• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ خلط قراء ات اور علم ِتحریرات کا فنی مقام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام أصمعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سیدنا نافع رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ میں نے سیدنا ابوجعفررحمہ اللہ کی قراء ت کے ستر (۷۰) حروف کو ترک کیا یعنی اپنی اختیار کردہ قراء ت میں شامل نہیں کیا۔‘‘
اسی طرح سیدنا ابوعمرو بصری رحمہ اللہ نے اپنا اختیار امام شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ، سیدنا عاصم بن أبی النجودرحمہ اللہ، سیدناعبداللہ بن کثیررحمہ اللہ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام سعیدبن جبیررحمہ اللہ وغیرہ کی قراء ات سے مرتب فرمایا۔ انہوں نے بھی سیدنانافع رحمہ اللہ کی طرح اپنے مزاج کے مطابق مذکورہ لوگوں کی قراء ات کی تلخیص وتہذیب کی۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کا اختیار اور ان کی متعین قراء ت ان کے شیوخ کی قراء ات کا امتزاج ہے۔
اسی طرح امام کسائی رحمہ اللہ نے امام حمزہ زیات رحمہ اللہ، امام عیسیٰ بن عمرہمدانی رحمہ اللہ، امام اسماعیل بن جعفررحمہ اللہ اور امام یعقوب بن جعفررحمہ اللہ سے جو کہ امام نافع رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں، کی قراء ات سے اپنا اختیار مرتب کیا۔ انہوں نے ان سب کی قراء ات سے ایک نیا سیٹ ترتیب دیا۔ چنانچہ امام کسائی رحمہ اللہ سے منقولہ روایت ان کے شیوخ کی قراء ات کامجموعہ ہے۔ اس طرح باقی اَئمہ کی قراء ات کوسمجھئے۔
امام ابو محمد مکی القیسی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الإبانۃ عن معانی القراء ات میں اس طرح کی کئی مثالیں بیان کی ہیں، ان کا تفصیلی ارشاد ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں:
’’ہر قاری کو یہ ضرورت پیش آئی کہ وہ کس قراء ت کو ترک کرے اورکسے اختیارکرے۔ سو امام نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر (۷۰) تابعین سے علم قراء ات حاصل کیا، لیکن ان میں سے ہر استاد کے حروف کو لے کر اپنا اختیار (set) ترتیب دیا جس کے ساتھ کوئی دوسرا بھی شریک ومتفق تھا، حتی کہ میں نے یہ قراء ت کا سیٹ بنا لیا۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ لوگوں کواپنی خاص اختیار کردہ قرا ء ت پڑھاتے تھے اور ان سے ان کے اکثر تلامذہ نے اسی اختیار کو اخذ کیا اور آگے نقل فرمایا۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے ربیب یعنی بیوی کے پہلے شوہر کے بیٹے اور شاگردِ خاص سیدنا قالون رحمہ اللہ نے آپ سے یہی اختیار نقل فرمایا ہے، لیکن سیدنا نافع رحمہ اللہ کے دوسرے مشہور شاگرد سیدنا ورش رحمہ اللہ، جن کا امام قالون رحمہ اللہ سے فصل ووصل اور ہمزہ کی تحقیق وتخفیف وغیرہ کے سلسلہ میں تقریبا تین ہزارسے زائد حروف میں اختلاف ہے، ان کی روایت کی صورتحال یہ ہے کہ وہ سیدنا نافع رحمہ اللہ کے دوسرے رواۃ میں سے کسی سے بھی مروی نہیں اورنہ ہی ان اختلافات کو امام ورش رحمہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے نقل کیاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ورش رحمہ اللہ نے سیدنا نافع رحمہ اللہ کواس طرح پڑھتے سنا، جیسے ان کے ملک’مصر‘ میں پڑھاجاتاتھا، چنانچہ انہوں نے خصوصی مطالبہ کی بنا پر سیدنا نافع رحمہ اللہ سے ان کے اختیار کے بجائے ان کے اساتذہ میں سے کسی کی روایت کو اخذ کیا۔ چنانچہ امام ورش رحمہ اللہ کا اس طرح پڑھنا سیدنا نافع رحمہ اللہ کی اس روایت کے مطابق تھا، جو انہوں نے اپنے بعض شیوخ سے نقل کی، لیکن بعد میں جب انہوں نے اپنا ایک اختیار بنالیا تو اس کو چھوڑ دیا۔ تمام قراء کے رواۃ کااختلاف اسی طرح سے ہے۔ سیدنا نافع رحمہ اللہ سے روایت کیاگیاہے کہ وہ کسی بھی سنانے والے کی تردید نہیں کرتے تھے، جب اس کاپڑھنا ان کے کسی بھی شیخ کی قراء ت کے مطابق ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام کسائی رحمہ اللہ نے جب امام حمزہ رحمہ اللہ کے سامنے پڑھا تو ان سے تین سو حروف میں اختلاف کیا،کیونکہ انہوں نے یہ حروف سیدنا حمزہ رحمہ اللہ کے علاوہ اورمشائخ سے پڑھے تھے، چنانچہ ان سب کے مجموعہ سے اپنا ایک مستقل سیٹ بنالیا۔ انہوں نے سیدنا حمزہ رحمہ اللہ یا دیگر ائمہ میں سے کسی ایک کی قراء ت کاابتدائے قرآن سے انتہائے قرآن تک مکمل التزام نہیں کیا، بلکہ ان کے نزدیک جو قراء ت زیادہ ان کے ذوق کے مطابق تھی اسی کو انہوں نے اختیار کرلیا۔انہوں نے تمام مشائخ کی قراء ات میں سے اپنا خاص اختیار (set) ترتیب دیا،جو ان کی شہرت کا باعث بنا۔ بعد ازیں وہ انہی قراء ات کو پڑھانے میں لگ گئے، یہاںتک کہ وہ ان کی طرف منسوب کردی گئیں۔ اس طرح سیدنا ابوعمرو بن العلاء بصری رحمہ اللہ نے امام مکی رحمہ اللہ کو سنایا تو ان سے تین ہزارحروف میں اختلاف کیا،کیونکہ انہوں نے وہ حروف بصر ی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر مشائخ سے حاصل کیے تھے۔ انہوں نے بھی مکی رحمہ اللہ ودیگر کی قراء ات سے ایک سیٹ اختیارکیا۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اَوّل قرآن سے آخر تک مکی رحمہ اللہ اور ان کے شیوخ کی قراء ات کا التزام نہیں کیا، بلکہ اپنے تمام اساتذہ کی قراء ات سے اس کو اختیارکیا، جو ان کے نزدیک مختار تھا۔ پھر انہوں نے اسی سیٹ کو آگے پڑھایا، وہی ترتیب دی گئی قراء ت (set) ان سے بعد ازاں نقل کی گئی اور پھر ان کی طرف منسوب کی جانے لگی۔ کچھ تصرف کے ساتھ الابانہ کی عبارت یہاں مکمل ہوئی۔‘‘ (أبحاث فی القرآن الکریم: ص۲۸،۲۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسئلہ اختلاطِ قراء ات

اختیار کی تعریفات اور اختیارات ائمہ کے بارے میں مذکورہ نصوص سے یہ متعین کرناانتہائی سہل اَمر ہے کہ عہد نبویﷺ سے لے کر ائمہ قراء ات کے زمانہ تک، بلکہ بعد میں بھی ہر دم ائمہ، اختلاط سے پڑھتے رہے ہیں،کیونکہ اختلاط کا انکار کرنے سے پہلے قراء ات ائمہ کا انکارکرنا پڑھے گااور یہ کہنا کہ ائمہ اختیارات کے قائل نہیں تھے، عملی طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ بے شمار دلائل شاہد ہیں کہ ماہرین فن ہمیشہ اختیارات کے مطابق تلاوت کرتے رہے ہیں۔ اس بات کی انتہائی سادہ دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم کا نزول تو سات متعین اسالیب (سبعہ احرف) پر ہوا ہے، جبکہ وہ قراء ات جو امت میں بطور قرآن رائج ہیں وہ سات سے بڑھ کر دس(۱۰)، چودہ (۱۴)، بیس(۲۰) اور اسی (۸۰) وغیرہ کی تعداد میں معروف ہیں۔ دراصل قراء ات ثلاثہ ہوں یا قراء ات عشرہ، بیس قراء ات ( روایات) ہوں یا اسی قرائتیں (طرق) یہ سب اندازِ تلاوت اختلاط ِسبعہ احرف کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ سبعہ احرف سے ایسے ترتیبات تلاوت (sets) اگر سینکڑوں بھی تشکیل دے دیے جائیں، بشرطیکہ وہ سبعہ احرف سے باہر نہ ہوں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ ہم اپنی تحقیق کے مطابق ابھی تک یہ بات معلوم کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ ائمہ قراء ات میں سے کوئی بھی امام اپنے استاد کی روایت کے موافق تلاوت کرتے ہوں، پھر کسی شاگرد کوانہوں نے اپنی اختیارکردہ روایت کے موافق پڑھنے کا ہی حکم دیا ہو، البتہ امام ورش رحمہ اللہ کے بارے میں ایک روایت ازرق رحمہ اللہ کے طریق سے نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے امام ورش رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ آپ مجھے اپنے اختیار سے نہیں،بلکہ امام نافع رحمہ اللہ سے اخذ کردہ روایت کے موافق پڑھائیں۔ اس بارے میں علماء کے مابین خاصہ اختلاف ہے کہ امام ورش رحمہ اللہ کااختیار تھا بھی یا نہیں۔ واللہ اعلم (نجوم الطوالع، ص۱۷۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختلاط کا لغوی معنی:

اختلاط یہ خلط یخلط سے باب افتعال ہے۔
خلط الشئ کا معنی ہے: مزّجہ یعنی ایک شے کو دوسری شے میں ملا دینا،خلط ملط کردینا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِصطلاحی تعریف:
الانتقال من قراء ۃ إلی قراء ۃ أخریٰ أثناء قراء ۃ دون إعادۃ اعادۃ ولا تکرار لأوجہ الخلاف، بل إن القاری المختلط یقرأ ایۃ أو بعضھا أو أکثر منھا علی قراء ۃ ثم ینتقل بعدھا إلی قراء ۃ ما یلیھا وفق قراء ۃ قاری آخر وھو ما یسمیہ بعضھم ’تلفیق القراء ات‘ ویسمیہ بعضھم ’ترکیب القراء ات‘ (القراء ات القرانیۃ، ص۲۲۱)
’’قاری دوران تلاوت بغیر کسی اعادہ اور تکرارکے ایک قراء ت سے دوسری قراء ت کی طرف منتقل ہوجائے تو اُسے اختلاط کہتے ہیں۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ اختلاط کرنے والا قاری آیت کا بعض حصہ ایک روایت میں تلاوت کرتا ہے اور باقی حصہ دوسری روایت میں۔ اسے بعض نے تلفیق القراء ات اور ترکیب القراء ات کا بھی نام دیا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حقیقت مسئلہ اِختلاط

مسئلہ اِختلاط کے بارے میں اس حد تک توگذشتہ بحث سے بات واضح ہوچکی ہے کہ صدر اوّل میں یہ مسئلہ کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں تھا جس پر کوئی بحث ہوتی کیونکہ وہاں تو ہر دم اختلاط ہورہا تھا، ہر ایک قاری سبعہ احرف سے ماخوذ اپنی اختیار کردہ ترتیب (set) سے تلاوت کرتا تھا اور یہ سلسلہ اس قدر وسیع تھاکہ بیسیوں صاحب ِاختیار ائمہ رحمہم اللہ تھے جن میں قراء عشرہ بھی شامل ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جو قراء ات عشرہ متواترہ یا روایات عشرین ہم تک پہنچی ہیں اور کلیات و مدارس میں پڑھی پڑھائی جارہی ہیں، نیز اُمت مسلمہ نے انہیں قبول کیاہے اور آج ہرایک روایت فرداً فرداً بغیر اختلاط تلاوت کی جارہی ہے،ان کا آپس میں اختلاط جائز ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کی مختلف آراء ہیں، ذیل میں ہم ان کو ذکر کرکے ان کا جائزہ پیش کرتے ہیں اور آخر میں معتدل اور راجح موقف بیان کرتے ہیں۔اِن شاء اللہ
اختلاط کے مسئلہ میں قراء کے ہاں دونقطۂ نظر پائے جاتے ہیں۔ بعض قراء عدم جواز کے قائل ہیں اور بعض اس کی اِجازت دیتے ہیں، اگرچہ ان کے موقف میں کچھ تفصیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین عدم جواز

اِمام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وخلط ھذہ القراء ات بعضھا ببعض خطأ‘‘ (النشر:۱؍۱۸)
’’بعض قراء ات کو بعض سے خلط کرنا غلط ہے۔‘‘
اِمام شہاب الدین القسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یجب علی القاری الاحتراز من الترکیب فی الطرق و تمیز بعضھا من بعض والا وقع فیما لا یجوز و قرء مالم ینزل‘‘ (غیث النفع، ص۶۷)
’’قاری کے لئے واجب ہے کہ وہ طرق کے مابین ترکیب سے احتراز کرے اور جمیع طرق کو جدا جدا کرکے پڑھے ورنہ ایک ناجائز کام کرے گا اور غیر منزل من اللہ سے تلاوت کرے گا۔‘‘
امام محمد بن ابی القاسم النویری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’والقراء ۃ بخلط الطرق و ترکیبھا حرام أمکروہ أو معیب‘‘ (نقلا عن غیث النفع ص۶۶)
’’خلط طرق سے تلاوت کرنا حرام، مکروہ یا کم ازکم معیوب ہے۔‘‘
امام احمد ابراہیم الطیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اذ یحرم الترکیب حیث أبطلا ۔صحۃ الاعراب کذاک مسجلا ۔ یحرم إن روی والا فاعلما بأنہ یکرہ عندالعلماء‘‘ (القراء ات القرآنیۃ: ص۲۲۲)
’’علماء کے نزدیک اعراب میں خلل کی صورت میں اور روایت قراء ت کے وقت ترکیب حرام ہے ورنہ مکروہ ہے۔‘‘
الشیخ مصطفی الازمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الترکیب حرام فی القرآن علی سبیل الروایۃ أومکروہ کراھۃ التحریم علی ماحققہ اہل الدرایۃ‘‘ (عمدۃ العرفان:ص۳)
’’محققین کے ہاں روایت کرتے وقت قرآن میں ترکیب حرام ہے یا مکروہ تحریمی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قائلین جواز

اِمام ابوشامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’المنع من ھذا ظاہر و اما لیس کذلک فلا منع منہ فإن الجمیع جائز والتغییر فی ھذا، وأکثر منہ کان حاصلاً بما ثبت من إنزال القرآن علی سبعۃ أحرف توسعۃ علی القراء ۃ فلا ینبغی أن یضیق بالمنع من ھذا ولا ضرر فیہ‘‘ (التیسیر للداني، ص۱۸۵)
’’قراء ات میں جو شے منع ہے وہ ظاہر ہے اور جو شے اس میں شامل نہیں، وہ بالکل منع نہیں ہے، بلکہ جائز ہے اور اس میں توسیع دینا (پڑھنے میں)یہ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف سے ثابت ہے، لہٰذا کسی کے لئے بھی یہ درست نہیں کہ اس کی وسعت کو ختم کرے کیونکہ اس میں کوئی ضرر نہیں۔‘‘
اِمام ابی بکر بن العربی المالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’المختار أن یقرأ المسلمون علی خط المصحف بکل ماصح فی النقل ولا یخرجوا عنہ ولا یلتفتوا إلی قول من یقول نقرأ السورۃ الواحدۃ أو القران بحرف قاری واحد بل یقرأ بأي حرف ولا یلزم أن یجعل حرفاً دیدنہ ولا أصلہ الکل قرآن صحیح‘‘ (آراء أبی بکر بن العربی الکلامیۃ لعمارطالبی ، ص۴۸۵)
’’مختار مذہب یہی ہے کہ مسلمان رسم مصحف کے موافق ہر اُس شے کی (بطور قران) تلاوت کریں جو نقلاً درست ہے اور اس سے روگردانی نہ کریں اور اس شخص کی بات پربھی کان نہ دھریں جو کہے کہ پورے قرآن کو یا کسی ایک سورت کو کسی ایک قاری کے حرف پر پڑھو بلکہ جس حرف پر چاہیں تلاوت کریں اور کسی حرف کاالتزام نہ عقیدتاً اور نہ عادتاً کریں، کیونکہ سارا کا سارا قرآن ہے اور درست ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ امام ابو شامہ رحمہ اللہ کے قول کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’شاع فی زماننا عن طائفۃ القراء انکار ذلک حتی صرح بعضھم بتحریمہ فظن کثیر من الفقھاء أن لھم فی ذلک معتمداً فتابعوھم وقالوا أھل کل فن ادری بفنھم وھذا ذھول ممن قالہ،فان علم الحرام والحلال إنما یلتقی من الفقھاء والذی منع ذلک من القراء إنما ھو محمول علی ما اذا قرأ بروایۃ خاصۃ،فإنہ متی خلطھا کان کاذبا علی ذلک القاری الخاص الذی شرع فی قراء ۃ روایتہ فمن قرأ روایۃ لم یحسن أن ینتقل إلی روایۃ أخری کما قال الشیخ محی الدین النووی وذلک من الاولویۃ لا علی الحتم،وأما المنع علی الاطلاق فلا ‘‘ (فتح الباري:۹؍۳۵)
’’ہمارے زمانہ میں یہ بات معروف ہے کہ قراء کی ایک جماعت خلط قراء ات کا انکار کرتی اور بعض نے تو حرمت کی بھی صراحت کی ہے۔ بہت سے فقہاء کایہ کہنا ہے اس مسئلہ میں قراء کی رائے ہی معتمد ہے لہٰذا اسی کی پیروی کرنی چاہیے کیونکہ ہر فن کا عالم اپنے فن کو زیادہ جانتا ہے۔ جس شخص نے یہ بات کی ہے یہ اس کی غفلت کانتیجہ ہے کیونکہ حلال و حرام کا علم صرف فقہاء سے ملتا ہے اور جس سے قراء منع کرتے ہیں وہ صرف یہ بات ہے کہ جب قاری کسی خاص راوی کی روایت کاالتزام کرنے کے بعد خلط کرکے کسی دوسری روایت کی طرف منتقل ہوجائے تو اس سے کذبِ روایت لازم آئے گا، یہ بات علی الاطلاق درست نہیں ہے،بلکہ اولویت پرمحمول ہوگی اور اس سے مطلق منع کرنا قطعاً درست نہیں۔‘‘
امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعد أن ذکرالشبھۃ التی من أجلھا وقع بعض العوام الاغبیاء فی أن أحرف ھولاء السبعۃ ھی المشار إلیھا بقولہ أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف وأن الناس ثمنوّا القراء ات وعشروھا،زادوا علیٖ عدد السبعۃ الذین اقتصر علیھم ابن مجاھد لأجل ھذہ الشبہ ثم قال وأتی لم أقتص أثرھم تثمینا فی التضیف أو تعشیرا أو تفریدا إلا لازالۃ ما ذکرتہ الشبہۃ ولیعلم أن لیس اطراحی فی الأحرف السبعۃ المنزلۃ عدد أمن الرجال دون آخرین والازمنۃ ولا الأمکنۃ وأنہ لو اجتمع عدد لایحصیٰ من الامۃ ما اختار کل واحد منہم حروفا بخلاف صاحبہ وجرد طریقا فی القراء ۃ علی حدۃ فی أی مکان کان وفی أی أوان أراد بعد الائمۃ للاضیین فی ذلک بعد ان کان ذلک ذلک المختار بما اختارہ من الحروف بشرط الاختیار لما کان خارجاً عن الأحرف السبعۃ المنزلۃ بل فیھا متسع إلی یوم القیامۃ ‘‘
’’شیخ الاسلام ابوالفضل عبدالرحمن بن احمدالرازی رحمہ اللہ حدیث انزل القرآن علی سبعۃ احرف سے پیدا ہونے والے شبہ کہ اس سے مراد قراء ات سبعہ ہیں، کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ علماء نے اس شبہ کو دور کرنے کے لئے آٹھ آٹھ دس دس روایات میں کتابیں لکھیں ہیں کیونکہ سبعہ احرف کا مقصد یہ نہیں تھا کہ خاص اشخاص یا کسی مخصوص زمانے کے لوگوں کی قراء ات پڑھی جائیں اگر امت کے ان گنت افراد کسی زمانہ یا کسی مقام میں حروف مرویہ سے شرائط اختیار کو ملحوظ رکھ کر اپنی قراء ات علیحدہ علیحدہ بنا لیں تو وہ احرف سبعہ منزل من اللہ سے خارج نہیں ہوں گی بلکہ اس کے اندر قیامت تک وسعت ہے۔‘‘ (شرح سبعہ :۱؍۱۱۹ ،النشر:۱؍۶۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام محی الدین النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إذا ابتدأ یعنی القاری۔ بقراء ۃ أحد القراء فینبغی أن لا یزال علی القراء ۃ علی القراء ۃ بھا مادام الکلام مرتبطاً فاذا انقضیٰ ارتباط فلہ أن یقرأ بقراء ۃ آخر من السبعۃ والاولی دوامہ علی الادنی فی ھذا المجلس‘‘ (التبیان فی آداب حملۃ القرآن،ص۹۵)
قاری جب قراء میں سے کسی کی قراء ت کی ابتداء کرے تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ جب تک کلام مربوط رہے اس وقت تک اسی قراء ت میں پڑھے اگر اِرتباط ختم ہوجائے تو پھر قراء سبعہ میں سے کسی دوسرے کی قراء ت بھی پڑھ سکتا ہے،لیکن اس مجلس میں ایک ہی روایت پڑھے یہ زیادہ اولیٰ ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کی کلام سے واضح ہورہا ہے کہ آپ ترکیب قراء ت کی اجازت دیتے ہیں۔ خدا جانے جولوگ کہتے ہیں کہ امام نووی رحمہ اللہ منع اختلاط کے قائل ہیں،ان کے پاس کیادلیل ہے؟
علامہ ابن صلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اذا شرع القاری بقراء ۃ فینبغی أن لا یزال یقرأ بھا مابقی للکلام تعلق بما ابتدأ بہ ‘‘ (المرشد الوجیز، ص۱۸۴)
’’قاری کوئی قراء ت شروع کرے تو اس وقت تک اُسی قراء ت کو پڑھتا رہے جب تک اس کا ماقبل سے تعلق رہے۔‘‘
حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ کا مؤقف امام نووی رحمہ اللہ کے مؤقف کے قریب ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أن بعضھم ذھب إلی المنع وأن أکثر الأئمۃ علی الجواز محققاً والصواب عندنا فی ذلک التفضیل والعدول بالتوسط إلی سواء السبیل فنقول إن کانت إحدی القراء تین مترتبۃ علی الأخری فالمنع من ذلک منع تحریم کمن یقرأ{فتلقی آدم من ربہ کلمات} بالرفع فیھما أو بالنصب آخذاً رفع آدم من قراء ۃ غیر ابن کثیر ورفع کلمات من قراء ۃ ابن کثیر ونحو {وکفلھا زکریا} بالتشدید مع الرفع أو عکس ذلک ونحو {أخذ میثاقکم} وشبہہ مما یرکب بما لا تجیزہ العربیۃ ولا یصح فی اللغۃ وأما ما لم یکن فإنا نفرق فیہ بین مقام الروایۃ وغیرھا فإن قرأبذلک علی سبیل الروایۃ فإنہ لا یجوز أیضاً من حیث إنہ کذب فی الروایۃ وتخلیط علی أھل الدرایۃ وإن لم یکن علی النقل والروایۃ بل علی سبیل القراء ۃ والتلاوۃ فإنہ جائز صحیح مقبول لا منع منہ ولا حظر وإن کنا نعیبہ علی أئمۃ القراء ات العارفین باختلاف الروایات من وجہ تساوی العلماء بالعوام لا من وجہ أن ذلک مکروہ أو حرام إذ کل من عند اﷲ نزل بہ الروح الامین علی قلب سید المرسلین تخفیفاً علی الأمۃ و تہوینا علی أھل ھذہ الملۃ‘‘ (النشر:۱؍۱۹)
’’مسئلہ اختلاط قراء ات میں بعض علماء مطلقاً منع اور اکثر آئمہ مطلقاً جواز کے قائل ہیں۔ ہمارے نزدیک اس بارے میںدرست راہ یہ ہے کہ اس کو تفصیل سے ایک معتدل مؤقف کے طور پر ذکر کریں۔ چنانچہ ہماری یہ رائے ہے کہ اگر دوقراء ات ایک دوسری پر مترتب ہورہی ہوں تو وہاں اختلاط ممنوع اور حرام ہے، جیسے کوئی شخص فتلقّٰی آدم من ربہ کلمات میں دونوں آدم اور دونوں کلمات کو رفع کے ساتھ پڑھے یا نصب کے ساتھ پڑھے۔ آدم کا رفع جمہور کی قراء ت سے لے لے اور کلمات کا رفع ابن کثیررحمہ اللہ کی قراء ات سے لے لے۔ ایسے نصب کی مثال اس کے عکس سے لے لے۔ اسی طرح وکفَّلھا زکریائُ میں تشدید مع الرفع کی مثال ہے۔ ایسے ہی أَخَذ میثاقَکم کی مثال ہے کہ دو قراء ات کو اس طرح جمع کرنا جو عربیت کی رو سے درست نہ ہو، باقی قراء ات میں روایت اور عدم روایت کے حوالہ سے فرق کیا جائے گا ۔ اگرکسی قراء ات کو بطور روایت التزام کے ساتھ نقل کررہا ہے تو اس میں اختلاط جائز نہیں کیونکہ کذبِ روایت لازم آئے گا۔ اگر روایت کا التزام نہیں کیا بلکہ صرف بغرض تلاوت اختلاط کررہا ہے تو یہ جائز اور درست ہے۔ امت نے اسے قبول کیا ہے جس میں کوئی روکاٹ اور خطرہ نہیں ہے۔‘‘
بعض اہل فن، جو خلط قراء ات کے عدم جواز کے قائل ہیں وہ امام موصوف کے درج ذیل قول کو پیش کرکے ان کے عام موقف کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
’’لا یخلو إما أن یکون عالماً أوجاھلاً وإن کان عالما فعیب والا فلا‘‘ (منجد المقرئین :ص۱۴)
’’اختلاط کرنے والا دو حال سے خالی نہیں یا عالم ہوگا یاپھر جاہل۔ اگر عالم ہے اس کے لئے معیوب ہے اور اگر جاہل ہے تو اس کے لیے خلاف اولیٰ ہے۔‘‘
ان لوگوں کی رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ الصفاقسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جزم فی موضع آخر بالکراھۃ من غیر تفصیل والتفصیل ھو التحقیق‘‘ ( غیث النفع:ص ۶۶)
’’امام جزری رحمہ اللہ کا نشر کے علاوہ دوسری جگہ (یعنی منجد میں) کراہت کا جزم کرنا یہ غیر تفصیلی موقف ہے اور تحقیق وہی ہے جو تفصیل ہے۔‘‘
 
Top