ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
مسئلہ خلط قراء ات اور علم ِتحریرات کا فنی مقام
حافظ حمزہ مدنی
قاری فہد اللہ
قاری فہد اللہ
زیر نظر مضمون کا تعلق علم قراء ات کے خالص فنی نوعیت کے موضوعات سے ہے۔ اس کے شائع کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ بر صغیر پاک وہند میں مسئلہ خلط قراء ات کی حساسیت کے پیش نظر مختلف اہل فن حضرات میں تجویدو قراء ات کے اسلوب ِ تدریس میں کافی نمایاں فرق پایا جاتاہے۔ اکثر اہل علم اس حوالے سے تعلیم قراء ات میں تسہیل کے نکتۂ نظر کے حامل ہیں، جبکہ محققانہ ذوق رکھنے والے اَساتذہ کے اسلوبِ تدریس میں تسہیل کے بجائے علم وتحقیق کے فروغ اور انحطاطِ علم سے بچاؤ کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ اس سلسلہ میں ادارہ کا رجحان یہ ہے کہ اس ضمن میں دونوں پہلو ہی قابل توجہ ہیں کہ نہ تو تسہیل ’’تساہل‘‘ پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہی تحقیقی ذوق علم قراء ات کے اگلی نسلوں تک ترسیل میں رکاوٹ بننا چاہیے۔ عالم اسلام بشمول برصغیر پاک وہند میں قراء ات عشرہ کبری کی تدریس کے منقطع ہونے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس تحقیقی ذوق کا بھی کافی دخل ہے۔ اسی احساس کے پیش نظر عالم عرب کی مشہور علمی شخصیت امام القراء علامہ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ نے فنی چیزوں سے قطع نظر تدریس ِ قراء اتِ عشرہ کبری کی رائے پیش فرمائی۔ دلچسپ اتفاق تھا کہ یہی رجحان اُس دور میں یا شائد اس سے چند سال قبل بر صغیر پاک وہند میں ترویج پا چکا تھا۔
پیش نظر مضمون کے ضمن میں اگر ذیل کے چند پہلو مد نظر رہیں تومسئلہ کی حساسیت میں متوازن رائے کو قبول کرنے کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔ ہماری رائے میں مسئلہ خلط ِ قراء ات بفحوائے حدیث: فَاقْرَئُ وْا مَاتَیَسَّرَ شرعی تسہیلات کے قبیل سے ہے، جیساکہ حدیث ِہشام رضی اللہ عنہ اس پر نص ہے کہ وہ سورۃ الفرقان کومختلف حروف ( قراء ات) کے ساتھ پڑھ رہے تھے، چنانچہ (روایتی موقف کے برخلاف) ہماری رائے میں خلط قراء ات کی اجازت کو آئمہ قراء ات تک محدود کردینا، چنداں مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ متعدد قراء ات کے اختلاط کے’’غیر شرعی‘‘ ہونے کا توسلف وخلف میں شائد ہی کوئی قائل ہو، البتہ بالعموم فنی پہلوسے اسے غلط سمجھا جاتا رہا ہے اور اس پہلو سے شائد کسی صاحب ِعلم کو مجال ِانکار بھی نہ ہو۔
علم الروایہ میں باعتبار روایت ِاختلاط وترکیبِ روایات کے عدم ِجواز پر اہل فن کااتفاق ہے، لیکن درپیش مشکل یہ ہے کہ’مبحث اختیارات‘تقاضا کرتی ہے کہ فن قراء ات میں اگر اس پس منظر کے اعتبار سے بھی خلط کو ناجائز قرار دیا جائے تو بھی ایک حد سے زیادہ اس پر پرتشدد موقف کو اپنانا ممکن نہیں، کیونکہ یہاں بنیادی رکاوٹ اختیارات ِآئمہ کا متفقہ تعامل ہے۔
تقلیدچونکہ تمام علومِ شرعی وغیر شرعی میں قبیح ہے، چنانچہ اہل علم میں اختلاف کی صورت میں دلائل کی بنیاد پر ہی ترجیح قائم کرنی چاہیے اور صریح دلائل کی روشنی میں سلسلہ کا تصلّب کبھی حائل نہیں ہونا چاہیے،جبکہ اس سلسلہ میں صریح شرعی رخصت اور اسلاف کا متفقہ تعامل بھی موجود ہے۔ پس فن کی تدریس میں اسی ’سختی‘ پر ہمارے تحفظات ہیں، ورنہ ہم خود ’تحریرات ‘کا اہتمام نہ کرنے کو فنی پہلو سے معیوب سمجھتے ہیں، جبکہ شرعی پہلو سے اس میں بہرحال عیب نہیں۔(ادارہ)