• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ علم غیب پر چند مغالطے اور اُن کی وضاحتیں

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
سورة آل عمران (3.44)
ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
یہ غیب کی خبروں سے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں، تو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پا لے گا؟ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا (١)۔
سورة النساء (4.163)
۞ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف (١) ہم نے (داؤد علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔

سورة الأنعام (6.50)
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں (١) آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتے ہیں (٢) سو کیا تم غور نہیں کرتے۔

سورة يوسف (12.86)
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے (١)۔


نوٹ۔ انہیں وہ معلوم ہے کیا کہ واحد اللہ تعالیٰ پر توکل کروکسی پر بھروسہ نہ کرو خالص ہو کر بس اللہ تعالیٰ کو ہی پکارو اللہ واحد ہے سب سننے والا جاننے والا۔اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو نبوت،حکمت،معجزات سے نوازا اور فیصلے کرنا سیکھائے،جنگ کے دوران جنگی سامان تیار کرنا سیکھایا۔

یہ نہیں کہ کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی کرتے پھرو نہ معلوم ہو اللہ تعالیٰ کی ذات کیا ہے اور نہ معلوم ہو پیغمبر کون ہے نہ معلوم ہو عام شخص کون ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں بھی غور و فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔

سورة يونس (10.16)

قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
آپ یوں کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو نہ میں تم کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالٰی تم کو اس کی اطلاع (١) فرماتا، کیونکہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں۔ پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے (٢)۔
سورة هود (11.49)
تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم (١) اس لئے کہ آپ صبر کرتے رہیئے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہے (٢)۔

سورة يوسف (12.3)
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان (١) پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں تھے (٢)۔
سورة العنكبوت (29.48)
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے (١) نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے (٢) کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے (۳)
سورة الشورى (42.52)
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، (١) آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے (٢) لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں بیشک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
سورة الجمعة (62.2)
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں (١) میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
سورة الأنعام (6.19)
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
آپ کہیئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہیئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے (١) اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں (٢) کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔
سورة يوسف (12.96)
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر وہ کرتا ڈالا اسی وقت پھر بینا ہوگئے (١) کہا! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (٢)۔

نوٹ۔غورو فکر کرنے والی بات یوسف علیہ السلام کئی سال یعوقب علیہ السلام سے جدا رہے مل نہ سکے معلوم نہیں تھا کہ میرا بیٹا کس حال میں ہے اور نہ بیٹے کو معلوم میرا والد کس حال میں ہے ۔
جب اللہ تعالیٰ نے چہا باپ کو بیٹے سے ملاقات کروا دی۔

سورة النساء (4.163)

۞ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف (١) ہم نے (داؤد علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔
سورة النحل (16.78)
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ تعالٰی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، (١) اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے (٢) کہ تم شکر گزاری کرو (٣)۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
سورة آل عمران (3.44)
ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
یہ غیب کی خبروں سے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں، تو ان کے پاس نہ تھا جب کہ وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کو ان میں سے کون پا لے گا؟ اور نہ تو ان کے جھگڑنے کے وقت ان کے پاس تھا (١)۔
سورة النساء (4.163)
۞ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف (١) ہم نے (داؤد علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔

سورة الأنعام (6.50)
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس ہے وحی آتی ہے اس کا اتباع کرتا ہوں (١) آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتے ہیں (٢) سو کیا تم غور نہیں کرتے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
سورة يوسف (12.86)
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے (١)۔


نوٹ۔ انہیں وہ معلوم ہے جو عام لوگ نہیں جانتے کہ واحد اللہ تعالیٰ پر توکل کروکسی پر بھروسہ نہ کرو خالص ہو کر بس اللہ تعالیٰ کو ہی پکارو اللہ واحد ہے سب سننے والا جاننے والا۔اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کو نبوت،حکمت،معجزات سے نوازا اور فیصلے کرنا سیکھائے،جنگ کے دوران جنگی سامان تیار کرنا سیکھایا۔

یہ نہیں کہ کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی کرتے پھرو نہ معلوم ہو اللہ تعالیٰ کی ذات کیا ہے اور نہ معلوم ہو پیغمبر کون ہے نہ معلوم ہو عام شخص کون ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں بھی غور و فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔

سورة يونس (10.16)

قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
آپ یوں کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو نہ میں تم کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالٰی تم کو اس کی اطلاع (١) فرماتا، کیونکہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں۔ پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے (٢)۔
سورة هود (11.49)
تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ
یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم (١) اس لئے کہ آپ صبر کرتے رہیئے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہے (٢)۔

سورة يوسف (12.3)
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان (١) پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں تھے (٢)۔
سورة العنكبوت (29.48)
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے (١) نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے (٢) کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے (۳)
سورة الشورى (42.52)
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، (١) آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے (٢) لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعے سے اپنے بندوں میں جس کو چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں بیشک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔
سورة الجمعة (62.2)
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں (١) میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
سورة الأنعام (6.19)
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
آپ کہیئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے، آپ کہیئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے (١) اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں (٢) کیا تم سچ مچ یہی گواہی دو گے کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بیشک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔
سورة يوسف (12.96)
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر وہ کرتا ڈالا اسی وقت پھر بینا ہوگئے (١) کہا! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (٢)۔

نوٹ۔غورو فکر کرنے والی بات یوسف علیہ السلام کئی سال یعوقب علیہ السلام سے جدا رہے مل نہ سکے معلوم نہیں تھا کہ میرا بیٹا کس حال میں ہے اور نہ بیٹے کو معلوم میرا والد کس حال میں ہے ۔
جب اللہ تعالیٰ نے چہا باپ کو بیٹے سے ملاقات کروا دی۔

سورة النساء (4.163)

۞ إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابرا ہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف (١) ہم نے (داؤد علیہ السلام) کو زبور عطا فرمائی۔
سورة النحل (16.78)
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اللہ تعالٰی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے، (١) اسی نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے (٢) کہ تم شکر گزاری کرو (٣)۔


کوئی پیغمبر کوئی بزرگ علم غیب نہیں جانتا نہ ایساعطائی علم کہ کبھی بھی کچھ بھی بتا سکے ۔۔اللہ تعالیٰ غیب کا علم وحی کے ذریعے صرف و صرف اپنے پیغمبروں کو بتاتا رہا ہے ۔جیسے جیسے ضرورت پڑی۔۔۔شکریہ جیسے سلیمان علیہ السلام نے فیصلہ کیا ،جیسے یوسف علیہ السلام کو خواب کی تعبیر کا علم دیا۔جیسے جنگ کے دوران لوگوں نے جنگ میں جانے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سب کچھ ان کو بتا دیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے بارے میں سب بتا دیا ہے۔غور کریں غور۔۔شکریہ​
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
اسلام علیکم!
اگر کہا جائے کہ!
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ان پانچ غیب کے علاوہ سب جانتے تھے۔۔۔۔

1)وقت قیامت کا علم ۔۔۔۔2)بارش کے نزول کا علم ۔۔۔۔3) ماں کے پیٹ کا علم ۔۔۔۔4)آنے والے کل کا علم۔۔۔۔اور 5)ہر ذی نفس کی موت کا علم

یعنی مجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی( عطا نہیں کی گئیں) ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اوربارش نازل کرنے کا اور مافی الارحام کا ۔۔۔۔خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)۔
تو سوال ان سے جو ایمان رکھتے کہ غیب دان پیغمبراور بزرگ ہوتے ہیں کہ ان 5 کے علاوہ وہ غیب کا علم کیا؟
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 13، 2011
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
121
پوائنٹ
42
فیضان اکبر صاحب ہمارے اس مضمون کو سمجھنے میں آپ کی غلط فہمی پر چند گذارشات پیش کریں گے آپ سے مودبانہ التماس ہے کہ آپ توجہ سے غور فرمائیے گا۔جزاک اللہ
سب سے پہلی عرض یہ ہے کہ قرآن و حدیث کی نصوص کے ترجمہ یا تشریح کو دیکھ کر جو نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے ۔۔۔اس کو "رائے" کہتے ہیں ۔۔۔ اور اکثر و بیشتر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنی رائے کو حتمی اور آخری سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔اور پھر جو ان کی رائے سے اختلاف کرتا ہے اس پر قرآن و حدیث نا ماننے کا فتوی بھی لگادیتے ہیں ۔۔۔حالانکہ سامنے والا شخص (معاذ اللہ) قرآن و حدیث سے نہیں بلکہ قرآن و حدیث سے اخذ کی جانے والی آپ کی رائے سے اختلاف کررہا ہوتا ہے ۔۔ تو یہ بات ذہن نشین رکھیں
نیز یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ایک ہی معاملہ پر دوالگ الگ رائے بھی اپنی اپنی جگہ درست ہوسکتی ہیں
حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کی طرف صحابہ کرام کو روانہ فرمایا تو منادی کرائی "لایصلین احد العصر الافی بنی قریظه یعنی" کوئی آدمی عصر کی نماز نہ پڑھے جب تک کہ بنو قریظہ میں نہ پہنچ جائے" لیکن جب وقت عصر آیا تو اس وقت تک بنو قریظہ نہیں پہنچے تھے ۔۔۔ لہذا عصر کی نماز کے لئے صحابہ کرام کی دو رائے ہوگئیں ۔۔۔کچھ صحابہ نے عصر کی نماز وہیں ادا کرلی یہ سوچ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد عصر کے وقت میں بنو قریظہ پہنچ جانا ہے، ہم اگر نماز راستہ میں پڑھ کر عصر کے وقت میں وہاں پہنچ جائیں تو یہ حضورﷺ کے ارشاد کے منافی نہیں۔ جبکہ دیگر صحابہ کرام نے
حکم نبوی کے ظاہر کے موافق راستہ میں نماز عصر ادا نہیں کی،بلکہ منزل مقرر بنوقریظہ میں پہنچ کر ادا کی۔ اور جب یہ معاملہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ملامت نہیں فرمائی۔
لہذا اپنی رائے کو حتمی آخری سمجھ کر دوسرے کی رائے پر ملامت کرنا بھی درست نہیں
پھر ایک اور بڑی غلطی یہ ہوتی ہے کہ اپنی رائے کو قطعی سمجھ کر سامنے والے پر شرک و کفر کا فتوی تک لگادیا جاتا ہے حالانکہمسئلہ تکفیر ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے ۔۔۔ جس میں اگر کسی مسلمان کو سو فیصدی یقین ہو کہ فلاں شخص واقعتا شرک یا کفر کا مرتکب ہے تب تو یہ فتوی دیا جاسکتا ہے لیکن ایک معمولی سا بھی فرق رہ گیا اور جس پر آپ نے فتوی لگایا اس کا وہ عقیدہ نا ہوا جیسا آپ نے سمجھا اور وہ بارگاہ الہی میں صاحب ایمان ہوا۔۔تو جان لیجیے حدیث کی رو سے فتاوی تکفیر پلٹ آئے گا اور فتوی لگانے والا خود اس کا نشانہ بن جائے گا ۔۔۔ مطلب ساری زندگی کی عبادات ریاضت ایک غلطی کے باعث کھو سکتی ہے ۔۔۔ اور ایمان سے خالی لوگوں کا آخرت میں کیا ٹھکانہ ہے یہ آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہوگا
لہذا کسی مسلمان پر قطعی فتوی لگانے کے بجائے اگر آپ اُس کے فعل کی طرف نسبت کریں گے تو زیادہ مناسب ہے اور محتاط طریقہ ہے
تیسری عرض یہ ہے کہ بہت سے ایسے حقائق ہوتے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ شاید آپ کے علم میں ہو کہ علمی اصطلاح میں ایک لفظ "تطبیق" کا ہے ۔۔۔ یعنی جو نصوص بظاہر آپس میں متصادم نظر آتیں ہیں ۔۔۔ تو ان دونوں طرح کی نصوص کی اس طرح تشریح کی جاتی ہے جس سے دونوں نصوص کی اپنی اپنی جگہ تصدیق ہوجاتی ہے ۔۔۔ اور معاملہ سمجھ آجاتا ہے ۔۔۔ اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے علماء فقہاء نے مسئلہ غیب پر "تطبیق " فرمائی ۔۔۔ جس کے بعد انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی طرف سے دی جانے والی غیب کی بے شمار خبروں کی حقیقت بھی سمجھ آجاتی ہے اور قرآن پاک میں اللہ رب العزت کے ساتھ علم غیب کا خاصہ کی بھی تشریح ہوجاتی ہے ۔۔۔ اور کسی معترض حضرات کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات بھی مل جاتے ہیں ۔۔۔جس کے بعد معترضین کو عوام الناس میں اپنے غلط عقائد پھیلانے کا موقع نہیں ملتا ۔
اسی طرح اولیاء کرام رحھم اللہ کا معاملہ ہے کہ عوام ایک طرف دیکھتی ہے کہ احادیث میں ایسے واقعات موجود ہیں جن میں غیر انبیاء سے جڑے ایسے واقعات موجود ہیں جن کا تعلق آنے والے وقت کی ایسی خبروں سے ہے جو پوری ہوئیں ۔۔۔یا لوگ اپنے مشاہدےمیں بھی دیکھتے ہیں کہ اس طرح کی کرامات ایک اٹل حقیقت کی طرح سے موجود ہیں ۔۔۔ اب ایسی حقیقت کو محض چند لفظوں میں یا جذبات میں محض انکار کرنے سے بات نہیں بنتی جب تک آپ معترضین کو ایسے تسلی بخش جواب نا دے دیں جس سے قرآن و حدیث کی نصوص کا انکار بھی نا ہو اور کرامات کی حقیقت بھی سمجھ آجائے ۔۔۔ اس لئے یہاں اس مضمون میں بزرگان دین کی طرف سے پیش کی گئی 'تطبیق" تشریحات کے ساتھ پیش کی گئیں ہیں
اگر آپ بغور مطالعہ فرمائیں گے تو ان شاء اللہ آپ کو بھی یہ "تطبیق"سلف صالحین کی تشریحات کی روشنی میں سمجھ آجائیں گی۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین
لکھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے ۔جزاک اللہ
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
اسلام علیکم !
ناصر نعمان بھائی۔
قرآن مجید اتنا آسان بنا دیا ہے اللہ تعالیٰ نے کہ ہر انسان کو صاف صاف سمجھ آتا کہ اللہ تعالیٰ کا کیا فرمان ہے۔لیکن جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو سمجھ جانے کے باوجود یہ اپنے ایمان میں اور زیادہ سخت ہو جاتے اور قرآن مجید سے انکار کرتے ہیں یہ کہنا کہ انہیں علم نہیں غلط ہے یہ اپنے بڑوں،بزرگوں کے عقائد،اور ان کی کہی ہوئی باتیں چاہے قرآن مجید کے خلاف ہوں نہیں چھوڑتے ۔ جس سے ان کی گمراہی صاف صاف ثابت ہوتی ہے ۔ان لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا جاتا ہے لیکن انحراف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا انکار واضح کر دیتے ہیں۔ اگر ہم کہیں کہ علم کی کمی کی وجہ سے یہ سمجھ نہیں سکتے تو پھر جہنم کا وجود ختم۔سب کے لئے جنت ہی جنت کیوں کہ سب علم کی کمی کی وجہ سے قرآن کا انکار کرتے اتنی واضح آیات کا انکار کرتے ۔۔ایسے لوگ ہی ظالم بھی ہیں کافر بھی ہیں مشرک بھی ہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم کرے جو غور و فکر کرتے اور قرآن مجید سے اپنے عقائد کی تصدیق کرتے پھر ان احادیث پر غور و فکر کرتے جو قرآن مجید کے متن کے ساتھ جاتی ہیں۔۔۔۔
اصل ایمان کی پہچان صرف ایک ۔۔۔۔پہلے قرآن مجید جو لاریب ہے اس کے سوا کوئی لاریب کتاب نہیں ۔پھر احادیث کی کتابیں ۔۔۔جن کی تصدیق قرآن مجید کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ سب گمراہی ہے۔۔۔شکریہ بھائی۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
میرا سوال آپ سے ناضر نعمان صاحب۔
کیا قرآن مجید کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے کسی کتاب کی ذمہ داری لی؟کیا قرآن مجید کے علاوہ کوئی لاریب کتاب کوئی اور بھی ہے؟کیا قرآن مجیداور احادیث کی کتابیں ایک ہی صدی میں اکٹھی کی گئ تھیں؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
صرف کلمہ پڑھ لینے سے مسلمان نہیں۔۔آپ کو مسلمان کی تعریف نہیں معلوم کہ مسلمان کہا کیسے جاتا ہے۔۔ہو جاتا کوئی۔۔۔۔۔۔۔آپ نے بہت عمدہ جواب دیا لیکن کچھ کمی ہے جو میں دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کلمہ کا پہلا حصہ۔۔اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔۔۔۔۔۔
معبود۔۔۔۔۔آج کے کلمہ پڑھنے والے اکثریت کو معلوم ہی نہیں معبود کا مطلب کیا ہے ،معبود سے مراد کیا ہے ، معبود کا مفہوم کیا ہے۔۔۔۔۔۔جب کسی کو معبود کا مفہوم ہی نہی معلوم وہ کیسے مسلمان ۔۔۔۔۔!!!!!
اصل مسلمان ہے۔۔۔۔کلمہ پڑھے مفہوم کو معنی کو سمجھے اور ساتھ عمل سے بتائے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور حکم کی تعمیل کرے پھر(اس کو کہتے کلمہ پڑھنا ) مسلمان ۔۔۔اس کو کہتے ہیں مسلمانیت۔۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔۔
سورة آل عمران (3.86)
كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اللہ تعالٰی ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد کافر ہو جائیں، اللہ تعالٰی ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا۔

سورة آل عمران (3.90)

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ
بیشک جو لوگ (١) اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کریں پھر کفر میں بڑھ جائیں ان کی توبہ ہرگز قبول نہ کی جائے گی (٢) یہی گمراہ لوگ ہیں۔

سورة آل عمران (3.100)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ
اے ایمان والو! اگر تم اہل کتاب کی کسی جماعت کی باتیں مانو گے تو وہ تمہارے ایمان لانے کے بعدمرتد و کافر بنا دیں گے۔

سورة البقرة (2.156)
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

سورة النحل (16.53)

وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ
تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں، (١) اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائے تو اسی کی طرف نالہ اور فریاد کرتے ہو (٢)۔

سورة النحل (16.54)

ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنكُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
اور جہاں اس نے وہ مصیبت تم سے دفع کر دی تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔

سورة بنی اسراءیل (17.67)

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ ۖ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ كَفُورًا
اور سمندروں میں مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے پھر جب تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے (١)۔

سورة الروم (30.33)

وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
لوگوں کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کیطرف (پوری طرح) رجوع ہو کر دعائیں کرتے ہیں، پھر جب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے۔

سورة التغابن (64.11)

مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
کوئی مصیبت اللہ کے بغیر نہیں پہنچ سکتی (١) جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے (۲) اور اللہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔

ان آیات پر غور کریں مشرک لوگ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے تھے ۔لیکن ساتھ شرک بھی کرتے تھے ۔ مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی کو خالص ہو کر پکارتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کو مصیبت سے نکالتا تو ساتھ ہی شرک کرنے لگتے ۔۔

نوٹ۔آج کا مسلمان ان لوگوں سے زیادہ بڑا کافر اور مشرک ہے۔۔۔کیوں؟؟؟؟
وہ لوگ اللہ تعالیٰ سے واقف نہیں تھے جس طرح آج کا یہ کلمہ پڑھنے والا ہے۔پیغمبروں کو جانتے نہیں تھے جس طرح یہ کلمہ پڑھنے والا ہے۔
جبکہ آج کا یہ کلمہ گو مسلمان اللہ تعالیٰ کو جانتا بھی ہے پہچانتا بھی ،اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو بھی جانتا ہے ، اللہ تعالیٰ کی شان کو بھی جانتا ہے پیغمبروں کی بھی جانتا ہے ان پر ایمان بھی رکھتا ہے لیکن لیکن ساتھ شرک بھی کرتا ہے ۔۔۔۔


سورة الأنعام (6.63)
قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَّئِنْ أَنجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔ تم اس کو پکارتے ہو تو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

سورة يونس (10.31)

قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ' اللہ ' (١) تو ان سے کہیئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے۔

سورة يونس (10.22)

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے (١) یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے) آگھرے (٢) (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں (٣) کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔

سورة الأنعام (6.64)

قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنتُمْ تُشْرِكُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تم کو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے، تم پھر بھی شرک کرنے لگتے ہو۔

 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
سورة آل عمران (3.106)
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ
جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ (١) سیاہ چہروں والوں (سے کہا جائے گا) کہ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو۔

 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
یہی کافر کلمہ پڑھنے والا انسان ہے جو جادو پر ایمان رکھتا ہے۔ایسا جادو کہ کوئی شخص(جادوگر) کہیں بھی بیٹھا کسی کو بھی کوئی بھی نقصان پہنچا سکتا ہے کسی جنتر منتر سے اور لوگوں کی خواہشات بھی پوری کرتا ہے ۔۔۔یہ ظلم نہیں یہ کفر نہیں یہ شرک نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔غور کریں قرآن مجیدپر۔۔۔

سورة المائدة (5.39)
فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو اللہ تعالٰی رحمت کے ساتھ اس کی طرف لوٹتا ہے (١) یقیناً اللہ تعالٰی معاف فرمانے والا مہربانی کرنے والا ہے۔
شرک کے سوا اللہ تعالیٰ نے چہا تو کوئی بھی گناہ معاف کر دے گا لیکن شرک ظلم عظیم ہے جو معاف نہیں کیا جائے گا اور کوئی بھی بہانا نہیں چلے گا کہ میرا علم کم تھا،میرے پاس کوئی آیا نہیں، میں فلاں عالم کے پا س گیا اس نے یہ کہا تو میں نے کیا میرا کوئی قصور نہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی بھی بہانا نہیں چلے گا۔

سورة التوبة (9.66)
لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ
تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے (١) اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں (٢) تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے (٣)

صرف غور فکر و توبہ کرنے والے پر اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے توبہ بھی اس وقت کہ اس کی موت کا وقت نہ آئے تب تک۔ موت کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔۔۔۔یاد رکھیں قرآن مجید گواہ ہے۔

سورة آل عمران (3.160)
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اگر اللہ تعالٰی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعدکون ہے جو تمہاری مدد کرے ایمان والوں کو اللہ تعالٰی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔

سورة النحل (16.54)
ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنكُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
اور جہاں اس نے وہ مصیبت تم سے دفع کر دی تم میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔


سورة الأنبياء (21.43)
أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا ۚ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ
کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں جو انہیں مصیبتوں سے بچالیں۔ کوئی بھی خود اپنی مدد کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ کوئی ہماری طرف سے ساتھ دیا جاتا ہے (١)۔


جادوگر سے لوگ کیا امیدیں لگاتے ہیں۔
1)لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ جادوگر ہماری شادی اس لڑکی سے کروا سکتا ہے جیسے میں چہتا ہوں۔
2)لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص جو اپنے کاربار میں اچھا ہے اسے برباد کر سکتا ہے جادو کی مدد سے۔
3)لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کسی کو بھی دشمن کو کہیں بھی جادو کی مدد سے موت دی جا سکتی ہے۔
4)لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کسی کو بھی جادو کی مدد سے حالات درست ہو سکتے ہیں۔
5)لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جادو سے میاں بیوی میں لڑائی ڈالی جا سکتی ہے ۔ (سورۃ البقرہ 102 کا غلط ترجمہ اور غلط مفہوم لیا گیا ہے)
6)لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جادو سے کوئی بھی مصیبت دور کی جا سکتی ہے اور کوئی بھی فائدہ لیا جا سکتا ہے۔
7)رزق کم ہو تو جادوگر جادو سے زیادہ کر سکتا اگر زیادہ ہو تو کم کر سکتا۔

حد ہو گئی ہے یہ سب وہ پورانے مشرکوں کے عقائد بیان نہیں کئے ۔۔انہیں کلمہ گو مشکروں کے عقائد بیان کئے گئے ہیں جو سوچتے نہیں جو جادو اور جادوگر کو اللہ تعالیٰ کے مقابل سمجھتے ہیں۔۔۔۔سوچ سمجھ رکھنے والوں کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

سورة المائدة (5.17)
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالٰی مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہیے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں اور زمین دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالٰی ہی کا ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اللہ ہرچیز پر قادر ہے (١)۔


قرآن مجید سے جادو صرف ایک فریب،جھوٹ بولنا،فراڈ،ایسا عمل جس کو دیکھ کر لوگوں کا ایمان کمزور ہو اس کو بھی جادو کہا گیا۔

کوئی شخص جادور کرے یا نہ کرے لیکن اس طرح کے عقیدہ رکھے تو وہ کافر بھی ہے مشرک بھی ہے۔۔۔صرف اس کی سوچ میں ہی اللہ تعالیٰ کے مقابل ایک جادوگر آ گیا۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔اللہ اکبر

ہر طرح کی مصیبت کا مالک اللہ تعالیٰ، ہرطرح کی مدد کرنے والا مالک اللہ تعالیٰ ، رزق کی کمی رزق کو بڑھانے والا واحد ایک اللہ تعالیٰ،


سورة يونس (10.31)
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
آپ کہئے کہ وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے؟ ضرور وہ یہی کہیں گے کہ ' اللہ ' (١) تو ان سے کہیئے کہ پھر کیوں نہیں ڈرتے۔


سورة الأنعام (6.43)
فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
سو جب ان کو ہماری سزا پہنچتی تھی تو انہوں نے عاجزی کیوں اختیار نہیں کی، لیکن ان کے قلوب سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا (١)

سورة التوبة (9.2)
فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ
پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، (١) جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے (٢)۔

 
Top