ناصر نعمان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 13، 2011
- پیغامات
- 22
- ری ایکشن اسکور
- 121
- پوائنٹ
- 42
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے جواب میں فریق مخالف نے اپنے کلی علم غیب کی عطاءکے دعوی کے دفاع میں یہ میدان(کلی مفاتح الغیب کی عطاء) سر کر نے کا بہت آسان راستہ ڈھونڈا اور قرآن و حدیث کی صریح اور واضح نصوص کا یوں جواب فرمایا کہ ’’ان پانچوں غیبوں کا(کلی) علم عطاء ہوا لیکن چھپانے کا حکم ہوا‘‘
اور اس ’’تاویل‘‘ کی تائید کے لئے کہیں غیر معتبر مجہول صوفی حضرات کے اقوال کا سہارا لیا ۔۔۔۔ تو کہیں معتبر بزرگوں کی غیر واضح اور مبہم عبارتوں کو لے کر توڑ موڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں فریق مخالف کے چند دلائل :
احمد رضا صاحب علامہ عثماوی کی کتاب مستطاب عجب العجائب سے نقل کرتے ہیں کہ
”یعنی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو آخر میں ان پانچوں غیبوں کا بھی علم عطاءہوگیا ،مگر ان کو چھپانے کا حکم تھا اور یہی قول صحیح ہے ۔(خالص الاعتقاد ص53)
نیز احمد رضا صاحب اور مفتی احمد یار نعیمی وغیرہ فرماتے ہیں کہ
علامہ حسن بن علی اور فاضل ابن عطیہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو علم قیامت عطاءہونے کے باب میں فرماتے ہیں کہ :
’’یعنی حق مذہب وہ ہے جو ایک جماعت علماءنے فرمایا کہ اللہ عزوجل ہمارے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا یہاں تک کہ جو وکچھ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے مخفی رہا اُس سب کا علم حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عطاءفرمادیا ہاں بعض علوم کی نسبت حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ کسی کو نہ بتائیں اور بعض کو بتانے کا حکم دیا “بلفظہ (خالص الاعتقاد ص52,53 و جاءالحق ص 112)
نیز لکھتے ہیں کہ :
علامہ ابراھیم بیجوری شرح بردہ شریف میں فرماتے ہیں کہ :
نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا سے نہ تشریف لے گئے مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ان پانچوں غیبوں کا علم دے دیا بلکہ علامہ شنوائی نے جمع النہایہ میں اسے بطور حدیث بیان کیا کہ بے شک وارد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے نہ لے گیا جب تک حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو تمام اشیاءکا علم نہ فرمادیا“ ( خالص الاعتقاد ص ۰50و جاءالحق ص 111,112)
(نوٹ : علامہ شنوائی کے حوالہ سے عرض ہے کہ ہم لفظ ”کل “ کی تفصیلی وضاحت پیش کر چکے ہیں کہ لفظ ”کل “ استغراق حقیقی میں نص قطعی نہیں )
مفتی احمدیار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ :
تفسیر عرائس البیان زیر آیت ”یعلم مافی الارحام “ میں ہے ”میں نے بعض اولیاءکو سنا کہ انہوں نے پیٹ کے بچہ لڑکی یا لڑکے کی خبر دی اور ہم نے اپنی آنکھوں سے وہ دیکھا جس کو انہوں نے خبر دی “بلفظہ (جاءالحق ص 109)
(واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو امور خمسہ کے بعض بعض جزئیات پر مطلع فرمادے اس پر نزع نہیں ہمارا نزع امور خمسہ کے کلیات پر ہے ۔)
نیز لکھتے ہیں کہ :
تفسیر روح البیان یہ ہی آیت بعض مشائخ ادھر گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کے وقت کو جانتے تھے اللہ تعالیٰ کے بتانے سے اور یہ قول اس آیت کے حصر کے خلاف نہیں ،روح البیان میں یہ ہی عبارت پارہ 9 زیر آیت ”یسا ءلونک کانک حفی عنھا “ میں بھی ہے اور وہاں یہ بھی ہے کہ دنیا کی کل عمر7 ہزار سال ہے یہ بروایت صحیحہ ثابت ہے جس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کو قیامت کا علم ہے “(جاءالحق ص104)
مولوی عمر صاحب لکھتے ہیں کہ
” تفسیر صاوی (ج2 ص 111) میں ہے ”اور جس کے ساتھ ایمان واجب ہے یہ ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم دنیا سے نہ منتقل ہوئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جمیع مغیبات کا علم سکھایا ”کانک حفی عنھا “ کے ماتحت ملاحظہ ہو (مقیاس حنفیت ص 384)
معزز قارئین کرام!
یہ ہے فریق مخالف کے دلائل کا ایک چھوٹا سا نمونہ ۔
یعنی قرآن کریم کی نصوص قطعیہ اور متواتر احادیث کے جوا ب میں چند لوگوں کے اقوال کہ فلاں نے کہا کہ ان پانچوں غیبوں کا (کلی)علم بھی عطاءہوا اور چھپانے کا حکم تھا ؟؟؟
حتی کہ فریق مخالف اپنے دعوی کو ثابت کرنے کی جستجو میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اُس کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ صحیح احادیث پاک میں جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا واضح اور صراحت کے ساتھ فرمان ہے کہ”مجھے سب چیز کی چابیاں دی گئیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں“(جو سورہ لقمان کی آخری آیات ہیں)
اور میں کیا ثابت کرنا چاہ رہا ہوں ؟؟؟
ویسے توفریق مخالف بزعم خود اپنے آپ کو سب سے بڑا عاشق رسول سمجھتا ہے۔۔۔۔لیکن دوسری طرف محبوب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان”مگر ان پانچ چیزوں کی عطاءنہیں کی گئیں“کو نظر انداز کرتے ہوئے خود سے ادھر ادھر کی تاویلیں پیش کرکے ”ان پانچ چیزوں کی چابیاں عطاءہونا“ ثابت کرنے کی کوشش کی؟؟؟
اور کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ ”ان پانچ چیزوں کودوسروں کے سامنے سرعام کھول کربیان کرنے کے لئے چابیاں نہ ملیں“
کیا یہی ہے عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم؟؟
کیا اس طرح کیا جاتا ہے محبوب سے محبت کا دعوی ؟؟؟
کہ محبوب صلیٰ اللہ علیہ وسلم کاتو فرمان ہے کہ ”ان پانچ چیزوں کی چابیاں نہیں ملیں “۔۔۔۔اور نام نہاد عاشق کہے ”ان پانچ چیزوں کی چابیاں ملیں “؟؟؟؟کیا اس طرح کیا جاتا ہے محبوب سے محبت کا دعوی ؟؟؟
آگے ہم کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔فیصلہ آپ قارئین کرام پر چھوڑا۔
محترم قارئین کرام !اس ”تاویل“کے جواب میں خود احمد رضا صاحب کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں:
وقف کے ایک اختلافی مسئلہ پر بعض علماءنے ایک مالکی المذہب عالم عبد الرحمن ابن القاسم (المتوفی 191ھ)کی عبارت پیش کی تھی ۔
جس پر احمد رضا صاحب سیخ پا ہو کر ارشاد فرماتے ہیں کہ”ذرا براہ مہربانی تھوڑی دیر کو ہوش میں آکر فرمائیے کہ ابن القاسم نے کہا کہ مقبرے کوبعد بے نشانی کردینا اور ابوالقاسم محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مقابر پر مسجد بنانا حرام ۔۔۔آپ کے نزدیک یہ دونوں حکم حالت واحد پر وارد جب تو آپ کا ایمان ہے کہ ابن قاسم کی بات حق جانیں اور ابو القاسم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہ مانیں “انتہیٰ بلفظہ (اہلاک الوہابین ص 33)
تو فریق مخالف سے اب پوچھنا یہ ہے کہ
اگر کسی بزرگ یا صوفی اور مولوی کے کسی قول سے یہ ثابت ہو تا ہو کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو امور خمسہ کا علم حاصل تھا اوراس کو چھپانے کا حکم ہو ا؟؟؟
اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول برحق صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرمائیں کہ ان امور کا علم اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی اور کو حاصل نہیں۔
تو فریق مخالف انصاف سے یہ ارشاد فرمائیں کہ کس کا قول و ارشاد کو تسلیم کرنا ہوگا ؟؟؟
اور یہ دونوں حکم حالت واحد پر وارد ہیں ۔
تو فیصلہ کریں کس کی بات ماننی ہے ؟؟؟
محترم قارئین کرام !اگر کسی بزرگ یا صوفی اور مولوی کے کسی قول سے یہ ثابت ہو تا ہو کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو امور خمسہ کا علم حاصل تھا اوراس کو چھپانے کا حکم ہو ا؟؟؟
اور اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول برحق صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرمائیں کہ ان امور کا علم اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی اور کو حاصل نہیں۔
تو فریق مخالف انصاف سے یہ ارشاد فرمائیں کہ کس کا قول و ارشاد کو تسلیم کرنا ہوگا ؟؟؟
اور یہ دونوں حکم حالت واحد پر وارد ہیں ۔
تو فیصلہ کریں کس کی بات ماننی ہے ؟؟؟
فریق مخالف کی اس ”تاویل“ کا جواب سمجھنے کے لئے دوسرا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ :
شرح مواقف ص 727 و شرح فقہ اکبر ص 68 ،مسامرہ ج 2ص78 ،شرح عقائد ص 101اور فتح الباری ج8 ص 431 وغیرہ میں ہے :واللفظہ لہ
’’الاحادیث اذا کانت فی مسائل عملیة یکفی الاخذ بھا صحتھا افادتھا الظن اما اذا کانت فی العقائد فلا یکفی فیھا الا مایفیدا القطع ۔
یعنی جن مسائل کا تعلق عمل کے ساتھ ہے ان میں صحیح احادیث سے استدلال کافی ہے کیوں کہ اعمال کے لئے ظنی دلائل ہی کافی ہیں لیکن جب عقائد کی باری آئے گی تو ان میں صرف وہ حدیثیں قابل قبول ہوں گی جو یقین کا فائدہ دیں (مثلا یہ کہ متواتر ہوں )
یعنی عقیدت اور چیز ہے اور عقیدہ اور چیز ہے ۔۔۔اثبات عقیدہ کے لئے نص قطعی یا خبر متواتر درکار ہے ۔یہاں خبر واحد صحیح سے بھی گاڑی نہیں چل سکتی اور قرآن کریم کے مقابلہ میں خبر واحد کا پیش کرنا ہی درست نہیں ۔
فریق مخالف کے امام احمد رضا صاحب خود فرماتے ہیں :
ان نصوص القراٰن لاتعارض بالاحاد (الفیوض المکیہ ص 22)
یعنی اخبار احاد نصوص قرآن کے معارضہ میں نہیں پیش کی جاسکتیں ۔
نیز لکھتے ہیں کہ ’’اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے امان اٹھ جائے نہ حدیث احاد اگر چہ کیسی ہی اعلیٰ درجہ کی صحیح ہو عموم قرآن کی تخصیص کرسکے بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائے گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ ناممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعیت سے نازل نہیں کرتی نہ اس اعتماد سے کسی ظنی سے تخصیص ہوسکے “بلفظہ (انباءالمصطفیٰ ص 4)
بلکہ یہ ہی خان صاحب لکھتے ہیں کہ ”عموم آیات قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض ہرزہ بانی (ہے)انباءالمصطفیٰ ص 4)
اور مفتی احمد یار صاحب دوسروں سے مطالبہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”وہ آیت قطعی الدلالت ہو جس کے معنی میں چند اور احتمال نہ نکل سکتے ہوں اور حدیث ہو تو متواتر ہو (جاءالحق ص 40)
(ان شاءاللہ تعالیٰ عقائد کے لئے ان اصول و ضوابط کی اہمیت کی تفصیل آگے اپنے مقام پر عرض کی جائے گی)
محترم قارئین کرام !
کوئی ان فریق مخالف سے یہ پوچھے کہ احمد رضا صاحب اور مفتی احمد یا ر صاحب تو دوسروں سے مطالبہ قطعی الدلالت آیت اور حدیث متواتر کا کرتے ہیں اور خود اپنے دعوی پر دلیل بیجوری ،عشماوی اور صاوی وغیرہ جیسے حاطب لیل متفسرین اور متصوفین کی عبارتوں سے قرآن کریم کی قطعی الدلالت اور صحیح احادیث کو رد کرتے پھریں ؟؟؟
فریق مخالف کو کس نے اس تخصیص اور نسخ کا حق دیا ہے؟؟؟
اور کیا اخبار میں ان کے اقوال سے نسخ جائز ہے ؟؟؟
عقیدہ اور نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں تو تمہارے مسلمات کے رو سے بھی صحیح حدیث جبکہ خبر واحد ہو نہیں پیش کی جاسکتی تو پھر فریق مخالف کی بیجوری اور صاوی وغیرہ کوکون پوچھتا ہے ؟؟؟
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی 456 ھ) نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے کہ :
”ولم یکلفنا اللہ تعالیٰ ان نا خذ دیننا عمن لانعرفہ (کتاب القرا ءة ص127)
یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ہرگز مکلف نہیں ٹہرایا کہ ہم اپنا دین غیر معروف لوگوں سے حاصل کریں ۔
باقی فریق مخالف اپنے دعوی کی تائید میں چند معتبر بزرگان دین کی مبہم اور غیر واضح عبارتیں لے کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں چند مثالیں:
فریق مخالف کے وکیل مولوی عمر فرماتے ہیں کہ:
خصائص کبریٰ (ج 2ص 195) میں ہے کہ ” بعض اس طرف گئے ہیں کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو پانچ چیزوں کا بھی علم دیا گیا ہے ،قیامت کے وقت بھی اور روح کا بھی اور آپ کو ان کے چھپانے کا حکم دیا گیا “بلفظہ (مقیاس حنفیت ص 385)
الجواب :
ہم اپنی پچھلی پوسٹ میں واضح کرچکے ہیں کہ غیوب خمسہ کے جزئیات کی عطاءپر اختلاف نہیں بلکہ ہمارا اختلاف غیوب خمسہ کے اصول و کلیات پر ہے ۔
اور جہاں تک قیامت کے وقت کی عطاءکا تعلق ہے تو امام سیوطی رحمہ اللہ نے ایک مستقل کتاب لکھ کر یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جو لوگ یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے وہ غلط کار ہیں اور یہ روایت جھوٹی ہے ،اللہ تعالیٰ نے قیامت کا علم اور تو اور جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں دیا ۔۔۔اس رسالہ کا نام ہے ” الکشف عن مجاوزة الامة عن الالف “ جس کا یہ مضمون ملا علی قاری رحمہ اللہ نے موضوعات کبیر ص 119 میں نقل فرمایا ہے ۔
احمد رضا صاحب اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب فرماتے ہیں کہ :
’’علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تفسیر سورہ رعد کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ”کوئی غیر خدا نہیں جانتا کہ قیامت کب آئے گی سوا اُس کے پسندیدہ رسولوں کے کہ اللہ انہیں اپنے جس غیب پر چاہے اطلاع دیتا ہے یعنی وقت قیامت کا علم اُن پر بند نہیں ہے الخ ( خالص الاعتقاد ص 52و جاءالحق ص110)
الجواب
حالانکہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کی صریح عبارت دوسرے مقام پر موجود ہے کہ
”ولا یعلم متی تقوم الساعة الا اللہ فلم یعلم ذالک نبی مرسل ولا ملک مقرب الخ (قسطلانی شرح بخاری ج10 ص 296)
یعنی کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی بجز اللہ تعالیٰ کے نہ تو قیام ساعت کا وقت کسی نبی مرسل کو معلوم ہے اور نہ فرشتہ مقرب کو
نیز خان صاحب لکھتے ہیںکہ :
’’ شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ شرح مشکوة میں اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
”مراد یہ ہے کہ قیامت وغیرہ غیب بے خدا کے بتائے معلوم نہیں ہوتے (خالص الاعتقاد ص 50)
نیزمدارج النبوة جلد دوم ص 40 و ’’فصل ایذاءرسانی کفار فقراءصحابہ‘‘ میں ہے :
وبعضے علماءعلم ساعت نیز مثل ایں معنی گفتہ اند
یعنی بعض علماءنے روح کی طرح حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا علم بھی مانا ہے ۔
الجواب
ایک حدیث پاک کی شرح میں شیخ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
”حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک ماہ قبل سنا ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ تم مجھ سے قیامت کے آنے کا وقت دریافت کرتے ہو حالانکہ اس کے وقت معین کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں یعنی قیامت کبریٰ آنے کا وقت خود مجھ کو معلوم نہیں اور اس کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا “(اشعتہ اللمعات ج 4ص 377)
مفتی احمد یار نعیمی صاحب فرماتے ہیں کہ :
تفسیرات احمدیہ زیر آیت مذکورہ ۔اور تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ان پانچوں باتوں کو اگر چہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن جائز ہے کہ خدائے پاک اپنے ولیوں اور محبوبوں میں سے جس کوچاہے سکھائے ۔اس قول کے قرینہ سے کہ اللہ تعالیٰ جاننے والا بتانے والا ہے خبیر بمعنی مخبر(جاءالحق ص 109)
الجواب
حضرت ملا جیون رحمہ اللہ کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ان پانچوں چیزوں کے کلیات کا علم حضرات اولیاءاللہ کو حاصل ہے بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ان میں سے بعض بعض جزئیات کی اطلاع اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دے دیتا ہے ۔۔۔۔چناچہ اس کی مبسوط بحث کرتے ہوئے قاضی بیضاوی رحمہ اللہ کا حوالہ اپنی تائید میں پیش کرکے آخر میں لکھتے ہیں کہ :
”فلم من کلا مہ ان اللہ یطلع الاولیاءعلیٰ بعض ما یشاءمن الغیوب الخمسة الخ (تفسیرات الاحمدیہ ص 397)
یعنی قاضی صاحب کے کلام سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ غیوب خمسہ میں سے بعض پر جس مقدار میں چاہے حضرات اولیاءکرام کو مطلع کردیتا ہے ۔
محترم قارئین کرام !
اسی طرح فریق مخالف کے اور بھی ایسے ہی کچھ دلائل اور بھی ہیں۔۔۔۔ جن کا حال بھی تقریبا ایسا ہی ہے جیسا ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ۔۔۔۔جن کو ہم طولت کے خوف سے نقل نہیں کررہے ۔
لیکن قابل غور و فکر بات یہ ہے کہ قارئین کرام باآسانی ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ ہر مقام پر فریق مخالف کواپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے تاویل سے ہی کام لینا پڑتا ہے ۔۔۔۔یعنی فریق مخالف کے پاس نہ تو اپنے دعوی پر کوئی صریح دلیل موجود ہے ۔۔۔۔ اور نہ ہی اپنے دعوی کی تائید میں کسی ایک بھی معتبر بزرگ کا صریح اور واضح قول موجود ہے ؟؟؟
حتی کہ بزرگوں کی لکھی ہوئی دو جلدوں سے لے کر بیس بیس جلدوں پر مشتمل شروحات اور تفاسیر کے ہوتے ہوئے بھی فریق مخالف کوئی ایک بھی صریح اور واضح عبارت اپنے مدعے کی تائید میں نہیں پیش کرسکتا ۔۔۔جس سے آپ حضرات فریق مخالف کے دلائل کابخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فریق مخالف کے دلائل کی بنیادیں کس حد تک مضبوط ہیں ؟؟؟
اب آجاتے ہیں امور خمسہ پر فریق مخالف کے چند مختصر دلائل اور اُن کی وضاحتوں کی طرف :
علم قیامت
مولوی محمد عمر صاحب لکھتے ہیں کہ:’’صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آپ کو علم قیامت ہے ۔۔مستدرک ج 4 ص 567 عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کا بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ دن کون سا ہے ؟تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی اللہ اور اُس کا رسول زیادہ جانتے ہیں ۔
فرماتے ہیں کہ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آپ کو علم قیامت ہے “(بلفظہ مقیاس حنفیت ص384,385)
الجواب
یہ حدیث اس پر ہرگز دلالت نہیں کرتی کہ قیام ساعت کا وقت جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا بلکہ اسی حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے کہ :
فینا ریہ ربہ فیقول یا اٰدم ابعث بعث النار من کل الف تسع مائة وتسعة وتسعین فی النار وواحد فی الجنة (مستدرک ج 4ص 567) (الحدیث )
یعنی اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو ندا کرکے فرمائے گا اے آدم دوزخ کے گروہ کو کھڑا کر تو ایک ہزار میں سے نو سو نناوے دوزخ میں اور صرف ایک جنت میں داخل کیا جائے گا ۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ تو قیام ساعت کے بعد کا واقعہ ہے جو محشر میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش آئے گا ،قیامت کی خاص گھڑی کا (جس میں نزع ہے) اس سے کیا تعلق ہے ؟؟؟
مولوی عمر صاحب نے اس حدیث سے کہ ’’قیامت جمعہ کے دن آئے گی “ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو وقت قیامت کا علم تھا ۔
یہ ٹھیک ہے کہ قیامت جمعہ کے دن آئے گی مگر وہ جمعہ کتنے سالوں بعد آئے گا اور کس مہینے کا کون سا جمعہ ہوگا ؟اور جمعہ کے دن کس وقت قیامت قائم ہوگی وغیرہ وغیرہ امور اس سے نہیں حل ہوتے ۔
اور مفتی احمد یار نعیمی صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت قائم ہونے کا دن بتایا ہے ،مشکوة باب الجمعة میں ہے کہ ”قیامت قائم نہ ہوگی مگر جمعہ کے دن ۔کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر فرمایا کہ ہم اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں
یعنی ہمارے زمانے کے بعد بس قیامت ہی ہے اور اس قدرعلامات قیامت ارشاد فرمائیں کہ ایک بات بھی نہ چھوڑی ،آج قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ ابھی قیامت نہیں آسکتی کیوں کہ نہ ابھی دجال آیا اور نہ مسیح و مہدی نہ آفتاب مغرب سے نکلا اُن علامات نے قیامت کو بالکل ظاہر فرمادیا پھر قیامت کا علم نہ ہونے کے کیا معنی ؟
بس زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سنہ نہ بتایا کہ فلاں سنہ میں قیامت ہوگی لیکن حضور علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ پاک میں سنہ مقرر ہی نہیں ہوئی تھی سنہ ہجری عہد فاروقی میں مقرر ہوئی الیٰ ان قال نیز ہم ثبوت علم غیب میں وہ حدیث پیش کرچکے ہیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت ختم ہونے تک من و عن واقعات بیان فرمادئیے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ قیامت کا علم نہ ہو ،کیوں کہ دنیا ختم ہونے ہی قیامت ہے اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہے کہ کون سا واقعہ کس کے بعد ہوگا تو جو آخری واقعہ ارشاد فرمایا وہی دنیا کی انتہا ہے اور قیامت کی ابتدا دو ملی ہوئی چیزوں میں سے ایک کی انتہا ءکا علم دوسری کی ابتداءکا علم ہوتا ہے ،اس پر خوب غور کرلیا جائے نہایت نفیس تحقیق ہے جو حضرت الافاضل مرشدی اُستاذی مولانا نعیم الدین مرادآبادی نے ایک تقریر کے دوران ارشاد فرمائی “انتہی بلفظہ (جاءالحق ص 107,108)
الجواب
جمعہ کے دن قیامت قائم ہونے سے اس کے صحیح وقت کا اثبات مفتی صاحب وغیرہ کی خوش فہمی ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے ۔
باقی ”انا والساعة کھاتین “ کی روایت سے قیامت کی ٹھیک مقدار اور وقت پر استدلال کرنا نری جہالت ہے ۔
چناچہ امام رازی رحمہ اللہ اور خطیب شربیننی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ فان قیل الیس انہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال بعث انا والساعة کھاتین فکان عالما بقرب وقوع القیٰمة فکیف قال ھٰھنا لاادری اقریب ام بعید اجیب بان المراد بقرب وقوعہ ھو ان ما بقی من الدنیا اقل مما انقضٰی فھٰذہ القدر من القرب معلوم فاما معرفة مقدار القرب فغیر معلوم الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 343)( سراج المنیر ج 4ص 408)
یعنی اگر یہ کہا جائے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میری بعث اور قیامت میں اتنا قرب ہے جتنا انگشت شہادت اور اُسکی قریب والی انگلی میں تو اس معلوم ہوا کہ آپ کو قرب قیامت کا علم تھا پھر آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ مجھے اس قرب و بعد کی خبرنہیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے قریب ہونے کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ دنیا کی باقی ماندہ عمر اُس کی گذشتہ عمر سے کم ہے ۔پس اتنا قرب تو معلوم ہے لیکن اس قرب کی ٹھیک مقدار معلوم نہیں ۔
اور یہی امام رازی رحمہ اللہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ :
”المراد ان العلم بالوقوع غیر العلم بوقت الوقوع فالعم الاول حاصل عندی وھو کاف فی الا نذاروالتحذیر واما العلم الثانی فلیس الاللہ ولا حاجة فی کونی نذیرا مبینا الیہ الخ (تفسیر کبیر ج 8ص 191)
یعنی مطلب یہ ہے کہ قیامت کے نفس و وقوع کا علم اور چیز ہے اور اس کے وقت وقوع کا علم علیحدہ چیز ہے پس پہلا علم تو مجھ کو حاصل ہے اور انذاروتخویف کے لئے وہی کافی ہے اور دوسرا علم خدا تعالیٰ کے سواکسی کو نہیں ہے اور میرے نذیر مبین ہونے کے لئے اُس کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔
یہ بالکل ٹھیک ہے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول اور حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور اور دجال لعین کے خروج وغیرہ کا ذکر فرمایا ہے اور اس میں کسی ادنی مسلمان کو شک نہیں ہوسکتا مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان نزول اور ظہور و خروج کا وقت بھی بتایا ہے کہ فلاں وقت ان کا نزول اور ظہور و خروج ہوگا ؟
نزع تو وقت کی تعین کے علم اور عدم علم کا ہے ،اگر اس بارے میں کوئی دلیل ہے توفریق مخالف وہ پیش فرمائیں ۔۔۔یوں گول مول باتوں سے یہ گاڑی نہیں چل سکتی ۔
علامہ الذہبی اور حافظ ابن حجر رحمھم اللہ علی بن احمد الحرافی المغربی (المتوفی 638ھ) کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ :
’’وزعم انہ استخرج من علم الحروف وقت خروج الدجال و وقت طلوع الشمس من مغربھا وھذہ علوم و تحدیدات ماعلمتھا رُسل اللہ بل کل منھم حتی نوح علیہ السلام یتخوف من الدجال وینذر امتہ الدجال وھذ نبینا صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول ان یخرج وانا فیکم فانا حجیجہ وھو لاءالجھلة اخوتہ یدعون معرفة حتی یخرج نساءل اللہ السلامة انتھی (میزان الاعتدال ج 3ص 114)(لسان المیزان ج 4 ص 204)
یعنی اس نے یہ گمان کیا ہے کہ اس نے علم حروف سے دجال کے خروج کا وقت اور مغرب سے طلوع آفتاب کا وقت نکالا ہے حالانکہ یہ علوم اور ان کی تعین اور تحدید وقت کا علم اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو بھی نہ تھا بلکہ سب کے سب رسول حتی کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی امت کو دجال لعین کے فتنہ سے ڈراتے رہے اور یہ ہمارے نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ اگر میری موجودگی میں دجال نکلا تو میں (امت کی طرف سے ) اس کے ساتھ جھگڑا کروں گا اور یہ جاہل دجال کے بھائی یہ دعوے کرتے ہیں کہ ان کو دجال کے خروج کا وقت معلوم ہے ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ایسے گندے عقائد سے محفوظ رکھے ۔انتہی
فرمائیے کہ فریق مخالف پر کیا گذری ؟؟؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں کہ تمام حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کو حتی کہ خود جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کوعلیٰ التعییین دجال کے خروج کا وقت اور اسی طرح طلوع شمس من المغرب کا وقت معلوم نہ تھا ؟؟؟؟
باقی مفتی صاحب کی طرف سے پیش کی گئی روایت ”آپ نے قیامت تک من و عن واقعات بتادئیے تھے“ کی تفصیلی وضاحت پچھلے صفحات میں بیان ہوچکے ہیں ۔
اور جہاں تک مفتی صاحب کے مایہ ناز استاد اور صدر الافاضل سے یہ نقل کرنا کہ ”دو ملی ہوئی چیزوں میں ایک کی ابتداءاور دوسری کی انتہا ءہوتی ہے “روایتہ و داریتہ باطل ہے ۔
اول اس لئے کہ اشراط ساعت اور علامات قیامت کی جملہ روایات کو پیش نظر رکھ کر بھی جمہور شارح حدیث بجز چند واقعات کے ان کی صحیح ترتیب بیان نہیں کرسکے اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ واقعات قیامت سے قبل ضرور رونما ہوں گے مگر کون سا واقعہ پہلے اور کون سا واقعہ بعد کو ہوگا سوائے معدودے چند واقعات کے اور کسی میں ٹھیک ترتیب معلوم نہیں ہے ۔
اور صدر الافاضل اگر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہی ایک روایت دیکھ لیتے تو ان کی آنکھیں روشن ہوجاتیں :
’’قال سمعت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم یقول ان اول الایات خروجا طلوع الشمس من مغربھا و خروج الدابة علی الناس ضحی وایھما ما کانت قبل صاحبتھا فالاخری علیٰ اثرھا الخ (مسلم)(مشکوة ج 2ص 472)
یعنی میں نے جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ (ایمان کے نفع نہ دینے کی) نشانیوں میں سے پہلی نشانی مغرب سے طلوع آفتاب اور خروج دابة ہے ۔چاشت کے وقت یہ لوگوں پر ظاہر ہوں گی ،ان دونوں میں جونسی نشانی پہلے ظاہر ہوئی تو دوسری اس کے بعد ظاہر ہوجائیگی ۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان دونوں کی ٹھیک ترتیب کہ پہلے کون سی ہوگی اور بعد کو کون سی ہوگی نہیں بتلائی گئی بلکہ یہی بتلایا گیا ہے کہ ان میں جو نسی ایک پہلے ظاہر ہوئی تو دوسری اس کے بعد ظاہر ہوجائے گی ۔
تو جب واقعات کے اندر ترتیب معلوم نہیں تو مفتی صاحب کا یہ دعوی کیسے درست ہو ا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہے کہ کون سا واقعہ کس کے بعد ہوگا ؟؟
علاوہ ازیں اگر بالفرض تمام واقعات کی ترتیب بھی معلوم ہو اور من و عن تمام واقعات اور حوادث اس میں شامل بھی ہوں تو اس سے صرف یہی ثابت ہوگا کہ بڑے بڑے اور اہم واقعات کا علم مراد ہے ۔غیر ضروری واقعات کا اس سے کیا تعلق ہے ؟؟؟
پھر واقعات کے معلوم ہونے سے بھی یہ کیوں کر ثابت ہوگا کہ ان کا علیٰ التعیین ٹھیک وقت بھی معلوم ہو؟؟؟کس قطعی دلیل سے اس کا ثبوت ہے ؟؟
مفتی صاحب کو محض اپنی رائے سے تعین کرنے کا حق کس نے دیا ہے ؟؟؟جبکہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں صراحت سے نفی موجود ہے ؟؟؟
اوراس کی تائید میں آثار صحابہ اور بے شمار بزرگان دین رحمھم اللہ کے واضح اور صریح اقوال موجود ہیں ۔
مولوی عمر صاحب لکھتے ہیں کہ ”اسی بنا پر آپ نے اپنے سبابہ اور وسطی کو لمبا کرکے اپنا اور قیامت کا تعلق ظاہر فرمایا ،اگر کہو کہ نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے تعین کا امر ہمیں کیوں نہیں ارشاد فرمایا تو آپ کا ظاہر نہ فرمانا آپ کے عدم علم پر دلالت نہیں کرتا “انتہی بلفظہ (مقیاس حنفیت ص 371)
الجواب
بلاشک عدم اظہار عدم علم کی دلیل نہیں ہوا کرتا ۔۔۔مگر جب سائل آپ سے یہ پوچھے کہ قیامت کب ہوگی ۔۔۔۔اور آپ فرمائیں کہ ”غیب وما یعلم الغیب الااللہ “ ۔۔۔۔یا سائل پوچھے کیا ایسے علوم بھی ہیں جو آپ کو معلوم نہیں تو اس کے جواب میں آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں کہ’’ گو اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سے بھلائی کے علوم عطاءکئے ہیں مگر ان پانچ کا علم مجھے نہیں دیا گیا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔تو عدم علم کی اس تصریح کے بعد بھی مولوی محمد عمر صاحب یہ کہتے جائیں کہ آپ کا ظاہر نہ فرمانا آپ کے عدم علم پر دلالت نہیں کرتا ۔۔۔۔سراسر بہتان اور خالص افتراءہے۔
محترم قارئین کرام !
”علم قیامت “ بذات خود ایک مستقل موضوع ہے ۔۔۔۔ لیکن کیوں کہ ہم بالخصوص اس موضوع پر بات نہیں کررہے ہیں اس لئے ہم اختصار کو ملحوظ رکھتے ہیں اپنی یہ وضاحت اسی مقام پر ختم کرتے ہیں ۔۔۔۔ اس امید کے ساتھ کہ جو لوگ واقعی کچھ سمجھنا چاہتے ہیں اُن کے لئے چند دلائل ہی کافی ہوتے ہیں ۔۔۔۔لیکن جن لوگوں نے نہ ماننے کا تہیہ کیا ہو اُن کے لئے ہزاروں دلائل بھی ناکافی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ لہذا ہمیں امید ہے کہ حق کے متلاشی حضرات کے لئے یہ مختصروضاحت بھی کافی ہوگی ۔
ضروری گذارش :اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاءفرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔