ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
امام أصمعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سیدنا نافع رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ میں نے سیدنا ابوجعفررحمہ اللہ کی قراء ت کے ستر (۷۰) حروف کو ترک کیا یعنی اپنی اختیار کردہ قراء ت میں شامل نہیں کیا۔‘‘
اسی طرح سیدنا ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے اپنا اختیار امام شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ، سیدنا عاصم بن أبی النجودرحمہ اللہ، سیدناعبداللہ بن کثیررحمہ اللہ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سعیدبن جبیررحمہ اللہ وغیرہ کی قراء ات سے مرتب فرمایا۔ انہوں نے بھی سیدنانافع رحمہ اللہ کی طرح اپنے مزاج کے مطابق مذکورہ لوگوں کی قراء ات کی تلخیص وتہذیب کی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کا اختیار اور ان کی متعین قراء ت ان کے شیوخ کی قراء ات کا امتزاج ہے۔
اسی طرح امام کسائی رحمہ اللہ نے امام حمزہ زیات رحمہ اللہ، امام عیسیٰ بن عمرہمدانی رحمہ اللہ، امام اسماعیل بن جعفررحمہ اللہ اور امام یعقوب بن جعفررحمہ اللہ سے جو کہ امام نافع رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، کی قراء ات سے اپنا اختیار مرتب کیا۔ انہوں نے ان سب کی قراء ات سے ایک نیا سیٹ ترتیب دیا۔ چنانچہ امام کسائی رحمہ اللہ سے منقولہ روایت ان کے شیوخ کی قراء ات کامجموعہ ہے۔ اس طرح باقی اَئمہ کی قراء ات کوسمجھئے۔
امام ابو محمد مکی القیسی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الإبانۃ عن معانی القراء ات میں اس طرح کی کئی مثالیں بیان کی ہیں، ان کا تفصیلی ارشاد ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں:
’’ہر قاری کو یہ ضرورت پیش آئی کہ وہ کس قراء ت کو ترک کرے اورکسے اختیارکرے۔ سو امام نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر (۷۰) تابعین سے علم قراء ات حاصل کیا، لیکن ان میں سے ہر استاد کے حروف کو لے کر اپنا اختیار (set) ترتیب دیا جس کے ساتھ کوئی دوسرا بھی شریک ومتفق تھا، حتی کہ میں نے یہ قراء ت کا سیٹ بنا لیا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ لوگوں کواپنی خاص اختیار کردہ قرا ء ت پڑھاتے تھے اور ان سے ان کے اکثر تلامذہ نے اسی اختیار کو اخذ کیا اور آگے نقل فرمایا۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے ربیب یعنی بیوی کے پہلے شوہر کے بیٹے اور شاگردِ خاص سیدنا قالون رحمہ اللہ نے آپ سے یہی اختیار نقل فرمایا ہے، لیکن سیدنا نافع رحمہ اللہ کے دوسرے مشہور شاگرد سیدنا ورش رحمہ اللہ، جن کا امام قالون رحمہ اللہ سے فصل ووصل اور ہمزہ کی تحقیق وتخفیف وغیرہ کے سلسلہ میں تقریبا تین ہزارسے زائد حروف میں اختلاف ہے، ان کی روایت کی صورتحال یہ ہے کہ وہ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے دوسرے رواۃ میں سے کسی سے بھی مروی نہیں اورنہ ہی ان اختلافات کو امام ورش رحمہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے نقل کیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ورش رحمہ اللہ نے سیدنا نافع رحمہ اللہ کواس طرح پڑھتے سنا، جیسے ان کے ملک’مصر‘ میں پڑھاجاتاتھا، چنانچہ انہوں نے خصوصی مطالبہ کی بنا پر سیدنا نافع رحمہ اللہ سے ان کے اختیار کے بجائے ان کے اساتذہ میں سے کسی کی روایت کو اخذ کیا۔ چنانچہ امام ورش رحمہ اللہ کا اس طرح پڑھنا سیدنا نافع رحمہ اللہ کی اس روایت کے مطابق تھا، جو انہوں نے اپنے بعض شیوخ سے نقل کی، لیکن بعد میں جب انہوں نے اپنا ایک اختیار بنالیا تو اس کو چھوڑ دیا۔ تمام قراء کے رواۃ کااختلاف اسی طرح سے ہے۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ سے روایت کیاگیاہے کہ وہ کسی بھی سنانے والے کی تردید نہیں کرتے تھے، جب اس کاپڑھنا ان کے کسی بھی شیخ کی قراء ت کے مطابق ہو۔
’’سیدنا نافع رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ میں نے سیدنا ابوجعفررحمہ اللہ کی قراء ت کے ستر (۷۰) حروف کو ترک کیا یعنی اپنی اختیار کردہ قراء ت میں شامل نہیں کیا۔‘‘
اسی طرح سیدنا ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے اپنا اختیار امام شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ، سیدنا عاصم بن أبی النجودرحمہ اللہ، سیدناعبداللہ بن کثیررحمہ اللہ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سعیدبن جبیررحمہ اللہ وغیرہ کی قراء ات سے مرتب فرمایا۔ انہوں نے بھی سیدنانافع رحمہ اللہ کی طرح اپنے مزاج کے مطابق مذکورہ لوگوں کی قراء ات کی تلخیص وتہذیب کی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کا اختیار اور ان کی متعین قراء ت ان کے شیوخ کی قراء ات کا امتزاج ہے۔
اسی طرح امام کسائی رحمہ اللہ نے امام حمزہ زیات رحمہ اللہ، امام عیسیٰ بن عمرہمدانی رحمہ اللہ، امام اسماعیل بن جعفررحمہ اللہ اور امام یعقوب بن جعفررحمہ اللہ سے جو کہ امام نافع رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، کی قراء ات سے اپنا اختیار مرتب کیا۔ انہوں نے ان سب کی قراء ات سے ایک نیا سیٹ ترتیب دیا۔ چنانچہ امام کسائی رحمہ اللہ سے منقولہ روایت ان کے شیوخ کی قراء ات کامجموعہ ہے۔ اس طرح باقی اَئمہ کی قراء ات کوسمجھئے۔
امام ابو محمد مکی القیسی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الإبانۃ عن معانی القراء ات میں اس طرح کی کئی مثالیں بیان کی ہیں، ان کا تفصیلی ارشاد ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں:
’’ہر قاری کو یہ ضرورت پیش آئی کہ وہ کس قراء ت کو ترک کرے اورکسے اختیارکرے۔ سو امام نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر (۷۰) تابعین سے علم قراء ات حاصل کیا، لیکن ان میں سے ہر استاد کے حروف کو لے کر اپنا اختیار (set) ترتیب دیا جس کے ساتھ کوئی دوسرا بھی شریک ومتفق تھا، حتی کہ میں نے یہ قراء ت کا سیٹ بنا لیا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ لوگوں کواپنی خاص اختیار کردہ قرا ء ت پڑھاتے تھے اور ان سے ان کے اکثر تلامذہ نے اسی اختیار کو اخذ کیا اور آگے نقل فرمایا۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے ربیب یعنی بیوی کے پہلے شوہر کے بیٹے اور شاگردِ خاص سیدنا قالون رحمہ اللہ نے آپ سے یہی اختیار نقل فرمایا ہے، لیکن سیدنا نافع رحمہ اللہ کے دوسرے مشہور شاگرد سیدنا ورش رحمہ اللہ، جن کا امام قالون رحمہ اللہ سے فصل ووصل اور ہمزہ کی تحقیق وتخفیف وغیرہ کے سلسلہ میں تقریبا تین ہزارسے زائد حروف میں اختلاف ہے، ان کی روایت کی صورتحال یہ ہے کہ وہ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے دوسرے رواۃ میں سے کسی سے بھی مروی نہیں اورنہ ہی ان اختلافات کو امام ورش رحمہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے نقل کیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ورش رحمہ اللہ نے سیدنا نافع رحمہ اللہ کواس طرح پڑھتے سنا، جیسے ان کے ملک’مصر‘ میں پڑھاجاتاتھا، چنانچہ انہوں نے خصوصی مطالبہ کی بنا پر سیدنا نافع رحمہ اللہ سے ان کے اختیار کے بجائے ان کے اساتذہ میں سے کسی کی روایت کو اخذ کیا۔ چنانچہ امام ورش رحمہ اللہ کا اس طرح پڑھنا سیدنا نافع رحمہ اللہ کی اس روایت کے مطابق تھا، جو انہوں نے اپنے بعض شیوخ سے نقل کی، لیکن بعد میں جب انہوں نے اپنا ایک اختیار بنالیا تو اس کو چھوڑ دیا۔ تمام قراء کے رواۃ کااختلاف اسی طرح سے ہے۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ سے روایت کیاگیاہے کہ وہ کسی بھی سنانے والے کی تردید نہیں کرتے تھے، جب اس کاپڑھنا ان کے کسی بھی شیخ کی قراء ت کے مطابق ہو۔