• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ خلط قراء ات اور علم ِتحریرات کا فنی مقام

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دلائل کا تجزیہ اور معتدل موقف

مسئلہ اختلاط میں قراء کے تین اَقوال سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک گروہ جو مطلق عدم جواز کا قائل ہے جن میں امام سخاوی، امام قسطلانی، امام طیبی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ وہ اس بارے میں زیادہ شدید نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ ایک علم جس کے وجود کی بنیاد ہی اختلاط ہے اس میں اختلاط کے حوالے سے یہ کہنا کہ یہ خطا یا حرام ہے تو یہ رائے بہرحال ایک متوازن رائے نہیں ہے، بلکہ وضع الشئ فی محلہ کے قاعدہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہرایک شے کو اس کا صحیح مقام دینا ہی فکرِ سلیم اور طریقِ سلف صالحین ہے۔
باقی رہا دوسرا موقف جو امام رازی رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے کہ علی الاطلاق خلط کی اجازت ہے، یہ بات بھی راہ صواب سے ہٹی ہوئی ہے، کیونکہ اگر خلط کی اس انداز سے اجازت دے دی جائے تو سلف صالحین سے منقول روایات کا ذخیرہ بالکل تباہ ہوکر رہ جائے گا کہ ہر شخص وجوہ مرویہ کو دیکھ کر اپنی علیحدہ قراء ت بنائے گا اور لغت کا بالکل پاس نہ رکھے گا ۔
اس مسئلہ میں معتدل مؤقف یہی ہے کہ خلط قراء ات میں باعتبار شریعت کوئی حرج نہیں اور جن اہل فن نے اس سے منع فرمایا ہے ان کے پیش نظر بعض فنی امور ہیں، جن کی رعایت کرنا بہرحال ضروری ہے کیونکہ ہر شے کو اس کے درست مقام پر متعین کیا جاتا ہے،۔ وہ امور درج ذیل ہیں:
(١) وہ قراء ات جن میں اختلاط کے سبب نحو اور اعراب قرآن میں نقص آتا ہو تو ایسی قراء ات کااختلاط بالکلیہ حرام ہے، کیونکہ اس سے مقصد بیان قرآن ہی فوت ہوجاتا ہے اور آمر و مامور کا فرق مٹ جاتا ہے، لہٰذا اس سے قطعی گریز کرنا لازم ہے۔
(٢) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی قاری کسی قاری کی روایت بالالتزام نقل کررہا ہے، مثلاً کہتا ہے میں آپ کو سیدنا قالون رحمہ اللہ کی روایت سناتا یاسکھاتا ہوں اور اس میں خلط کرے گا تو کذب روایت لازم آئے گا، کیونکہ اس نے جو دعویٰ کیا ہے وہ خلاف واقعہ ہے، لہٰذا قراء ات عشرہ اور ان کی ذیلی روایات وطرق میں خلط کرناصحیح نہیں، کیونکہ قراء عشر کی نسبت سے کسی شے کو پڑھنے کا معنی ہی یہ ہے کہ قاری اپنا نیا اختیار(set)ترتیب دینے کے بجائے کسی کے متعین کردہ اختیار (set)ہی کو اپنا معمول بنارہا ہے، چنانچہ ایسی صورت میں ان آئمہ سے جس جس طرح ان کی روایت تحقیق کے ساتھ ثابت ہے اسی ترتیب سے ہی ان کو پڑھنا چاہیے اور خلط نہیں کرنا چاہیے۔
(٣) ایسی صورت میں اگر آپ نے کسی راوی کی روایت کا نام لے کر التزام کیا ہے تو خلط کرتے ہوئے یوں پڑھنا جو اس سے ثابت نہ ہو، کذب بیانی کی وجہ سے حرام ہے، البتہ اگر آپ نے التزام تو نہیں کیا لیکن کوئی نیا اختیار(set) بھی ترتیب دیے بغیر قراء عشرہ میں سے کسی راوی کی روایت ہی پڑھ رہے ہیں تو بھی خلط غیر مناسب ہے کیونکہ بحالت ِ روایت خلط کرنا فن روایت کی رو سے غیر صحیح ہوتا ہے۔ اس کی مثال احادیث کی ہے کہ اگر آپ کسی امام یا کتاب کی روایت کے حوالہ کے بغیر بھی کوئی روایت نقل کرتے ہیں تو آئمہ روایت کے ہاں بہرحال یہ باعتبار روایت صحیح نہیں۔
علم القراء ات بھی روایت کے ذریعہ ہی ہم تک پہنچتا ہے اور اس میں اگرچہ برخلاف حدیث کے تیسرًا للأمّہ خلط جائز ہے، لیکن جب آپ آئمہ عشرہ کے اختیار کردہ ترتیبات تلاوت اور مرویات (sets) ہی کی تلاوت فرما رہے ہوں اور مقصود نیا اختیار ترتیب دینا نہ ہو تو روایت کے موافق پڑھنا ہی انسب ہے۔
(٤) مزید برآں یہ بات بھی واضح رہنا چاہیے کہ خلط کی اجازت ایسے افراد کے لئے تو بالکل نہیں ہے جو قراء ات کے ماہر نہیں ہیں اور صرف تجوید پڑھنے کے بعد عرفی طور پر قاری کہلاتے ہیں، کیونکہ تلقی ومشافہت تو قراء ات میں بہرحال لازمی شرط ہے، چنانچہ ایسا آدمی جسے امالہ، تقلیل، تسہیل، مدود کی خاص مقداریں، لام وراء کی تفخیم وتغلیظ وغیرہ امور کی ادائیگی کا علم ہی نہیں رکھتا اسے کسی طرح نیا اختیار بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کہ وہ غلط سلط جس طرح چاہے پڑھے۔ ایسے شخص کو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے تعلیم وتعلّم کو اختیار کرنا چاہیے۔
(٥) البتہ ماہرین فن کے حق میں، خصوصاً جو اپنا اختیار بنانا چاہتے ہیں، اختلاط کوئی عیب کی بات نہیں ہے ، لیکن ہم اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، کیونکہ قراء عشر سے قبل اور بعد، بلکہ ان کے دور میں بھی سینکڑوں صاحب اختیار ائمہ موجود تھے، مثلا اگر صرف امام ہذلی رحمہ اللہ کی الکامل کو اٹھالیا جائے تو اس میں پچاس صاحب اختیار آئمہ کی قراء ات موجود ہیں، لیکن اللہ رب العزت نے قبولِ عام صرف انہی دس قراء کی قراء ات کو بخشا ہے۔ ان کے علاوہ آئمہ کے اختیارات یا تو سرے سے محفوظ ہی نہیں کیے گئے یا موجود تو ہیں لیکن منظر عام پر نہیں ہیں۔ یہ تقسیم الٰہی ہے، اس میں کسی کو کوئی دخل نہیں، چنانچہ اگر انہی آئمہ کی مرویات پر اکتفا کیا جائے، جیساکہ امت میں بالعموم اس کا اتفاقی تعامل پچھلے ہزار برس سے چلا آرہا ہے، توکونسی حرج کی بات ہے؟ قراء عشر کے اسالیب ِتلاوت میں ایسے کمالات واسرار پوشیدہ ہیں، جو اہل فن ہی جانتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم ِ تحریرات کی تعریف اوراسکا فنی مقام


لغوی تعریف
تحریرات یہ تحریرٌ کی جمع ہے اور تحریر کا لغوی معنی ہے: التقویم والتدقیق یعنی کسی چیز کو درست کرنا۔

اصطلاحی تعریف
فضیلۃ الشیخ عبد الرازق علی موسی رحمہ اللہ علم تحریرات کی تعریف یوں ذکر کرتے ہیں:
التحریرھو اتقان الشئ وامعان النظر فیہ من غیر زیادۃ أو نقصان و معناہ ھنا تنقیح القراء ۃ من أی خطأ أوخلل کالترکیب مثلا۔ (تامّلات حول التحریرات:ص۹)
’’ تحریر کا معنی ہے کہ چیز میں پختگی پیدا کرنا اور اس میں دقت نظر سے غوروفکر کرنا تاکہ اس میں کوئی زیادتی یا کمی واقع نہ ہو۔ فن قراء ات میں اس کامفہوم یہ ہے کہ قراء ا ت قرآنیہ میں کسی بھی غلطی اور خلل کی اصلاح کرنا، مثلا قراء ات کے ضمن میں ترکیب (خلط طرق وغیرہ) کی وضاحت کرنا ۔‘‘
علم تحریرات کی تعریف سے اس کا دائرہ کار واضح ہوتا ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ائمہ قراء ات، مثلاً امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب حرز الامانی میں او رامام جزری رحمہ اللہ نے اپنی کتب الدّرّۃ اور الطیبۃمیں قراء ات ذکر کرنے کے کچھ اصول مقرر کئے ہیں کہ وہ اپنی کتاب میں فلاںفلاں امام کی قراء ت فلاں فلاں واسطہ سے نقل کریں گے، جیسے امام شاطبی رحمہ اللہ نے امام نافع رحمہ اللہ کے شاگرد امام قالون رحمہ اللہ کی روایت کو سیدنا ابونشیط رحمہ اللہ کے طریق سے نقل کیا ہے۔ اب بعض دفعہ امام شاطبی رحمہ اللہ اپنے متعین کردہ طریق کے خلاف کوئی بات ذکر کردیتے ہیں یاپھر متن الشاطبیہ ، جوکہ امام دانی رحمہ اللہ کی کتاب التیسیر کی نظم ہے، میں بعض دفعہ التیسیرسے اختلاف کرتے ہیں یااپنے مقررہ ضابطہ سے نکل جاتے ہیں تو محررین اس قسم کے تساہلات پر متنبہ کرتے ہیں او رہرایک شے کی مکمل تنقیح کرتے ہیں کہ یہاں مؤلف نے اپنے طریق کے خلاف بات لکھ دی ہے، حالانکہ طریق کی رو سے دوسری شے ثابت ہے۔
علم تحریرات کی نوعیت سمجھنے کے لیے درج ذیل مثالوں میں غور کرنا چاہیے:
(١) آئمہ قراء ات سے بعض کلمات میں دو یا دو سے زیادہ وجوہ منقول ہوتی ہیں، مثلاً امام ورش رحمہ اللہ سے مدبدل میں تین وجوہ: قصر، توسط، طول منقول ہیں اور اسی طرح ذوات الیاء میں دو وجوہ: فتح و تقلیل مروی ہیں۔ اب اگر مد بدل مقدم اور ذوات الیاء مؤخر ہوتو اہل تحریرات کے ہاں پڑھنے کا انداز یوں ہوگا کہ قصر کے ساتھ فتح، توسط کے ساتھ تقلیل اور طول کے ساتھ فتح و تقلیل کل چار وجوہ پڑھنا جائز ہوگا۔ اب محررین اسی انداز پر پڑھنے کو لازم قرار دیتے ہیں اور اس کے خلاف پڑھنے کو ناپسند کرتے ہیں۔
(٢) ایک اور مثال روایت حفص میں یوں سمجھیں کہ امام حفص رحمہ اللہ سے بطریق جزری مد منفصل میں دو وجوہ قصر اور توسط مروی ہیں، ان دو وجوہ کے ساتھ روایت حفص ہی میں دیگر وہ مقامات، جہاں امام حفص رحمہ اللہ سے دو یا تین وجوہ منقول ہیں، کو ملاکر پڑھنے کی صورت میں جو ضربی وعقلی وجوہ پیدا ہوتی ہیں، میں یہ وضاحت کرنا کہ مد منفصل کے قصر کے ساتھ ان مقامات پر طریق کے موافق کونسی وجہ ہے اور کونسی وجہ طریق کے خلاف ہے۔ محررین کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جب آپ منفصل میں قصر یا توسط کے ساتھ دیگر کلمات میں فلاں وجہ پڑھیں گے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم ِ تحریرات کا فنی مقام

علم تحریرات کی مذکورہ حقیقت وماہیت کے مطابق علم تحریرات کا موضوع یہ طے ہوتا ہے کہ علم قراء ات کی اس قسم میں آئمہ عشرہ کے اختیارات، جو پچھلے بارہ تیرہ سو سالوں سے ہم تک بدون اختلاط، روایت کے ذریعے پہنچ رہے ہیں، میں یہ نکھار کیا جاتا ہے کہ متعلقہ امام ، راوی یا طریق کی قراء ت کے سلسلہ میں خلاف واقعہ کیا کچھ نقل کردیا گیا ہے۔
علم تحریرات کے اہتمام کے سلسلہ میں اہل فن دو طبقات میں منقسم ہیں:
(١) بعض افاضل کے ہاں علم تحریرات ایک غیر ضروری علم ہے، کیونکہ ان کی رائے میں مبحث اختیارات، جس کا لازمی نتیجہ خلط قراء ات ہے، علم تحریرات کی مخالفت پر دلالت کرتا ہے، جبکہ علم تحریرات ترکیب واختلاط کی ممانعت اور اختلاط کے نکھار کا نام ہے۔ اس لیے یہ لوگ علم تحریرات کو غیر ضروری علم قرار دیتے ہیں،بلکہ تحریرات کے سلسلہ میں محررین کے رد عمل میں بسا اوقات اسے لا یعنی اور لغو تک کہہ دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں بعض اکابر نے یہاں تک تبصرہ کردیا ہے کہ علم تحریرات کو کوئی مستقل علم کہنا ہی غلط ہے، کیونکہ ان کی رائے میں تحریرات در اصل متاخرین کے اختیارات ہی کا دوسرا نام ہے۔
ہمارا ان اصحاب علم کے بارے میں تبصرہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے موقف میں وزن ضرور ہے، لیکن یہ حضرات مبحث اختیارات اور علم تحریرات کے مابین عدم امتیاز کی وجہ سے دونوں مباحث کے باہمی فرق کو مد نظر نہیں رکھ سکے۔
(٢) بعض دیگر فاضل شخصیات، جن کے ہاں بالعموم اختلاط و ترکیب کو حرام یا انتہائی مکروہ خیال کیا جاتا ہے، کے ہاں علم تحریرات کو ایک مستقل علم کا درجہ یوں دیا جاتا ہے کہ روایات میں اختلاط کو خطا وغلطی سمجھتے ہوئے علم تحریرات میں طرق کے باہمی نکھار اور اس قسم کی باریک سے باریک تر تفصیلات کے اہتمام کو انتہائی ضروری قرار دیا جاتا ہے، خواہ اس قسم کی تحقیقی کاوشوں کی مشاکل کے نتیجہ میں طلبائے قراء ات میں حرمان علم ہی نصیب میں کیوں نہ آئے۔
پہلی رائے کے حاملین کے سرخیل ہمارے شیخ المشائخ، عصر حاصر کے نامور اور جلیل القدر عالم ِقراء ات علامہ عبد الفتاح القاضی مصری رحمہ اللہ ہیں، جنہوں اپنے موقف کو اپنی کتاب ابحاث فی القرآن الکریم کے آخر میں تفصیلا ذکر کیا ہے۔ الشیخ القاضی رحمہ اللہ اور ان کے عام تلامذہ اس سلسلہ میں اپنے استاد کی رائے پر ہیں۔ اس کے بالمقابل علم قراء ات کے حاملین کا عام روایتی طبقہ تحریرات کے انتہائی التزام کا قائل ہے، جن کی قیادت بھی عصر حاضر کے ایک اور مشہور امام القراء ات فضیلۃ الشیخ احمد عبد العزیز زیات رحمہ اللہ کر تے رہے اور ماسوائے چند فضلاء کے بعد ازاں ان کے تقریبا تمام تلامذہ اسی رویہ پر گامزن ہیں۔ اس موقف کی توضیح کے لیے نمائندہ کتاب شیخ اَحمد زیات رحمہ اللہ کے شاگرد خاص الشیخ عبد الرازق علی موسی رحمہ اللہ کی تامُّلات حول التحریرات کو قرار دیا جاسکتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دونوں موقفوں کاعلمی جائزہ اور معتدل موقف

ہماری رائے اس سلسلہ میں دو انتہائی رویوں کے مابین ہے۔ علم تحریرات کی جو تعریف پیچھے ہم نے ذکر کی ہے اس کی رو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آئمہ ناقلین کے ہاں علم تحریرات سے مراد وہ تقسیم ِعلم ہے جس میں (باوجود اختلاط قراء ات کے جواز کے) علمی اور فنی طور پر معروف صاحب اختیار آئمہ کے اختیار کردہ ترتیبات ِتلاوت (sets)کو بھی محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا گیاہے۔ اس بات سے اس علم کے جلیل القدر اور انتہائی مفید ہونے کا اندازہ ہوتا ہے کیونکہ عملاً امت کے ہاں آج تک انہی صاحب اختیار آئمہ کی قراء ات ہی مقروء ومعمول ہیں۔
اسی طرح مذکورہ بیان سے یہ بھی متشرح ہوتا ہے کہ مبحث اختیارات کا مبحث تحریرات سے کوئی تعلق نہیں،کیونکہ اختیارات کا موضوع تو یہ ہے کہ منزل من اللہ اور منقول اسالیب تلاوت میں اختلاط کے ساتھ نیا ترتیب ِتلاوت (set)تشکیل دیا جائے یا پہلے سے موجود مختلف اسالیب (sets) میں سے ہی کسی ایک اسلوب کو متعین کیا جائے، جبکہ تحریرات کا موضوع آئمہ مختارین کے متعین شدہ اختیارات کی روایت کو نکھارنا ہے۔ علم تحریرات کی بحث اختیارات سے عدم تعلق کے موضوع پر فضیلۃ الشیخ عبد الرازق علی موسی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تأمُّلات حول التحریرات میں تفصیلا قلم اٹھایا ہے اور علم تحریرات کو آئمہ متاخرین کے اختیارات قرار دینے کے موقف کا اچھا تعاقب کیا ہے ۔
آئمہ مختارین کے اختیار ات میں بعد ازاں واقع ہونے والے اختلاط کی توضیح ونکھار کو ایک مثبت کاوش قرار دینے کے باوجود، چونکہ شرعی اعتبار سے اختلاط قراء ات میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ علم تحریرات میں طرق کے نکھار کی یہ کاوش ’فنی نوعیت‘ سے زیادہ مقام نہیں رکھتی۔ ہماری رائے میں علم تحریرات کا بس یہی صحیح مقام ہے، نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ، چنانچہ حق دونوں انتہائی رویوں کے مابین ہے۔ لہٰذا ہم تحریرات کے اس مبارک فن کو ایک دائرہ کے اندر تو درست سمجھتے ہیں اور مبالغہ پر مبنی ہر رائے کو غیر متوازن سمجھتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فن قراء ات کی تاریخ میں علم تحریرات کے مثبت فن ہونے سے شائد ہی کسی محققانہ ذوق کے حامل صاحب علم کو انکار ہو، لیکن اس ضمن میں ہم علامہ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ کی اس رائے سے پوری طرح متفق ہیں کہ تحریرات کے ضمن میں عصر حاضر کا ذوق ِ کمال جس انداز میں تحریرات کوپیش کرتا ہے، اس میں اعلی درجہ کی حساسیت بجا طور پر بعض متاخرین کے ذوق کا کرشمہ ہے۔ اس سلسلہ میں علامہ عبد الفتاح القاضی رحمہ اللہ اپنی تحقیق یوں پیش فرماتے ہیں:
’’تحریرات کے ضمن میں ہم اپنی بحث کا اختتام اس حقیقت کے بیان کے ساتھ کریں گے کہ صدرِاوّل میں علم تحریرات کا ( ایک مستقل علم کے طور پر) وجود نہیں تھا اور متقدمین مشائخ ِقراء ات اور آئمہ اَدا ء میں سے کسی ایک نے بھی اس علم کی استقلالی حیثیت کی طرف اشارہ یاتنبیہ نہیں فرمائی۔ علم تحریرات تو اپنے تمام تر مشمولات کے ساتھ باقاعدہ مدون صورت میں پہلی دفعہ ۱۱ ؍ہجری میں معرض وجود میں آیا اور ان پر سب سے پہلے کام کرنے والے شیخ شحاذہ الیمنی رحمہ اللہ ہیں، پھر ان کے فرزند ارجمند الشیخ عبدالرحمن یمنی رحمہ اللہ انہی کے نقش قدم پرچلے۔ بعد ازاں آنے والے علماء مثلاً الشیخ علی منصوری رحمہ اللہ، علامہ علی میہی رحمہ اللہ، ان کے بیٹے الشیخ مصطفی میہی رحمہ اللہ ہیں۔ انہیں دونوں کے نقش قدم پر الشیخ ابراہیم رحمہ اللہ اور علامہ محمد طباخ رحمہ اللہ چلے، البتہ ان مذکورۃ الصدر محققین میں بھی تحریرات کے سلسلہ میں بعض تحریرات اتفاقی ہیں اوربعض اختلافی۔ ان سب لوگوں کے بعد الشیخ مصطفی بن عبدالرحمن ازمیری رحمہ اللہ آئے انہوں نے متقدمین کے کلام پر نقد کیااورانہیں غیرتحقیق شدہ سمجھتے ہوئے ناقابل التفات سمجھا۔
متاخرین اصحابِ فن میں علم ِتحریرات کے جلیل القدر امام خاتمۃ المحقّقین شیخ القراء والمقاری علامہ محمد اَحمد المتولی رحمہ اللہ گزرے ہیں۔ وہ تحریرات میں مذہب ِمنصوری رحمہ اللہ اور ان کے دونوںمشائخ یعنی الشیخ شحاذہ رحمہ اللہ ا ور الشیخ عبد الرحمن یمنی رحمہ اللہ کے مذہب کے موافق پڑھتے پڑھاتے تھے۔ پھر ان کے ہاتھ بدائع البرھان اَز اَزمیری رحمہ اللہ کاایک نسخہ لگا، انہوں نے اس کی تحقیق کی اور جو کچھ اس میں تھا، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے علامہ منصوری رحمہ اللہ اور انکے متبعین کے مذہب سے رجوع کرلیا اور پھر مذکورہ کتاب ’بدائع‘ ہی کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے اسی کتاب کو نو سو (۹۰۰) اشعار میں نظم کیا، چنانچہ تب سے اب تک جو لوگ طیبہ (قراء ات عشرہ کبری) پڑھتے ہیں وہ علامہ متولی رحمہ اللہ کی اس نظم کو بھی یاد کرتے ہیں۔ان لوگوں نے طیبہ کے ساتھ ساتھ اس پر بھی تکیہ کر لیا، اس کو پڑھایا اور اسی کے ہو کر رہ گئے۔‘‘ (ابحاث فی القرآن الکریم: ص۳۲)
کتاب مذکورہ میں معاً بعد الشیخ القاضی رحمہ اللہ علم القراء ات کے طلبہ کو یوں نصیحت فرماتے ہیں کہ
’’جو شخص علم ِقراء ا ت کی تعلیم وتعلّم کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کاخیال ہے کہ وہ خود کو قراء ات کے پڑھنے پڑھانے اوراس کی تحصیل کے لئے وقف کرے، میں اسے توجہ دلاتا ہوں اورنصیحت کرتا ہوں کہ وہ علم ِتحریرات کو غیر ضروری خیال کرتے ہوئے منصوری رحمہ اللہ اوراس کے متبعین یااَزمیری رحمہ اللہ اوراس کے اتباع کی تحقیقات کو ایک طرف چھوڑ رکھے اور اپنی تمام تر توجہ قراء ات کے متون شاطبیہ، درہ، طیبہ کو حفظ کرنے اور ان کے استحضار پر مرکوز رکھے اورانہی کے اسرار و رموز کو سمجھنے میں لگا رہے۔ اسی طرح لغت ِعرب میں ہر قراء ت کی ہر وجہ کی پہچان اوراس کی پوشیدگیوں کو جانے، تاکہ وہ جب بھی کوئی قراء ت پڑھے یا پڑھائے یا اس سے قراء ا ت سے متعلق کوئی سوال پوچھا جائے یااس کی توجیہات کے بارے میںپوچھا جائے تووہ کسی مشکل کا شکار نہ ہو، بلکہ فوراً جواب دینے پر قادرہو اوریہ سب تب ہی ممکن ہے، جب خود اس پر تمام دروازے وا ہوں گے۔ میرے خیال کے مطابق قاری مقری کے لئے یہی مناسب اورزیادہ مفید رویہ ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگرچہ شیخ القاضی رحمہ اللہ کے موقف میں علم تحریرات کو کالعدم خیال کرنے کا رجحان سامنے آتا ہے، لیکن ہماری رائے میں ان کے موقف میں موجود سختی ان کے زمانہ کے بعض معاصر اہل فن کی تحریرات کے بارے میں شدت پسندانہ رویہ کے رد عمل میں تھی، جبکہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ تمام طبقات اہل فن کے ہاں مساوی مقبولیت کی حامل شیخ موصوف رحمہ اللہ کی قراء ات عشرہ صغری میں مایہ ناز تالیف البدور الزاہرۃ، جوکہ انہوں نے مبتدی طلبہ کے لیے لکھی، میں علم تحریرات کا بھرپور اہتمام نظر آتاہے۔ البتہ شیخ اپنے عمومی موقف کے مطابق امام حمزہ رحمہ اللہ اور امام ہشام رحمہ اللہ کی ہمزہ پر وقفی وجوہ کے سلسلہ میں صعوبت اور مشکل کے پیش نظر ترتیب ِطرق ووجوہ کا لحاظ زیادہ اہتمام سے نہیں فرماتے۔
بر صغیر پاک وہند میں قراء ات عشرہ کبری کو بغیر تحریرات کے پڑھانے والے اساتذہ کے بقول قراء ات عشرہ صغریٰ میں علم تحریرات کی پابندی اگرچہ زیادہ مشکل نہیں، لیکن عشرۃ کبریٰ میں طرق چونکہ کافی بڑھ جاتے ہیں، اس لئے وہاں بھی باب وقف حمزۃ وہشام علی الہمزکی طرح طرق ووجوہ کا نکھار طلبائے فن کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے، اس لیے نصوص شرعیہ: ولقد یسَّرنا القرآن اور فاقرء وا ما تیسَّر من القرآن کے بمصداق یہاں بھی شرعی تسہیل کی خاطرعلم تحریرات کے التزام کی شرط کے سلسلہ میں نرم رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس کی چند صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلا رواۃ کے ذیلی طرق میں اسماء کے ساتھ تحریرات کی پابندی کے بجائے عملی تحریرات کا اہتمام کرلیا جائے یا اصحاب ِفضل بیس رواۃ کے مثل ذیلی اَسی طرق کے اصول وقواعد کا جائزہ لے کر متفق علیہ اصولوں میں ذیلی طرق کے نام چھوڑ کر اوپر اَساسی رواۃ یا طرق کے ناموں کا تعین، جبکہ اختلافی مقامات پر طرق کے نام کے تعین کے ساتھ تحریرات کا اہتمام کرلیں۔ اس طرح سے ذیلی طرق میں عشرہ صغری کے ۲۱؍ طرق کے علاوہ شائد ۱۰، ۱۵ طرق سے زائد کا اختلاف ان شاء اللہ سامنے نہیں آئے گا، جبکہ فروش کی تحریرات کا اہتمام فرشی اختلافات کی مثل صرف انہی مقامات پر کروا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہبعد ازاں شیخ القاضی رحمہ اللہ کی تحریک کی وجہ سے شیخ زیات رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ نے اس قسم کے امور کی طرف توجہ دی ہے، جو بہرحال محمود کاوشیں ہیں، چنانچہ اس نہج پر کام کو آگے بڑھانے کے سلسلہ میں تدریب الطَّلبہ از شیخ عبد الرازق رحمہ اللہ اور فریدۃ الدھر از محمد ابراہیم محمد سالم کو مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بر صغیر پاک وہند میں علم قراء ات عشرہ صغری وکبری کے انتقال کی بنیادی شخصیت شیخ العرب والعجم مولانا قاری مقری عبد الرحمن مکی الہ آبادی رحمہ اللہ بھی صراحۃً اس قسم کے رجحانات پیش کرتے نظر آتے ہیں، فرماتے ہیں:
’’اگر ایک روایت کا التزام کرکے پڑھا اور اس میں دوسرے کو خلط کردیا تو کذب فی الروایت لازم آئے گا۔ اور علی حسب التلاوت خلط جائز ہے، مثلا امام حفص رحمہ اللہ کی روایت میں دو طریق مشہور ہیں: ایک امام شاطبی رحمہ اللہ، دوم امام جزری رحمہ اللہ، تو ان میں خلط کرنا اس لحاظ سے کہ دونوں وجہ سیدنا حفص رحمہ اللہ سے ثابت ہیں کچھ حرج نہیں۔ جب ایک وجہ عوام میں شائع ہوگئی ہو اور دوسری وجہ مشہور ثابت عند القراء، متروک (العوام) ہو تو ایسی صورت میں لکھنا پڑھنا پڑھانا نہائت ضروری ہے۔ (خواہ اس سے اختلاط ہی لازم کیوں نہ آئے) متاخرین کے اقوال وآراء میں خلط کرنا چنداں مضائقہ نہیں۔‘‘ (فوائد مکیہ مع تعلیقات مالکیہ: ص۳۷)
مذکورہ تمام تفصیلات کے باوصف ہمارا رجحان یہی ہے کہ محققین اہل فن کو ’طرق ‘ میں امتیاز کی تمامتر تفصیلات سے واقفیت اور عملاً پابندی کرنا چاہیے تاکہ اہل تحقیق کا عوام سے امتیاز باقی رہے اور علم وفن کے کمال کا پہلو بھی متاثر نہ ہو۔ اس سلسلہ میں ہم علم تحریرات کے حوالے سے دو معروف شخصیات کا حوالہ دے کر اپنی بات کو ختم کرتے ہیں:
(١) امام جزری رحمہ اللہ، جن کا شمار طرق کے امتیاز کے ماہر ترین لوگوں میں ہوتاہے، باوجود اختلاط قراء ات کے جواز کے قائل ہونے کے وہ اپنی کتاب منجد المقر ئین میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’لا یخلو إما أن یکون عالماً أوجاھلاً وإن کان عالما فعیب وإلا فلا‘‘ (منجدالمقرئین :ص۱۴)
’’اختلاط کرنے والا دو حال سے خالی نہیں یا عالم ہوگا یاپھر جاہل۔ اگر عالم ہے تو اس کے لئے اختلاط معیوب ہے اور اگر جاہل ہے تو اس کے لیے بہرحال خلاف اولیٰ ہے۔‘‘
(٢) اسی طرح علم قراء ات کی مشہور کتاب’’الشاطبیہ‘‘ کی تحریرات کے حوالے سے عظیم شخصیت علامہ عبد الرحمن الخلیجی رحمہ اللہ نے بالصراحت لکھا ہے کہ تحریرات کا اہتمام نہ کرنا اہل فن کے حق میں معیوب ہے ، البتہ عوام کے حق میں اہتمام نہ کرنے میںکوئی مضائقہ نہیں۔ (حلّ المشکلات : ۹،۱۰)
ہماری دعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانوں کو تلاوت قرآن کریم کی توفیق نصیب فرمائے اور قراء ات عشرہ صغری وکبری کی تعلیم وتعلّم اور خدمت قرآن کے لئے ہمیں چن لے۔ آمین یا رب العالمین !
 
Top