• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ حیات انبیا علیھم السلام :حیاتی اور مماتی دونوں غلط ہیں!

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
بعد از وفات حضرات انبیاے کرام علیھم السلام کی حیات فی القبور کا مسئلہ ارباب دیوبند کے دو گروہوں کے مابین ایک عظیم نزاع کی صورت اختیار کر گیا ہے اور ہردو فریق نقطۂ اعتدال کو چھور کر افراط و تفریط میں جا پڑے ہیں؛ایک(مماتی) نے سرے سے اس زندگی ہی کا انکار کردیا اور اسے سراسر برزخی معاملہ قرار دیتے ہوئے زمینی قبر میں زندگی کے منکر ہو گئے
جب کہ دوسرے (حیاتی) نے غلو سے کام لیتے ہوئے اس زندگی کو حسی اور دنیوی قرار دے دیا ۔
اہل حدیث و سنت کا مسلک ان دونوں انتہاؤں کے مابین معتدل اور متوازن مسلک ہے اور وہ یہ ہے کہ
حدیث صحیح (اسے ضعیف قرار دینا بالکل غلط ہے) الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون کے مطابق انبیا ےکرام علیھم السلام اپنی دنیاوی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی یہ زندگی ہرگز دنیوی نہیں بل کہ اس کے مماثل بھی نہیں ؛یہ ایک روحانی اور برزخی حیات ہے جو انھیں اپنی دنیوی قبروں ہی میں حاصل ہے اور اس کی کیفیت ہمارے حیطۂ فہم و ادراک سے باہر ہے۔
دنیوی اعتبار سے انھیں فوت شدہ کہا جا سکتا ہے کیوں کہ انھیں ایسا کہنے کی ممانعت نہیں کی گئی بہ خلاف شہدا کے لیکن دیگر افراد سے ان کا معاملہ بہ ہر حال جدا ہے ؛ دوسروں کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاؑ کو خاص حیات حاصل ہے جو کہ تمام فوت شدگان کو حاصل نہیں ۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ بعض اہل حدیث حضرات اس باب میں مماتی حضرات کو درست سمجھتے ہیں حالاں کہ ان کا موقف بالکل غلط ہے اور یہ لوگ نہ تو اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں اور نہ ہی قبر سے زمینی قبر مراد لیتے ہیں ؛اسی لیے یہ عذاب قبر کے بھی منکر ہیں اور عثمانی گروپ سے ملتا جلتا نظریہ رکھتے ہیں۔
یہ ایک اجمالی بیان ہے جس کی توضیح دوران بحث ہوتی رہے گی؛ان شاء اللہ
 

جنید علی

مبتدی
شمولیت
جنوری 23، 2012
پیغامات
5
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
18
حیات الشھدا اور
حیات انبیا ےکرام علیھم السلام کے فرق کی وضاحت فرما دیجیے-شکریہ
 
شمولیت
نومبر 20، 2014
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
64
پوائنٹ
18
بعد از وفات حضرات انبیاے کرام علیھم السلام کی حیات فی القبور کا مسئلہ ارباب دیوبند کے دو گروہوں کے مابین ایک عظیم نزاع کی صورت اختیار کر گیا ہے اور ہردو فریق نقطۂ اعتدال کو چھور کر افراط و تفریط میں جا پڑے ہیں؛ایک(مماتی) نے سرے سے اس زندگی ہی کا انکار کردیا اور اسے سراسر برزخی معاملہ قرار دیتے ہوئے زمینی قبر میں زندگی کے منکر ہو گئے
جب کہ دوسرے (حیاتی) نے غلو سے کام لیتے ہوئے اس زندگی کو حسی اور دنیوی قرار دے دیا ۔
اہل حدیث و سنت کا مسلک ان دونوں انتہاؤں کے مابین معتدل اور متوازن مسلک ہے اور وہ یہ ہے کہ
حدیث صحیح (اسے ضعیف قرار دینا بالکل غلط ہے) الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون کے مطابق انبیا ےکرام علیھم السلام اپنی دنیاوی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی یہ زندگی ہرگز دنیوی نہیں بل کہ اس کے مماثل بھی نہیں ؛یہ ایک روحانی اور برزخی حیات ہے جو انھیں اپنی دنیوی قبروں ہی میں حاصل ہے اور اس کی کیفیت ہمارے حیطۂ فہم و ادراک سے باہر ہے۔
دنیوی اعتبار سے انھیں فوت شدہ کہا جا سکتا ہے کیوں کہ انھیں ایسا کہنے کی ممانعت نہیں کی گئی بہ خلاف شہدا کے لیکن دیگر افراد سے ان کا معاملہ بہ ہر حال جدا ہے ؛ دوسروں کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاؑ کو خاص حیات حاصل ہے جو کہ تمام فوت شدگان کو حاصل نہیں ۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ بعض اہل حدیث حضرات اس باب میں مماتی حضرات کو درست سمجھتے ہیں حالاں کہ ان کا موقف بالکل غلط ہے اور یہ لوگ نہ تو اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں اور نہ ہی قبر سے زمینی قبر مراد لیتے ہیں ؛اسی لیے یہ عذاب قبر کے بھی منکر ہیں اور عثمانی گروپ سے ملتا جلتا نظریہ رکھتے ہیں۔
یہ ایک اجمالی بیان ہے جس کی توضیح دوران بحث ہوتی رہے گی؛ان شاء اللہ
‎‏ آپ میرے خیال میں حیاتیوں کےوکیل یا اہلحدیث یت کا لباس پہن کر حیاتی ہو اس مسئلے میں اشاعت اور اہلحدیث کا موقف ایک ہے عذاب قبر میں کسی معتبر اشاعت کی کتاب کا حوالہ دے دو چیک کرلینگے
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
‎‏ آپ میرے خیال میں حیاتیوں کےوکیل یا اہلحدیث یت کا لباس پہن کر حیاتی ہو اس مسئلے میں اشاعت اور اہلحدیث کا موقف ایک ہے عذاب قبر میں کسی معتبر اشاعت کی کتاب کا حوالہ دے دو چیک کرلینگے
اسی غلط فہمی کے ازالے کے لیے میں نے یہ عنوان قائم کیا تھا؛مماتی(اشاعتی) حضرات کا موقف درست نہیں ہے:
کیا وہ بعد از دفن میت کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کو تسلیم کرتے ہیں؟؟؟
کیا حدیث الانبیاء أحیاء فی قبورھم یصلون کو وہ صحیح مانتے ہیں؟؟؟
کیا بہ وقت سلام رسول اللہ ﷺ کی روح لوٹائے جانے کا اقرار کرتے ہیں؟؟؟
کیا مماتی زمینی قبر میں عذاب و ثواب کے قائل ہیں؟؟؟
کیا بعد از وفات موجودہ جسم عنصری پر عذاب و ثواب کو مانتے ہیں؟؟؟
عذاب قبر کے سلسلے میں معتبر کتابیں کئی ہیں جو محدث لائبریری ویب سائٹ پر موجود ہیں:
مولانا ارشد کمال کی المسند فی العذاب القبر اور ایک اور کتاب؛اسی طرح ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی کی کتابوں کا مطالعہ کریں،حقیقت واضح ہو جائے گی۔
 
شمولیت
نومبر 20، 2014
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
64
پوائنٹ
18
ﮐﺌﯽ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﻮ
ﺩﯾﮑﮭﺎ ،ﺳﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮍﮬﺎ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﻧﮧ
ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ
"ﺟﻤﻌﯿﺖ ﺍﺷﺎﻋﺖ
ﺍﻟﺘﻮﺣﯿﺪ ﻭﺍﻟﺴﻨۃ" ﮐﮯ
ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ
ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
ﯾﮧ"ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺻﻠﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ" ﮐﮯ
ﻣﻨﮑﺮ ﮨﯿﮟ ،ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ
ﺍﯾﺴﺎ ﺑﻠﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺁﺝ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﻮﺳﭧ ﻣﯿﮟ
ﺍﮐﺎﺑﺮﯾﻦ ﺍﺷﺎﻋﺖ
ﺍﻟﺘﻮﺣﯿﺪ ﮐﺎ "ﻣﺘﻔﻘﮧ"
ﻣﺴﻠﮏ ﻭﻣﺸﺮﺏ ﻧﻘﻞ
ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﻞ
ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﺷﺨﺼﯿﺖ
ﮐﮯ ﻗﻠﻢ ﺳﮯ ﺟﺴﮯ
ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻮﺭﺩِ
ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﻝ ﻧﻤﺒﺮﺣﯿﺎﺕ
ﺍﻟﻨﺒﯽ ﮐﺎ" ﻣﻨﮑﺮ" ﮐﮩﺎ
ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ،ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺮﺍﺩ
ﮨﮯ"ﭘﯿﺮ ﻃﺮﯾﻘﺖ ﻭﻟﯽ
ﮐﺎﻣﻞ ﻋﻼﻣﮧ ﺳﯿﺪ
ﻋﻨﺎﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﺎﮦ
ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺣﻤﮧ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ"
"ﺣﻀﺮﺕ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ
ﺧﺎﺗﻢ ﺍﻟﻨﺒﯿﻦ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﭘﺮ
ﻭﻋﺪﮦ ﺍﻟٰﮩﯽ ﺍﻧﮏ ﻣﯿﺖ
ﻭ ﺍﻧﮭﻢ ﻣﯿﺘﻮﻥ ﮐﮯ
ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺣﻘﯿﻘۃ ﻣﻮﺕ
ﻭﻗﻊ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ
ﺍﻗﺪﺱ ﺟﺴﺪ ﺍﻃﮩﺮ
ﺳﮯ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﮨﻮ ﮐﺮ
ﺟﻨﺖ ﺍﻟﻔﺮﺩﻭﺱ ﻣﯿﮟ
ﺭﻓﯿﻖ ﺍﻋﻠﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﺍﻭﺭ
ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺒﺎﺭ
ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮭﻢ ﻧﮯ
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﺴﺪِ ﺍﻃﮩﺮ ﮐﻮ
ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﯿﺖ ﺳﻤﺠﮫ
ﮐﺮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﯿﺎ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻋﺎﻟﻢِ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ
ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﺁﻧﺤﻀﺮﺕ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ
ﻋﺎﻟﻢِ ﺑﺮﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﻣﺜﻞ
ﺷﮭﺪﺍﺀ ﺑﻠﮑﮧ ﺷﮭﺪﺍﺀ
ﺳﮯ ﺍﻋﻠﯽ ﻭ ﺍﺭﻓﻊ
ﺣﯿﺎﺕِ ﺑﺮﺯﺧﯿﮧ ﻋﻄﺎ
ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﺣﯿﺎﺕ ِ
ﺩﻧﯿﻮﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ
ﺳﮯ ﺑﺪﺭﺟﮩﺎ ﺍﻋﻠﯽ ﻭ
ﺍﺭﻓﻊ ﻭﺍﻓﻀﻞ ﺣﯿﺎﺕِ
ﺑﺮﺯﺧﯿﮧ ﮨﮯ ﻧﮧ ﮐﮧ
ﺣﯿﺎﺕ ﺩﻧﯿﻮﯾﮧ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ )ﺑﺮﺯﺧﯽ
ﺣﯿﺎﺕ ﻧﺎﻗﻞ ( ﺣﯿﺎﺕ ﮐﻮ
ﺩﻧﯿﻮﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ
ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﯽ
ﺣﯿﺎﺕ ﺑﺮﺯﺧﯿﮧ ﺳﮯ
ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ
ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺍﮨﻞ
ﺍﻟﺴﻨﺖ ﺳﮯ ﺧﺎﺭﺝ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ
ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ،ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ
ﮐﺮﺍﻡ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﻟﺼﻼۃ ﻭ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺧﺼﻮﺻﺎ
ﺳﯿﺪ ﺍﻻﻧﺒﯿﺎﺀ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ
ﺑﻌﺪ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﺳﺐ ﺳﮯ
ﺍﻋﻠﯽٰ ﻭﺍﺭﻓﻊ ﻭﺍﺟﻤﻞ
ﻭﺍﻓﻀﻞ ﺣﯿﺎﺕِ ﺑﺮﺯﺧﯿﮧ
ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺟﻤﮩﻮﺭ ﺍﮨﻞ ﺍﻟﺴﻨﺖ
ﻭﺍﻟﺠﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﻣﺴﻠﮏ
ﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺻﺤﯿﺤﮧ ﺍﻭﺭ
ﺍﺭﺷﺎﺩﺍﺕ ﺻﺤﺎﺑﮧ
ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﻢ
ﺷﺎﮨﺪ ﮨﯿﮟ" )ﻋﻨﺎﯾﺖ ﺍﻟﻠﮧ
ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻋﻔﯽ ﻋﻨﮧ
ﻣﺴﺠﺪ ﺟﺎﻣﻊ ﮔﺠﺮﺍﺕ (
)ﻣﺎﮦ ﻧﺎﻣﮧ ﺗﻌﻠﯿﻢ
ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ،ﺟﻮﻻﺋﯽ
ﺍﮔﺴﺖ 1960 ﺹ
۔۔۔ 33ﻭ ﺗﺴﮑﯿﻦ
ﺍﻟﺼﺪﻭﺭ ﺹ ۔283
284 (
ﺍﺱ ﻓﺘﻮﯼ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ
ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺍﻟﺘﻮﺣﯿﺪ ﮐﮯ
ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﭘﭽﺎﺱ
ﺍﮐﺎﺑﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﺍُﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
ﭼﻨﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻧﻘﻞ ﮐﺮﺗﺎ
ﮨﻮﮞ
)1 ( ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻧﺼﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ
ﺻﺎﺣﺐ ﻏﻮﺭ ﻏﺸﺘﻮﯼ
ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ )2 (
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺻﺎﺣﺐ
ﺑﮩﺒﻮﺩﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
)3 (ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﻤﻌﻘﻮﻝ ﻭ
ﺍﻟﻤﻨﻘﻮﻝ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻭﻟﯽ
ﺍﻟﻠﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ، ﺍﻧﮩﯽ ﻭﺍﻟﮯ ( )4 (
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﻗﺎﺿﯽ ﺷﻤﺲ ﺍﻟﺪﯾﻦ
ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
)5 (ﺷﯿﺦ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﻏﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ
ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ )6 (
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﻗﺎﺿﯽ ﻧﻮﺭ ﻣﺤﻤﺪ
ﺻﺎﺣﺐ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻗﻠﻌﮧ ﺩﯾﺪﺍﺭ
ﺳﻨﮕﮫ
)7 (ﺷﯿﺦ ﺍﻻﺩﺏ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﻗﺎﺿﯽ ﻏﻼﻡ ﻣﺼﻄﻔﯽ
ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺮﺟﺎﻧﻮﯼ
ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ )8 (
ﺷﯿﺦ ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﻣﺤﻤﺪ ﻃﺎﮨﺮ ﺻﺎﺣﺐ
ﭘﻨﺞ ﭘﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
)9 (ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺘﻔﺴﯿﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ
ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻣﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ
ﺑﻨﺪﯾﺎﻟﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ )10 (ﺷﯿﺦ
ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﺣﻤﺪ
ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﺠﺎﺩ
ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
)11 (ﺷﯿﺦ ﺍﻟﺤﺪﯾﺚ
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻗﺎﺿﯽ ﻋﺼﻤﺖ
ﺍﻟﻠﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺑﻦ ﻗﺎﺿﯽ
ﻧﻮﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
ﺍﺱ ﻓﺘﻮﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﮐﺮﺍﻡ ﺳﮯ
ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺍﻡ
ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﻟﻌﻤﻮﻡ
ﯾﮧ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ
ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ،ﻣﺴﻠﮏ
ﻋﻘﯿﺪﮦ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮﻧﮯ
ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍُﺱ
ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﻣﺴﻠﮏ
ﻭ ﻣﺸﺮﺏ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮ
ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ
ﺭﺍﺋﮯ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ
ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﻭﺭﻧﮧ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﺎ
ﺣﺎﻣﯽ ﻭﻧﺎﺻﺮ ﮨﻮ صدیقی الغزالی فورم
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون ۔۔

سب سے پہلی بات یہ کہ اگر کوئی اس حیات کو حیاتِ برزخی کہے تو ہمارا اس سے قطعاً اختلاف نہیں ہے ۔ کیونکہ یہاں پر ذکر ہے قبر کا اور قبر کہتے ہیں "مقر المیت" کو ہیں ۔ اور برزخی حیات میت کے اطلاق کے منافی نہیں ہے ۔

لیکن اگر کوئی قبر کو مقر المیت بھی مانے اور ساتھ میں کہے نبی کریمﷺ قبر مبارک میں حیاتِ دنیویہ، حسسّیہ ، کاملہ و حقیقہ کے ساتھ زندہ ہیں ، زائیرین کے خیالات و نیات کو جانتے ہیں ، دنیاوی ادراک فہم شعور و سماع رکھتے ہیں تو اس سے ہمارا بالکل اختلاف ہے اور یہ اختلاف کرنا حق ہے ۔

کیونکہ ایسی زندگی مرنے کے بعد صرف اور صرف قیامت میں ہی ملے گی جب نفخہِ ثانیہ ہو گا ۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون ۔۔

سب سے پہلی بات یہ کہ اگر کوئی اس حیات کو حیاتِ برزخی کہے تو ہمارا اس سے قطعاً اختلاف نہیں ہے ۔ کیونکہ یہاں پر ذکر ہے قبر کا اور قبر کہتے ہیں "مقر المیت" کو ہیں ۔ اور برزخی حیات میت کے اطلاق کے منافی نہیں ہے ۔

لیکن اگر کوئی قبر کو مقر المیت بھی مانے اور ساتھ میں کہے نبی کریمﷺ قبر مبارک میں حیاتِ دنیویہ، حسسّیہ ، کاملہ و حقیقہ کے ساتھ زندہ ہیں ، زائیرین کے خیالات و نیات کو جانتے ہیں ، دنیاوی ادراک فہم شعور و سماع رکھتے ہیں تو اس سے ہمارا بالکل اختلاف ہے اور یہ اختلاف کرنا حق ہے ۔

کیونکہ ایسی زندگی مرنے کے بعد صرف اور صرف قیامت میں ہی ملے گی جب نفخہِ ثانیہ ہو گا ۔
آپ سے گزارش ہے کہ اوپر کیے گئے سوالات کا واضح جواب عنایت فرمائیں؛نئی باتیں نہ چھیڑیں؛ان پر الگ سے بات کریں گے؛ہم حیاتیوں کی تعبیر کو بھی درست نہیں سمجھتے گو اس کی تاویلایں بھی ہو سکتی ہیں؛ایک بات یاد رکھیں کہ دنیوی سے مراد وہ بھی موجودہ زندگی مانند مراد نہیں لیتے۔
حیات دنیویہ، حسیہ،کاملہ و حقیقیہ کے الفاظ کی جو تشریح حیاتی حضرات کرتے ہیں ، اس میں کوئی خاص اشکال نہیں رہ جاتا؛تفصیل عرض کر دی جائے گی بہ وقت ضرورت ان شا ء اللہ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بعد از وفات حضرات انبیاے کرام علیھم السلام کی حیات فی القبور کا مسئلہ ارباب دیوبند کے دو گروہوں کے مابین ایک عظیم نزاع کی صورت اختیار کر گیا ہے اور ہردو فریق نقطۂ اعتدال کو چھور کر افراط و تفریط میں جا پڑے ہیں؛ایک(مماتی) نے سرے سے اس زندگی ہی کا انکار کردیا اور اسے سراسر برزخی معاملہ قرار دیتے ہوئے زمینی قبر میں زندگی کے منکر ہو گئے
جب کہ دوسرے (حیاتی) نے غلو سے کام لیتے ہوئے اس زندگی کو حسی اور دنیوی قرار دے دیا ۔
اہل حدیث و سنت کا مسلک ان دونوں انتہاؤں کے مابین معتدل اور متوازن مسلک ہے اور وہ یہ ہے کہ
حدیث صحیح (اسے ضعیف قرار دینا بالکل غلط ہے) الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون کے مطابق انبیا ےکرام علیھم السلام اپنی دنیاوی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کی یہ زندگی ہرگز دنیوی نہیں بل کہ اس کے مماثل بھی نہیں ؛یہ ایک روحانی اور برزخی حیات ہے جو انھیں اپنی دنیوی قبروں ہی میں حاصل ہے اور اس کی کیفیت ہمارے حیطۂ فہم و ادراک سے باہر ہے۔
دنیوی اعتبار سے انھیں فوت شدہ کہا جا سکتا ہے کیوں کہ انھیں ایسا کہنے کی ممانعت نہیں کی گئی بہ خلاف شہدا کے لیکن دیگر افراد سے ان کا معاملہ بہ ہر حال جدا ہے ؛ دوسروں کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاؑ کو خاص حیات حاصل ہے جو کہ تمام فوت شدگان کو حاصل نہیں ۔
یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ بعض اہل حدیث حضرات اس باب میں مماتی حضرات کو درست سمجھتے ہیں حالاں کہ ان کا موقف بالکل غلط ہے اور یہ لوگ نہ تو اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں اور نہ ہی قبر سے زمینی قبر مراد لیتے ہیں ؛اسی لیے یہ عذاب قبر کے بھی منکر ہیں اور عثمانی گروپ سے ملتا جلتا نظریہ رکھتے ہیں۔
یہ ایک اجمالی بیان ہے جس کی توضیح دوران بحث ہوتی رہے گی؛ان شاء اللہ

أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون -


یہ حدیث ضعیف ہے -

الذهبي في الميزان وقال: نكرة، ما روى عنه – فيما أعلم – سوى مستلم بن سعيد فأتى بخبر منكر عنه عن أنس في أن الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون.
الذهبي المیزان کہا ہے منکرہے جو روایت کیا ہے -یہ علم ہوا ہے کہ سوائے مستلم بن سعيد کے کوئی اور اس کو روایت نہیں کرتا ،پس ایک منکر خبر انس سے روایت کرتا ہے کہ بے شک انبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں-

دوسرے یہ کہ یہ انبیاء کی اپنی قبروں میں نماز پڑھنے ولی حدیث قرآن اور صحیح بخاری کی احادیث سے بھی متعارض ہے -

قرآن میں الله کا واضح فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ -أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢٠-٢١
اور جنہیں یہ الله کے سوا پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ لوگ کب اٹھائے جائیں گے-

تاریخ گواہ ہے کہ مشرک لوگوں نے ہمیشہ انبیاء اور اولیاء الله کو ہی حاجت روائی کے لئے پکارا جو اپنی اپنی قبروں میں مدفون ہیں- یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے-

اب بخاری کی صحیح حدیث ملاحظه ہو -

صحیح بخاری میں نبی صلی الله علیہ وسلم کا حکم ہے کہ

اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا

اپنے گھروں میں نماز پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ (بخاری) -

اب اگر قبر میں نماز پڑھی جاتی ہے تو صحیح بخاری کی حدیث کا کیا مفہوم رہ جائے گا نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول میں تضاد ممکن نہیں لہذا الذهبي کی بات درست ہے کہ روایت انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ایک منکر روایت ہے-
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
(الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون) یہ حدیث صحیح ہے دیلمی نے اسے ۔ فردوس الاخبار۔ میں انس سے روایت کیا ہے ۔دیکھو 145:1برقم402۔اور علامہ البانی نے اسے ((صحیح الجامع الصغیر)) (414:2برقم2787)میں انس سے نقل کیا ہے نیز اسے ۔ الصحیحۃ۔ میں بھی1087:2برقم 621۔ذکر کیا ہے اور۔۔ الضعیفۃ۔۔میں بھی :366:1میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے یہ حدیث صحیح ہےِ ۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top