• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ حیات النبی از مولانا اسماعیل السلفی رحمہ اللہ

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
چند شبہات کا حل


آج سے چند ماہ پہلے ا س موضوع پر چند گذارشات "مجلہ رحیق" میں پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔ بریلوی حضرات کے خیالات اس موضوع پر معلوم ہیں مولانا احمد رضا خاں صاحب نے فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں انبیاء علیہم السلام کی زندگی کو جسمانی اور دنیوی قرار دیا ہے، لیکن ان حضرات کے خیالات عموماً ولائل کے بجائے جذبات پر مبنی ہوتے ہیں اس لیے علمی حلقوں میں اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔

خود مولانا احمد رضا خاں صاحب جب اس قسم کے مسائل پر لکھتے ہیں تو استدلال کے بجائے مخالف پر طعن وتشنیع اور الزامات سے حملہ آور ہوتے ہیں وہ مثبت طریق پر بہت کم لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ علم ونظر کے حلقوں میں ان بزرگوں کے ارشادات کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی حضرات علماء دیوبند کا مقام اس سے بالکل مختلف ہے ان میں محقق اہل نظر ہیں دلائل پر ان کی نظر ہے اپنے مسلک کی حمایت میں ان کا مدار جذبات پر نہیں ہوتا لیکن مجھے تعجب ہوا کہ مسئلہ حیات ، حیات انبیاء علیہم السلام میں حضرت مولانا حسین احمدؒ ، حضرت مولانا محمد قاسمؒ صاحب نانوتوی اور بعض دوسرے اکابر دیوبند کی بھی تقریباً وہی رائے تھی جو مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تھی۔

پھر مزید تعجب ہوا کہ بعض حضرات نے حیات انبیاء کی اس صورت کو اجماعی مسئلہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ دعوی ٰ تحقیق اور انصاف دونوں کے منافی ہے بلکہ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اجلہ دیوبند بھی اس مسئلہ میں ان حضرات سے متفق نہیں میری گذارشات شائع ہونے کے بعد ان گذارشات کی تائید بعض دیوبندی جرائد نے بھی فرمائی۔

جن احباب نے اختلاف فرمایا وہ بھی دلائل اور تحقیق کی بنا پر نہیں، بلکہ اساتذہ کی جلالت قدر پر اعتماد اور جمود کی بنا پر فرمایا اس کے باوجود انہی بزرگوں کے ذوق علم و تحقیق کی بنا پر پہلے بھی چند پریشان خیالات مقتدر مجلہ"رحیق" کی نذر ہوئے اور آج کی صحبت میں جو عرض ہورہاہ ے اس کا مقصد بھی یہی ہے ائمہ سنت اور اہل تحقیق اکابر کی روش کے پیش نظر ان مسائل پر غور فرمایا جائے حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے ابناؤ احفاد کےساتھ محبت اور ان کے تحقیقی مسائل سے استفادہ میں اہل حدیث کسی سےپیچھے نہیں۔ وما من احدالا ویوخذ من قولہ ویدد علیہ(امام مالکؒ) ۔۔۔۔۔۔ کے کلیہ سے انبیاء علیہم السلام کے بعد کوئی مستثنیٰ نہیں تاہم شاہ صاحب اور ان کے ابناء کرام کی علمی تحقیقا ت کے سامنے پیشانیاں جھکتی ہیں رحمھم اللہ وجعل اللہ الجنۃ مثوٰھم۔

دیوبند کے علمی اقتدار اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی رفعت مقام کی بنا پر جب کوئی مسئلہ ان حضرات کی طرف سے آئے تو اس سے صرف نظر ممکن نہیں جو احادیث اس باب میں آئی ہیں ان کے متون واسانید ، ائمہ حدیث کے آراء وافکار اور محققین کے ارشادات کی روشنی میں جو مواد میسر آسکا اس کا تذکرہ"رحیق" کے صفحات میں آچکا ہے۔

آب حیات: حال ہی میں برادر محترم حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کی عنایت سے حضرت مولانا نانوتویؒ کی "آب حیات" دیکھنے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔ مولانا نانوتویؒ کے علم اور جلالت قدر کاپہلے بھی یقین تھا"آب حیات" دیکھنے سے ان کا احترام اور بھی زیادہ ہوا ان کی جلالت قدر کے باوجود بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہےکہ" آب حیات" کا انداز تحقیق سے زیادہ تاویل پر مبنی ہے مولانا مغفور نے یہ کتاب وراثت نبویﷺ کے متعلق شیعہ نقطہ نظر کے جواب میں لکھی ہے اور شیعی شبہات سے مخلصی کے لیے یہ مناظرانہ راہ اختیار فرمائی کہ آنحضرت ﷺ جسمانی طور پر زندہ ہیں اور ان کی یہ زندگی دنیوی زندگی ہے اس لیے تقسیم وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مولانا کے ساتھ انتہائی عقیدت کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مناظرانہ راہ ہے اس سے وہ نصوص حل نہیں ہوتے جن میں آنحضرت ﷺ کی وفات دفن اور اس دنیا سے انتقال کا صریح تذکرہ موجود ہے۔۔۔۔۔۔

قرآن کی صراحت اِنَّکَ میَیِّت وَّانَّھُم مَیِّتُونَ ط اور احادیث میں آنحضرت ﷺ کے انتقال کی تفصیلات ، حضرت ابوبکرؓ کا خطبہ صحابہؓ کا سکوت ، حضرت عمرؓ کا رجوع امہات المومنینؓ کا سوگ ایسی چیزیں نہیں ہیں جنہیں مولانا نانوتویؒ کی علمی جلالت کی وجہ سے نظر انداز کردیا جائے۔

خود اکابر دیوبند یا ان کی اکثریت ان بزرگوں سے اس عقیدہ میں متفق نہیں اس کی حقیقت ایک صوفیانہ تخیل سے زیادہ کچھ نہیں نصوص حدیثیہ کی ظاہری تعبیرات اس کے خلاف ہیں تقلیدی جمود کی ذمہ داری تو یقیناً نہیں لی جاسکتی لیکن بصیرت دینی ان تاویلات کے قبول کرنے سے انکار کرتی ہے اس لیے ابناء دیوبند سے ادباً گذارش ہے کہ اکابر دیوبند بے شک قابل احترام ہیں لیکن وہ اپنے وقت کے ابو حنیفہؒ اور ابو یوسفؒ نہیں ہیں کہ ان کی ہر بات تقلیدًا مان لی جائے اس لیے گذارش ہے کہ جمود سے بچنے کی کوشش کی جائے کتاب وسنت موجود ہے اور ائمہ سلف کی تصریحات بھی ولا قول لاحد مع اللہ ورسولہ۔

حیات النبی اور اہل حدیث:
مجھے خوشی ہے کہ اکابر اہل حدیث میں کسی سے اس قسم کی لغزش نہیں ہوئی ہمارے اکابر سے غزنوی خاندان کو تصوف سے جو شغف رہا ہے وہ بحث ودلیل کا محتاج نہیں لیکن حضرت عبد اللہ غزنوی رحمہ اللہ علیہ اور ان کے ابناء کرام اور تلامذہ عظام سے کوئی بھی اس قسم کے اعتقادی جمود کا شکار نہیں ہوا ، والحمدللہ علیٰ ذالک۔ حضرت شاہ اسحاق صاحبؒ کے علوم سے جن لوگوں نے حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین صاحب کے توسط سے استفادہ فرمایا ہے وہ اس قسم کی خوش اعتقادی سے محفوظ رہے ہیں اسی طرح جن لوگوں نے علمائے یمن سے علوم سنت کا استفادہ فرمایا ہے وہ بھی ان کمزور اور دو راز کا ر تاویلات سے محفوظ رہے ہیں اور یہ ساری برکت اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں طریق تقلیدی جمود سے پاک ہیں ان میں اساتذہ کا ادب تو یقیناً ہے لیکن جمود اور تقلید نہیں۔۔۔۔ یہی محدثین کی اصل راہ ہے ۔۔۔۔۔ جب سے محققانہ تنقید کو بے ادبی کہا جانے لگا اس وقت سے جمود نے عقل وفکر کی راہوں کو مسدود کرنا شروع کردیا اوردماغوں نے سوچنا ترک کردیا۔

میری گذارشات: میری گذارشات میں ان اساطین علم کے ارشادات پر حدود ادب کے اندر رہتے ہوئے تنقید تھی اگر یہ مسئلہ صرف بریلی کی راہ سے آتا تو میں اس پر ایک حرف بھی لکھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا میں نے عرض کیا ہے کہ نہ وہ حضرات سوچنے کے عادی ہیں نہ ان کا علمی حلقوں میں کوئی اثر ہے۔

حضرات اکابر دیوبند کے علمی احترام کے وسیع اثر نے مجبور کیا کہ ان کے ارشادات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تا کہ طلباء علمی تنقید اور بحث نظر کی عادت سیکھیں ۔۔۔۔۔ ان گذارشات کا مختلف حلقوں میں عجیب اثر ہوا بعض حلقوں نے اسے بے حد پسند کیا، گویا وقت کی یہ ایک ضرورت تھی اس وقت تک پاک و ہند کے کئی جرائد میں وہ مضمون شائع ہو رہا ہے ، بعض حلقوں نے اسے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حضرات اکابر دیوبند کی بے ادبی پر محمول فرمایا ۔ اعاذنی اللہ من ذالک۔

بعض نے اس پر جزوی اور معقول تنقید فرمائی اور توجہ دلائی کہ معتدل بسط کے باوجود اس میں تشنگی ہے بعض گوشے مجمل ہیں ضرورت ہے کہ ان کی مزید وضاحت کی جائے۔
بعض کا خیا ل ہے کہ مسئلہ اساسی طور پر نظر ثانی کا محتاج ہے ضرورت ہے کہ نصوص کی روشنی میں پورے موضوع پر نظر ثانی کی جائے جو خطوط بذریعہ ڈاک موصول ہوئے ان میں بھی یہی کیفیت موجود تھی۔

منشی محمد شفیع صاحب کا نظریہ:
چنانچہ ہمارے محترم دوست منشی محمد شفیع صاحب لاہوری (جو مشرباً دیوبندی) طبعاً حق پسند اور بحث ونظر ، تحقیق وتنقید کے عادی ہیں) نے توجہ دلائل کہ مسئلہ کے بعض پہلو محل نظر ہیں ان پر مزید غور ہونا چاہیئے۔
میں نے اپنی گذارشات میں عرض کیا تھا کہ حیات انبیاء علیہم السلام پر اجماع امت ہے گو احادیث کی صحت محل نظر ہے تاہم ان کا مفادیہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام مبارکہ کو مٹی نہیں کھاتی ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد النبیاء(ابن ماجہ ص ۱۱۹،۷۷ ترغیب منذری ص۱۱ جلد۲)
منشی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کلیہ صحیح نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے اجسام خاک پر حرام ہیں بعض انبیاء علیہم السلام کے متعلق معلوم ہے کہ ان کے اجسام میں مٹی نے تصرف کیا چنانچہ حافظ نور الدین شیمی ؁ ۸۰۷ھ نے مجمع الزواید جلد ۱۰ ص۱۷۰ وص۱۷۱ میں ابو یعلی اور طبری سے بروایت حضرت موسیٰؓ اور حضرت علیؓ نقل فرمایا ہے۔
فقال علماء بنی اسرائیل ان یوسف لما حضرہ الموت اخذ علینا موثقاً من اللہ ان لا تخرج من مصرحتی ننقل عظامہ (الی ان قال) فلما احتفر وا اخرجوا عظام یوسف ۔

حضرت علی ؓ کی حدیث میں الفاظ کی ترکیب اس طرح ہے
قال لہ انک عند قبر یوسف فاحتمل عظامہ وقد استوی القبر بالارضی(الی ان قال) فاخرج العظام و جاوزا البحر(ص۱۷۱ جلد ۱۰ مجمع الزوائد)
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ رات مصر سے نکلے تو راستہ بھول گئے جب تشویش ہوئی تو علماء بنی اسرائیل نے فرمایا ، یوسف علیہ السلام نے ہم سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ جب وہ مصر سے جائیں تو میری ہڈیاں اپنے ہمراہ لیتے جائیں چنانچہ انہوں نے ہڈیاں نکال لیں اور اپنے ہمراہ لے گئے۔(ملخصاً)

منشی صاحب کا خیال ہے کہ جسم اطہر کی حفاظت میں جو احادیث آئی ہیں وہ درست نہیں لیکن ابو یعلی کی روایت صحیح ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں موسیٰ علیہ السلام ہمراہ لے گئے منشی صاحب کا خیال ہے کہ یوسف علیہ السلام کی اس وقت صرف ہڈیاں تھیں گوشت اور پوست نہیں تھا۔

ہیثمی نے ابویعلی کی روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ رجال ابی یعلی رجال الصحیح وھذاالذی حملنی علی سیاقھا(ص۱۷۱ مجمع الزوائد جلد ۱۰)
ابو یعلی کے رجال صحیح کے رجال ہیں اسی لیے میں نے اس حدیث کا تذکرہ کیا ہے۔ طبرانی کی روایت کے متعلق فرماتے ہیں۔
رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ من لم اعرفھم (ص۱۷۱) (طبرانی کی روایت کے راوی غیر معروف ہیں)
منشی صاحب نے اس مفہوم کا ایک حوالہ البدایہ والنہایہ لابن کثیر جلد اول ص ۲۷۵ سے بھی نقل فرمایا ہے۔
ولما خرجوا من مصرا خرجوا معھم تابوت یوسف علیہ السلام یعنی جب بنی اسرائیل مصر سے نکل تو یوسف علیہ السلام کا تابوت بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔"

منشی صاحب کی تائید میں ایک حوالہ ابن خلدون جلد۱ ص۱۳۱ میں بھی ملتا ہے۔
لافتح یوشع مدینۃ اریحاء صاد الی نابلس فملکھا ودفن ھنالک شلو یوسف علیہ السلام وکانوا حملوہ معھم عند خروجھم من مصروقد ذکر ناانہ کان اومی بذلک عند موتہ ۱ھ۔

حضرت یوشع نے اریحا کے بعد جب تابلس پر قبضہ کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں وصیت کے مطابق وہاں دفن کردیں یہ ہڈیاں مصر سے نکلتے وقت وہ اپنےہمراہ لائے تھے ان حوالوں سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ کلیہ درست نہیں بعض انبیاء علیہم السلام اس سے مستثنی معلوم ہوتے ہیں۔

اہل علم کا فرض ہے کہ ان نصوص میں غور فرمائیں اور اس میں بظاہر تعارض میں ترجیح یا تصلی کی کوشش فرمائیں متوسلین دیوبند سے خصوصی گذارش ہے وہ اپنے اکابر کے مسلک ان تصریحات کی روشنی میں ثابت فرمائیں مسائل عصبیت یا ناراضگی سے حل نہیں ہوتے اور نہ عقیدت مفرطہ دلائل اور براہین کا بدل ہی ہوسکتی ہے۔

یہ تو ظاہر ہے کہ ان متعارض دلائل کا اثر حیات برزخی پر نہیں پڑتا وہ بہر حال ثابت ہے عذاب وثواب قبر کی احادیث کے ہوتے ہوئے قبر میں زندگی کی کوئی صورت تو یقیناً ہو گی مشکلات حیاتِ نوعی میں ہیں خصوصاً جب اسے جسمانی دنیوی سمجھا جائے بریلوی حضرات کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ اور بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ وہ قبر میں بظاہر بعض تکلیفات شرعیہ کا بھی صلحاء امت کو مکلف سمجھتے ہیں۔ ازدواجی تعلقات کی کہانیاں بھی ان کے ہاں مروج اور متعارف ہیں۔

صاحب روح المعانی نے حیات شہداء کے سلسلہ میں انواع حیات متعلق کافی تفصیل فرمائی ہے محترم منشی محمد شفیع صاحب کا منشایہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے لیے برزخی زندگی تو مانتے ہیں لیکن وہ اس زندگی کے لیے نہ جسم کو ضروری سمجھتے ہیں نہ اس کےلیے دنیوی زندگی کے لوازم کی ضرورت ہی محسوس فرماتے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
منشی صاحب کے دلائل کا تجزیہ:

اس میں شک نہیں کہ دلائل میں ایسا باور کرنے کی گنجائش موجود ہے اگر حیات کا جسمانی اور دنیوی تصور قبول کیا جاسکتا ہے تو منشی صاحب کے تصور کی راہ میں کونسا مانع حائل ہوسکتا ہے لیکن میری رائے میں منشی صاحب کے دلائل کئی وجوہ سے کمزور اور مرجوع معلوم ہوتے ہیں۔
۱۔ حدیث: ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء۔
اللہ تعالی نے مٹی پر انبیاء کے اجسام حرام فرما دیئے ہیں۔
گو بلحاظ سند صحیح نہیں تاہم اصول ستہ کو فوقیت طبرانی اور ابو یعلی پر ہے اُسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اصول ستہ کو بحیثیت مجموعی طبرانی وغیرہ پر برتری حاصل ہے چوتھے درجہ کی کتابوں سے استدلال فحول ائمہ حدیث تنقید اور تحقیق کے بعد کرتے ہیں یا پھر اہل بدعت جن کے ہاں اصل چیز اپنی بدعت کی تائید ہے دلائل کی پختگی سے انہیں کوئی واسطہ نہیں (حجۃ اللہ)

۲۔ حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں صرف زوائد جمع کرنے کا ذمہ لیا ہے تا کہ ایک مواد اہل علم کے سامنے آجائے وہ ان زیادات پر بالا استیعاب کلام نہیں فرماتے اور نہ ہی جرح وہ قدح کی تفصیلات ہی میں جاتے ہیں۔

۳۔ ابویعلی کی روایت میں انہوں نے فرمایا ہے رجالہ رجال الصحیح اس سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ضد کے رجال پر اصحاب الصحیح نے اعتماد فرمایا ہے لیکن حدیث کی صحت کے لیے یہ کافی نہیں امام مسلم نے شواہد میں ایسے رجال سے روایت کی ہے جن میں ائمہ حدیث کو کلام ہے اس کا تذکرہ انہوں نے مقدمہ مسلم میں بھی فرمایا ہے۔

۴۔ پھر ثقاہت رجال کے علاوہ تصحیح حدیث کے لیے اور بھی شروط ہیں مراسیل اور مقطوعات میں ثقاہت رجال کے باوجود حدیث کی صحت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا ۔ راوی اور روایت کی شرائط کو پیش نظر رکھنا چاہیئے۔

۵۔ طبرانی کی روایت کے متعلق حافظ ہثیمی فرماتے ہیں ۔ رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ من لم اعرفھم غیر معروف رجال سے جوروایت مروی ہے اس کی صحت کادعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس قسم کی ضعیف روایات کے بالمقابل تو ابن ماجہ کی روایت ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء کو ضعف کے باوجود جمہور امت نے قبول فرمایا ہے اس لیے اسے طبرانی اور ابو یعلی کی ضعیف روایات پر ترجیح ہوگی لتلقی لامۃ مفھوم مھا بالقبول قرآئن کا تقاضایہی ہے کہ ابن ماجہ کی روایت کو ترجیح دی جائے او ر برزخی زندگی کے ساتھ جسم کی سلامتی کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔

۶۔ پھر ابن ماجہ کی روایت کو علی علاتہا تسلیم کر لینے سے تعارض بھی اُٹھ سکتا ہے ۔ ابویعلی اور طبرانی کی روایت میں عظام سے مقصد حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ السلام کی نعش مبارک مراد ہو جیسے کہ البدایہ والنہایہ جلد ۱ ص۲۷۵ میں اخرجوامعھم تابوتہ مرقوم ہے عظام کی تابوت اور تابوت کی عظام سے تعبیر میں استبعاد نہیں ایسے مقام پر عظام سے جسم مراد لینا متعارف ہے۔

قرآن حکیم نے منکرین حشرکا عقیدہ ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے مَن يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ (بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندگی عطا کرے گا) معلوم ہے کہ کفار حشر اجساد کے منکر تھے حشر عظام پر استعجاب اسی حقیقت کی تعبیر ہے مقصود یہی ہے من یحیی الاجسام النالیہ حدیث من فلحتمل عظامہ سے مراد احتمل جسمہ ہی ہونا چاہیئے اس مفہوم کے بعد احادیث میں تعارض اُٹھ جاتا ہے میری دانست میں وہی مسلک صحیح ہے جسے ائمہ سنت وحدیث نے قبول فرمایا ہے۔

۷۔ ابن خلدون کا حوالہ اور بھی محل نظر ہے کیونکہ مصر سے تو حضرت یوسف علیہ السلام کی نعش مبارک حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ہمراہ لائے بنی اسرائیل چالیس سال تک بادیہ تیہ میں اقامت پزیر رہے کوشش اور انتہائی آرزو کے باوجود بنی اسرائیل کسی ہمسایہ ملک پر حملہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال اسی اثناء میں ہوا اس کے بعد بنی اسرائیل کی قیادت یوشع بن نون کے سپردہوئی حضرت یوشع نے ریحا اور نابلس کے علاقے فتح ہوئے خیال ہے کہ اس اثناء میں برسوں گذر گئے ہوں گے ابن خلدون نے بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے واخر بوا معھم تابوت یوسف علیہ السلام (ص۱۲۳ جلد۱) تابوت اور شلوا ابن خلدون نے دونوں استعمال کیے ہیں مسعودی نے ایک روایت میں تابوت کی شکل بھی بتائی ہے(ص۴۷ جلد۱) قبض اللہ یوسف بمصر ولہ مائۃ وعشرون سنۃ وجعل فی تابوت المرخام وسد بالرصاص وطی باالاخیۃ النافعۃ للھواء والماء۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے سفید پتھر کا تابوت بنایا گیا اور ہوا اور پانی کی بندش پورا انتظام کیا گیا۔

معلوم نہیں اس وقفہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی عظام یاتابوت کو وادی "تیہ" دفن کیا گیا اور دوبارہ نکال حسب وصیت نایلس میں دفن کیا گیا تفصیلات کیلئے تاریخ خاموش ہے اور جو مواد ملتا ہے وہ قریباً اسرائیلی روایات ہیں جن کی بنا پر ترجیح دینا مشکل ہے ہے جمہور امت نے جو رائے قبول کی ہے روایات میں ضعف کے باوجود وہی راجح معلوم ہوتی ہے سارے واقعات اخباری انداز کے ہیں ان کا انداز احادیث اور محدثین کی ہمسری نہیں ابو القاسم سہیلی بعض شہداء احداورصلحاء کے اجسام کا ذکر فرماتے ہین کہ وہ کئی سال کے بعد اپنی قبروں سے صحیح سالم بر آمد ہوئے اور دوسری جگہ دفن کیے گئے ، اس کے بعد فرماتے ہیں ۔ والا اخبار بذلک صحیحۃ (روض الانف ص۳۴ جلد۱) ۔ پھر فرماتے ہیں۔
قال علیہ السلام ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء اخرجہ سلیمان بن اشعت وذکر ابو جعفر الدٰودی فی کتاب التاسی ھٰذاالحدیث بذیادۃ وذکر الشھداء والعلماء والموذنین وھی زیادۃ غریبۃ لم تقع (لی) فی مسند غیر ان الدٰودی من اھل الثقۃ والحلم ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے اجسام زمین پر حرام فرما دیے ہیں سلیمان بن اشعت نے اسے تخریج فرمایا ہے ابو جعفر داودی نے اس حدیث میں شہداء علماء اور موذنین کا بھی اضافہ کیا ہے اس زیارت میں بے شک غرابت ہے لیکن داودی عالم اور ثقہ ہیں۔

سہیلی اور شوکانی نے ان احادیث کے متعلق صحت یا ثقاہت کا ذکر فرمایا ہے اس کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ یہ ذخیرہ ضعف سے خالی نہیں بخاری ؒ اور منذریؒ ذہبی وغیرہ ائمہ فن نے ان پر تنقید فرمائی ہے اور یہ حضرات سہیلی وغیرہ سے اپنے فن میں زیادہ مستند ہیں اس لیے اگر منشی صاحب اپنی رائے پر اصرار فرمائیں تو نہیں اس کا حق ہے۔

فان العلم امانۃ والجھل عن الحقائق خیانۃ والتمسک بالنصوص دیانۃ والاعراض عن التحریف والتاویل صیانۃ ومن حرم عن ذلک فقد حرم بعض الخیر واللہ ولی التوفیق علیہ توکلت وھوحسبی ونعم الوکیل ولا حول ولا قوۃ الاباللہ علیہ اعتمد والیہ انیب۔(الاعتصام ص۲۷ جلد ۱۰ مورخہ ۳ جنوری ۱۹۵۹ھ)

مسئلہ حیات النبیﷺ پر ایک سوال اور مدیر تجلی"دیوبند کا تحقیقی جواب:لاہور سے رحیق نامی ایک ماہنامہ نکلتا ہے یہ اہل حدیث حضرات کا آرگن ہے اس کی چند اشاعتوں میں "حیات النبی کے مسئلہ پر ایک خاص غلو پسندانہ انداز میں کلام کیا گیا ہے خصوصاً آخری قسط (مئی ۱۹۵۸ء ) علمائے دیوبند حتیٰ کہ قاسم العلوم والخیرات حجۃ اللہ مولانا محمد قاسم رحمتہ اللہ علیہ تک کی تقلیل وتخطیہ میں کسر اٹھا کے نہیں رکھی گئی ہے کاش آ پ اس مضمون کو ملاحظہ فرمائیں اور جو قلم مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی تائید میں دفتر کے دفتر گھسیٹ دیتا ہے اور وہ اپنے لائق صداحترام اکابر واسلاف کی حمایت میں بھی جولائی دکھائے اور تمام ائمہ سے بڑھ کر اپنے آپ کو صاحب علم اور عقیل فہیم سمجھنے والے اہل حدیث کی جسارتوں کا جواب لائے امید ہے کوشش کرکے"رحیق " حاصل کریں گے اور اپنے اکابر کی حمایت سے نہیں چوکیں گے ویسے بھی"حیات النبی" کے مسئلہ پر رحیق کے مضمون نکار کی رائے لطیف طریقے پر توہین رسولﷺ پر منتج ہوتی ہے جس کا ازالہ نہایت ضروری ہے۔

جواب:
رحیق بہترین علمی مجلہ ہے: ماہنامہ" رحیق" لاہور "تجلی" کے تبادلہ میں وفتر "تجلی" میں آتا ہے اور ان پرچوں میں شامل ہے جنہیں ہم کم و بیش پورا دیکھے بغیر نہیں چھوڑتے بلکہ ہمیں کہنا چاہیئے کہ ہم اسے ناقدانہ نہیں بلکہ طالب علم اور شاگردانہ حیثیت سے پڑھتے ہیں کیوں کہ اس کے مضامین عموماً قیمتی علمی مواد پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے ہماری حقیر سی متاع علم میں مفید اضافہ ہوتا ہےآپ کے خط کو پڑھ کر نہایت رنج ہوا انداز بیان سے لے کر نفس مطلب تک تمام خط تعصب غلط فکری اور جاہلی تصورات سے آلودہ ہے کاش آپ"تجلی"کے قائل اٹھا کردیکھتے کہ ہم دینی معاملات میں کس نقطہ نظر کے حامل ہیں اور ہمارے نزدیک دین میں گروہ بندیاں اور اجارہ داریاں کس قدر افسوسناک امور ہیں ہزار ہزار صدمہ اور ملال ہے کہ ہمارے موجودہ مدرسے عموماً وہی فاسد ومجہول اور غالی ومتعصب ذہن تیار کرر ہے ہیں جس کی خاصی جھلک آپ کے خط میں دیکھی جارہی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو غلط قسم کی اکابر پرستی ، مقامیت وطنیت پر مبنی گروہ بندی ، غلوفی العقیدت اور" ہم چومادیگرے نیست" کے خبط سے محفوظ رکھے۔

ہم مولانا محمد اسماعیل ؒ سے متفق ہیں:
جہاں تک نفس موضوع یعنی اس سوال کا تعلق ہے کہ رسولاللہ ﷺ کو وصال ورحلت کے بعد کس طرح کی "زندگی" حاصل ہے اتفاق سے ہم پہلے ہی بعض علمائے دیوبند کے مسلک سے متفق نہیں ہیں بلکہ ہمارا مسلک بعینہ وہی ہے جس کا اثبات "رحیق" کے فاضل مضمون نگار مولانا محمد اسماعیل صاحب خطیب نے کیا ہے تجلی میں کئی بار اس مسئلہ پر ہم اجمالاً کچھ نہ کچھ لکھ چکے ہیں تمام حوالے تو مستحضیر نہیں ہیں صرف ایک حوالہ پیش نظر ہے یہی ہمارے خیال وعقیدے کے اظہار کے لیے کافی ہے تجلی مئی ۱۹۵۶ء میں تجلی کی ڈاک کے تحت"حیات النبی" ہی زیر عنوان ہم نے ایک صفحے کاجواب دیا تھا مناسب ہو آپ اسے پڑھ لیں اس کی آخری سطوریہ تھیں۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے مجمل رکھنا ہی پسند فرمایا ان کے بارے میں تفصیلات کی طلب اور چھان بین مناسب نہیں ہے مجمل عقیدہ ہی کافی ہے عقل وادراک کے پاس یہ صلاحیت کہاں ہے کہ وہ مرنے کےء بعد کے احوال و اقعات کو مادی احوال ووقعات کی طرح سمجھ سکے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم وروح میں کیا اور کیسا تعلق ہے، آپ کن معنوں میں زندہ ہیں آپ کے سامنے کیا چیزیں پیش ہوتی ہیں کیانہین اس طرح کے سوالات میں پڑنے کے عوض احکامات دین کی تعمیل ونفاذ ہی مسلمانوں کے لیے بالکل کافی ہے جن لوگوں پر عبادات ونکوکاری کے نتیجے میں اللہ کے بعض چھپے ہوئے اسرار کھول دیئے گئے ہوں اور "حیات النبی" کے باب میں ان پر کچھ منکشف ہوا ہو، وہ ان کے اپنے لیے ہے عوام کے لیے نہیں ہے عوام اسے نہیں سمجھ سکتے بلکہ مغالطوں اور وسوسوں میں گرفتار ہوسکتے ہیں جو لوگ حضور ﷺ کے "وصال" کو "موت" سے جدا کوئی چیز ثابت کرتے ہوئے آپﷺکی حیات مستقلہ کا کوئی متعین ومشخص اور معلوم ومشرح تصور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں ، ہمارے خیال میں وہ مفید کام نہیں کرتے ، بلکہ رسول ﷺ کے بارے میں قرآن کے بار بار بیان کیے ہوئے تصور بشریت کو مافوق البشر تصورات واوہام سے آلودہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں"(تجلی مئی ؁ ۱۹۵۶ھ ص۳۳)
مولانا قاسمؒ معصوم نہیں تھے:مولانا محمد قاسم ؒ سے عقیدت و محبت کا جہاں تک سوال ہے تو سچ ہے کہ ہم انہیں اپنے کا بہترین عالم، ذہین وفہیم مفکر اور صاحب زہد ورع دانش ور سمجھتے تھے لیکن یہ عقیدت اس لغویت تک کبھی نہیں پہنچتی کہ ہم ان کو معصوم مان کر ان کے ہر فکر ورائے کی اندھا دھند تائید کرتے چلے جائیں چنانچہ ان کی مختلف تحریروں میں اس طرح کی باتیں دیکھنے کے بعد بھی رسول ﷺ کی رحلت"موت" کے معلوم عام مفہوم مصداق سے جدا گانہ شے ہے اور اس کی مثال اس ہانڈی کی سی ہے جو کسی چراغ پر ڈھک دی جائے ہم کسی طرح اپنے آپ کو اس بارک خیال کی تائید وتصدیق پر مائل نہ کرسکے بلکہ ہمارا عقیدہ وہی رہا کہ قرآنی تصریحات کے مطابق رسول اللہﷺ کی رحلت من حیث البشر ویسی ہی رحلت ہے جیسی کسی دوسرے انسان کی ہوتی ہے اور"موت" کا لفظ اس پر ٹھیک اس طرح صادق آتا ہےجس طرح کسی اور انسان کی رحلت پر اس کے لیے قرآن، حدیث اور خلیفہ اول کی تقریر میں واضح شہادت موجود ہے رہا بعد مرگ ان کا زندہ رہنا اور زمین پر ان کے جسم کی حرمت تو اگرچہ اس کا انکار ایک مسلمان کی حیثیت میں ممکن ہی نہیں ہے لیکن جو لوگ اس زندگی بعد مرگ کو ٹھیک دنیاوی زندگی جیسا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور مر رسولﷺ کو ایک اٹل حقیقت ماننے سے فرار کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس طرح کی باتیں کرتے ہیں گویا یہ"موت" محض ایک فریب نظر یا مذاق تھا وہ اچھا نہیں کرتے اور ان کا ذہن وقب اس غلط ترین خیال سے مسموم ہے کہ" موت" ایک اتنے عظیم پیغمبر کے لیے توہین وتحقیر کا باعث معلوم ہوتی ہے۔

خیر مولانا قاسم رحمتہ اللہ علیہ کا انداز تحریر تو کچھ ادق اور غامض تھا کہ ہم کو تاہ فہموں کے لیے اس حسن ظن کی بھی گنجائش باقی رہ جاتی تھی کہ جو کچھ انہوں نے تحریر فرمایا ہے شائد اس کا مطلب وہ نہ ہو جو ہم نے سمجھا ہے اور وہ حیات النبی کے باب میں فی الحقیقت وہی مسلک رکھتے ہوں جسے ہم درست سمجھ رہے ہیں۔

کل کا دیوبند اور آ ج کا دیوبند:
پھر وہ زمانہ بھی اور تھا شرک و بدعت کے خلاف خود مولانا قاسمؒ اور دیگر ہم عصر علماء دیوبند آئے دن سرگرمیوں کا مظاہرہ فرماتے رہتے تھے اور"حیات النبی" کے متعلق ایک خاص مسلک رکھنے سے قبوری حضرات کو جو شبہ ملنی ممکن تھی اس کا سدباب اور ازالہ ان کی دیگر واضح و مصرح اور موکدو مدلل تحریروں اور تقریرون سے پوری طرح ہو رہا تھا لیکن آج جو احوال ہیں وہ بالکل مختلف ہیں آج وہ زبانیں گنگ وہ انگلیاں مفلوج اور وہ جذبات سرد ہوچکے ہیں جو مولانا اسماعیل شہیدؒ کی طرح اکرام مسلم کے ساتھ اہانت بدعتی اور تردید شرک و بدعت کو بھی منجملہ فرائض قرار دیتے تھے وہ اخلاف حکمت ورواداری کی"ملین پالیسی" اختیار فرما چکے ہیں جن کے اسلاف شرک وبدعت کے باب میں رواداری ، تلین ، درگذر اور صرف نظر کو بزدلی بے حسی، بے عقلی اور دوغلا پن گمان فرماتے تھے اسی لیے آج کہیں اور نہیں خود دیوبند میں اس دیوبند میں جہاں طبلہ وہارمونیم والی قوالی ، صلوٰۃ علی القبر ، جمعراتی ، جشن قبوری ، چارد بازی اور دیگر قبوری بدعات کا سایہ تک نہیں ملتا تھا، یہ سب کچھ موجود ہے نہ صرف موجود بلکہ روز افزوں ترقی پر ہے، کیسے نہ ہو ہمارے واعظانِ شیریں بیان کا یہ حال ہے کہ جب وہ کسی ایسے مجمع میں وعظ فرماتے ہیں جہاں اکثریت مبتدعین ومجہولین کی ہوتو زدمعنی اور آرٹسٹک گل افشانیوں کے وہ اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں کہ توحید پرست بھی واہ واہ کراٹھیں اور مقبروں کی خاک چاٹنے والوں کا دل بھی گز بھر کا ہوجائے دیوبندی کہیں کہ کوئل"حقاتو" بولی بدعتی کہیں کہ نہیں وہ تو"عبد القادر" بولی۔

حد ہوگئی اسی عید الفطر کے وعظ میں دیوبند کی عید گاہ کے لاوڈ سپیکر سے قبل نماز عید قبروں پر جانے کی مسنونیت نشر ہوئی اور ایک خاص حالت ، خاص فضا اور خاص معاشرے سے متعلق حدیث کو ٹھیک اس واعظانہ بے قیدی دبے پناہی کے ساتھ استعمال کیا گیا جس کے نقصان واضرار پر ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ اور مجدد الف ثانیؒ جیسے حضرات سر پیٹتے گئے ہیں اور جس کی سطحیت پر سید اسماعیل شہید جیسے اعاظم رجال پناہ مانگ چکے ہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
قبوری ذہن کو ہتھیار:
ہندوپاک میں قبر پرستی اور پرستش اولیاء جس قدر زوروں پر ہے آنکھ والوں سے مخفی نہیں ایسے حالات اور ماحول میں جو اہل علم"حیات النبی" کا مسئلہ لے کر بیٹھتے ہیں اور حیات پیغمبر کو بالکل حیاتِ دنیاوی بنا کر اپنی فدائیت رسول اور حب پیغمبر اور تجر علمی کا مظاہرہ فرمانا چاہتے ہیں وہ صرف وقت کا ضیاع ہی نہیں کرتے بلکہ اسے ایک نہایت افسوسناک نتائج پیدا کرنے والے کام صرف کرتے ہیں اور قبوری ذہن کو تصور توحید کے خلاف ہتھیار مہیا فرماتے ہیں اسی لیے آج اس مسئلہ کی حیثیت محض علمی نہیں رہی کہ اس میں ہر نقطہ نظر کو باعتبار اجتہاد حق وثواب مان لیا جائے بلکہ اس کی نوعیت ایک مستقل فتنے کی ہوگئی ہے جس سے دامن بچانا ہر دانش مند کا فرض ہے اسی وجہ سے "رحیق" کے فاضل مضمون نگار نے زحمت تنقید فرمائی ہے اور اس وجہ کا مختصراً اظہار بھی آخر میں کردیا ہے۔

نفس مسئلہ سے ہٹ کر جہاں تک طرز تحریر اور معیار تنقید کا تعلق ہے تو اگر نفس مسئلہ پر ہم فاضل مضمون نگار سے متفق نہ ہوتے تب بھی برملا یہی کہتے کہ سنجیدہ ومتین اور ٹھوس علمی اختلاف کا جو بہتر سے بہتر معیار ہوسکتا ہے انہوں نے اس کا حق ادا کردیا ہے لہجے سے لے کر الفاظ تک اور دلائل سے لے کر آداب تک انہوں نے پوری شائستگی ، بردباری اور نجابت کاثبوت دیا ہے یہ تو ہوسکتا ہے کہ آپ یا کوئی اور ان کے دلائل سے متفق نہ ہو یا دلائل کو سمجھے بوجھے بغیر صرف عقیدتاً اسی خیال پر جما رہے جو اس کے محبوب بزرگوں کا ہے لیکن یہ نہیں ہوناچاہیئے کہ ان کا اہل حدیث ہونا آپ کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ دے اور اپنے بزرگوں کے ایک مسلک کی علمی تنقید آپ کو جامے سے باہر کر دے۔

یہ کیسی بلید الذہبی ہے کہ اپنے طرف تو آپ جماعت اسلامی کی تائید کا ذکر نہایت تحبر سے کرتے ہیں دوسری طرف بعض اکابر اسلاف کے ساتھ"لائق صد احترام" کا دم چھلا لگا ئیں ہمیں ان کی حمایت پر اس لیے ابھارتے ہیں کہ وہ"ہمارے" ہیں اس طرح کی لغویتیں قوم ودطن کے محور پر گھومنے ولی سیاست میں چلتی ہیں لیکن دینی وعلمی مسائل میں اپنا اور پرایا ، لائق صداحترام اور لائق صد اہانت کوئی چیز نہیں ہوتی مولانا قاسم رحمہ اللہ علیہ یا کسی اور دیوبندی بزرگ سے کہ ہمارے نسلی اور وطنی کچھ رشتے ہیں تو دینی وعلم مسائل میں ان رشتوں کی دہائی دینا پر لے درجے کی تنگ نظری ہے اور مولانا مودودی سے ہمارا نسلی ووطنی کوئی بھی رشتہ اگر نہیں ہے تو اس عدم تعلق کو دینی وعلمی مسائل میں ملحوظ رکھنے کا سبق دینے والا ہمارے نزدیک انتہائی پستی فکر ونظر کا شکار ہے پھر اسی سانس میں آپ اہل حدیث پر بھی علی الاطلاق ایک بھونڈہ فقرہ کس جاتے ہیں یہ کیا گراوٹ ہے ہم بے شک حنفی ہیں اور یہاں تک غالی کہ اگر کسی فقہی مسلک کے بارے میں ہمیں تحقیق ہو جائے کہ واقعی وہ امام ابو حنیفہ ؒ کا ہے اور بعد کے کسی حنفی نے اس میں اپنے اجتہاد وقیاس کو داخل نہیں کیا ہے تو چاہے یہ ہمارے علم وعقل کے بظاہر خلاف ہی ہومگر ہم اس سے اختلاف کی ہمت نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے پاس وہ کافی علم نہیں ہے جواتنے بڑے عالم ودانا سے اختلاف کرنے کا حق عطا کرتا ہے۔

اہل حدیث پر توہین رسولﷺ کا الزام:
"توہین رسولﷺ" کی ایک ہی رہی اہل حدیث اور توہین رسولﷺ ؟ دن اور تاریکی؟ آسمان اور پستی؟ ہمیں پہلے ہی اندیشہ تھا کہ دیوبندی علمائے خلف کی اہل بدعت سے نیم برہنہ سانٹھ گانٹھ او مفاہمت آخر کار دیوبندی مکتبہ فکر میں بھی مبتد عانہ غلوفی العقائد اور متوہمانہ نکتہ سنجی کا زہر پھیلا کے رہے گی، وہی ہوا اہل بدعت تو دیوبندیوں پر توہین رسولﷺ اور تحقیر اولیاء کے الزامات عائد کرتے تھے اب دیوبندی مسلک کے لوگ اہل حدیث اور مولانا مودودی وغیرہ پر یہی ہوائی تیر چلا رہے ہیں۔ بندہ رب! رحیق والے مضمون میں تو توہین رسولﷺ کا شائبہ تک نہیں جو خورد بین چونٹی کو ہاتھی بنا کر دکھاتی ہو، وہ بھی اس مضمون میں توہین رسولﷺ کا حبہ نہیں دکھاسکتی یہ الگ بات ہے کہ جس طرح قبوری حضرات نے اہل قبور کے لیے رنگ برنگے عقائد گھڑلیے ہیں طرح طرح کی درواز کار اور بے اصل صفات اولیاء مرحومین کے لیے تصنیف فرما لی ہیں اور ان خود ساختہ عقائد وصفات کی تردید کو وہ توہین اولیاء قرار دیتے ہیں اسی طرح آپ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں کچھ طبع زاد تصورات کو حقائق مان لیا ہو اور ان سے بدلائل اختلاف کرنے والوں کو مرتکب توہین قرار دینے لگیں۔
مولانا محمد اسماعیل کا درست تجزیہ:
سچ لکھا ہے رحیق کے مضمون نگار جناب مولانا محمد اسماعیل صاحب نے "بعض دیوبندی علماء بھی بریلوی علم کلام کے ۱/۳ حصے سے موقعہ بموقعہ کام لیتے رہتے ہیں" بلکہ ہم تو یہاں تک شہادت دیں گے یہ علم کلام گا ہے گاہے جامہ عمل بھی پہن لیتا ہے مثلا یہاں اسیے بھی "علمائے کرام" موجود ہیں جو شاہ ولایت صاحب کے مزار پر جاتے ہیں اور واپس آکر دوست احباب سے یہاں تک فرماتے ہیں کہ آج مجھے شاہ ولایت صاحب نے ڈانٹا کہ اتنے دنوں سے کہاں تھا اور آج سینے سے لگالیا، اور آج فلاں مشورہ دیا یہاں ایسے بھی"عاشقان اولیاء" علماء ہی کے دائرے میں موجود ہیں کہ اگر آپ ان سے کہیں گے مولانا! یہ جو آپ نے درمیان کی دیوار ڈھاکر دوکرو ٹھریوں کا ایک کمرہ نا دیا تو بہت ہی چھا کیا تو وہ جواب دیں گے جی ہاں! حضرت مولانا۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمۃ اللہ علیہ کی برکت ہے جو کام بھی کرتا ہوں ماشاء اللہ ان کی توجہ سے پسندیدہ ومرغوب ہوتا ہے حالانکہ کسی اور وقت میں جب موڈ ذرا بدلا ہوا ہو آپ انہیں کی زبانی یہ بھی سنیں گے کہ مولانا صاحب! بڑی ہی پریشانی ہے تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا فلاں یوں کیا تھا یوں بگڑ گیا فلاں ترکیب یوں سوجھی تھی اور اوندھی ہوگئی اب اگر آپ یاد دلائیں مولانا وہ برکت وتوجہ کہاں گئی جس کا آپ نے تذکرہ فرمایا تھا وہ سوختہ وبریاں جواب ملے گا کہ قادیانی علم کلام بھی پانی بھرتا رہ جائے گا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بدعت کا کوئی وطن نہ وہ کوئی لمیٹڈ یا رجسٹرڈ کاروبار ہے ضروری نہیں کہ ایک دیوبندی عالم جو کچھ کہے اور کرے اس کا بدعت ہونا ناممکن قرار دیا جائے اور اہل حدیث حضرات اگرعلمائے دیوبند سے کسی مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہوں تو لازماً علمائے دیوبند ہی حق پر ہوں آخرت کا اگر خیال ہے تو گروہی اور وطنی عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ کر اسلام اور بند گان اسلام کی اصلاح وفلاح کے لئے وسعت نظر اور احلم وبرداشت کی راہ پر آیئے ورنہ قبر اقبال سے وہی آواز آئے گی کہ

تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
(تجلّی دیوبند ص۲۴ تا ص ۴۶ بابت جولائی واگست ۱۹۵۸ء)


ختم شد​
 

ابو مریم

مبتدی
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 22، 2011
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
495
پوائنٹ
22
اللہ تعالے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے اتنی بہترین پوسٹ شیئر کی ہے . ان شاء اللہ العزیز شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مقالات ومضامین پر مشتمل سلسلہ نگارشات حصہ دوم میں مولانا سلفی رحمہ اللہ کے تمام کتابچے اور رسائل پیش کیے جائیں گے جن کی تعداد اب تک سات ہے. اور ان میں ایک یہی رسالہ مسئلہ حیات النبی بھی ہے .
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
اللہ تعالے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے اتنی بہترین پوسٹ شیئر کی ہے . ان شاء اللہ العزیز شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مقالات ومضامین پر مشتمل سلسلہ نگارشات حصہ دوم میں مولانا سلفی رحمہ اللہ کے تمام کتابچے اور رسائل پیش کیے جائیں گے جن کی تعداد اب تک سات ہے. اور ان میں ایک یہی رسالہ مسئلہ حیات النبی بھی ہے .
جزاک اللہ ابو مریم بھائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیق دے کہ آپ کے مکتبہ کی طرف سے بہت ہی نادر کتب منظر عام پر آئی ہیں۔۔۔بھائی جان، ممکن ہو تو وہ کتب جو شائع ہو چکی ہیں، ان میں جن کتب کی ان پیج یا پی ڈی ایف آپ شیئر کر سکتے ہوں تو کر دیجئے۔ ہم بیک اینڈ پر کافی ان پیج والی کتب کو یونیکوڈائز کر رہے ہیں ۔ جنہیں ان شاءاللہ وقتاً فوقتاً فورم پر بھی پیش کرتے رہیں گے۔ آپ اکیلے ہی ہم سے اتنا تعاون کر سکتے ہیں کہ جتنا ہماری ٹیم پورا سال ٹائپ کر کے بھی نہیں کر سکتی۔ امید ہے کہ آپ ضرور شفقت فرمائیں گے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا شاکر بھائی!
نہایت ہی عمدہ شیئرنگ پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہر گروہ میں حق کو قبول کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ ﴿ ليسوا سواء ... ﴾
الله تعالیٰ ہم سب کو اعتصام بالکتاب والسنۃ کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العٰلمین
 

bismillah

رکن
شمولیت
اکتوبر 10، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
225
پوائنٹ
58
جزاک اللہ ابو مریم بھائی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید توفیق دے کہ آپ کے مکتبہ کی طرف سے بہت ہی نادر کتب منظر عام پر آئی ہیں۔۔۔بھائی جان، ممکن ہو تو وہ کتب جو شائع ہو چکی ہیں، ان میں جن کتب کی ان پیج یا پی ڈی ایف آپ شیئر کر سکتے ہوں تو کر دیجئے۔ ہم بیک اینڈ پر کافی ان پیج والی کتب کو یونیکوڈائز کر رہے ہیں ۔ جنہیں ان شاءاللہ وقتاً فوقتاً فورم پر بھی پیش کرتے رہیں گے۔ آپ اکیلے ہی ہم سے اتنا تعاون کر سکتے ہیں کہ جتنا ہماری ٹیم پورا سال ٹائپ کر کے بھی نہیں کر سکتی۔ امید ہے کہ آپ ضرور شفقت فرمائیں گے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بھائی ایک تجوئز ہے کہ ایسے یونی کوڈ مضامین کو اگر ورڈ فائل میں بھی مرتب کر دیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بھائی ایک تجوئز ہے کہ ایسے یونی کوڈ مضامین کو اگر ورڈ فائل میں بھی مرتب کر دیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
بھائی تجویز تو بہت عمدہ ہے۔ اور اس پر ہم پہلے بھی کافی غور کر چکے ہیں۔ مسئلہ یہ آ جاتا ہے کہ یونیکوڈ مضامین کی فارمیٹنگ فورم کے لئے بالکل علیحدہ ہے اور ورڈ کے لئے علیحدہ۔ لہٰذا اگر کوئی فورم کےساتھی یہ کام کر سکیں کہ فورم سے مضامین کو کاپی کریں اور خوبصورت سی ورڈ فائل فارمیٹ کر کے مہیا کر دیا کریں تو ہم اس کا ڈاؤن لوڈ لنک اسی کتاب کی پہلی پوسٹ میں لگا دیا کریں۔ ہماری چند افراد کی ٹیم ہے اور ہمارے روزمرہ کے ڈھیروں کام ہوتے ہیں، جنہیں نپٹانا ہوتا ہے۔ اور نئے پراجیکٹس پر کام بھی ساتھ چل رہا ہوتا ہے جو کہ ابھی منظر پر نہیں آئے ہیں۔ لہٰذا ایک نئی ذمہ داری ہم اپنی ٹیم کو سونپیں، اس کے بجائے اگر دیگر ساتھی یہ کام تقسیم کر لیں تو ایک نیک کام میں شمولیت بھی ہو جائے گی اور اس کا فائدہ بھی زیادہ ہوگا۔ ان شاءاللہ۔
 
Top