوسرا سارا دعوی "لازم" کی بحث پر مشتمل تھا ، جس کے بارے میں کھلتے کھلتے بات بحمداللہ یہ ہو چکی ہے کہ :

"لازم" بالکل پایا جاتا ہے ........... شعائر اسلام کی توہین، رسول پاک کو گالی اور صحابہ کرام کی تکفیر کے معاملے میں اسی "لازم" سے کام لیتے ہوئے انسان کے ایمان کو بغیر کسی اضافی شق کے کالعدم سمجھا جاتا ہے.

یہی "لازم" عملی نواقض اسلام میں اس طرح سے پایا جاتا ہے کہ جادو کرنے والے کی نیت نہیں دیکھی جاتی ، نہ اس کا جادو کو حلال جاننا یا بدستور حرام سمجھنا درخور اعتنا ٹھہرتا ہے .

یہی "لازم" غیر اللہ کے در پر سجدہ کرنے والے کے بارے میں مسلمہ ہے ، اسی طرح دوسری عبادات کو غیر اللہ کے لیے خاص کرنے والا.

تشریع عام کو سب کچھ سے کاٹ کر دیکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بھی عبادت ہی کی ایک قسم ہے ، اور خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنی شریعت ،بالفاظ دیگر مجموعہ قوانین چلائے، اور اسلام کی رو سے تو یہ تک روا نہیں کہ وہ خدائی شریعتیں جو منسوخ ہو چکی ہیں ، وہی چلائی جانے لگیں !!!

ایک عام آدمی کے نزدیک بھی یہودیت یا عیسائیت کا قانون چلانا سیدھا سیدھا کفروشرک ہے اور علمائے اسلام میں بھی اس بابت کوئی اختلاف نہیں ...ذرا سوچیں یہ معاملہ منسوخ شدہ "قوانین الٰہی" کا ہے جو ایک زمانے میں عین نفاذ کے لیے اترے تھے ، لاگو رہے تھے !!!!

اور ہم ..........ہم بندوں کی خود ساختہ شریعت سازیوں پر ........ شش و پنج میں مبتلا ہیں .......... ما انزل اللہ بھا من سلطن.. جس کے لیے اللہ نے کوئی ایک دن تو کجا ایک لمحے کے لیے بھی سند جواز فراہم نہیں کی !!
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتۃ
 
Top