ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
دلائل کا تجزیہ اور معتدل موقف
مسئلہ اختلاط میں قراء کے تین اَقوال سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک گروہ جو مطلق عدم جواز کا قائل ہے جن میں امام سخاوی، امام قسطلانی، امام طیبی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ وہ اس بارے میں زیادہ شدید نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ ایک علم جس کے وجود کی بنیاد ہی اختلاط ہے اس میں اختلاط کے حوالے سے یہ کہنا کہ یہ خطا یا حرام ہے تو یہ رائے بہرحال ایک متوازن رائے نہیں ہے، بلکہ وضع الشئ فی محلہ کے قاعدہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہرایک شے کو اس کا صحیح مقام دینا ہی فکرِ سلیم اور طریقِ سلف صالحین ہے۔
باقی رہا دوسرا موقف جو امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے کہ علی الاطلاق خلط کی اجازت ہے، یہ بات بھی راہ صواب سے ہٹی ہوئی ہے، کیونکہ اگر خلط کی اس انداز سے اجازت دے دی جائے تو سلف صالحین سے منقول روایات کا ذخیرہ بالکل تباہ ہوکر رہ جائے گا کہ ہر شخص وجوہ مرویہ کو دیکھ کر اپنی علیحدہ قراء ت بنائے گا اور لغت کا بالکل پاس نہ رکھے گا ۔
اس مسئلہ میں معتدل مؤقف یہی ہے کہ خلط قراء ات میں باعتبار شریعت کوئی حرج نہیں اور جن اہل فن نے اس سے منع فرمایا ہے ان کے پیش نظر بعض فنی امور ہیں، جن کی رعایت کرنا بہرحال ضروری ہے کیونکہ ہر شے کو اس کے درست مقام پر متعین کیا جاتا ہے،۔ وہ امور درج ذیل ہیں:
(١) وہ قراء ات جن میں اختلاط کے سبب نحو اور اعراب قرآن میں نقص آتا ہو تو ایسی قراء ات کااختلاط بالکلیہ حرام ہے، کیونکہ اس سے مقصد بیان قرآن ہی فوت ہوجاتا ہے اور آمر و مامور کا فرق مٹ جاتا ہے، لہٰذا اس سے قطعی گریز کرنا لازم ہے۔
(٢) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی قاری کسی قاری کی روایت بالالتزام نقل کررہا ہے، مثلاً کہتا ہے میں آپ کو سیدنا قالون رحمہ اللہ کی روایت سناتا یاسکھاتا ہوں اور اس میں خلط کرے گا تو کذب روایت لازم آئے گا، کیونکہ اس نے جو دعویٰ کیا ہے وہ خلاف واقعہ ہے، لہٰذا قراء ات عشرہ اور ان کی ذیلی روایات وطرق میں خلط کرناصحیح نہیں، کیونکہ قراء عشر کی نسبت سے کسی شے کو پڑھنے کا معنی ہی یہ ہے کہ قاری اپنا نیا اختیار(set)ترتیب دینے کے بجائے کسی کے متعین کردہ اختیار (set)ہی کو اپنا معمول بنارہا ہے، چنانچہ ایسی صورت میں ان آئمہ سے جس جس طرح ان کی روایت تحقیق کے ساتھ ثابت ہے اسی ترتیب سے ہی ان کو پڑھنا چاہیے اور خلط نہیں کرنا چاہیے۔
(٣) ایسی صورت میں اگر آپ نے کسی راوی کی روایت کا نام لے کر التزام کیا ہے تو خلط کرتے ہوئے یوں پڑھنا جو اس سے ثابت نہ ہو، کذب بیانی کی وجہ سے حرام ہے، البتہ اگر آپ نے التزام تو نہیں کیا لیکن کوئی نیا اختیار(set) بھی ترتیب دیے بغیر قراء عشرہ میں سے کسی راوی کی روایت ہی پڑھ رہے ہیں تو بھی خلط غیر مناسب ہے کیونکہ بحالت ِ روایت خلط کرنا فن روایت کی رو سے غیر صحیح ہوتا ہے۔ اس کی مثال احادیث کی ہے کہ اگر آپ کسی امام یا کتاب کی روایت کے حوالہ کے بغیر بھی کوئی روایت نقل کرتے ہیں تو آئمہ روایت کے ہاں بہرحال یہ باعتبار روایت صحیح نہیں۔
(٥) البتہ ماہرین فن کے حق میں، خصوصاً جو اپنا اختیار بنانا چاہتے ہیں، اختلاط کوئی عیب کی بات نہیں ہے ، لیکن ہم اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، کیونکہ قراء عشر سے قبل اور بعد، بلکہ ان کے دور میں بھی سینکڑوں صاحب اختیار ائمہ موجود تھے، مثلا اگر صرف امام ہذلی رحمہ اللہ کی الکامل کو اٹھالیا جائے تو اس میں پچاس صاحب اختیار آئمہ کی قراء ات موجود ہیں، لیکن اللہ رب العزت نے قبولِ عام صرف انہی دس قراء کی قراء ات کو بخشا ہے۔ ان کے علاوہ آئمہ کے اختیارات یا تو سرے سے محفوظ ہی نہیں کیے گئے یا موجود تو ہیں لیکن منظر عام پر نہیں ہیں۔ یہ تقسیم الٰہی ہے، اس میں کسی کو کوئی دخل نہیں، چنانچہ اگر انہی آئمہ کی مرویات پر اکتفا کیا جائے، جیساکہ امت میں بالعموم اس کا اتفاقی تعامل پچھلے ہزار برس سے چلا آرہا ہے، توکونسی حرج کی بات ہے؟ قراء عشر کے اسالیب ِتلاوت میں ایسے کمالات واسرار پوشیدہ ہیں، جو اہل فن ہی جانتے ہیں۔
مسئلہ اختلاط میں قراء کے تین اَقوال سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک گروہ جو مطلق عدم جواز کا قائل ہے جن میں امام سخاوی، امام قسطلانی، امام طیبی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ وہ اس بارے میں زیادہ شدید نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ ایک علم جس کے وجود کی بنیاد ہی اختلاط ہے اس میں اختلاط کے حوالے سے یہ کہنا کہ یہ خطا یا حرام ہے تو یہ رائے بہرحال ایک متوازن رائے نہیں ہے، بلکہ وضع الشئ فی محلہ کے قاعدہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہرایک شے کو اس کا صحیح مقام دینا ہی فکرِ سلیم اور طریقِ سلف صالحین ہے۔
باقی رہا دوسرا موقف جو امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے کہ علی الاطلاق خلط کی اجازت ہے، یہ بات بھی راہ صواب سے ہٹی ہوئی ہے، کیونکہ اگر خلط کی اس انداز سے اجازت دے دی جائے تو سلف صالحین سے منقول روایات کا ذخیرہ بالکل تباہ ہوکر رہ جائے گا کہ ہر شخص وجوہ مرویہ کو دیکھ کر اپنی علیحدہ قراء ت بنائے گا اور لغت کا بالکل پاس نہ رکھے گا ۔
اس مسئلہ میں معتدل مؤقف یہی ہے کہ خلط قراء ات میں باعتبار شریعت کوئی حرج نہیں اور جن اہل فن نے اس سے منع فرمایا ہے ان کے پیش نظر بعض فنی امور ہیں، جن کی رعایت کرنا بہرحال ضروری ہے کیونکہ ہر شے کو اس کے درست مقام پر متعین کیا جاتا ہے،۔ وہ امور درج ذیل ہیں:
(١) وہ قراء ات جن میں اختلاط کے سبب نحو اور اعراب قرآن میں نقص آتا ہو تو ایسی قراء ات کااختلاط بالکلیہ حرام ہے، کیونکہ اس سے مقصد بیان قرآن ہی فوت ہوجاتا ہے اور آمر و مامور کا فرق مٹ جاتا ہے، لہٰذا اس سے قطعی گریز کرنا لازم ہے۔
(٢) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی قاری کسی قاری کی روایت بالالتزام نقل کررہا ہے، مثلاً کہتا ہے میں آپ کو سیدنا قالون رحمہ اللہ کی روایت سناتا یاسکھاتا ہوں اور اس میں خلط کرے گا تو کذب روایت لازم آئے گا، کیونکہ اس نے جو دعویٰ کیا ہے وہ خلاف واقعہ ہے، لہٰذا قراء ات عشرہ اور ان کی ذیلی روایات وطرق میں خلط کرناصحیح نہیں، کیونکہ قراء عشر کی نسبت سے کسی شے کو پڑھنے کا معنی ہی یہ ہے کہ قاری اپنا نیا اختیار(set)ترتیب دینے کے بجائے کسی کے متعین کردہ اختیار (set)ہی کو اپنا معمول بنارہا ہے، چنانچہ ایسی صورت میں ان آئمہ سے جس جس طرح ان کی روایت تحقیق کے ساتھ ثابت ہے اسی ترتیب سے ہی ان کو پڑھنا چاہیے اور خلط نہیں کرنا چاہیے۔
(٣) ایسی صورت میں اگر آپ نے کسی راوی کی روایت کا نام لے کر التزام کیا ہے تو خلط کرتے ہوئے یوں پڑھنا جو اس سے ثابت نہ ہو، کذب بیانی کی وجہ سے حرام ہے، البتہ اگر آپ نے التزام تو نہیں کیا لیکن کوئی نیا اختیار(set) بھی ترتیب دیے بغیر قراء عشرہ میں سے کسی راوی کی روایت ہی پڑھ رہے ہیں تو بھی خلط غیر مناسب ہے کیونکہ بحالت ِ روایت خلط کرنا فن روایت کی رو سے غیر صحیح ہوتا ہے۔ اس کی مثال احادیث کی ہے کہ اگر آپ کسی امام یا کتاب کی روایت کے حوالہ کے بغیر بھی کوئی روایت نقل کرتے ہیں تو آئمہ روایت کے ہاں بہرحال یہ باعتبار روایت صحیح نہیں۔
(٤) مزید برآں یہ بات بھی واضح رہنا چاہیے کہ خلط کی اجازت ایسے افراد کے لئے تو بالکل نہیں ہے جو قراء ات کے ماہر نہیں ہیں اور صرف تجوید پڑھنے کے بعد عرفی طور پر قاری کہلاتے ہیں، کیونکہ تلقی ومشافہت تو قراء ات میں بہرحال لازمی شرط ہے، چنانچہ ایسا آدمی جسے امالہ، تقلیل، تسہیل، مدود کی خاص مقداریں، لام وراء کی تفخیم وتغلیظ وغیرہ امور کی ادائیگی کا علم ہی نہیں رکھتا اسے کسی طرح نیا اختیار بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ غلط سلط جس طرح چاہے پڑھے۔ ایسے شخص کو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے تعلیم وتعلّم کو اختیار کرنا چاہیے۔علم القراء ات بھی روایت کے ذریعہ ہی ہم تک پہنچتا ہے اور اس میں اگرچہ برخلاف حدیث کے تیسرًا للأمّہ خلط جائز ہے، لیکن جب آپ آئمہ عشرہ کے اختیار کردہ ترتیبات تلاوت اور مرویات (sets) ہی کی تلاوت فرما رہے ہوں اور مقصود نیا اختیار ترتیب دینا نہ ہو تو روایت کے موافق پڑھنا ہی انسب ہے۔
(٥) البتہ ماہرین فن کے حق میں، خصوصاً جو اپنا اختیار بنانا چاہتے ہیں، اختلاط کوئی عیب کی بات نہیں ہے ، لیکن ہم اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، کیونکہ قراء عشر سے قبل اور بعد، بلکہ ان کے دور میں بھی سینکڑوں صاحب اختیار ائمہ موجود تھے، مثلا اگر صرف امام ہذلی رحمہ اللہ کی الکامل کو اٹھالیا جائے تو اس میں پچاس صاحب اختیار آئمہ کی قراء ات موجود ہیں، لیکن اللہ رب العزت نے قبولِ عام صرف انہی دس قراء کی قراء ات کو بخشا ہے۔ ان کے علاوہ آئمہ کے اختیارات یا تو سرے سے محفوظ ہی نہیں کیے گئے یا موجود تو ہیں لیکن منظر عام پر نہیں ہیں۔ یہ تقسیم الٰہی ہے، اس میں کسی کو کوئی دخل نہیں، چنانچہ اگر انہی آئمہ کی مرویات پر اکتفا کیا جائے، جیساکہ امت میں بالعموم اس کا اتفاقی تعامل پچھلے ہزار برس سے چلا آرہا ہے، توکونسی حرج کی بات ہے؟ قراء عشر کے اسالیب ِتلاوت میں ایسے کمالات واسرار پوشیدہ ہیں، جو اہل فن ہی جانتے ہیں۔