• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ خلط قراء ات اور علم ِتحریرات کا فنی مقام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسئلہ خلط قراء ات اور علم ِتحریرات کا فنی مقام

حافظ حمزہ مدنی
قاری فہد اللہ​
زیر نظر مضمون کا تعلق علم قراء ات کے خالص فنی نوعیت کے موضوعات سے ہے۔ اس کے شائع کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ بر صغیر پاک وہند میں مسئلہ خلط قراء ات کی حساسیت کے پیش نظر مختلف اہل فن حضرات میں تجویدو قراء ات کے اسلوب ِ تدریس میں کافی نمایاں فرق پایا جاتاہے۔ اکثر اہل علم اس حوالے سے تعلیم قراء ات میں تسہیل کے نکتۂ نظر کے حامل ہیں، جبکہ محققانہ ذوق رکھنے والے اَساتذہ کے اسلوبِ تدریس میں تسہیل کے بجائے علم وتحقیق کے فروغ اور انحطاطِ علم سے بچاؤ کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ اس سلسلہ میں ادارہ کا رجحان یہ ہے کہ اس ضمن میں دونوں پہلو ہی قابل توجہ ہیں کہ نہ تو تسہیل ’’تساہل‘‘ پر مبنی ہونی چاہیے اور نہ ہی تحقیقی ذوق علم قراء ات کے اگلی نسلوں تک ترسیل میں رکاوٹ بننا چاہیے۔ عالم اسلام بشمول برصغیر پاک وہند میں قراء ات عشرہ کبری کی تدریس کے منقطع ہونے میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس تحقیقی ذوق کا بھی کافی دخل ہے۔ اسی احساس کے پیش نظر عالم عرب کی مشہور علمی شخصیت امام القراء علامہ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ نے فنی چیزوں سے قطع نظر تدریس ِ قراء اتِ عشرہ کبری کی رائے پیش فرمائی۔ دلچسپ اتفاق تھا کہ یہی رجحان اُس دور میں یا شائد اس سے چند سال قبل بر صغیر پاک وہند میں ترویج پا چکا تھا۔
پیش نظر مضمون کے ضمن میں اگر ذیل کے چند پہلو مد نظر رہیں تومسئلہ کی حساسیت میں متوازن رائے کو قبول کرنے کا رجحان پیدا ہوسکتا ہے۔ ہماری رائے میں مسئلہ خلط ِ قراء ات بفحوائے حدیث: فَاقْرَئُ وْا مَاتَیَسَّرَ شرعی تسہیلات کے قبیل سے ہے، جیساکہ حدیث ِہشام رضی اللہ عنہ اس پر نص ہے کہ وہ سورۃ الفرقان کومختلف حروف ( قراء ات) کے ساتھ پڑھ رہے تھے، چنانچہ (روایتی موقف کے برخلاف) ہماری رائے میں خلط قراء ات کی اجازت کو آئمہ قراء ات تک محدود کردینا، چنداں مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ متعدد قراء ات کے اختلاط کے’’غیر شرعی‘‘ ہونے کا توسلف وخلف میں شائد ہی کوئی قائل ہو، البتہ بالعموم فنی پہلوسے اسے غلط سمجھا جاتا رہا ہے اور اس پہلو سے شائد کسی صاحب ِعلم کو مجال ِانکار بھی نہ ہو۔
علم الروایہ میں باعتبار روایت ِاختلاط وترکیبِ روایات کے عدم ِجواز پر اہل فن کااتفاق ہے، لیکن درپیش مشکل یہ ہے کہ’مبحث اختیارات‘تقاضا کرتی ہے کہ فن قراء ات میں اگر اس پس منظر کے اعتبار سے بھی خلط کو ناجائز قرار دیا جائے تو بھی ایک حد سے زیادہ اس پر پرتشدد موقف کو اپنانا ممکن نہیں، کیونکہ یہاں بنیادی رکاوٹ اختیارات ِآئمہ کا متفقہ تعامل ہے۔
تقلیدچونکہ تمام علومِ شرعی وغیر شرعی میں قبیح ہے، چنانچہ اہل علم میں اختلاف کی صورت میں دلائل کی بنیاد پر ہی ترجیح قائم کرنی چاہیے اور صریح دلائل کی روشنی میں سلسلہ کا تصلّب کبھی حائل نہیں ہونا چاہیے،جبکہ اس سلسلہ میں صریح شرعی رخصت اور اسلاف کا متفقہ تعامل بھی موجود ہے۔ پس فن کی تدریس میں اسی ’سختی‘ پر ہمارے تحفظات ہیں، ورنہ ہم خود ’تحریرات ‘کا اہتمام نہ کرنے کو فنی پہلو سے معیوب سمجھتے ہیں، جبکہ شرعی پہلو سے اس میں بہرحال عیب نہیں۔(ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تخلیق انسانیت کے بعد دنیا میں انسان کے رہنے کا مقصد بتلانا اور اس کے حصول کے لئے طریقہ کار متعین کرنا، تاکہ انسان اپنی منزل تک رسائی حاصل کرسکے یہ بھی خالق ِانسانیت کا فرض تھا۔لہٰذا اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لئے اللہ رب العزت ہر دور میں رہنما اصول نازل فرماتے رہے اور اُن اُصولوں کو بندوں تک پہنچانے اور اُن پر عمل کرکے لوگوں کے سامنے اُسوۂ حسنہ پیش کرنے کے لئے مدبرکائنات،انبیاء کرام جیسی مقدس ہستیاں مبعوث فرماتے رہے تاکہ وہ راہ ِ حق سے بھٹکے ہوئے ابنائے آدم کو سبیلِ ہدایت سے روشناس کرائیں اور ان کی عملی زندگی میں پیش آمدہ مشکلات کا قابل عمل حل تجویز کریں۔ سیّدنا آدم علیہ السلام سے لے کر جناب عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر میں یہ ذمہ داری جناب نبی کریم ﷺ کی طرف منتقل کردی گئی۔
جمیع انبیاء علیہم السلام کو جو تعلیمات عطا کی گئی وہ ان کی مادری زبان میں ہوتی تھیں لہٰذا نبی کریمﷺ کو قرآن کریم بھی عربی زبان میں ہی عطا کیاگیا۔ قرآن میں موجود احکامات پرعمل کرنا جہاں لازم قرار دیاگیا،وہاں اس کی تلاوت کو عبادت اور تقرب الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیاگیا اور تلاوت نہ کرنے والے کو دربارِ حق کامجرم کہا گیا۔جب تلاوتِ قرآن کو دین میں اس قدر درجہ حاصل ہے توضروری تھا کہ اس کاپڑھنا اس قدر سہل ہو کہ ہر درجے کا قاری بآسانی تلاوت کرسکے، لیکن قرآن میں ابتداً یہ سہولت موجود نہ تھی، بوڑھوں اور بچوں کو خصوصاً تلاوت قرآن کے مسئلہ میں مشکلات کا سامنا ہورہاتھا۔ جس پر نبی اکرمﷺ نے اللہ رب العزت سے آسانی کا مطالبہ کیا، لہٰذا آپ کی خواہش و طلب اور اُمت کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو سبعہ احرف میں نازل فرما دیا۔
اس کے بعد نبی مکرمﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کو سبعہ احرف کے موافق مختلف انداز میں پڑھا دیتے اور بعد میں اجازت مرحمت فرما دیتے کہ’ فَا قْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ ِمنْہُ‘ اختلافات مرویہ کو جس ترتیب اور اسلوب کے موافق آسان سمجھو ،پڑھ لو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ سے پڑھے ہوئے مختلف حروف میں سے بعض چیزیں اپنے لئے یوں متعین کرلیتے کہ سبعہ احرف سے ماخوذ ایک مخصوص انداز ِتلاوت (set) ترتیب پاکر ان کا معمول تلاوت بن جاتااور اسی کے موافق وہ تلاوت کرتے تھے۔ انہی حروف ِمختارہ کوہی بعدازاں قراء ات صحابہ کا نام دیاگیا، جس طرح قراء ت ابن مسعودرضی اللہ عنہ ،قراء ت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، قراء ت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ وغیرہم۔ مختلف روایات میں سے بعض وجوہ کواپنے لئے خاص کرنے کو اصطلاحاً ’اختیار‘ کہتے ہیں۔مسئلہ اختلاطِ قراء ت کی ساری بنیاد اسی پر ہے، لہٰذا پہلے اس کوسمجھنا ضروری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اختیار کالغوی مفہوم: لفظ اختیار یہ خار،اختار اور تخیّر سے مشتق ہے جس کے معنی چننا ،ایک چیز کو دوسری پر فضیلت دینا، کسی چیز کا اچھا ہونا یا بہتر ہونا ہیں۔(لسان العرب)
اِصطلاحی مفہوم :
’’الاختیار ما اختارہ القاری بین مرویا تہ و مما قرأبہ وروی قراء ۃ تنسب إلیہ‘‘(النشر:۱؍۵۲)
’’اختیار یہ ہے کہ قاری مختلف روایات میں سے بعض اشیاء کو اپنے لئے خاص کرلے اسی کے موافق تلاوت کرے اور اسی کو اپنی قراء ت کے طورپر روایت کرے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری تعریف:
امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الاختیار ھو ما اختارہ امام من ائمۃ القراء حروفاً و جدّد طریقاً فی القراء ۃ بشرط الاختیار‘‘
’’اختیار یہ ہے کہ ائمہ قراء ات میں سے کوئی امام بعض حروف کواپنی شرطوں کے مطابق اختیار کرے اور پھر اس (اختیار کردہ طریق) کے ساتھ علیحدہ ہوجائے۔‘‘(فتح الباري:۹؍۳۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری تعریف:
’’الاختیار ھو ما اختارہ امام من أئمۃ القراء فیما روی و علم وجھہ من القراء ات ماھو الأحسن عندہ والأولی فالتزمہ طریقۃ وأقرأبہ واشتھر عنہ عرف بہ و نسب الیہ‘‘
’’اختیار یہ ہے کہ آئمہ قراء میں سے کوئی امام، وجوہ مرویہ میں سے کسی وجہ کو اختیار کرے جس کا اُسے علم ہو اور اس کے نزدیک سب سے بہتر و اولیٰ ہو پھر اُسی کا التزام کرے اُس سے تلاوت بھی کرے اور وہ اختیار اسی کی نسبت سے معروف ہو۔‘‘ (الجامع لأحکام القرآن: ص۴۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی تعریف :
’’الاختیار أن یعمد من کان اھلالہ الی القراء ات المرویہ فیختار منھا ماھوا الراجح عندہ و یجرد من ذلک طریقا فی القراء ۃ علی حدۃ‘‘ (القراء ات القرانیۃ بأفریقیۃ، ص۱۰۹)
’’اختیار یہ ہے کہ کوئی اہل شخص قراء ات مرویہ میں سے کسی طریق کو اپنے لئے منتخب کرلے جو اس کے ہاں راجح ہے اور اسی اختیار کردہ قراء ات میں منفرد ہوجائے۔‘‘
مذکورہ تمام تعریفات سے معلوم ہوا کہ اختیار سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی امام روایاتِ مرویہ میںسے اپنی شرائط کے موافق کسی طریق کو اختیار کرلے اور اسی کے موافق تلاوت کرے اور وہ قراء ت اس امام کی نسبت سے معروف ہوجائے ۔ قرون اولیٰ میں ایسے صاحب اختیار ائمہ بکثرت تھے جواپنی اختیارکردہ قراء ات کے موافق پڑھتے پڑھاتے رہے حتیٰ کہ یہ سلسلہ بہت وسیع ہوا۔
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن القراء الذین أخذوا عن اولئک الائمۃ المتقدمین من السبعۃ وغیرہم کانوا مما لا تحصیٰ وطوائف لا تستقصیٰ‘‘ (النشر:۱؍۳۳)
’’وہ قراء جنہوں نے آئمہ سبعہ سے متقدمین کی قراء ات اخذکیں وہ اس قدر زیادہ تھے کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
امام مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقد ذکر الناس من الائمۃ فی کبتھم أکثر من سبعین فمن ھو أعلی رتبۃ وأجل قدراً من ھؤلاء السبعۃ‘‘ (النشر:۱؍۳۷)
’’مصنّفین نے ستر سے زیادہ ایسے ائمہ کا ذکر کیا ہے جو مقام و مرتبہ میں قراء سبعہ سے بھی بلند ترتھے۔‘‘
امام جزری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’وقد ترک ابوحاتم وغیرہ ذکر حمزۃ والکسائی و ابن عامر و زاد نحو عشرین من الائمۃ ممن ھو فوق ھؤلاء السبعۃ‘‘ (اَیضا)
’’امام ابوحاتم رحمہ اللہ وغیرہ نے حمزہ رحمہ اللہ، کسائی رحمہ اللہ اور ابن عامر رحمہ اللہ کو چھوڑ کر تقریباً بیس کے قریب ایسے ائمہ ذکر کئے ہیں جو درجہ میں قراء سبعہ سے اعلیٰ تھے۔‘‘
محقق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوعبید ، قاضی اسماعیل اور امام ابوجعفر طبری رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں قراء سبعہ سے بھی مقدم وہ پندرہ قراء ات بیان کی ہیں جو صحابہ کرام کے عہد میں پڑھی جاتی تھیں۔ (شرح سبعہ: ۱؍۷۸)
مذکورہ نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ ہر دور میں بے شمار اَئمہ قراء ات ایسے رہے ہیں جواپنے اختیارات کے موافق تلاوت کرتے تھے اور اپنے تلامذہ کو بھی اسی اختیار کردہ طریق کے موافق پڑھاتے تھے۔ ذیل میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ائمہ مختارین کس طرح اپنے اختیارات کو ترتیب دیتے تھے اور ان کی اپنے اَساتذہ سے اختلاف کی نوعیت کیاتھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا قول
روی ابن الجزری بسندہ عن حمزۃ الزیات قال قراء ت علی أبی عبد اﷲ جعفر الصادق القرآن بالمدینۃ فقال ما قرأ علیّ أقرأ منک ثم قال لست أخالفک فی شیئٍ من حروفک إلا عشرۃ أحرف فإنی لست أقرأینھا وھی جائزۃ فی العربیۃ (غایۃ النھایۃ: ۱؍۱۹۶-۱۹۷)
’’امام ابن جزری رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ امام حمزہ زیات رحمہ اللہ کوفی سے روایت کرتے ہیں کہ امام حمزہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں امام جعفر الصادق رحمہ اللہ کو قرآن سنایا۔ وہ فرمانے لگے کہ مجھے آپ سے بڑے قاری نے آج تک قرآن نہیں سنایا۔ پھر فرمایا کہ میں تیری پوری قراء ت سے بجز ان دس حروف کے اتفاق کرتا ہوں میں ان کو نہیں پڑھتا اگرچہ یہ لغت عرب میں جائز ہے۔‘‘
معلوم ہواکہ تلامذہ اپنے استاتذہ سے بعض احرف میں اختلاف کرتے تھے اور یہ اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حروف انہوں نے کسی دوسرے استاد سے اَخذ کیے تھے اور مختلف اَساتذہ کی تلاوت سے اپنا ایک سیٹ بنانا ہی اختیار ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا قول
امام یزیدی رحمہ اللہ جو امام ابوعمرو بصری رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں اور امام ابوعمرورحمہ اللہ کی قراء ت کے دونوں راویوں، ابوعمرحفص الدوری رحمہ اللہ اور ابو شعیب السوسی رحمہ اللہ کے استاد ہیں، ان کے اختیار کے بارے میں یاقوتؒ فرماتے ہیں:
’’خالف فی القراء ۃ ابا عمرو فی حروف اختارھا‘‘ (معجم الادباء:۲۰؍۳۱)
’’امام یزیدی رحمہ اللہ نے امام ابوعمرو کی اپنے حروف مختارہ میں مخالفت کی۔‘‘
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لہ اختیار کان یقرئ بہ أیضاً خالف فیہ أبا عمرو فی أماکن یسیرۃ‘‘ (معرفۃ القراء الکبار:۱ ؍۱۲۵)
’’امام یزیدی رحمہ اللہ کا اپنا اختیار جس کے ساتھ وہ تلاوت کرتے تھے اس میں انہوں نے امام ابوعمرو رحمہ اللہ کی بعض مقامات پر مخالفت کی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسرا قول
قراء ات عشرہ کے امام ِ اول نافع رحمہ اللہ نے ستر تابعین سے قراء ات اخذکی ہیں ان کا اصول یہ تھا کہ جس وجہ میں دو اَساتذہ جمع ہوجاتے اُسے لے لیتے اور جس میں ایک رہ جاتا اُسے ترک کردیتے۔ (غایۃ النھایۃ:۲؍۶۱-۶۲)
ان کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقد ترک من قرا ء ۃ ابا جعفر سبعین حرفاً‘‘ (غایۃ النھایۃ: ۲ ؍۳۳۳، معرفۃ القراء : ۱؍۹۱)
’’امام نافع رحمہ اللہ نے (اپنے استاد) امام ابوجعفر کی قراء ت کے ستر حروف ترک کردیئے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھا قول
قراء سبعہ میں سے ساتویں قاری امام علی الکسائی رحمہ اللہ، امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ، امام محمد بن ابی لیلی رحمہ اللہ، امام ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔قراء ات میں ان کا زیادہ اعتماد اپنے استادِ خاص امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ پر تھا۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کان الکسائی یتخیر القراء ات فیاخذ عن قراء ۃ حمزہ بعض و یترک بعضاً‘‘
’’امام کسائی رحمہ اللہ قراء ات میں اختیارات کے قائل تھے وہ امام حمزہ کی قرا ء ت سے بعض حروف کو لے لیتے تھے اور بعض کو چھوڑ دیتے تھے۔‘‘ (معرفۃ القراء :۱؍۱۰۱)
مذکورہ اَقوال سے معلوم ہوا کہ اَئمہ قراء اپنے اساتذہ کی قراء ت سے اختلاف بھی کرتے تھے اور اس کی نوعیت یہ تھی کہ بعض حروف کو لے لیتے تھے اور بعض کو ترک کردیتے تھے اور اس کی جگہ کسی دوسرے استاد سے اخذ کئے گئے حروف پڑھتے تھے۔ہرایک امام نے اپنے لئے شروط کے موافق ایک سیٹ بنا رکھا تھا جس کے مطابق وہ تلاوت کرتے تھے اور اسی کا نام اختیار ائمہ قراء ات ہے۔
اختیارات آئمہ کے ضمن میں یہاں فن قراء ات کی عالمی شخصیت اور اس فن کے سرخیل فضیلۃ الشیخ علامہ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ کے تفصیلی بیان کو ذکر کرنا فائدے سے خالی نہیں،وہ فرماتے ہیں:
’’یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آئمہ عشرہ کی قراء ات تو محض ان کے اختیارات ہیں، جس کامطلب ہے کہ ان ائمہ میں سے ہرایک نے جو کچھ نقل کیا، پھر اس کے متعلق تمام قرآنی وجوہات کو پرکھا اورجو جو وجہ جس جس کے نزدیک زیادہ صحیح اور بہتر تھی، اس نے اسی کو اس کے طرق سمیت اختیار کیااور اس کے پڑھنے پڑھانے میں جت گیا۔ اسی سے وہ قراء ت مشہور ہوئی یہاں تک کہ وہ اس کی پہچان بن گئی اوراسی کی طرف منسوب کی جانے لگی۔
اَئمہ اعلام میں سے امام قرطبی رحمہ اللہ نے ’اَحکام القرآن‘ میں اور امام زرکشی رحمہ اللہ نے ’البرہان‘ میں مذکورہ بات کی صراحت فرمائی ہے۔ اس کی مثال یوںسمجھئے کہ امام نافع رحمہ اللہ نے اپنی قراء ت مدنی تابعین مثلا ابوجعفررحمہ اللہ، عبدالرحمن بن ھرمز الاعرج رحمہ اللہ، شیبہ بن نصاح رحمہ اللہ اورمحمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ سے حاصل کیں۔ انہوں نے ان تمام کی قراء ات سے ایک قراء ت اختیار کی، جس کامطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایک حرف امام ابوجعفررحمہ اللہ کی قراء ت سے، دوسراامام شیبہ رحمہ اللہ سے، تیسرا زہری رحمہ اللہ سے اورچوتھا ان کے علاوہ کسی اورسے لے کر ان تمام اختلافات کو ایک قراء ت میںجمع کردیا۔ المختصر سیدنا نافع مدنی رحمہ اللہ کی قراء ت مذکورہ تابعین کی قراء ات کا امتزاج ہے۔
 
Top