- شمولیت
- جنوری 08، 2011
- پیغامات
- 6,595
- ری ایکشن اسکور
- 21,397
- پوائنٹ
- 891
چند شبہات کا حل
آج سے چند ماہ پہلے ا س موضوع پر چند گذارشات "مجلہ رحیق" میں پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔ بریلوی حضرات کے خیالات اس موضوع پر معلوم ہیں مولانا احمد رضا خاں صاحب نے فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں انبیاء علیہم السلام کی زندگی کو جسمانی اور دنیوی قرار دیا ہے، لیکن ان حضرات کے خیالات عموماً ولائل کے بجائے جذبات پر مبنی ہوتے ہیں اس لیے علمی حلقوں میں اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔
خود مولانا احمد رضا خاں صاحب جب اس قسم کے مسائل پر لکھتے ہیں تو استدلال کے بجائے مخالف پر طعن وتشنیع اور الزامات سے حملہ آور ہوتے ہیں وہ مثبت طریق پر بہت کم لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ علم ونظر کے حلقوں میں ان بزرگوں کے ارشادات کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی حضرات علماء دیوبند کا مقام اس سے بالکل مختلف ہے ان میں محقق اہل نظر ہیں دلائل پر ان کی نظر ہے اپنے مسلک کی حمایت میں ان کا مدار جذبات پر نہیں ہوتا لیکن مجھے تعجب ہوا کہ مسئلہ حیات ، حیات انبیاء علیہم السلام میں حضرت مولانا حسین احمدؒ ، حضرت مولانا محمد قاسمؒ صاحب نانوتوی اور بعض دوسرے اکابر دیوبند کی بھی تقریباً وہی رائے تھی جو مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تھی۔
پھر مزید تعجب ہوا کہ بعض حضرات نے حیات انبیاء کی اس صورت کو اجماعی مسئلہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ دعوی ٰ تحقیق اور انصاف دونوں کے منافی ہے بلکہ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اجلہ دیوبند بھی اس مسئلہ میں ان حضرات سے متفق نہیں میری گذارشات شائع ہونے کے بعد ان گذارشات کی تائید بعض دیوبندی جرائد نے بھی فرمائی۔
جن احباب نے اختلاف فرمایا وہ بھی دلائل اور تحقیق کی بنا پر نہیں، بلکہ اساتذہ کی جلالت قدر پر اعتماد اور جمود کی بنا پر فرمایا اس کے باوجود انہی بزرگوں کے ذوق علم و تحقیق کی بنا پر پہلے بھی چند پریشان خیالات مقتدر مجلہ"رحیق" کی نذر ہوئے اور آج کی صحبت میں جو عرض ہورہاہ ے اس کا مقصد بھی یہی ہے ائمہ سنت اور اہل تحقیق اکابر کی روش کے پیش نظر ان مسائل پر غور فرمایا جائے حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے ابناؤ احفاد کےساتھ محبت اور ان کے تحقیقی مسائل سے استفادہ میں اہل حدیث کسی سےپیچھے نہیں۔ وما من احدالا ویوخذ من قولہ ویدد علیہ(امام مالکؒ) ۔۔۔۔۔۔ کے کلیہ سے انبیاء علیہم السلام کے بعد کوئی مستثنیٰ نہیں تاہم شاہ صاحب اور ان کے ابناء کرام کی علمی تحقیقا ت کے سامنے پیشانیاں جھکتی ہیں رحمھم اللہ وجعل اللہ الجنۃ مثوٰھم۔
دیوبند کے علمی اقتدار اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی رفعت مقام کی بنا پر جب کوئی مسئلہ ان حضرات کی طرف سے آئے تو اس سے صرف نظر ممکن نہیں جو احادیث اس باب میں آئی ہیں ان کے متون واسانید ، ائمہ حدیث کے آراء وافکار اور محققین کے ارشادات کی روشنی میں جو مواد میسر آسکا اس کا تذکرہ"رحیق" کے صفحات میں آچکا ہے۔
آب حیات: حال ہی میں برادر محترم حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کی عنایت سے حضرت مولانا نانوتویؒ کی "آب حیات" دیکھنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔ مولانا نانوتویؒ کے علم اور جلالت قدر کاپہلے بھی یقین تھا"آب حیات" دیکھنے سے ان کا احترام اور بھی زیادہ ہوا ان کی جلالت قدر کے باوجود بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہےکہ" آب حیات" کا انداز تحقیق سے زیادہ تاویل پر مبنی ہے مولانا مغفور نے یہ کتاب وراثت نبویﷺ کے متعلق شیعہ نقطہ نظر کے جواب میں لکھی ہے اور شیعی شبہات سے مخلصی کے لیے یہ مناظرانہ راہ اختیار فرمائی کہ آنحضرت ﷺ جسمانی طور پر زندہ ہیں اور ان کی یہ زندگی دنیوی زندگی ہے اس لیے تقسیم وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مولانا کے ساتھ انتہائی عقیدت کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مناظرانہ راہ ہے اس سے وہ نصوص حل نہیں ہوتے جن میں آنحضرت ﷺ کی وفات دفن اور اس دنیا سے انتقال کا صریح تذکرہ موجود ہے۔۔۔۔۔۔
قرآن کی صراحت اِنَّکَ میَیِّت وَّانَّھُم مَیِّتُونَ ط اور احادیث میں آنحضرت ﷺ کے انتقال کی تفصیلات ، حضرت ابوبکرؓ کا خطبہ صحابہؓ کا سکوت ، حضرت عمرؓ کا رجوع امہات المومنینؓ کا سوگ ایسی چیزیں نہیں ہیں جنہیں مولانا نانوتویؒ کی علمی جلالت کی وجہ سے نظر انداز کردیا جائے۔
خود اکابر دیوبند یا ان کی اکثریت ان بزرگوں سے اس عقیدہ میں متفق نہیں اس کی حقیقت ایک صوفیانہ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں نصوص حدیثیہ کی ظاہری تعبیرات اس کے خلاف ہیں تقلیدی جمود کی ذمہ داری تو یقیناً نہیں لی جاسکتی لیکن بصیرت دینی ان تاویلات کے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اس لیے ابناء دیوبند سے ادباً گذارش ہے کہ اکابر دیوبند بے شک قابل احترام ہیں لیکن وہ اپنے وقت کے ابو حنیفہؒ اور ابو یوسفؒ نہیں ہیں کہ ان کی ہر بات تقلیدًا مان لی جائے اس لیے گذارش ہے کہ جمود سے بچنے کی کوشش کی جائے کتاب وسنت موجود ہے اور ائمہ سلف کی تصریحات بھی ولا قول لاحد مع اللہ ورسولہ۔
حیات النبی اور اہل حدیث:
مجھے خوشی ہے کہ اکابر اہل حدیث میں کسی سے اس قسم کی لغزش نہیں ہوئی ہمارے اکابر سے غزنوی خاندان کو تصوف سے جو شغف رہا ہے وہ بحث ودلیل کا محتاج نہیں لیکن حضرت عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ علیہ اور ان کے ابناء کرام اور تلامذہ عظام سے کوئی بھی اس قسم کے اعتقادی جمود کا شکار نہیں ہوا ، والحمدللہ علیٰ ذالک۔ حضرت شاہ اسحاق صاحبؒ کے علوم سے جن لوگوں نے حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحب کے توسط سے استفادہ فرمایا ہے وہ اس قسم کی خوش اعتقادی سے محفوظ رہے ہیں اسی طرح جن لوگوں نے علمائے یمن سے علوم سنت کا استفادہ فرمایا ہے وہ بھی ان کمزور اور دو راز کا ر تاویلات سے محفوظ رہے ہیں اور یہ ساری برکت اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں طریق تقلیدی جمود سے پاک ہیں ان میں اساتذہ کا ادب تو یقیناً ہے لیکن جمود اور تقلید نہیں۔۔۔۔ یہی محدثین کی اصل راہ ہے ۔۔۔۔۔ جب سے محققانہ تنقید کو بے ادبی کہا جانے لگا اس وقت سے جمود نے عقل وفکر کی راہوں کو مسدود کرنا شروع کردیا اوردماغوں نے سوچنا ترک کردیا۔
میری گذارشات: میری گذارشات میں ان اساطین علم کے ارشادات پر حدود ادب کے اندر رہتے ہوئے تنقید تھی اگر یہ مسئلہ صرف بریلی کی راہ سے آتا تو میں اس پر ایک حرف بھی لکھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا میں نے عرض کیا ہے کہ نہ وہ حضرات سوچنے کے عادی ہیں نہ ان کا علمی حلقوں میں کوئی اثر ہے۔
حضرات اکابر دیوبند کے علمی احترام کے وسیع اثر نے مجبور کیا کہ ان کے ارشادات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تا کہ طلباء علمی تنقید اور بحث نظر کی عادت سیکھیں ۔۔۔۔۔ ان گذارشات کا مختلف حلقوں میں عجیب اثر ہوا بعض حلقوں نے اسے بے حد پسند کیا، گویا وقت کی یہ ایک ضرورت تھی اس وقت تک پاک و ہند کے کئی جرائد میں وہ مضمون شائع ہو رہا ہے ، بعض حلقوں نے اسے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حضرات اکابر دیوبند کی بے ادبی پر محمول فرمایا ۔ اعاذنی اللہ من ذالک۔
بعض نے اس پر جزوی اور معقول تنقید فرمائی اور توجہ دلائی کہ معتدل بسط کے باوجود اس میں تشنگی ہے بعض گوشے مجمل ہیں ضرورت ہے کہ ان کی مزید وضاحت کی جائے۔
بعض کا خیا ل ہے کہ مسئلہ اساسی طور پر نظر ثانی کا محتاج ہے ضرورت ہے کہ نصوص کی روشنی میں پورے موضوع پر نظر ثانی کی جائے جو خطوط بذریعہ ڈاک موصول ہوئے ان میں بھی یہی کیفیت موجود تھی۔
منشی محمد شفیع صاحب کا نظریہ:
چنانچہ ہمارے محترم دوست منشی محمد شفیع صاحب لاہوری (جو مشرباً دیوبندی) طبعاً حق پسند اور بحث ونظر ، تحقیق وتنقید کے عادی ہیں) نے توجہ دلائل کہ مسئلہ کے بعض پہلو محل نظر ہیں ان پر مزید غور ہونا چاہیئے۔
میں نے اپنی گذارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاء علیہم السلام پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے تاہم ان کا مفادیہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد النبیاء(ابن ماجہ ص ۱۱۹،۷۷ ترغیب منذری ص۱۱ جلد۲)
منشی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کلیہ صحیح نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اجسام خاک پر حرام ہیں بعض انبیاء علیہم السلام کے متعلق معلوم ہے کہ ان کے اجسام میں مٹی نے تصرف کیا چنانچہ حافظ نور الدین شیمی ۸۰۷ھ نے مجمع الزواید جلد ۱۰ ص۱۷۰ وص۱۷۱ میں ابو یعلی اور طبری سے بروایت حضرت موسیٰؓ اور حضرت علیؓ نقل فرمایا ہے۔
فقال علماء بنی اسرائیل ان یوسف لما حضرہ الموت اخذ علینا موثقاً من اللہ ان لا تخرج من مصرحتی ننقل عظامہ (الی ان قال) فلما احتفر وا اخرجوا عظام یوسف ۔
حضرت علی ؓ کی حدیث میں الفاظ کی ترکیب اس طرح ہے
قال لہ انک عند قبر یوسف فاحتمل عظامہ وقد استوی القبر بالارضی(الی ان قال) فاخرج العظام و جاوزا البحر(ص۱۷۱ جلد ۱۰ مجمع الزوائد)
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ رات مصر سے نکلے تو راستہ بھول گئے جب تشویش ہوئی تو علماء بنی اسرائیل نے فرمایا ، یوسف علیہ السلام نے ہم سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ جب وہ مصر سے جائیں تو میری ہڈیاں اپنے ہمراہ لیتے جائیں چنانچہ انہوں نے ہڈیاں نکال لیں اور اپنے ہمراہ لے گئے۔(ملخصاً)
منشی صاحب کا خیال ہے کہ جسم اطہر کی حفاظت میں جو احادیث آئی ہیں وہ درست نہیں لیکن ابو یعلی کی روایت صحیح ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں موسیٰ علیہ السلام ہمراہ لے گئے منشی صاحب کا خیال ہے کہ یوسف علیہ السلام کی اس وقت صرف ہڈیاں تھیں گوشت اور پوست نہیں تھا۔
ہیثمی نے ابویعلی کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ رجال ابی یعلی رجال الصحیح وھذاالذی حملنی علی سیاقھا(ص۱۷۱ مجمع الزوائد جلد ۱۰)
ابو یعلی کے رجال صحیح کے رجال ہیں اسی لیے میں نے اس حدیث کا تذکرہ کیا ہے۔ طبرانی کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ من لم اعرفھم (ص۱۷۱) (طبرانی کی روایت کے راوی غیر معروف ہیں)
منشی صاحب نے اس مفہوم کا ایک حوالہ البدایہ والنہایہ لابن کثیر جلد اول ص ۲۷۵ سے بھی نقل فرمایا ہے۔
ولما خرجوا من مصرا خرجوا معھم تابوت یوسف علیہ السلام یعنی جب بنی اسرائیل مصر سے نکل تو یوسف علیہ السلام کا تابوت بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔"
منشی صاحب کی تائید میں ایک حوالہ ابن خلدون جلد۱ ص۱۳۱ میں بھی ملتا ہے۔
لافتح یوشع مدینۃ اریحاء صاد الی نابلس فملکھا ودفن ھنالک شلو یوسف علیہ السلام وکانوا حملوہ معھم عند خروجھم من مصروقد ذکر ناانہ کان اومی بذلک عند موتہ ۱ھ۔
حضرت یوشع نے اریحا کے بعد جب تابلس پر قبضہ کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں وصیت کے مطابق وہاں دفن کردیں یہ ہڈیاں مصر سے نکلتے وقت وہ اپنےہمراہ لائے تھے ان حوالوں سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ کلیہ درست نہیں بعض انبیاء علیہم السلام اس سے مستثنی معلوم ہوتے ہیں۔
اہل علم کا فرض ہے کہ ان نصوص میں غور فرمائیں اور اس میں بظاہر تعارض میں ترجیح یا تصلی کی کوشش فرمائیں متوسلین دیوبند سے خصوصی گذارش ہے وہ اپنے اکابر کے مسلک ان تصریحات کی روشنی میں ثابت فرمائیں مسائل عصبیت یا ناراضگی سے حل نہیں ہوتے اور نہ عقیدت مفرطہ دلائل اور براہین کا بدل ہی ہوسکتی ہے۔
یہ تو ظاہر ہے کہ ان متعارض دلائل کا اثر حیات برزخی پر نہیں پڑتا وہ بہر حال ثابت ہے عذاب وثواب قبر کی احادیث کے ہوتے ہوئے قبر میں زندگی کی کوئی صورت تو یقیناً ہو گی مشکلات حیاتِ نوعی میں ہیں خصوصاً جب اسے جسمانی دنیوی سمجھا جائے بریلوی حضرات کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ اور بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ قبر میں بظاہر بعض تکلیفات شرعیہ کا بھی صلحاء امت کو مکلف سمجھتے ہیں۔ ازدواجی تعلقات کی کہانیاں بھی ان کے ہاں مروج اور متعارف ہیں۔
صاحب روح المعانی نے حیات شہداء کے سلسلہ میں انواع حیات متعلق کافی تفصیل فرمائی ہے محترم منشی محمد شفیع صاحب کا منشایہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے لیے برزخی زندگی تو مانتے ہیں لیکن وہ اس زندگی کے لیے نہ جسم کو ضروری سمجھتے ہیں نہ اس کےلیے دنیوی زندگی کے لوازم کی ضرورت ہی محسوس فرماتے ہیں۔